صلیبی جنگیں

یہ مضمون میں نے وکی پیڈیا کے لیے لکھا سوچا اسے یہاں بھی شامل کر دیا جائے۔



صلیبی جنگیں​

ارض فلسطین بالخصوص بیت المقدس پر عیسائی قبضہ بحال کرنے کے لیے یورپ کے عیسائیوں نے جنگیں لریں تاریخ میں انہیں “صلیبی جنگوں“ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ جنگیں فلسطین اور شام کی حدود میں صلیب کے نام پر لڑی گئیں۔ صلیبی جنگوں کا یہ سلسلہ طویل عرصہ تک جاری رہا اور اس دوران نو بڑی جنگیں لڑی گئیں جس میں لاکھوں انسان قتل ہوئے۔ فلسطین اور بیت المقدس کا شہر حضرت عمر کے زمانہ میں ہی فتح ہوچکا تھا۔ یہ سرزمین مسلمانوں کے قبضہ میں رہی اور عیسائیوں نے زمانہ دراز تک اس قبضہ کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ گیارھویں صدی کے آخر میں سلجوقیوں کے زوال کے بعد دفعتہً ان کے دلوں میں بیت المقدس کی فتح کا خیال پیدا ہوا۔ ان جنگوں میں تنگ نظری ،تعصب ، بدعہدی ، بداخلاقی اور سفاکی کا جو مظاہرہ اہل یورپ نے کیا وہ ان کی پیشانی پر شرمناک داغ ہے۔

اسباب
ان جنگوں کے اسبا مندرجہ ذیل ہیں۔

مذہبی اسباب:۔

فلسطین حضرت عیسی علیہ السلام کی جائے پیدائش تھا۔ اس لیے عیسائیوں کے لیے مقدس اور متبرک مقام ہونے کی حیثیت رکھتا تھا۔ اور ان کے لیے زیارت گاہ تھا۔ حضرت عمر کے زمانہ سے وہ اسلامی سلطنت کا حصہ بن چکا تھا۔ بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ اول تھا اور بڑے بڑے انبیا کے مقبرے یہاں تھے اس لیے بیت المقدس کا شہر اور زمین ان کے لیے عیسائیوں سے کہیں زیادہ متبرک اور مقدس تھی۔ مسلمانوں نے متبرک مقامات کی ہمیشہ حفاظت کی ۔ چنانچہ غیر مسلم زائرین جب اپنے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے یہاں آتے تو مسلم حکومتیں انہیں ہر طرح کی سہولتیں بہم پہنچاتیں۔ ان کے گرجے اور خانقاہیں ہر قسم کی پابندیوں سے آزاد تھے۔ حکومت نے انہیں اعلیٰ مناصب پر فائز کر رکھا تھا لیکن خلافت اسلامیہ کے زوال اور انتشار کے دور میں ان زائرین نے اس سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں کیں ان کی تنگ نظری اور تعصب کی بدولت مسلمانوں اور عیسائیوں میں چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہونا شروع ہوگئیں۔ یہ جاہل اور متعصب زائر جب واپس جاتے تو مسلمانوں کی زیادتیوں کے فرضے افسانے گھڑ کر اہل یورپ کے جذبات کو بھڑکاتے ۔ یورپ کے عیسائی پہلے ہی مسلمانوں کے خلاف تھے اب ان حالات میں ان کے اندر نفرت و حقارت کے جذبات نے مزید تقویت پائی۔ چنانچہ دسویں صدی عیسوی کے دوران یورپ کی عیسائی سلطنتوں اٹلی، فرانس ، جرمنی اور انگلستان وغیرہ نے سر زمین فلسطین کی دوبارہ تسخیر کا منصوبہ بنایا تاکہ اسے ایک بار پھر عیسائی مملکت میں تبدیل کیا جاسکے۔

اس دوران سارے یورپ میں ایک افواہ خواص و عام میں بے حد مقبول ہو گئی کہ حضرت عیسی علیہ السلام دوبارہ نزول فرما کر عیسائیوں کے تمام مصائب کا خاتمہ کریں گے لیکن ان کا نزول اسی وقت ہوگا جب یروشلم کا مقدس شہر مسلمانوں کے قبضہ سے آزاد کرالیا جائے۔ اس افوا نے عیسائیوں کے مذہبی جوش میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔

عیسائی مہذہبی رہنماؤں نے یہ چیز عام کر دی تھی کہ اگر کوئی چور ، بدمعاش اور بدکردار بھی بیت المقدس کی زیارت کر آئے گا تو وہ جنت کا مستحق ہوگا۔ لہٰذا اس عقیدہ کی بنا پر بڑے بڑے بدکردار لوگ بھی زائروں کی صورت میں بیت المقدس آنا شروع ہوگئے۔ شہر میں داخل ہوتے وقت وہ ناچتے اور باجے بجاتے اور شوروغل کرتے ہوئے اپنے برتری کا اظہار کرتے اور کھلے بندوں شراب نوشی کے مرتکب ہوتے ۔ چنانچہ زائرین کی ان نازیبا حرکات اور ان کی سیاکاریوں ، بدنظمی اور امن سوز سرگرمیوں کی وجہ سے ان پر کچھ اخلاقی پابندیاں لگا دی گئیں۔ لیکن ان زائرین نے واپس جاکر مسلمانوں کی زیادتیوں کے من گھڑت افسانے لوگوں کو سنانے شروع کر دیے تاکہ ان کے مذہبی جذبات کو ابھارا جا سکے۔

