طرحی غزل برائے اصلاح -اُسے تو یوں بھی کسی اور سمت جانا تھا ۔ از محمد اظہر نذیر

اساتذہ کرام کی خدمت میں ایک بار پھر اصلاح کی درخواست کے ساتھ حاضر ہوں، افتخار عارف صاحب کی ایک خوبصورت غرل کو طرح لگانے کی گستاخی سرزد ہو گئی ہے- اب آپ کے ہاتھ ہے اسے بہتر بنانا
ممنون احسان
اظہر

مری تلاش تو ویسے ہی اک بہانا تھا
اُسے تو یوں بھی کسی اور سمت جانا تھا

وہ دیکھتے بھی نہیں، ہو بلا سے اُنکی جو
ہماری لہد بنے، اُس کو گھر بسانا تھا

ہمیشہ بات تو مجھ سے، نگاہ مگر اُس پر
اُسے تو ڈر بھی نہیں مجھ سے سب چھپانا تھا

ہمیں سُنا نہ سُنا، سُن کے سب اڑا ہی دیا
اُسی کی بات حقیقت، مری فسانا تھا

کبھی سُنو گے ہماری یہ آس رہنے تو دو
کہیں گے گر چہ کہا، یوں ہی سب گنوانا تھا

کسی بھی طور سے بولا ہمیں محبت ہے
کہا کہ کس سے؟ اُسے ہم کو بس ستانا تھا

ہمیں پتا بھی نہ اظہر، مگر یہ دِل ناداں
اِسے تو اپنی کتھا، حال جُو سنانا تھا

بحر ہے مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
 

الف عین

لائبریرین
مری تلاش تو ویسے ہی اک بہانا تھا
اُسے تو یوں بھی کسی اور سمت جانا تھا
///درست، لیکن مفہوم مبہم ہے۔

وہ دیکھتے بھی نہیں، ہو بلا سے اُنکی جو
ہماری لدل بنے، اُس کو گھر بسانا تھا
///لحد کا تلفظ؟ میرے خیال میں اس کو غلط باندھا گیا ہے، درست لحَد ہے، یعنی ح متحرک، ساکن نہیں۔ وارث کا کیا خیال ہے اس سلسلے میں؟
دوسری بات، پہلے مصرع میں ضمیر ’اُن‘ ہے، جب کہ دوسرے مصرع میں ’اُس‘ ہو گئی ہے۔ دونوں جگہ ایک ہی کر دیں، اس یا ان۔ (ان کی صورت میں محض ’ان کو گھر بسانا تھا‘ تبدیلی کی ضرورت ہے، ’اس‘ کی صورت میں، ’دیکھتا بھی نہیں‘ اور ’اس کی‘، دو جگہ تبدیلی کی ضرورت ہو گی۔
تیسری بات، مفہوم میری ناقص عقل میں نہیں سما سکا۔

ہمیشہ بات تو مجھ سے، نگاہ مگر اُس پر
اُسے تو ڈر بھی نہیں مجھ سے سب چھپانا تھا
///پہلے مصرع میں ’نگہ‘ وزن میں آتا ہے۔ یا اگر نگاہ ہی استعمال کرنا ہے تو یوں کیا جا سکتا ہے:
ہمیشہ بات تو مجھ سے، مگر نگاہ اُس پر
یہ الف کا سقوط جائز ہے۔
دوسرا مصرع؟ وہی میری ناقص عقل کہ سمجھ میں نہیں آیا کہ دونوں مصرعوں میں کیا ربط ہے؟

ہمیں سُنا نہ سُنا، سُن کے سب اڑا ہی دیا
اُسی کی بات حقیقت، مری فسانا تھا
///درست

کبھی سُنو گے ہماری یہ آس رہنے تو دو
کہیں گے گر چہ کہا، یوں ہی سب گنوانا تھا
///بظاہر کوئی غلطی نہیں۔ لیکن دوسرے مصرع کا پہلے سے کیا تعلق ہے؟ یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔

کسی بھی طور سے بولا ہمیں محبت ہے
کہا کہ کس سے؟ اُسے ہم کو بس ستانا تھا
/// الفاظ کا استعمال کچھ نا مناسب ہے،‘کسی بھی طور سے بولا‘ مطلب؟ اور معانی بھی مبہم ہیں۔

ہمیں پتا بھی نہ اظہر، مگر یہ دِل ناداں
اِسے تو اپنی کتھا، حال جُو سنانا تھا
/// یہ بھی ترسیل کا مسئلہ ہے، اس لئے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ سوائے اس کے کہ اگر یہ ’دلِ ناداں‘ ہے تو بحر سے خارج ہے، ’دل ناداں‘ وزن میں آتا ہے۔
مجموعی طور پر عروضی اغلاط بہت کم ہیں، لیکن تمہارا مسئلہ یہی ہے کہ معانی اپنے بطن میں محفوظ رکھتے ہو، جو سمجھاتے ہو، وہ مفہوم ان الفاظ سے ادا نہیں ہوتا۔
 
مری تلاش تو ویسے ہی اک بہانا تھا
اُسے تو یوں بھی کسی اور سمت جانا تھا
///درست، لیکن مفہوم مبہم ہے۔

