صلصلۃ الجرس۔ عمیق حنفی

الف عین

لائبریرین
ہزار پارہ ہے کاسۂ سر، شگاف سے مغز بہہ رہا ہے
نہ مُردوں میں ہے نہ زندوں میں ہے
دعائیں مرنے کی مانگتے ہیں
کھڑا ہوا ہے فرشتۂ موت سامنے پھر بھی مرنا مشکل

درختِ زقّوم سے غذائیں گناہ گاروں کو مل رہی ہیں
درختِ زقّوم، آگ سے جو اُگا ہوا ہے
گناہ سے جیسے اس کی لذّت کا سبزپودا اُگا ہوا ہو
غذا یہ ان کے بطون میں پگھلے تانبے جیسی ابل رہی ہے
مریض اونٹوں کی پیاس!
درختِ زقّوم کی غذا کھا کے پی رہے ہیں ابلتا پانی
درختِ زقّوم نفسِ امّارہ سے اُگا ہے
تہہِ جہنم جڑیں ہیں اس کی
کہ نفس، امّارہ کا جہنم ہے استعارہ

ہمارے اندر جو کالی آواز گاہے گاہے پکارتی ہے
درِ جہنم کی چرچراہٹ سے اپنا لہجہ سنوارتی ہے ۹۵۹
 

الف عین

لائبریرین
کھول دی ہے پیشانی پر سجدوں نے تیری آنکھ​

پار افق کے بے پتلی بے دیدہ دیکھتی آنکھ
اشکِ ندامت صاف چمکتے پانی کی اک جھیل
چادرِ آب پہ کہرا کہرا باغ کا عکسِ جمیل
شعلہ شعلہ ریت کے بیچ میں، جھیل جھیل میں باغ
ایسا عجیب کہ جس کا تصور کر نہ سکیں دل اور دماغ
ٹھنڈے ٹھنڈے سائے کا ہے سبزہ سبزہ فرش
پتّی پتّی کلی کلی آئینۂ حسنِ عرش
گاتی خوشبو، ناچتے رنگ
مطرب پیڑ اور شاخیں چنگ
پھیلا ہوا حدِّ خیال کے آگے تک چمنِ لذات
پھر بھی وہم و گماں شہوات
بار آور شاخیں جیسے سجدے میں سرِ تسلیم
ایک طرف کوثر کی موجیں، ایک طرف تسنیم
جوئے شہد و شیر میں رقصاں نور
چشموں میں پگھلا کافور
پیمانوں میں زنجبیل اور طشتِ زر میں کباب
جتنے جسم ہیں سر تا سر ہیں پیکرِ حسن و شباب
عیش، سکینت، چین، آرام کے ہیں پیغام النّاس
رنج و خوف و فکر نہ پاس نہ شک نہ کوئ وسواس
قربِ خوباں کا ہر لمحہ سدا مہکتا پھول
پر نہیں مارتا بیچ میں کوئ حرفِ فضول
پھیلا ہوا ہے سینکڑوں کوسوں تک ہر ایک مکان
اپنے آپ میں ایک جہان
ایک دیوار سے دوسری تک جب دوڑے کوئ رہوار
تو چالیس دنوں میں پہنچے گر ہو بجلی کی رفتار
چاند ستاروں کے نغمے کے دودھ کی گنگا کاہکشاں
آئینہ چشموں کا ترنم، لحنِ طیور کی جوئے رواں
آگ کے گھر میں آب ہے اور ہے آب کے گھر میں آگ
تاریکی بھی رنگ سہانا، خاموشی بھی راگ
پلکوں پر خوابوں کی بجائے دھنک رنگ تعبیر
آرزوئیں تصویرِ حقیقت، اور دعا تاثیر
پھول ہیں رنگ و بو کے کٹورے جن کی ہے میخوار ہوا
لطفِ سکوں ہر موجِ ہوا کے بوسے کی ہے عطا
کامل اطمینان میں ڈوبے ہوئے ہیں پانچ حواس
قربِ خدا کا ہر حس کرتی ہے تازہ احساس
عرشِ مبیں کی راہ میں جگ مگ قدموں کے وہ نشان
جن کو رگِ جاں پر پا کر تھے دیدہ و دل حیران ۹۹۷
 