عیسائی اس وقت دو حصوں میں منقسم ہو چکی تھی۔ ایک حصے کا تعلق یورپ کے مغربی کلیسا سے تھا جس مرکز روم تھا۔ دوسرا مشرقی یا یونانی کلیسا جس کا مرکز قسطنطنیہ تھا۔ دونوں چرچ کے ماننے والے ایک دوسرے کے مخالف تھے۔ روم کے پوپ کی ایک عرصہ یہ خواہش تھی کہ مشرقی بازنطینی کلیسا کی سربراہی بھی اگر اسے حاصل ہوجائے اور اس طرح وہ ساری عیسائی دنیا کا روحانی پیشوا بن جائے گا۔ اسلام دشمنی کے علاوہ اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لیے اس نے اعلان کردیا کہ ساری دنیا کے عیسائی بیت المقدس کو مسلمانوں سے آزاد کرانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ جو اس جنگ میں مارا جائے گا وہ جنت کا حقدار ہوگا۔ اس کے سب گناہ دھل جائیں گے۔ اور فتح کے بعد جو مال و زر حاصل ہوگا وہ ان میں تقسیم کر دیا جائے گا۔ نتیجہً عیسائی دنیا مسلمانوں کے خلاف دیوانہ وار اٹھ کھڑی ہوئی۔

پوپ اربن ثانی مغربی یورپ کے کلیسا کے سربراہ تھ۔ وہ بڑا جاہ پرست اور جنگ باز مذہبی رہنما تھا۔ یورپ کے حکمرانوں میں اس کا وقار کم ہو چکاتھا۔ اپنی ساکھ بحال کرنے کے یے اس نے عیسائیوں میں مذہبی جنگی جنون پھیلانا شروع کر دیا۔ جنگ کے نام پر عیسائیوں کی بالادستی اور مسلمانوں کی شکست و ریخت کا قائل تھا۔ اس نے چرچ کی گرفت کو مضبوط کرنے کے لیے مناسب سمجھا کہ عیسائی دنیا کو مذہبی جنگوں کی آگ میں جھونک دیا جائے۔ اس طرح اس نے صلیبی جنگوں کی راہ ہموار کی۔

سیاسی اسباب


عساکر اسلام نے اپنے عروج کے زمانے میں بڑی بڑی سلطنتیں زیر و زبر کر دی تھیں۔ افریقہ ، ایشیا ، جزائر بحیرہ روم (سلسلی و قبرص) وغیرہ اور سپین و پرتگال سب ان کے زیر نگیں تھیں۔ اب گیارہویں صدی عیسوی میں اسلامی دنیا کی حالت بہت بدل چکی تھی مصر میں عبیدی سلطنت روبہ زوال تھی۔ سسلی میں مسلمانوں کا اقتدار کمزور ہوچکا تھا۔ جس کی وجہ سے بحیرہ روم کے عیسائی زور پکڑ چکے تھے سپین میں اگر یوسف بن تاشفین میدان عمل میں نہ آتے تو سپین سے مسلمانوں کا اخراج بہت پہلے مکمل ہو چکا ہوتا۔ صلیبی جنگیں مسلمانوں کے اس سیاسی غلبے کے خلاف یورپ کے عیسائیوں کا اجتماعی ردعمل تھا۔

سلاجقہ کا دور مسلمانوں کے عروج کا آخری شاندار باب ہے ۔ انہوں نے ایشائے کوچک کے تمام علاقے فتح کرکے قسطنطنیہ کی فتح کے لیے راہیں کھول دی تھیں۔ اور اگر ملک شاہ سلجوقی کے بعد کوئی نامور حکمران تخت نشین ہوتا تو شاید قسطنطنیہ کی تسخیر شرمندہ تعبیر ہوجاتی۔ قسطنطنیہ عیسائی یورپ پر اسلامی یلغار کو روکنے کے لیے آخری حصار کا کام دے رہا تھا۔ لہٰذا سلجوقیوں کی قوت سے خوفزدہ ہو کر بازنطینی حکمران مائیکل ڈوکس نے 1094عیسوی میں مغربی ملکوں کو ترکوں کے اس بڑھتے ہوئے سیلاب کی طرف متوجہ کیا اور ان سے امداد طلب کی۔ چنانچہ ساری عیسائی دنیا نے اس کی استدعا کو فوراً قبول کر لیا اور میدان عمل میں نکل آئے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کا ایک سیلاب سرزمین اسلام کی طرف امڈ آیا۔

اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر مشرق کے بازنطینی کلیسا اور مغربی کلیسا کے درمیان سمجھوتہ ہو گیا اور دونوں نے متحد ہو کر مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں میں حصہ لیا۔

عالم اسلام میں باہمی اتحاد کا فقدان تھا ۔ بغداد کی عباسی اور مصر کی فاطمی خلافت ، سلجوقی اور سپین کے حکمران انحطاط کا شکار تھے ان کے درمیان باہمی اشتراک کی کوئی صورت موجود نہ تھی۔ لہٰذا صلیبیوں کے لیے اس سے نادر موقع اور کون سا ہوسکتا تھا۔


معاشرتی اسباب

یورپ معاشرتی لحاظ سے مسلمانوں کے مقابلہ میں پسماندہ تھا۔ سماجی اور معاشرتی نقطہ نظر سے مساوات ، اخوت اور عدل و انصاف کے جن اصولوں کو مسلمانوں نے اپنے ہاں رواج دیا تھا یورپ کا عیسائی معاشرہ ابھی تک اس سے محروم تھا ۔ غریب اور نادار لوگ طرح طرح کی پابندیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ یورپ کا نظام جاگیرداری پر مبنی تھا۔ جاگیر دار اور غریب عوام کا خون چوس رہے تھے اور ان کے حقوق انہیں میسر نہیں تھے۔ صاحب اقتدار اور مذہبی گروہ نے ان لوگوں کی منافرت کا رخ اپنی بجائے مسلمانوں کی طرف موڑ دیا۔

