ضیاءالحق مرحوم کی ایک تقریر

چلیں جی ایک کروڑ چرسی کر لیتے ہیں!

منظور؟
رپورٹ کے مطابق ساڑھے چھے کروڑ سے زائد ملنگ موجود ہیں پاکستان میں۔ ایک کروڑ تو جوان ہوں گے ہی۔۔ ویسے بھی آج کل چرس سب سے فیورٹ نشہ ہے پاکستانیوں کا۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
ہاہ!
اس میں بھی یہودیوں اور عیسائیوں کا کتنا ہاتھ تھا۔۔۔ ابن سبا کا کیا کردار تھا۔۔۔ دنیا جانتی ہے۔
بات چل رہی ہے نظام کی۔۔۔
ٹریک سے نہ ہٹیں۔
کیا نظام میں حاکم کی تبدیلی کا مسئلہ اور ملک میں امن کا معاملہ اہم ترین نہیں ہیں؟
 

زیک

مسافر
ویسے میرا اپنا ماننا یہ بھی ہے کہ ضیاءالحق کے دور میں چونکہ کوڑے پڑنے لگے تھے تو شاید بہت زیادہ لبرل طبقے کو اسی وجہ سے ضیاءالحق سے نفرت ہے۔ خصوصاً اس زمانے میں نئے نئے ہوئے جوانوں کو کہ ان کی جوانی کے وقت ضیاءالحق کا ڈنڈا چل رہا تھا:)
خام خیالی کی انتہا ہے۔پلیز کچھ تاریخ پڑھیں۔ سندھ میں رہتے ہیں کسی سندھی ہی سے بات کر لیں۔
 

نایاب

لائبریرین
کسی نے خوب کہا ان کی برسی پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرحوم آئے اور پاکستانی معاشرے اور ثفاقت کو مرحوم کر اپنی منزل پر پہنچ گئے ۔
بہت دعائیں
 

محمد وارث

لائبریرین
پہلے سو سال میں کتنی خانہ جنگی ہوئی؟ کتنے حکمرانوں کو قتل کیا گیا؟

پہلے سو سالوں کا ایک اجمالی جائزہ

خلیفہ راشد دوم - قتل، ایک غیر مسلم کے ہاتھوں
خلیفہ راشد سوم - قتل مسلمانوں کے ہاتھوں
خلیفہ راشد چہارم - قتل، ایک مسلمان کے ہاتھوں
خلیفہ راشد پنجم (ان آفیشل) ۔ زہر خوانی سے قتل، مسلمانوں کے ہاتھوں (سو سال سے ایک سال اوپر)

جنگ جمل
جنگ صفین
جنگ نہروان
ایک محتاط اندازے کے مطابق ان تینوں خانہ جنگیوں میں ایک لاکھ کے قریب مسلمان مقتول ہوئے۔ جلیل القدر اور عشرہ مبشرہ کے صحابی بھی شامل تھے۔

واقعہ کربلا

واقعہ حرہ ۔ مدینہ پر مسلمانوں کا حملہ یزید کے حکم پر- تین دن تک مسجد نبوی میں نماز نہ ہوئی بلکہ اس میں فوجیوں کے گھوڑے بندے رہے۔ تین دن تک اہل مدینہ کے جان مال اور ناموس (عورتیں) فاتح فوجوں پر حلال رہیں۔

مکہ پر مسلمانوں کا حملہ - دو بار۔ پہلی بار یزید کے حکم پر دوسری بار عبدالملک مروانی اموی کے حکم پر۔ خانہ کعبہ پر سنگ اور آتش باری جس سے کعبہ کو نقصان پہنچا اور مکہ شہر کو بھی۔ عبداللہ ابن زبیر مقتول ہوئے۔

کوفے پر قبضے کے لیے متعدد خانہ جنگیاں۔ توابین اور شامی فوجوں کے درمیان۔ امیر مختار اور ابن زبیر کی فوجوں کے درمیان۔ ابن زبیر اور مروانی اموی فوجوں کے درمیان۔ ایک دن میں سات ہزار افراد کا قتل، جن کو امان دے کر ان کے ہتھیار ڈلوائے گئے تھے۔
 
آخری تدوین:

