طالبان کے مذہبی مکتب فکر کے ایک اہم عالم دین مفتی تقی عثمانی کا ایک اہم فتوی آج جنگ اخبار میں شایع ہوا اس میں بھی انہوں نے دہشت گردی کی کسی صورت اجازت نہیں بلکہ سیاسی جدوجہد کی بات کی نیچے ملاحظہ فرمائے۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=145616
لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز کی جانب سے جو سوالات پوچھے گئے اور جن کا جواب مفتی تقی عثمانی نے دیا، وہ ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی کو لکھے گئے خط میں، جنرل عزیز نے پہلے صورتحال کچھ یوں بیان کی ہے: ’’امریکا کی حکومت نے فوجی طاقت کے بل بوتے پر افغانستان پر جبراً اپنا تسلط قائم رکھا ہے۔ اس تسلط کے قائم کرنے میں پاکستان کی حکومت پوری طرح امریکا کا ساتھ دے رہی ہے۔ افغانستان کے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے قتل و غارت میں پاکستان کی شمولیت کے نتیجے میں، پاکستان میں پچھلے قریب دس سالوں سے دہشت گردی اور اس کے انسداد کیلئے کی گئی کارروائیوں میں ہزاروں بے گناہ شہریوں کا خون ہوچکا ہے، اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔‘‘ اس وضاحت کے بعد، لیفٹیننٹ جنرل عزیز نے مندرجہ ذیل چار سوالات پوچھے جن کا جواب مفتی تقی عثمانی نے دیا۔ یہ سوالات اور ان کے جوابات ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں:
سوال اول: کیا شرعی نقطہ نظر سے حکومت پاکستان اس امر کی مجاز ہے کہ ایک پڑوسی مسلمان ملک پر غیر مسلمانوں کے قبضے کو مستحکم کرنے میں ان کی مدد کرے؟
جواب: ہرگز نہیں۔
سوال دوم: کیاتنگدستی کا خدشہ حکومت پاکستان کی اس مفاد پرست پالیسی کیلئے شرعی حجت فراہم کرتا ہے؟
جواب: نہیں۔
سوال سوم: ان حالات میں حکومت پاکستان کیلئے کیا شرعی حکم ہے؟
جواب: یہ کہ وہ اپنے اس اقدام سے باز آئے۔
سوال چہارم: اگر شرعی حکم کا اقتضا امرکی جنگ سے نکلنے کا ہو لیکن حکومت پاکستان افغان مسلمانوں کے قتل و غارت میں شمولیت سے باہر نہ آئے تو پاکستان کے مسلمانوں کیلئے شرعی طور پر کیا راستہ کھلا ہے؟
جواب: مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ حکومت پر اس اقدار سے باز آنے کیلئے خانہ جنگی اور تخریب کاری سے بچتے ہوئے دباؤ ڈالنے کا جو طریقہ میسر ہو، اسے استعمال کریں۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=145616
لیفٹیننٹ جنرل (ر) شاہد عزیز کی جانب سے جو سوالات پوچھے گئے اور جن کا جواب مفتی تقی عثمانی نے دیا، وہ ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی کو لکھے گئے خط میں، جنرل عزیز نے پہلے صورتحال کچھ یوں بیان کی ہے: ’’امریکا کی حکومت نے فوجی طاقت کے بل بوتے پر افغانستان پر جبراً اپنا تسلط قائم رکھا ہے۔ اس تسلط کے قائم کرنے میں پاکستان کی حکومت پوری طرح امریکا کا ساتھ دے رہی ہے۔ افغانستان کے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے قتل و غارت میں پاکستان کی شمولیت کے نتیجے میں، پاکستان میں پچھلے قریب دس سالوں سے دہشت گردی اور اس کے انسداد کیلئے کی گئی کارروائیوں میں ہزاروں بے گناہ شہریوں کا خون ہوچکا ہے، اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔‘‘ اس وضاحت کے بعد، لیفٹیننٹ جنرل عزیز نے مندرجہ ذیل چار سوالات پوچھے جن کا جواب مفتی تقی عثمانی نے دیا۔ یہ سوالات اور ان کے جوابات ذیل میں پیش کیے جا رہے ہیں:
سوال اول: کیا شرعی نقطہ نظر سے حکومت پاکستان اس امر کی مجاز ہے کہ ایک پڑوسی مسلمان ملک پر غیر مسلمانوں کے قبضے کو مستحکم کرنے میں ان کی مدد کرے؟
جواب: ہرگز نہیں۔
سوال دوم: کیاتنگدستی کا خدشہ حکومت پاکستان کی اس مفاد پرست پالیسی کیلئے شرعی حجت فراہم کرتا ہے؟
جواب: نہیں۔
سوال سوم: ان حالات میں حکومت پاکستان کیلئے کیا شرعی حکم ہے؟
جواب: یہ کہ وہ اپنے اس اقدام سے باز آئے۔
سوال چہارم: اگر شرعی حکم کا اقتضا امرکی جنگ سے نکلنے کا ہو لیکن حکومت پاکستان افغان مسلمانوں کے قتل و غارت میں شمولیت سے باہر نہ آئے تو پاکستان کے مسلمانوں کیلئے شرعی طور پر کیا راستہ کھلا ہے؟
جواب: مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ حکومت پر اس اقدار سے باز آنے کیلئے خانہ جنگی اور تخریب کاری سے بچتے ہوئے دباؤ ڈالنے کا جو طریقہ میسر ہو، اسے استعمال کریں۔