اخلاقی انحطاط سے بھی عوام کی حالت اچھی نہ تھی۔ یورپ کے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں نے عوام کی توجہ اندرونی مسائل اور ان کی زبوں حالی سے ہٹانے کے لیے بیرونی مسائل کی طرف موڑ دی۔ ان لڑائیوں میں رضاکاروں کی معتدبہ تعداد ان لوگوں پر مشتمل تھی جو اپنے سفلی جذبات کی تسکین کے لیے یونانی حسن کی لطافتوں کے لمس کی خاطر اس سفر میں شامل ہوئے تھے۔ مشہور فرانسیسی مورخ لیبان کا بیان اس دور کے معاشرہ کی صحیح ترین عکاسی کرتا ہے۔

’’ جنت ملنے کے علاوہ ہر شخص کو اس میں حصول مال کا ذریعہ بھی نظر آتا تھا۔ کاشتکار جو زمیندار کے غلام تھے وہ افراد خاندان جو قانون کی رو سے وارثت سے محروم تھے وہ امرا جنہیں جائیداد کا کم حصہ ملا تھا اور جن کی خواہش تھی کہ دولت کمائیں وہ راہب جو خانقاہی زندگی کی سختیوں سے تنگ تھے۔ غرض کل مفلوک الحال اور محروم الوارث اشخاص جن کی بہت بڑی تعداد تھی اس مقدس گروہ میں شریک تھے۔ ‘‘

گویا ان مذہبی راہنماؤں نے اپنی عیاشانہ زندگی کو چھپانے کی خاطر عوام کی توجہ ان معاشرتی برائیوں سے ہٹانے کی کوشش کی۔


معاشی اسباب

اسلامی دنیا کی خوشحالی اور دولت و ثروت کے چرچے یورپ میں عام تھے۔ یورپ ابھی تک خوشحالی کی ان منازل سے نہ گزرا تھا جن کا مشاہدہ مشرق کی اسلامی سلطنتیں کر چکی تھیں۔ لہٰذا یورپ کے وہ تمام عناصر جنہیں حصول زر کے ذرائع یورپ میں میسر نہ تھے اپنی قسمت آزمائی کے یے اس مذہبی مہم میں شامل ہوگئے۔ ان کا مقصد لوٹ کھسوٹ اور مال و دولت کے جمع کرنے کے سوا کچھ نہ تھا اس کی تصدیق صلیبیوں کے اس طرز عمل سے ہوتی ہے جو انہوں نے ہنگری سے گزرتے ہوئے وہاں کے عیسائی باشندوں کے ساتھ روا رکھا۔

یورپ کے نظام حکومت میں جاگیرداری نظام کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ معاشی نظام میں اس کی خرابیاں ظاہر ہو چکی تھیں۔ دولت کے تمام ذرائع امرا اہل کلیسا اور جاگیرداروں کا قبضہ تھا عوام مفلوک الحال تھے۔ کاشکاروں کی حالت ناگفتہ بہ تھی۔ چنانچہ مذہبی طبقہ نے مذہب کی آڑ میں عوامی ردعمل کو روکنے کی کوشش کی تاکہ ان لوگوں کی توجہ ملک کے معاشی مسائل سے ہٹی رہے۔ اس کے علاوہ قانون وراثت کے تحت محروم افراد نے بھی محض زیادہ دولت جمع کرنے کی خواہش کے تحت اس کو ہوا دی ۔

فلسطین اور شام پر قبضہ کرنے کے بعد اٹلی کے باشندے اپنی سابقہ تجارتی ترقی کو بحال کرنا چاہتے تھے کیونکہ اسلامی غلبہ کی بدولت اطالوی تاجروں کی تجارتی اجارداری ختم ہوچکی تھی۔ لہٰذا ان کا خیال تھا کہ اگر صلیبی جنگوں کی بنا پر فلسطین اور شام کا علاقہ مسلمانوں سے مستقل چھین لیا جائے تو یورپ کی معاشی حالت سدھر سکتی ہے۔

فوری وجہ

فوری وجہ پوپ اربن دوم کا فتوی جہاد تھا۔ فرانسیسی پیڑ جب بیت المقدس کی زیارت کے لیے آیا تو اس نے بیت المقدس پر مسلمانوں کے قبضہ کو بری طرح محسوس کیا۔ یورپ واپس جا کر عسائیوں کی حالت زار کے جھوٹے سچے قصے کہانیاں پیش کیں اور سلسلہ میں سارے یورپ کا دورہ کیا۔ پیٹر کے اس دورہ نے لوگوں کے اندر مذہبی دیوانگی کی سی کیفیت پیدا کر دی لیکن بدقسمتی سے اس راہب نے زائرین کی سیاہ کاریوں کے بارے میں مکمل خاموشی برتی ۔ پوپ چونکہ مغربی کلیسا کا روحانی پیشوا تھا اس لیے اس نے مختلف فرقوں کی ایک کونسل بلائی اور اس کے سامنے مسلمانوں کے خلاف جنگ کا علان کر دیا۔ لوگوں کو اس بات کی بشارت دی کہ جو بھی اس مقدس جنگ میں مارا جائے گا اس کے ہر قسم کے گناہ معاف ہوجائیں گے اور وہ جنت کا حقدار ہوگا لوگ جوق در جوق سینٹ پیٹر کی قیادت فلسطین پر چڑھائی کی غرض سے روانہ ہوئے۔