فہیم

لائبریرین
خام خیالی کی انتہا ہے۔پلیز کچھ تاریخ پڑھیں۔ سندھ میں رہتے ہیں کسی سندھی ہی سے بات کر لیں۔
میرے نانا، نانی بھی ان مہاجرین میں شامل تھے جو پاکستان بننے کے بعد اپنا سب کچھ انڈیا (سہارن پور) میں چھوڑ ، ہجرت کرکے پاکستان آئے۔
اور بہت معمولی سا عرصہ دوسرے شہروں میں گزار کر پھر ساری عمر کرا چی میں گزاری تو ان سے ہی سنا کہ ایوب کا دور سب سے بہتر تھا۔
بھٹو کا جب دور آیا۔ تو اس نے کافی صبر و برداشت کا مظاہرہ کیا۔ ایک بار لالو کھیت سپر مارکیٹ پر تقریر کرنے آیا تو عوام نے اسے ٹماٹر مارے۔ تو اس پر اس کا کہنا تھا چلو کراچی میں ٹماٹر تو سستے ہیں تبھی عوام نے وہ دے مارے۔
بھٹو برا نہیں تھا۔ پر جب اس کی حکومت آئی تو کراچی میں مقیم سندھیوں نے ایک لحاظ سے بد معاشی شروع کردی۔ کہ ان کے مرد تو مرد عورتیں بھی بس میں سوار ہوتیں تو کرایہ دینے سے صاف انکار کردیتیں کہ ہماری حکومت ہے ہم کس بات کا کرایہ دیں۔
یعنی سندھیوں نے یہ سمجھ لیا کہ بس ان کی بادشاہت آچکی ہے۔
دوسرا بھٹو چونکہ آزاد خیال تھا تو اس کے دور میں بے راہ روی بھی بڑھی۔
پھر ضیاءالحق نے اس کا تختہ الٹ دیا اور اس کو تختہ پر لٹکادیا۔ وہ چونکہ مذہبی آدمی تھا (دکھاوے کے لیے تھا یا اصل میں ، اس کا مجھے معلوم نہیں) تو اس نے اسلامی طرز حکومت کی بنیاد رکھی۔

سندھی چونکہ بھٹو سے ایک عاشقانہ عقیدت رکھتے ہیں تو ظاہر ہے ان کی نظر میں ضیاءالحق آج تک ایک جلاد ، ظالم اور نجانے کیا کیا ہوگا۔
 
عہد صحابہ میں اتنی جنگیں نہیں تھیں جتنا کہ تاریخ کو پڑھنے سے تاثر ملتا ہے۔ اصل میں صحافی اور مورخین حضرات کا یہ مزاج ہوتا ہے کہ وہ چن چن کر منفی واقعات کو رپورٹ کرتے ہیں اور مثبت واقعات ان کے نزدیک اتنے اہم نہیں ہوتے کہ ان کا اندراج تاریخ کی کتب میں کیا جائے۔ مثل مشہور ہے کہ کتا انسان کو کاٹ لے تو خبر نہیں بنتی بلکہ اس وقت بنتی ہے جب انسان کتے کو کاٹ لے۔ صحافت کی ایک اصطلاح ہے جسے "نیوز ویلیو" کہا جاتا ہے۔ جرنلزم کے ماہرین کے نزدیک نیوز ویلیو کا انحصار متعدد عوامل پر ہوتا ہے:
مزید یہاں پڑھیے:
عہد صحابہ میں اتنی جنگیں کیوں ہوئیں؟
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
عہد صحابہ میں اتنی جنگیں نہیں تھیں جتنا کہ تاریخ کو پڑھنے سے تاثر ملتا ہے۔ اصل میں صحافی اور مورخین حضرات کا یہ مزاج ہوتا ہے کہ وہ چن چن کر منفی واقعات کو رپورٹ کرتے ہیں اور مثبت واقعات ان کے نزدیک اتنے اہم نہیں ہوتے کہ ان کا اندراج تاریخ کی کتب میں کیا جائے۔ مثل مشہور ہے کہ کتا انسان کو کاٹ لے تو خبر نہیں بنتی بلکہ اس وقت بنتی ہے جب انسان کتے کو کاٹ لے۔ صحافت کی ایک اصطلاح ہے جسے "نیوز ویلیو" کہا جاتا ہے۔ جرنلزم کے ماہرین کے نزدیک نیوز ویلیو کا انحصار متعدد عوامل پر ہوتا ہے:
مزید یہاں پڑھیے:
عہد صحابہ میں اتنی جنگیں کیوں ہوئیں؟
حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ 11 ھجری کے بعد، پہلے سو سالوں میں شاید ہی کوئی ایک سال ہو جب مسلمان حالتِ جنگ میں نہ ہوں۔ اس ربط کے مصنف نے اس بات کا جواب دیا ہے کہ عہد صحابہ میں اتنی "خانہ جنگیاں" کیوں ہوئیں، جب کہ عنوان میں خانہ جنگی کا لفظ نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب مسلمان آپس میں خانہ جنگی نہیں کر رہے ہوتے تھے اس وقت سرحدوں پر جنگ میں مشغول ہوتے تھے، یہ جہاد ہی سہی لیکن تھی تو جنگیں، ویسے اطلاعا عرض ہے کہ خانہ جنگیوں کو بھی اس وقت ہر فریق جہاد ہی کہتا تھا۔
 

