طلاق کا مسئلہ: برطانیہ میں عورتیں حلالہ کے نام پر عصمت لٹا بیٹھتی ہیں

arifkarim

معطل
یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ کاغذات پر جب تک دستخط نہیں ہوں گے، طلاق نہیں ہو گی۔

اسلام میں منہ سے ایک دفعہ کہہ دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
اسلام میں ہوتی ہے۔ حقیقت میں نہیں ہوتی۔ حالت غصہ میں، حالت نشہ میں، حالت نیند میں، مذاقاً طلاق کہنے سے اگر طلاق ہو سکتی تو آج ہر دوسری عورت طلاق یافتہ ہوتی!
 

شمشاد

لائبریرین
طلاق غصے کی حالت میں ہی دی جاتی ہے۔ پیار سے کوئی طلاق نہیں دیتا۔مذاق میں کہنے سے بھی طلاق ہو جاتی ہے۔ بلکہ بعض علماء کرام کے نزدیک نشہ میں یا نیند میں بھی کہنے سے ہو جاتی ہے۔

اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ ایک آدمی غصے میں، مذاق میں، نیند میں یا نشے میں کسی کو گولی مار دے تو گولی کھانے والا تو اپنی جان سے گیا ناں، بعد میں بھلے ہی وہ کہتا رہے کہ میں نے تو غصے میں، مذاق میں، نیند میں یا نشے میں گولی ماری تھی جبکہ میرا یہ مقصد نہیں تھا۔
 

arifkarim

معطل
فیک رپورٹ ----ڈیسک میں بیٹھ کر روزانہ سیکڑوں ایسی فرضی رپورٹیں تیار کی جا سکتی ہیں ۔حیرت ہے جنگ جیسا معتبر اخبار بھی اس طرح کی بے بنیاد خبریں شائع کرتا ہے ۔
ایک اور فرضی کہانی:
The Oxford Sex Gang was a group of seven men who preyed extensively on pre-teen and under-age teenage girls in Oxford,England, from 2006 before their belated arrest and prosecution. In May 2013, they were convicted of sexual offences including rape, conspiracy to commit rape, arranging or facilitating child prostitution, trafficking for sexual exploitation, and procuring a miscarriage. The victims were "subjected to sexual violence marked out by its sadism: sexual assaults designed to draw blood, multiple rapes, [and] physical attacks in which [they were] choked".[1] As in the strikingly similar Rochdale, Rotherham and Telford prosecutions, the gang members were all of Muslim heritage, and the girls were white. This led to renewed national discussion of whether the crimes were racially motivated and whether the early failure to investigate them was linked to the authorities' fear of being accused of racism.
http://en.wikipedia.org/wiki/Oxford_sex_gang
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
طلاق غصے کی حالت میں ہی دی جاتی ہے۔ پیار سے کوئی طلاق نہیں دیتا۔مذاق میں کہنے سے بھی طلاق ہو جاتی ہے۔ بلکہ بعض علماء کرام کے نزدیک نشہ میں یا نیند میں بھی کہنے سے ہو جاتی ہے۔

اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ ایک آدمی غصے میں، مذاق میں، نیند میں یا نشے میں کسی کو گولی مار دے تو گولی کھانے والا تو اپنی جان سے گیا ناں، بعد میں بھلے ہی وہ کہتا رہے کہ میں نے تو غصے میں، مذاق میں، نیند میں یا نشے میں گولی ماری تھی جبکہ میرا یہ مقصد نہیں تھا۔
احادیث مبارکہ میں ایک روایت ہے کہ آپؐ نے ایک عورت کو اپنے شوہر سے صرف اسلئے طلاق دلوادی کہ اسکو اپنے خاوند کی شکل پسند نہیں تھی۔ اور اپنے صحابیؓ کو صبر کی تلقین کی۔ یعنی پیار اور سجھوتے سے طلاق ہو سکتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
احادیث مبارکہ میں ایک روایت ہے کہ آپؐ نے ایک عورت کو اپنے شوہر سے صرف اسلئے طلاق دلوادی کہ اسکو اپنے خاوند کی شکل پسند نہیں تھی۔ اور اپنے صحابیؓ کو صبر کی تلقین کی۔ یعنی پیار اور سجھوتے سے طلاق ہو سکتی ہے۔
موجودہ دور میں ایسے کتنے کیس ہوتے ہوں گے؟
 

arifkarim

معطل
موجودہ دور میں ایسے کتنے کیس ہوتے ہوں گے؟
اسکا مجھے علم نہیں لیکن اگر مغرب میں سمجھوتے سے طلاق ہو سکتی ہے تو مسلمانوں کو کیا تکلیف ہے؟ حالانکہ احادیث مبارکہ میں اسکی واضح مثال موجود ہے۔ جب شادی سمجھوتے سے ہوتی ہے لڑائی سے نہیں تو طلاق بھی سمجھوتے ہی سے ہونی چاہئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
تو طلاق سمجھوتے سے لیں اور دیں، کون منع کرتا ہے لیکن یہ کہ جی غصے میں اور نشے میں اور نیند میں نہیں ہو سکتی، اس پر اعتراض کیا تھا۔

مزید یہ کہ مسلمانوں کو کیوں تکلیف ہو گی، مسلمانوں سے پوچھ کر شادیاں کرتے ہیں جو طلاق کے وقت مسلمانوں کو تکلیف ہو گی۔
 