وہ دیکھتے بھی نہیں، ہو بلا سے اُنکی جو
ہماری لدل بنے، اُس کو گھر بسانا تھا
///لحد کا تلفظ؟ میرے خیال میں اس کو غلط باندھا گیا ہے، درست لحَد ہے، یعنی ح متحرک، ساکن نہیں۔ وارث کا کیا خیال ہے اس سلسلے میں؟
دوسری بات، پہلے مصرع میں ضمیر ’اُن‘ ہے، جب کہ دوسرے مصرع میں ’اُس‘ ہو گئی ہے۔ دونوں جگہ ایک ہی کر دیں، اس یا ان۔ (ان کی صورت میں محض ’ان کو گھر بسانا تھا‘ تبدیلی کی ضرورت ہے، ’اس‘ کی صورت میں، ’دیکھتا بھی نہیں‘ اور ’اس کی‘، دو جگہ تبدیلی کی ضرورت ہو گی۔
تیسری بات، مفہوم میری ناقص عقل میں نہیں سما سکا۔

وہ دیکھتے بھی نہیں، ہو بلا سے اُنکی جو
ہماری گور بنے، اُن کو گھر بسانا تھا

ہمیشہ بات تو مجھ سے، نگاہ مگر اُس پر
اُسے تو ڈر بھی نہیں مجھ سے سب چھپانا تھا
///پہلے مصرع میں ’نگہ‘ وزن میں آتا ہے۔ یا اگر نگاہ ہی استعمال کرنا ہے تو یوں کیا جا سکتا ہے:
ہمیشہ بات تو مجھ سے، مگر نگاہ اُس پر
یہ الف کا سقوط جائز ہے۔
دوسرا مصرع؟ وہی میری ناقص عقل کہ سمجھ میں نہیں آیا کہ دونوں مصرعوں میں کیا ربط ہے؟

ہمیشہ بات تو مجھ سے، مگر نگاہ اُس پر
اُسے تو ڈر بھی نہیں مجھ سے سب چھپانا تھا

ہمیں سُنا نہ سُنا، سُن کے سب اڑا ہی دیا
اُسی کی بات حقیقت، مری فسانا تھا
///درست

کبھی سُنو گے ہماری یہ آس رہنے تو دو
کہیں گے گر چہ کہا، یوں ہی سب گنوانا تھا
///بظاہر کوئی غلطی نہیں۔ لیکن دوسرے مصرع کا پہلے سے کیا تعلق ہے؟ یہ بھی سمجھ میں نہیں آیا۔
آپستادِ محترم یہاں کہنا چاہا کہ آس تو باقی رہنے دو کہ کبھی ہماری بات سُنو گے، اگرچہ پتہ ہے کہ کہا سُنا کہہ کے گنوانا ہی ہے مگر کہیں گے ضرور

کسی بھی طور سے بولا ہمیں محبت ہے
کہا کہ کس سے؟ اُسے ہم کو بس ستانا تھا
/// الفاظ کا استعمال کچھ نا مناسب ہے،‘کسی بھی طور سے بولا‘ مطلب؟ اور معانی بھی مبہم ہیں۔
ہیاں مراد تھی کہ کسی ظریقے سے بھی بولا کہ محبت ہے، پر وہ اُسے مذاق میں ہی اُڑاتے رہے

ہمیں پتا بھی نہ اظہر، مگر یہ دِل ناداں
اِسے تو اپنی کتھا، حال جُو سنانا تھا
/// یہ بھی ترسیل کا مسئلہ ہے، اس لئے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ سوائے اس کے کہ اگر یہ ’دلِ ناداں‘ ہے تو بحر سے خارج ہے، ’دل ناداں‘ وزن میں آتا ہے۔
جی یہاں دِل ناداں ہی ہے، دِلے ناداں نہیں
مجموعی طور پر عروضی اغلاط بہت کم ہیں، لیکن تمہارا مسئلہ یہی ہے کہ معانی اپنے بطن میں محفوظ رکھتے ہو، جو سمجھاتے ہو، وہ مفہوم ان الفاظ سے ادا نہیں ہوتا۔


مری تلاش تو ویسے ہی اک بہانا تھا
اُسے تو یوں بھی کسی اور سمت جانا تھا

وہ دیکھتے بھی نہیں، ہو بلا سے اُنکی جو
ہماری گور بنے، اُن کو گھر بسانا تھا

ہمیشہ بات تو مجھ سے، مگر نگاہ اُس پر
اُسے تو ڈر بھی نہیں مجھ سے سب چھپانا تھا

ہمیں سُنا نہ سُنا، سُن کے سب اڑا ہی دیا
اُسی کی بات حقیقت، مری فسانا تھا

کبھی سُنو گے ہماری یہ آس رہنے تو دو
کہیں گے گر چہ کہا، یوں ہی سب گنوانا تھا

کسی بھی طور سے بولا ہمیں محبت ہے
کہا کہ کس سے؟ اُسے ہم کو بس ستانا تھا

ہمیں پتا بھی نہ اظہر، مگر یہ دِل ناداں
اِسے تو اپنی کتھا، حال جُو سنانا تھا​

اب ملاحظہ کیجیے اُستادِ محترم
 
Top