الف عین

لائبریرین
پہاڑوں سے پیامِ حق سنایا تین نبیوں نے
مگر ان کی صدائیں خشک صحراؤں نے پی ڈالیں
صفا سے جو صدا آئ وہ چٹانوں سے ٹکرائ
پلٹ کر آئ تو سنگِ ملامت ساتھ میں لائ
نہ مانے اہلِ مکہ کے عمائد بات ایماں کی
بہت کج بحثیاں کرتے رہے، لکھتے رہے ہجویں
کیا شعبِ ابی طالب میں کھانا بند پانی بند
قیامت کے بیانوں پر کسے فقرے، ملامت کی
قیامت کلمہ گویوں پر مگر سو سو طرح ڈھائی
لٹایا ریت پر ان کو، تو برسائے کبھی پتھر
درختوں سے کبھی باندھا، کبھی شاخوں پہ لٹکایا
غیض وہ کون سا ایسا ستم ہے، جو نہیں ڈھایا
بتانِ کعبہ ابراہیمؑ کے مکے میں بیٹھے ہیں
مگر کرتے ہیں مکّہ ترک ابراہیم کے پیرو ۱۰۱۱
 

الف عین

لائبریرین
شہر مکّہ ایک وادٍ غیر ذی زرعٍ یہاں

تخمِ ایماں سے کوئ انکھوا نہ پھوٹے گا ابھی
اور تپنا ہے ابھی اس خاک کو
اور ابھی رونا ہے مردہ خاک پر افلاک کو
کاشت کے قابل ابھی بننا ہے ان قطعات کو
تب یہاں ایمان کی کھیتی ہری ہو گی

حکمِ ربّی ہے کہ اپنے بد نصیب آباء کا شہر
جس کو ہونا ہے کبھی بلد الامین
شہرِ مکہ چھوڑ کر یثرب چلیں

جس جگہ سچ بولنا بھی جرم ہو
اور سچّی بات کا سننا گناہ
جس جگہ کے لوگ اڑائیں کلمۂ حق کی ہنسی
آدمی کو ریت کی بھٹی کا جو ایندھن بنائیں
تختۂ مشقِ ستم ہوں جن کی نخوت کے یتیم
سود میں بیواؤں سے کالی کھجوریں چھین لیں ۱۰۲۶
 

الف عین

لائبریرین
شہر گونگا بہرا اندھا ہو گیا ہے
پھر بھی اپنے اقتدارِ اعلیٰ پر اس کا غرور
ظلم کی حد سے تجاوز کر چکا ہے

شہرِ مکہ مرکزِ دینِ مبیں
ہاں مگر یہ اہلِ ایماں کے ابھی قابل نہیں
چل بھی اے جدعا یہاں سے جلد چل

بیعتِ عقبہ نے سایہ کر دیا ہے راہ پر
ہو گئے صدیقِ اکبرؓ ہم سفر
چھوڑ کر چپ چاپ اک شب اپنے گھر
چل پڑے دونوں یمن کی راہ پر
ثور نامی غار میں چھپ کر گزارے تین دن
غار کے اطراف عامر بن فہیرہ بکریاں اپنی چراتے
بھون لاتے گوشت تازہ، دودھ بھی لا کر پلاتے
اور ان ’اگیات واسی‘ مالکوں کے واسطے پانی بھی لاتے

جب محمدؐ کو نہ پایا بوکھلا اٹھّے قریش
ہر طرف دوڑا دئے شمشیر زن
اک قریشی نو جواں آیا دہانِ ثور تک
دیکھتا کیا ہے
غار کے منہ پر ہے اک موٹا درخت
جس کی شاخیں ڈھانپ کر سکرا دہانہ غار کا
جا بجا پھیلی ہوئ ہیں
سر بسر سر پوش
غار کے منہ پر ہے بیت العنکبوت
جو محمدؐ کی ولادت سے بہت پہلے کا ہو گا
اور دو جنگلی کبوتر
آشیانے میں ہیں جن کے انڈے بھی ہیں ان کے ساتھ
غار کے اندر بچھی ہے خشک گھاس
مطمئن، مایوس لوٹا وہ قریشی نو جواں
جب پریشاں سے نظر آئے رفیقِ غار تو بولے رسولؐ
دو نہیں ہم، تیسرا بھی ہے ہمارے ساتھ
پاسباں کون و مکاں کا وہ ہمارا رہنما
وہ محرک ہے سفر کا، اور وہی ہے مدّعا ۱۰۵۸
 