پہلی صلیبی جنگ

1145ء تا 1097ء

پوپ کے اعلان جہاد کے بعد یکے بعد دیگرے چار عظیم الشان لشکر بیت المقدس کی فتح کا عزم لیے روانہ ہوئے۔ راہب پیٹر کی ماتحتی میں تیرہ لاکھ عیسائیوں کا ایک انبوہ کثیر قسطنطنیہ کے لیے روانہ ہوا۔ ان لوگوں نے راستہ میں اپنے ہم مذہب لوگوں کو قتل و غارت اور لوٹ مار کا نشانہ بنایا۔ بلغاریہ سے گزرنے کے بعد یہ لوگ قسطنطنیہ پہنچے تو رومی شہنشاہ نے ان کی اخلاق سوز حرکتوں کی وجہ سے ان کا رخ ایشائے کوچک کی طرف موڑ دیا۔ جب یہ اسلامی علاقہ میں داخل ہوئے تو سلجوقی حکمران قلج ارسلان نے انہیں مار مار کر تباہ کردیا اور ان کی کثیر تعداد قتل ہوئی۔ صلیبیوں کی یہ مہم قطعاً ناکام رہی۔

صلیبیوں کا دوسرا بڑا گروہ ایک جرمن راہب گاؤس فل کی قیادت میں روانہ ہوا۔ جب یہ لوگ ہنگری سے گزرے تو ان کی بدکاریوں کی وجہ سے اہل ہنگری تنگ آگئے اور انہوں نے ان کو نکال دیا یہ جماعت بھی اسی طرح کیفرکردار کو پہنچی۔

صلیبیوں کا تیسرا گروہ جس میں انگلستان ، فرانس اور فلانڈرز کے رضاکار شامل تھے اس مقدس جنگ کے لیے روانہ ہوئے۔ ان رضاکاروں کے ہاتھوں دریائے رائن اور موزیل کے کئی ایک شہر کے یہودی نشانہ ستم بنے ۔ یہ لوگ ہنگری سے گزرے تو اہل ہنگری نے ان کا صفایا کرکے ہنگری کی سرزمین کو ان کا قبرستان بنا دیا۔

سب سے زیادہ منظم اور زبردست گروہ جو دس لاکھ فوجیوں پر مشتمل تھا 1097ء میں روانہ ہوا اس میں انگلستان ، فرانس، جرمنی ، اٹلی اور سسلی کے شہزادے شامل تھے۔ اس متحدہ فوج کی کمان ایک فرانسیسی گاڈ فرے کے سپرد تھی۔ ٹڈی دل کا یہ لشکر ایشائے کوچک کی طرف روانہ ہوا اور مشہور شہر قونیہ کا محاصرہ کر لیا۔ قلج ارسلان نے شکست کھائی ۔ فتح مند عیسائی پیش قدمی کرتے ہوئے انطاکیہ پہنچ گئے نو ماہ کے بعد انطاکیہ پر بھی قبضہ ہوگیا۔ وہاں کے تمام مسلمان آبادی کو تہ تیغ کرتے ہوئے صلیبیوں نے مسلمانوں پر شرمناک مظالم ڈھائے۔ بچے بوڑھے جوان کوئی بھی ان سے بچ نہ سکا۔ تقریباً ایک لاکھ مسلمان مارے گئے۔ انطاکیہ کے بعد فتح مند لشکر شام کے متعدد شہروں پر قبضہ کرتے ہوئے حمص پہنچا۔

سقوط بیت المقدس

حمص پر قبضہ کرنے کے بعد صلیبیوں نے بیت المقدس کا محاصرہ کر لیا چونکہ فاطمیوں کی طرف سے شہر کا خاطر خواہ انتظام نہ کیا گیا تھا۔اس لیے 15 جون 1099ء کو بیت المقدس پر ان مذہبی جنونیوں نے بڑی آسانی سے قبضہ کر لیا۔ بیت المقدس کی حرمت کا کوئی لحاظ نہ رکھا گیا۔ مسلمانوں کا خوب قتل عام کیا اور ان کا تمام مال و اسباب لوٹ لیا گیا۔ یورپی مورخین بھی ان شرمناک مظالم کی حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں۔ عیسائیوں کا مسلمانوں کے ساتھ سلوک اس رویہ سے بالکل الٹ تھا جو حضرت عمر نے چند صدیاں پیشتر بیت المقدس کی فتح کے وقت عیسائیوں سے اختیار کیاتھا۔ بیت المقدس کے اردگرد کے علاقوں پر قبضہ کے بعد گاڈ فرے کو بیت المقدس کا بادشاہ بنایا گیا۔ اور مفتوحہ علاقوں کو عیسائی مملکتوں میں بانٹ دیا گیا۔ جس میں طرابلس ، انطاکیہ ، اور شام کے علاقے شامل تھے۔ اس شکست کا سب سے بڑا سبب مسلمانوں ی باہمی نااتفاقی تھی، بدنظمی اور انتشار کا عمل تھا ۔

سلجوقیوں کے انتشار کے دوران عماد الدین زنگی کی زبردست شخصیت ابھری ۔ عماد الدین نے اتابکیہ کی حکومت کی بنیاد ڈالی اور مسلمانوں کو پھر حیات نو بخشی ، موصل ، حران ، حلب وغیرہ کے علاقوں کو فتح کرکے زنگی نے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ عماد الدین نے جس جرات اور حوصلہ مندی سے صلیبیوں کا مقابلہ کیا اور ان کو زبردست شکستیں دیں وہ تاریخ اسلام کا قابل فخر باب ہے۔ عماد الدین نے قلعہ اثارب اور مصر کے سرحدی علاقوں سے عیسائیوں کو نکال کر خود قبضہ کر لیا۔ محاذ شام پر صلیبیوں کو ہزیمت کا منہ دیکھنا پڑا۔ اور زندگی نے شام کے وسیع علاقہ پر قبضہ کر لیا۔ عماد الدین زنگی کا سب سے بڑا کارنامہ ببلک اور روما پر دوبارہ اسلامی قبضہ ہے۔