شمشاد

لائبریرین

arifkarim

معطل
اب وہ برطانوی ہیں، پاکستانی نہیں رہے۔ برطانیہ نے جو انہیں دیا ہے وہی وہ برطانیہ کو لوٹا رہے ہیں۔ اب برداشت کریں یا پاس کریں۔
برطانیہ نے انکو وہی دیا ہے جو وہ باقی برطانوی باشندوں کو دے رہے ہیں لیکن فحاشی گینگ صرف مسلمان برطانویوں کے پکڑے جا رہے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
بدقسمتی ہے پھر برطانیہ کی اور ان مسلمانوں کی۔

برطانیہ کو چاہیے کہ ان کی ۔۔۔۔۔۔۔ پر لات مار کر ان کو برطانیہ سے باہر نکال دے۔
 

arifkarim

معطل
غصے میں اور نشے میں اور نیند میں نہیں ہو سکتی، اس پر اعتراض کیا تھا۔
کیا غصے اور نشے کی حالت میں شادی ہو سکتی ہے؟ اگر نہیں تو طلاق کیسے ہوگی؟ اپنی بے منطقی کو سمجھیں۔ جو ازدواجی، سماجی اور عظیم انسانی رشتہ غصے یا نشے کی حالت میں ممکن ہی نہیں ہے تو اسکا ٹوٹنا ان حالتوں میں کیونکر ممکن ہوگا؟
 

arifkarim

معطل
بدقسمتی ہے پھر برطانیہ کی اور ان مسلمانوں کی۔

برطانیہ کو چاہیے کہ ان کی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ پر لات مار کر ان کو برطانیہ سے باہر نکال دے۔
برطانوی قانون کے مطابق برطانوی شہریوں کو لات مر ملک بدر نہیں کیا جا سکتا۔ برطانیہ کی بدقسمتی یہ ہے کہ انہوں نے ان حیوان نما انسانوں کو اپنے جیسا انسان سمجھ کر اپنی شہریت عطا کی۔
 

شمشاد

لائبریرین
کیا غصے اور نشے کی حالت میں شادی ہو سکتی ہے؟ اگر نہیں تو طلاق کیسے ہوگی؟ اپنی بے منطقی کو سمجھیں۔ جو ازدواجی، سماجی اور عظیم انسانی رشتہ غصے یا نشے کی حالت میں ممکن ہی نہیں ہے تو اسکا ٹوٹنا ان حالتوں میں کیونکر ممکن ہوگا؟
یہ اصول قانون نہ تو آپ کے بنائے ہوئے ہیں اور نہ ہی میرے۔ اللہ تعالیٰ نے ان حدود کا تعلق قرآن میں فرما دیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کچھ نام کے مسلمان ان حدود کو نہیں مانتے۔ نہ مانیں، اس سے اللہ تعالٰی کی ذات کو کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔
 

arifkarim

معطل
یہ اصول قانون نہ تو آپ کے بنائے ہوئے ہیں اور نہ ہی میرے۔ اللہ تعالیٰ نے ان حدود کا تعلق قرآن میں فرما دیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کچھ نام کے مسلمان ان حدود کو نہیں مانتے۔ نہ مانیں، اس سے اللہ تعالٰی کی ذات کو کوئی فرق پڑنے والا نہیں۔
یعنی بقول آپکے اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ ایک بے منطقی ذات ہے؟ اسلام اگر دین فطرت ہے اور فطرت میں منطق شامل ہے تو پھر بے منطقی طریقہ سے نکاح کیسے ٹوٹ سکتا ہے؟ نشہ، شراب اور غصہ میں دھت انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے۔ ایسے میں اگر وہ طلاق دیتا بھی ہے تو وہ بے معنی ہے۔ اسکی کوئی حیثیت نہیں مگر مکار ملاں کے نزدیک تاکہ وہ حلالہ کر سکے۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ آپ کی منطق ہے۔ قرآن پڑھ سکتے ہیں تو پڑھیں، سمجھ سکتے ہیں تو سمجھیں۔ کسی مکار کے پیچھے مت پڑیں۔
 

حسینی

محفلین
یعنی بقول آپکے اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ ایک بے منطقی ذات ہے؟ اسلام اگر دین فطرت ہے اور فطرت میں منطق شامل ہے تو پھر بے منطقی طریقہ سے نکاح کیسے ٹوٹ سکتا ہے؟ نشہ، شراب اور غصہ میں دھت انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے۔ ایسے میں اگر وہ طلاق دیتا بھی ہے تو وہ بے معنی ہے۔ اسکی کوئی حیثیت نہیں مگر مکار ملاں کے نزدیک تاکہ وہ حلالہ کر سکے۔

بھائی جی۔۔۔ یہ مسائل اختلافی ہیں۔۔۔ اور یقینا جس طرح سے احادیث ہم تک پہنچی ہیں اسی طرح سے فقہی اختلاف فطری چیز ہے۔۔۔
اور ہر کسی کو اپنے فقہ پر عمل کرنے کا بھرپور اختیار حاصل ہے۔۔۔۔ لہذا کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہونا چاہیے۔۔
فقہ جعفری میں ، جیسے کہ پہلے ذکر ہوا، طلاق دینے کے لیے قصد اور ارادہ، دو عادل گواہ اور عربی صیغہ شرط ہے۔۔۔ اور اس کے علاوہ عورت طہر مواقع میں نہ ہو۔۔۔ یعنی عورت کو صرف اس وقت طلاق دیا جا سکتا ہے جب عادت کے ایام سے گزر کے پاک ہوچکی ہو اور شوہر نے دوبارہ اس سے مواقعت نہ کی ہو۔

ان کڑی شرائط کی موجودگی میں ان تمام بحثوں کا موضوع ہی ختم ہوجاتا ہے۔
 
Top