زیک

مسافر
میرے نانا، نانی بھی ان مہاجرین میں شامل تھے جو پاکستان بننے کے بعد اپنا سب کچھ انڈیا (سہارن پور) میں چھوڑ ، ہجرت کرکے پاکستان آئے۔
اور بہت معمولی سا عرصہ دوسرے شہروں میں گزار کر پھر ساری عمر کرا چی میں گزاری تو ان سے ہی سنا کہ ایوب کا دور سب سے بہتر تھا۔
بھٹو کا جب دور آیا۔ تو اس نے کافی صبر و برداشت کا مظاہرہ کیا۔ ایک بار لالو کھیت سپر مارکیٹ پر تقریر کرنے آیا تو عوام نے اسے ٹماٹر مارے۔ تو اس پر اس کا کہنا تھا چلو کراچی میں ٹماٹر تو سستے ہیں تبھی عوام نے وہ دے مارے۔
بھٹو برا نہیں تھا۔ پر جب اس کی حکومت آئی تو کراچی میں مقیم سندھیوں نے ایک لحاظ سے بد معاشی شروع کردی۔ کہ ان کے مرد تو مرد عورتیں بھی بس میں سوار ہوتیں تو کرایہ دینے سے صاف انکار کردیتیں کہ ہماری حکومت ہے ہم کس بات کا کرایہ دیں۔
یعنی سندھیوں نے یہ سمجھ لیا کہ بس ان کی بادشاہت آچکی ہے۔
دوسرا بھٹو چونکہ آزاد خیال تھا تو اس کے دور میں بے راہ روی بھی بڑھی۔
پھر ضیاءالحق نے اس کا تختہ الٹ دیا اور اس کو تختہ پر لٹکادیا۔ وہ چونکہ مذہبی آدمی تھا (دکھاوے کے لیے تھا یا اصل میں ، اس کا مجھے معلوم نہیں) تو اس نے اسلامی طرز حکومت کی بنیاد رکھی۔

سندھی چونکہ بھٹو سے ایک عاشقانہ عقیدت رکھتے ہیں تو ظاہر ہے ان کی نظر میں ضیاءالحق آج تک ایک جلاد ، ظالم اور نجانے کیا کیا ہوگا۔
ہاہاہاہاہاہاہاہا
 

ربیع م

محفلین
خلیفہ راشد دوم - قتل، ایک غیر مسلم کے ہاتھوں
خلیفہ راشد سوم - قتل مسلمانوں کے ہاتھوں
خلیفہ راشد چہارم - قتل، ایک مسلمان کے ہاتھوں
خلیفہ راشد پنجم (ان آفیشل) ۔ زہر خوانی سے قتل، مسلمانوں کے ہاتھوں (سو سال سے ایک سال اوپر)

جی ہاں یہ خلفاء قتل ہوئے ، لیکن اپنے اس قتل میں ہمارے لئے اتنے سبق آموز پہلو چھوڑ گئے اور ایسے روشن مثالیں پیش کیں جسے پیش کرنے سے دنیا عاجز ہے !

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہادت سے قبل اپنے قاتل فیروز سے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تم ایسی چکی بناتے ہو جو ہوا سے چلتی ہے ، اس نے کہا میں تمہارے لئے ایسی چکی بناؤں گا جس کا شہرہ مشرق ومغرب تک پھیلے گا ،

حضرت عمر صاحب فراست تھے ، سمجھ گئے ، اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ اس نے مجھے قتل کی دھمکی دی ہے ۔