دوسری صلیبی جنگ

1187ء تا 1144ء تک

عماد الدین کی وفات کے بعد 1144ء میں اس کا لائق بیٹا نور الدین زنگی اس کا جانشین ہوا۔ صلیبیوں کے مقابلہ میں وہ اپنے باپ سے کم مستعد نہ تھا۔تخت نشین ہونے کے بعد اس نے مسلمانوں میں‌ جہاد کی ایک نئی روح پھونک دی اور عیسائیوں سے بیشتر علاقے چھین لیے اور انہیں ہر محاذ پر شکستیں دیتا ہوا ڈیسا ، (روحا) کے شہر پر دوبارہ قابض ہوگیا۔ عیسائیوں کی شکستوں کی خبریں پورے یورپ میں پہنچیں تو ایک بار پھر پوپ یوجین سوم نے دوسری صلیبی جنگ کا اعلان کیا اور اس طرح دوسری صلیبی جنگ کا آغاز ہوا۔ 1148ء میں جرمنی کے بادشاہ نارڈ سوم اور فرانس کے حکمران لوئی ہفتم کی قیادت میں 9 لاکھ افراد پر مشتمل فوج مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے یورپ سے روانہ ہوئی اس میں عورتیں بھی شامل تھیں۔ پہلے صلیبی معرکوں کی طرح ان فوجیوں نے بھی خوب اخلاق سوز حرکتیں دوبارہ کیں۔ لوئی ہفتم کی فوج کا ایک بڑا حصہ سلجوقیوں کے ہاتھوں‌تباہ ہوا۔ چنانچہ جب وہ انطاکیہ پہنچا تو اس کی تین چوتھائی فوج برباد ہوچکی تھی۔اب اس باقی ماندہ فوج نے آگے بڑھ کر دمشق کا محاصرہ کر لیا لیکن سیف الدین زنگی اور نورالدین زنگی کی مشترکہ مساعی سے صلیبی اپنے عزائم میں ناکام رہے۔ لوئی ہفتم اور کونارڈ کو دوبارہ یورپ کی سرحدوں میں دھکیل دیا گیا۔ چنانچہ دوسری صلیبی جنگ ناکام ہوئی۔

مصر پر نورالدین کا قبضہ

اس دوران حالات نے پلٹا کھایا اور تاریخ اسلام میں ایک ایسی شخصیت نمودار ہوئی جس کے سرفروشانہ کارنامے آج بھی مسلمانوں کے لیے درس عمل ہیں۔ یہ عظیم شخصیت صلاح الدین ایوبی کی تھی۔ مصر کے فاطمی خلیفہ فائز باللہ میں اتنی سکت نہ تھی کہ وہ عیسائیوں کے طوفان کو روک سکتا اس کے وزیر شاور سعدی نے صلیبیوں کے خطرہ کا اندازہ کرتے ہوئے نورالدین زنگی کو مصر پر حملہ کی دعوت دی۔ نورالدین نے اپنے بھائی اس الدین شیر کوہ کو اس مہم پر مامور کیا۔ چنانچہ اسد الدین نے مصر میں داخل ہو کر عیسائیوں کا قلع قمع کیا۔ لیکن شاور نے غداری کی اور شیر کوہ کے خلاف فرنگیوں سے ساز باز کر لی۔ 1127ء کو شیر کوہ نے دوبارہ مصر پر فوج کشی کی اور سکندریہ پر قبضہ کے بعد مصر کا بیشتر علاقہ اپنے قبضہ میں لے لیا۔صلاح الدین ایوبی بھی ان تمام محاربات میں شیر کوہ کا ہمرکاب رہا تھا۔ شاور سعدی اپنے جرائم کی وجہ سے قتل ہوا اور شیر کوہ خلیفہ غاضد کا وزیر بنا اس کے بعد صلاح الدین ایوبی نے اس کی جگہ لی ۔ خلیفہ نے الملک الناصر کا لقب دیا۔ خلیفہ عاضد کی وفات کے بعد صلاح الدین نے مصر میں عباسی خلیفہ کا خطبہ رائج کر دیا۔ مصر کا خود مختار حکمران بننے کے بعد سلطان نے صلیبیوں کے خلاف جہاد کو اپنی زندگی کا نصب العین قرار دیا۔

حطین کا معرکہ

مصر کے علاوہ صلاح الدین نے 1182ء تک شام ، موصل ، حلب وغیرہ کے علاقے فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے۔ اس دوران صلیبی سردار ریجنالڈ کے ساتھ چار سالہ معاہدہ صلح ہو چکا تھا جس کی رو سے دونوں کے دوسرے کی مدد کرنے کے پابند تھے لیکن یہ معاہدہ محض کاغذی اور رسمی تھا۔ صلیبی بدستور اپنی اشتعال انگیزیوں میں مصروف تھے اور مسلمانوں کے قافلوں کو برابر لوٹ رہے تھے۔

1186ء میں عیسائیوں‌کے ایک ایسے ہی حملہ میں ریجنالڈ نے یہ جسارت کی کہ بہت سے دیگر عیسائی امرا کے ساتھ وہ مدینہ منورہ پر حملہ کی غرض سے حجاز مقدس پر حملہ آور ہوا۔ صلاح الدین ایوبی نے ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے اور فوراً ریجنالڈ کا تعاقب کرتے ہوئے اسے حطین میں جالیا۔ سلطان نے یہیں دشمن کے لشکر پر ایک ایسا دشمن کے لشکر پر ایک ایسا آتش گیر مادہ ڈلوایا جس سے زمین پر آگ بھڑک اٹھی۔ چنانچہ اس آتشیں ماحول میں 1187ء کو حطین کے مقام پر تاریخ کی خوف ناک ترین جنگ کا آغاز ہوا ۔ اس جنگ کے نتیجہ میں تیس ہزار عیسائی ہلاک ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔ ریجنالڈ گرفتار ہوا۔ اور سلطان نے اپنے ہاتھ سے اس کا سر قلم کیا۔ اس جنگ کے بعد اسلامی افواج عیسائی علاقوں پر چھا گئیں۔

