جاسمن

لائبریرین
وہ درد کہ اس نے چھین لیا وہ درد کہ اس کی بخشش تھا
تنہائی کی راتوں میں انشاؔ اب بھی مرا مہماں ہوتا ہے
ابنِ انشاء
 

جاسمن

لائبریرین
شب ماہ میں جب بھی یہ درد اٹھا کبھی بیت کہے لکھی چاند نگر
کبھی کوہ سے جا سر پھوڑ مرے کبھی قیس کو جا استاد کیا
ابنِ انشاء
 

یاز

محفلین
مجھ کو بے رحم طبیبوں سے بچایا جائے
اب دعا مانگنے والوں کو بلایا جائے

درد کا بوجھ اٹھاتے ہوئے اک عمر ہوئی
کچھ خوشی کا بھی تو احسان اٹھایا جائے

ہے جفاکار وہ جائے تو اسے جانے دو
کیوں بھلا زخم کو ناسور بنایا جائے
 

یاز

محفلین
مرے زخموں سے پھٹتا ہے کلیجہ چارہ سازوں کا
کہ جب روتا ہوں میں سینہ فگار آہستہ آہستہ

محبت کا مرض بھی کیا بری شے ہے طبیبوں کو
سناتا ہوں میں اپنا حال زار آہستہ آہستہ
 

یاز

محفلین
اپنے ہی سر کے زخم کا کچھ کیجیے علاج
آیا ہے کس طرف سے یہ پتھر نہ دیکھیے

پھر یوں نہ ہو کہ اپنا بدن اجنبی لگے
بہتر ہے اس کے خول سے باہر نہ دیکھیے
 

لاریب مرزا

محفلین
آگہہ نشد طبیب ز دردِ نہانِ ما
ایں نبضِ ما خموش تر است از زبانِ ما

(غنی کاشمیری)

ترجمہ: طبیب ہمارے دردِ نہاں سے بالکل بھی آگاہ نہ ہوا کیونکہ ہماری یہ نبض ہماری زبان سے بھی زیادہ خاموش ہے. (محمد وارث)
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
دیکھ مجھے طبیب آج پوچھا جو حالت مزاج
کہنے لگا کہ لا علاج بندہ ہوں میں خدا نہیں
چہرہ ترا بھی زرد ہے آہ لبوں پہ سرد ہے
یہ تو میاں وہ درد ہے جس کی کوئی دوا نہیں
خواجہ میر درد
 

سیما علی

لائبریرین
کہو بالیں سے اٹھ جائے طبیب دشمن جاں کو
وصال یار کافی ہے ہمارے درد ہجراں کو

نکالوں کھینچ کر دل سے اگر میں آہ سوزاں کو
جلا کر خاک کر ڈالے ابھی گردون گرداں کو

نثاروں اپنے یوسف کے قدم پر مصر کنعاں کو
بلخ کو شام کو چیں کو ختن کو ہند و ایراں کو

عبدالرحیم کنج پوری
 
Top