حضرت عمر جیسے شخص کا شک بھی یقین کی مانند ہی تھا۔

لیکن اس کے باوجود اس غلام ، مجوسی ، غیر مسلم کو حضرت عمر نے کچھ بھی نہ کہا ۔

کیا دنیا ایسی مثال پیش کر سکتی ہے ؟

پھر زخمی ہونے سے شہادت تک ان تین دنوں میں حضرت عمر کا کردار الفاظ اسے پیش کرنے سے عاجز ہیں ۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حاکم وقت ہونے کے باوجود محض اپنی ذات کیلئے جنگ کرنا گوارہ نہ کیا ، حالانکہ صحابہ کرام نے شدید اصرار بھی کیا۔لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قسم کھا کر کہا کہ جس کسی پر ان کا کچھ حق ہے وہ اپنا ہاتھ روک کر رکھے ۔
اور خلافت سے اس لئے دستبردار نہ ہوئے کیونکہ باغیوں کی اکثریت خوارج اور فتنہ گر لوگوں پر مشتمل تھی ، جن کا مقصد اصلاح کے بجائے ذاتی مفادات اور انتشار پھیلانا تھا ، اور دوسرا نبی اکرم ﷺ نے انھیں خلافت سے دستبردار ہونے سے منع کیا تھا ۔
پھر عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد علی رضی اللہ عنہ کا خلیفہ بننے سے انکار۔
اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ اور ان کا کردار حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ سبق آموز ہے :
ابن ملجم علی رضی اللہ عنہ کا قاتل خارجی تھا ، قتل کی کوشش کے بعد اسے گرفتار کر لیا گیا ،حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کرنے سے منع فرما دیا، اور کہا کہ اگر میں قتل ہو جاؤں تب میرے قصاص میں اسے قتل کیا جائے ، ورنہ اگر میں زندہ رہا تو اس کے سلسلے میں اپنی رائے دیکھوں گا۔اور اپنے بیٹوں کو وصیت کی ، کہ میری وفات کے بعد تم یہ کہہ کر کہ امیر المومنین قتل کردئیے گئے لوگوں کو قتل کرتے نہ رہنا ، بلکہ صرف قاتل کو سزا ملنی چاہئے ، اور ایک ہی وار میں قتل کرنا اذیت دے کر مت قتل کرنا اور نہ مثلہ کرنا ۔

کیا کوئی حکمران ایسا کردار پیش کرنے پر قادر ہے ؟
 
مدیر کی آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
جنگ جمل
جنگ صفین
جنگ نہروان

جنگ جمل اور صفین مسلمانوں کے درمیان ہوئی ۔ جبکہ جنگ نہروان مسلمانوں اور خوارج کے درمیان تھی ۔

جن کے جرائم اور شرارتیں حد سے بڑھ گئیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عامل عبداللہ بن خباب بن ارت اور ان کی حاملہ بیوی کو انتہائی ظالمانہ طریقے سے شہید کیا ، حضرت علی نے انھیں سمجھانے کیلئے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بھیجا جس کے سمجھانے پر لگ بھگ چار ہزار کے قریب لوگ انھیں چھوڑ کو واپس آملے ۔ اس کے بعد یہ جنگ لڑی گئی ، اور اس فسادی ٹولے کا خاتمہ کیا گیا۔
 

ربیع م

محفلین
واقعہ حرہ ۔ مدینہ پر مسلمانوں کا حملہ یزید کے حکم پر- تین دن تک مسجد نبوی میں نماز نہ ہوئی بلکہ اس میں فوجیوں کے گھوڑے بندے رہے۔ تین دن تک اہل مدینہ کے جان مال اور ناموس (عورتیں) فاتح فوجوں پر حلال رہیں۔

واقعہ حرۃ

مختصرا ذکر کرتا چلوں، اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت کو توڑا ، لیکن اس کے باوجود بہت سے علماء اور کبار صحابہ اس بیعت پر قائم بھی رہے ، جن میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما ، محمد بن علی بن ابی طالب(ابن الحنفیہ ) جلیل القدر صحابی نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنھما ، اور سعید بن المسیب رحمہ اللہ شامل تھے ۔
اہل مدینہ کا معاملہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ جیسا نہ تھا جنہوں نے بالکل بیعت نہ کی تھی ، بلکہ اہل مدینہ نقض بیعت کے مرتکب ہوئے تھے ، جس بناء پر ان علماء اور صحابہ نے انھیں سمجھایا۔
یزید بن معاویہ نے اہل مدینہ کو قائل کرنے کیلئے کئی وفد بھی روانہ کئے لیکن وہ اپنے مؤقف پر مصر رہے ، واضح رہے کہ میں یہاں یزید بن معاویہ کی اس موقف میں حمایت نہیں کر رہا ، یقینا مدینہ پر حملہ اس کا بہت بڑا جرم تھا ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ شبہات اور جھوٹی باتوں کو رد کرنا ضروری ہے ۔

مقتولین کی تعدا د:
وقد أورد خليفة في تاريخه قوائم بأسماء قتلى الحرة ثم قال: فجميع من أصيب من قريش والأنصار ثلاثمائة رجل وستة رجال، وقد تابعه على ذلك أبو العرب، والأتابكي. وهناك رواية مسندة عن الإمام مالك قال فيها: إن قتلى الحرة سبعمائة رجل من حملة القرآن. وقال الراوي: وحسبت أنه قال: وكان معهم ثلاثة أو أربعة من أصحاب رسول الله
r_20.jpg
. ورواية مالك أقرب إلى الصحة من الذي ذكره خليفة.