بیت المقدس کی فتح

1178ء :

حطین کی فتح کے بعد صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا ایک ہفتہ تک خونریز جنگ کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور رحم کی درخواست کی۔ بیت المقدس پورے اکیانوے سال بعد دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا۔ بیت المقدس کی فتح صلاح الدین ایوبی کا عظیم الشان کارنامہ تھا۔ صلیبیوں کے برعکس سلطان نے عیسائیوں پر کسی قسم کی زیادتی نہ ہونے دی اور انہیں چالیس دن کے اندر شہر سے نکل جانے کی اجازت عطا کی۔ رحمدل سلطان نے فدیہ کی نہایت ہی معمولی رقم مقرر کی اور جو لوگ وہ ادا نہ کر سکے انہیں بغیر ادائیگی فدیہ شہر چھوڑنے کی اجازت دے دی گئی۔ بعض اشخاص کا زر فدیہ سلطان نے خود ادا کیا اور انہیں آزادی دی۔ بیت المقدس پر تقربیاً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ تاآنکہ 1948ء میں امریکہ ، برطانیہ ، فرانس کی سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کر لیا ۔

تیسری صلیبی جنگ

1192ء تا 1189ء


بیت المقدس کی فتح صلیبیوں کے لیے پیغام اجل سے کم نہ تھا ۔ اس فتح کی خبر پر سارے یورپ میں‌ پھر تہلکہ مچ گیا۔ اس طرح تیسری صلیبی جنگ کا آغاز ہوا اس جنگ میں سارا یورپ شریک تھا۔ شاہ جرمنی فریڈرک باربروسا ، شاہ فرانسس فلپ آگسٹس اور شاہ انگلستان رچرڈ شیر دل نے بہ نفس نفیس ان جنگوں میں شرکت کی۔ پادریوں اور راہبوں نے قریہ قریہ گھوم کر عیسائیوں کو مسلمانوں کے خلاف ابھارا۔

عیسائی دنیا نے اس قدر لاتعداد فوج ابھی تک فراہم نہ کی تھی۔ یہ عظیم الشان لشکر یورپ سے روانہ ہوا اور عکہ کی بندرگاہ کا محاصرہ کر لیا اگرچہ سلطان صلاح الدین نے تن تنہا عکہ کی حفاظت کے تمام انتظامات مکمل کر لیے ہوتے تھے لیکن صلیبیوں کو یورپ سے مسلسل کمک پہنچ رہی تھی۔ ایک معرکے میں دس ہزار عیسائی قتل ہوئے مگر صلیبیوں نے محاصرہ جاری رکھا لیکن چونکہ کسی اور اسلامی ملک نے سلطان کی طرف دست تعاون نہ بڑھایا اس لیے صلیبی ناکہ بندی کی وجہ سے اہل شہر اور سلطان کا تعلق ٹوٹ گیا اور سلطان باوجود پوری کوشش کے مسلمانوں کو کمک نہ پہنچا سکا۔ تنگ آکر اہل شہر نے امان کے وعدہ پر شہر کو عیسائیوں کے حوالہ کر دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ فریقین کےدرمیان معاہدہ طے ہوا کہ جس کے مطابق مسلمانوں نے دو لاکھ اشرفیاں بطور تاوان جنگ ادا کرنے کا وعدہ کیا اور صلیب اعظم اور پانچ سو عیسائی قیدیوں کی واپسی کی شرائط کرتے ہوئے مسلمانوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی ۔ وہ تمام مال اسباب لے کے شہر سے نکل جائیں لیکن رچرڈ نے بدعہدی کی اور محصورین کو قتل کر دیا۔

عکہ کے بعد صلیبیوں نے فلسطین کی بندرگاہ عسقلان کا رخ کیا۔ عسقلان پہنچنے تک عیسائیوں کا سلطان کے ساتھ گیارہ بارہ بار مقابلہ ہوا سب سے اہم معرکہ ارسوف کا تھا۔ سلطان نے جوانمردی اور بہادری کی درخشندہ مثالیں پیش کیں لیکن چونکہ کسی بھی مسلمان حکومت بالخصوص خلیفہ بغداد کی طرف سے کوئی مدد نہ پہنچی۔ لہذا سلطان کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ واپسی پر سلطان نے عسقلان کا شہر خود ہی تباہ کر دیا۔ اور جب صلیبی وہاں پہنچے تو انہیں اینٹوں کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ اس دوران سلطان نے بیت المقدس کی حفاظت کی تیاریاں مکمل کیں کیونکہ اب صلیبیوں کا نشانہ بیت المقدس تھا۔ سلطان نے اپنی مختصر سی فوج کے ساتھ اس قدر عظیم لاؤ لشکر کا بڑی جرات اور حوصلہ سے مقابلہ کیا۔ جب فتح کی کوئی امید باقی نہ رہی تو صلیبیوں نے صلح کی درخواست کی۔ فریقین میں معاہدہ صلح ہوا۔ جس کی رو سے تیسری صلیبی جنگ کا خاتمہ ہوا۔ اس صلیبی جنگ میں سوائے عکہ شہر کے عیسائیوں کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا اور وہ ناکام واپس ہوئے۔ رچرڈ شیر دل ، سلطان کی فیاضی اور بہادری سے بہت متاثر ہوا جرمنی کا بادشاہ بھاگتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مرگیا اور تقریباً چھ لاکھ عیسائی ان جنگوں میں‌کام آئے۔

