ضرورتِ اصلاح

hani

محفلین
آستیں کے سانپ پل رہے ہیں
اندھیرے جنگل میں جل رھے ھیں

کہیں تو دریا رُکے ھوئے ھیں
کہیں کنارے بھی چل رھے ھیں

آسیبِ دہشت کے قہقہے
خوف چہروں پہ مل رہے ھیں

اُفق کے اُس طرف سے اُ ٹھے ھیں
اُفق کے اِس پار ڈھل رھے ھیں

اُدھر امیروں کے غریب خانے
اِدھر ھمارے محل رھے ھیں
 

فاتح

لائبریرین
عمدہ کوشش ہے۔ ماشاء اللہ!
اس غزل کی بحر متعین کی جائے تو"متقارب مثمن مقبوض اثلم" بنے گی جس کے افاعیل "فعول فعلن فعول فعلن" ہیں۔ لیکن ذیل کے مصرعے توجہ چاہتے ہیں:
آستیں کے سانپ پل رہے ہیں
آسیبِ دہشت کے قہقہے
خوف چہروں پہ مل رہے ھیں
اُفق کے اُس طرف سے اُ ٹھے ھیں
اُدھر امیروں کے غریب خانے
 

الف عین

لائبریرین
فاتح سے میں بھی متفق ہوں۔اسی بحر میں اوزان خطا مصرعوں کو فٹ کرنا کارے دارد ہے۔ بہر حال فرصت میں‌کوشش کرتا ہوں۔
 
مُہیب آسیبی قہقہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
جو خوف چہروں پہ مل رہے ہیں
افق کی اُس سمت سے اٹھے ہیں
افق کے اس پار ڈھل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
اُدھر امیروں کے جھونپڑے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
ادھر ہمارے محل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
اندھیرے جنگل میں جل رہے ہیں
اجالے آنکھوں کو مل رہے ہیں۔ ۔
جو آستینوں میں پل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ سانپ ہی تو مچل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
:):):)
 

hani

محفلین
مُہیب آسیبی قہقہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
جو خوف چہروں پہ مل رہے ہیں
افق کی اُس سمت سے اٹھے ہیں
افق کے اس پار ڈھل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
اُدھر امیروں کے جھونپڑے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
ادھر ہمارے محل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
اندھیرے جنگل میں جل رہے ہیں
اجالے آنکھوں کو مل رہے ہیں۔ ۔
جو آستینوں میں پل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ سانپ ہی تو مچل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
:):):)

ارے واہ زبردست، آپ کی رہنمائ سے مجھے بہت مدد محسوس ھوئ
اس ترمیم شدہ میں نمائیاں طور پر روانی اور مناسبت ھے بہت شکریہ جناب
 

مغزل

محفلین
بہت خوب، اچھی کوشش ہے طاہر جاوید صاحب، ماشا اللہ ، باقی بابا جانی کے مراسلے کا انتظار کرتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
محمود غزنوی کی اصلاح درست ہے ، خوشی ہوئی کہ اب اس کی روانی میں واقعی اضافہ ہی ہوا ہے۔ لیکن اس طرح مکمل مصرعے خود بدل کر دے دینا میں مستحسن نہیں سمجھتا، شاعر کو ہی سمجھنے کے لئے موقع دینا چاہیے کہ وہ خود کوشش کرے۔ بہر حال اب یہ طاہر جاوید پر منحصر ہے کہ وہ اصلاح/ترمیم قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ اشعار اگر سمجھ میں آ سکیں تو یوں کیا بھی جا سکتا ہے، لیکن جب شعر کا مطلب ہی محض شاعر کے ذہن ۔ یا محاورے کے حساب سے بطن میں۔ ہو تو یہ کام بھی بہت مشکل ہے۔
طاہر جاوید، نثری نظموں میں اصلاح کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ محض آپ کا لطیف خیال ہوتی ہیں۔ لیکن جب بات غزل کی ہو تو ہھر عروض کی پابندی ضروری ہے۔ اس طرح نوالہ بنا کر مونہہ میں دیا جائے تو کچھ سیکھ نہیں سکیں گے۔ بہتر ہے اس کی تقطیع کرنا سیکھیں اور آئندہ اگر غزل کہیں تو تقطیع کر کے کہیں۔
محمود، برا مت ماننا، تمہاری اصلاح پر مجھے فخر ہے لیکن اس جوش میں جلد بازی دکھا گئے۔
 
مُہیب آسیبی قہقہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
جو خوف چہروں پہ مل رہے ہیں
افق کی اُس سمت سے اٹھے ہیں
افق کے اس پار ڈھل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
اُدھر امیروں کے جھونپڑے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
ادھر ہمارے محل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔
اندھیرے جنگل میں جل رہے ہیں
اجالے آنکھوں کو مل رہے ہیں۔ ۔
جو آستینوں میں پل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔
وہ سانپ ہی تو مچل رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔
:):):)

السلام علیکم
بہت خوب
اسکے ساتھ ہی جناب اعجاز صاحب کے مشورہ کی تائید بھی کروں گا۔
 
Top