خلیفہ نے اپنی تاریخ میں الحرۃ کے مقتولین کی فہرست ذکر کی ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ قریش اور انصار کے 306 افراد قتل ہوئے ، ابو العرب اور اتابکی نے بھی ا س کی موافقت کی ہے ، امام مالک سے سند کے ساتھ روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ الحرۃ کے مقتولین 700 افراد تھے جن میں حاملین قرآن بھی شامل تھے ، راوی کہتا ہے کہ میں میرے خیال میں انھوں نے کہا کہ ان میں سے 3 یا 4 اصحاب رسول ﷺ میں سے تھے ، امام مالک کی روایت خلیفہ کی روایت سے صحت کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے ۔

کچھ روایا ت میں اہل مدینہ کے مقتولین کی تعداد میں بے حد مبالغہ آرائی ملتی ہے واقدی اپنی ایک روایت میں مقتولین کی تعداد 10 ہزار ذکر کرتا ہے ، جس میں عورتوں اور بچوں کے قتل کا تذکرہ بھی ہے ، واقدی کی سند متروک ہے ، اور پھر جب وہ صحیح سند کے ساتھ متعارض ہو ( جو کہ امام مالک کی روایت ہے ) تو واقدی کی روایت منکر ہو گی اور مقتولین کی تعداد میں اس روایت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی واقدی کی روایت پر تنقید کی ہے اور اس بات کو بعید جانا ہے کہ اس حد تک تعداد پہنچ جائے ۔

قتل وغارت اور لوٹ مار رہی ہے اس میں کوئی شک نہیں ، لیکن یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ یہ ان علاقوں میں رہی جہاں لڑائی جاری تھی چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما ، علی بن الحسین اور دوسرے لوگ جو معارضین میں سے کسی کے ساتھ نہیں کھڑے ہوئے ان کا گھر نہیں لوٹا گیا۔
عورتوں کو حلال کرنے کا مسئلہ :
جہاں تک عورتوں کے حلال ہونے کی بات ہے تو یہ محض مبالغہ آرائی کے سوا کچھ نہیں ۔
اس سلسلے میں دو روایات ملتی ہیں جو کہ سند کے اعتبار سے شدید کمزور ہیں ۔

مشہور معاصر مؤرخ ڈاکٹر محمد علی الصلابی لکھتے ہیں : ہم نے کتب السنۃ یا فتن کے بارے میں لکھی ہوئی کسی کتاب میں ایسا کچھ نہیں پایا ، اسی طرح اس دورانئے کی دواہم مصدر اور تاریخی کتابوں ( الطبری اور البلاذری ) میں اس قسم کے واقعہ کے وقوع ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ملتا ، اور ان دونوں نے مشہور راویوں کی روایات پر اعتماد کیا ہے جن میں عوانہ بن الحکم اور ابو مخنف لوط بن یحیی وغیرہ شامل ہیں ۔

الصلابی آگے مزید لکھتے ہیں : مدینہ کی عورتوں کی عزت لوٹنے کے واقعہ کی صحت کے اعتبار سے کوئی اساس نہیں ، یہ بعد میں آنے والی روایات جن کا محرک اموی تاریخ کے خلاف تعصب شامی لشکر کے خلاف نفرت ہے ان کا نتیجہ ہے ۔

اسی طرح بہت سے معاصر محققین جن میں ڈاکٹر نبیہ عاقل ، عرینان ، ڈاکٹر العقیلی وغیرہ شامل ہیں نے اس کا رد کیا ہے ، اسی طرح الشیبانی نے ان روایات پر گہرائی سے تحقیق لکھی ہے اور روایات کے کذب کو ثابت کیا ہے ۔

مزید تفصیل کیلئے دیکھئے :

وقعة الحرة وموت يزيد - قصة الخلافة الأموية | موقع قصة الإسلام - إشراف د/ راغب السرجاني

هل وقعة الحرة ثابتة؟وهل ثبت الإعتداء على النساء؟ - ملتقى أهل الحديث
 
Top