معاہدہ کے شرائط مندرجہ ذیل تھیں:

1۔ بیت المقدس بدستور مسلمانوں کے پاس رہے گا۔

2۔ ارسوف۔ حیفا۔ یافہ اور عکہ کے شہر صلیبیوں کے قبضہ میں چلے گئے

3۔ عسقلان آزاد علاقہ تسلیم کیا گیا۔

4۔ زائرین کو آمدورفت کی اجازت دی گئی۔

5۔ صلیب اعظم بدستور مسلمانوں کے قبضہ میں رہی ۔

چوتھی صلیبی جنگ

1195ء

ملک العادل کے ہاتھوں عیسائیوں نے عبرتناک شکستیں کھائیں اور جافہ کا شہر مسلمانوں کے قبضہ میں آگیا۔

پانچویں صلیبی جنگ

1203ء

اس جنگ کے دوران قسطنطنیہ کا شہر تباہ ہوا۔

چھٹی صلیبی جنگ

1227ء

پوپ انوسینٹ کے تحت اڑھائی لاکھ جرمنوں کی فوج شام کے ساحل پر حملہ آور ہوئی۔ عادل ایوبی نے دریائے نیل کا بند کاٹ کر ان کی راہ روکی۔ عیسائی مایوس ہو 1227ء میں واپس لوٹ گئے۔

ساتویں صلیبی جنگ

1227ء

کامل اور اس کے بھائیوں کے درمیان اختلاف کی بنا پر بیت المقدس کا شہر کامل نے صلیبیوں کے حوالے کر دیا۔ کامل کے جانشین صالح نے دوبارہ صلیبیوں سے چھین لیا اور اس پر بدستور مسلمانوں کا قبضہ رہا۔

آٹھویں صلیبی جنگ

1248ء

فرانس کے شہنشاہ لوئی نہم نے مصر پر حملہ کیا مگر صالح ایوبی کے ہاتھوں شکست کھائی اور فرار کی راہ اختیار کی۔

نویں صلیبی جنگ

ایڈروڈ اول شاہ انگلستان اور شاہ فرانس نے مل کر شام پر حملہ کیا اس جنگ کے نتیجہ کے طور پر شام و فلسطین سے صلیبیوں کا وجود ختم کر دیا گیا۔ صلیبیوں کے اندر مزید جنگ کا حوصلہ نہ رہا دوسری جانب مسلمان بدستور اپنے علاقوں کی حفاظت میں مستعد تھے۔ جب اس قدر طویل جنگوں کے خاتمہ کے بعد عیسائیوں کا سوائے تباہی اور شکست کے کچھ حاصل نہ ہوا تو ان کا جنگی جنون سرد پڑ گیا۔ اس طرح صلیبی جنگوں کا خاتمہ ہوگیا۔


نتائج

دو صدیوں پر محیط یہ صلیبی جنگیں جو مسلمانوں پر بے جا طور پر مسلط کی گئی تھیں۔ اپنے ساتھ تباہی و بربادی لے کر آئیں۔ یوں مذہبی جنونیوں نے دنیا کی ایک کثیر آبادی کو آہ فغاں اور اتھاہ اندھیروں میں دھکیل دیا۔

یہ جنگیں فلسطین پر قبضہ کرنے کی کوشش تھی لیکن مسلمانوں کا قبضہ بیت المقدس پر بدستور قائم رہا۔

عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان اجنبیت کی ایک مستقل دیوار جو آج تک ان دونوں مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان حائل ہے وہ ان صلیبی جنگوں کا ایک بنیادی نتیجہ ہے۔ اور آج فلسطین کی یہودی ریاست کا قیام اور نیو ورلڈ آڈر اسی کی ایک کڑی ہیں۔

یورپ کا جنگی جنون جب سرد پڑا تو انھیں کلیسا کے اثر روسوخ کا پتہ چلا یوں اصلاح کلیسا جیسی تحریکیں شروع ہوگئیں۔ تاکہ حکومت پر ان کا اثر رسوخ کم کیا جاسکے۔


جب یورپ کے غیر متمدن لوگوں کا واسطہ مسلمانوں سے پڑا تو ان کی علمی و تہذیبی ترقیاں دیکھ کر ان کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں اسلامی تمدن سے آشنا ہو کر ان کی ذہنی کیفیت میں انقلاب پیدا ہوا اور احیائے علوم کے لیے یورپ میں‌فضا سازگار ہو گئی۔

یورپ میں جاگیرداری نظام کا خاتمہ ہوگیا اور اس کی جگہ مستقل معاشی نظام رائج ہوا۔

اشیاء کے بدلے اشیا کی فروخت کی بجائے سکہ رائج کیاگیا۔ اس کے علاوہ صنعت و حرفت نے بھی یورپ میں ترقی کی۔ اور یورپ کا فن تعمیر بھی اسلامی فنی تعمیرات سے متاثر ہوا۔
 

اظہرالحق

محفلین
وہاب ۔ ۔ آپ کی محنت کی داد دیتا ہوں، آج کے جوانوں کے لئے کافی کچھ مل سکتا ہے صلیبی جنگوں کے مطالعے سے

کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی موجودہ عہد کی صلیبی جنگ کو سمجھے ۔ ۔۔۔

ایک سبق جو ان سے ملتا ہے وہ ہے وقت کا ، دو سو سال لگے ۔ ۔ ۔ اس فتنے کو ختم کرنے کو ۔۔ شاید اب بھی ایسا ہی ہو!!!
 

نبیل

تکنیکی معاون
اظہرالحق، ذرا غور کریں تو ایک اور سبق بھی ملتا ہے تاریخ کے مطالعے سے۔ جس چنگیز خان نے عالم اسلام کے بڑے حصے کو تاخت و تاراج کر دیا تھا اور کھوپڑیوں کے مینار بنائے تھے، بعد میں اس کی اولاد سے ہی مسلمان فاتحین نکلے تھے۔ اس موضوع پر ابھی تحقیق کی ضرورت ہے۔ بہرحال میرا تھیسس یہی ہے کہ موجودہ دنیائے اسلام اسی قابل ہے کہ اس کی جگہ کوئی اور قوم لے لے۔ اگر میری تھیوری ٹھیک ہے تو مستقبل کے اسلام کے نام لیوا آج کے چنگیزخانوں سے برآمد ہوں گے۔ کیسا۔۔
 

زیک

مسافر
یہ آپ لوگ کیا باتیں لے کر بیٹھ گئے؟ وہاب نے اتنی اچھی پوسٹ کی ہے اور آپ موجودہ حالات سے ہی ہٹ نہیں رہے۔

تلمیذ: میرا جی تو نہیں کر رہا کہ بش کا دفاع کروں مگر ہمارے ہاں crusade عام زبان میں صلیبی جنگ کے طور پر نہیں بلکہ ان معانی میں استعمال ہوتا ہے:

[align=left:a7d53e6138][eng:a7d53e6138]a remedial enterprise undertaken with zeal and enthusiasm[/eng:a7d53e6138][/align:a7d53e6138]
 

نبیل

تکنیکی معاون
زکریا، تاریخ کا مطالعہ پرانے واقعات کو دہرانے کا ہی نام نہیں ہے۔ حال کو تاریخ کے تناظر میں دیکھنا بھی تاریخ ہوتا ہے۔
 

زیک

مسافر
نبیل بات آپ کی صحیح ہے مگر عموماً دیکھا گیا ہے کہ موجودہ حالات پر تاریخ کے سبق لاگو کرنا آسان نہیں۔
 

تلمیذ

لائبریرین
زکریا نے کہا:
یہ آپ لوگ کیا باتیں لے کر بیٹھ گئے؟ وہاب نے اتنی اچھی پوسٹ کی ہے اور آپ موجودہ حالات سے ہی ہٹ نہیں رہے۔

تلمیذ: میرا جی تو نہیں کر رہا کہ بش کا دفاع کروں مگر ہمارے ہاں crusade عام زبان میں صلیبی جنگ کے طور پر نہیں بلکہ ان معانی میں استعمال ہوتا ہے:

[align=left:92a3267ddc][eng:92a3267ddc]a remedial enterprise undertaken with zeal and
enthusiasm[/eng:92a3267ddc][/align:92a3267ddc]

شکریہ زکریا ، یہ میرے علم میں اضافہ ہے ۔۔۔
 
جواب

میں نبیل کی بات کی تائید کروں‌ گا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مسلمان کو مکمل طور پر اس دور سے مایوس بھی نہیں‌ ہونا چاہیے۔ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔

ہے عیاں فتنہء تاتار کے افسانے سے
ٔپاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے​

باقی مضمون سراہنے کا شکریہ
 
بہت عمدہ چیز شامل کی ہے مگر اس پر کچھ اور تفصیل سے روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔

ایک بات تو طے ہے کہ قوم وہی حکومت کرتی ہے جس میں اعلی اقدار زندہ ہوں اور وہ بہتر اعمال کی پاسدار ہو۔

اسلام کی تاریخ دیکھیں تو بتدریج عربوں سے ایرانیوں ، پھر ترکوں کے ہاتھ میں خلافت چلی گئی اور آخر میں جب علمی اور اخلاقی طور پر بالکل پست ہوگئے تو حاکموں سے محکوموں کی قطار میں کھڑے کر دئیے گئے۔ عربوں میں تو شاید اب کچھ رہا ہی نہیں اور مستقبل قریب میں بھی ان سے کوئی امید نہیں۔ جنوبی ایشیا ، یورپ یا امریکہ میں مقیم مسلمانوں کی کاوشوں سے نشاط ثانیہ کی کوئی شکل بن سکے۔
 

ابوشامل

محفلین
اس مضمون کا ربط آج ملا اس لیے اس پر تبصرہ کر رہا ہے۔ یہ مضمون چند تبدیلیوں کے بعد وکیپیڈيا کے بہترین مضامین میں شامل ہو گیا ہے اس کا ربط درج ذیل ہے:
صلیبی جنگیں
واقعتاً وہاب بھائی نے اس پر بہت محنت کی تھی۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے۔
 

غازی عثمان

محفلین
صلیبی جنگوں نے یورپ پر بہت اثر چھوڑا اور اس نے جدیدیت کی راہ اختیار کی تھیوکریسی کا خاتمہ کیا ان جنگوں کی وجہ سے ہی پروٹیسٹینٹ فرقہ بنا جس کی قیادت مارٹن لوتھر نے کی،
دوسری بات کہ جو قوم اسلام کا پرچم بلندکرتی ہے اسی کی “باری“ آتی ہے اسی بنیاد پر پہلی عربوں کی پھر ایرانیوں پھر کردوں کی پھر ترکوں کی باری آئی، اس بار معاملہ کچھ مختلف لگتا ہے، کیونکہ دنیا سکڑ گئ ہے اور پرچم بلند کرنے کی تحریکیں بھی ہمہ گیر ہیں‌ دنیا بھر میں زور پکڑ رہیں ہیں لگتا ہے نشاۃسانیہ ہمہ گیر ہوگی (‌ ہوگی یا نہ ہوگی کی بحث ہی نہیں‌ یہ تو ایمان ہے کہ یقینا ہوگی )

میری دعا بھی یہ ہے کہ ہمہ گیر اسلامی انقلاب آئے آمین۔
 
Top