الف عین

لائبریرین
اللہ کا وہ عبد کہ ہے قرّۃ العین​
وہ مجمعِ اوصاف، وہ مرجُ البحرین
خاتِم بھی وہی اور وہی خاتَم بھی
ہیں بوسہ زنِ مہرِ رسالت قطبین

سو شمسوں کا اک شمس، ضیا بار یہ مُہر
کونین کا اک نقشِ پُر اسرار یہ مُہر
منجملۂ اوصاف و روایاتِ رسل
اک بارِ امانت کی نشاں دار یہ مُہر

ہر چند کہ ہے شخصیتِ لا ثانی
تقویمِ بدن سر تا پا انسانی
البتّہ یہ پتلیوں میں سورج پا کر
ہوتا ہے گمانِ پیکرِ نورانی

سنجیدہ و با وقار انداز کا رعب
مردانہ و پاٹ دار آواز کا رعب
انجام دکھا دیتا ہے آئینے میں
ہر کلمۂ شایستۂ آغاز کا رعب

معقولیت و نرمیِ گفتارِ رسولؐ
آتا ہی نہیں لب پہ کبھی حرفِ فضول
کونین کے دامن میں بکھر جاتے ہیں
تاروں سے چمکتے ہوئے الفاظ کے پھول

پیشانی کشادہ ہے کتابِ انوار
گنجان بھی، باریک بھی، ابرو خمدار
اللہ کا جیسے ہو الف لکھّا ہوا
دو ابروؤں کے بیچ میں اک رگ کا ابھار

پلکیں ہیں دراز اور ہیں آنکھیں کالی
آنکھوں کے حواشی میں ہے چھٹکی لالی
گوشے سے نگاہوں کا وہ اٹھنا چپ چاپ
صہبائے حیا جیوں ہو چھلکنے والی

رخ گول، مگر دائرے میں آ نہ سکے
چوکور جسے فریم میں بٹھلا نہ سکے
چہرے کی وہ ساخت کہ اقلیدس چپ
صورت وہ خط و رنگ جسے پا نہ سکے ۱۰۹۰
 

الف عین

لائبریرین
وہ گندمی رنگت ہے سفیدی مائل
کچھ ورثے میں، کچھ تقوے سے کی ہے حاصل
یہ رنگ ہے صحرا کی شبِ ماہ کا رنگ
جس میں ہیں کڑی دھوپ کے اجزا شامل

چاندی سے ڈھلا جسم تناسب کا کمال
؂یا احسنِ تقویم میں ڈھلنے کی مثال
اس شخصیتِ یکتا میں دو پہلوئے حسن
وہ ماہِ جمال اور وہی مہرِ جلال

ہیں انگلیاں لمبی تو کلائ بھی دراز
وسعت میں ہتھیلی کی سخاوت کے جہاز
جو ان کی ہتھیلی سے ہوئ ہے منصوب
وہ نرمی نہ ریشم میں ، نہ مخمل میں گداز

قامت ہے میانہ تو گٹھیلا ہے بدن
گیسو ہیں کہ انگور کی بیلوں کا چمن
چوڑا ہے بہت سینہ، دہن بھی ہے فراغ
ال پتلی صراحی سی ہے لمبی گردن


چلنے میں ہے آگے کی طرف تھوڑا جھکاؤ
رفتار گھٹاتا نہیں، قدموں کا جماؤ
چلتے ہیں تو قدموں سے لپٹتی ہے زمین
للہ قدم سینے سے میرے نہ ہٹاؤ

کرتی ہے صداقت کو اُجاگر تنویر
اس طور سے بڑھ کر ہے یہ سیرت دلگیر
کھینچے ہوئے اک ہالہ ہے تاریخ کی دھوپ
ہیں آپ حقیقت کی مجسم تصویر ۱۱۱۴
 

الف عین

لائبریرین
دائرہ در دائرہ کون و مکاں کے اصل مرکز کی طرف
یگنیہ کنڈوں سے اشارہ کرتے
منتر میں ڈوبے ہوئے سر مست شعلوں کا جلال

جو کبھی بجھتی نہیں، اس آگ کی
زعفرانی روشنی کا
مغ بچوں کی صندلی پیشانیوں ہر
جال پھیلاتا جمال

نغمۂ داؤد کی ایمان پرور روشنی
طور کو سرمہ بنانے والا نور
جیوتی بیج اس خون کے قطرے
وہ صلیبِ خشک سے ٹپکے تو پائ
بانجھ نے اولاد
کان بہروں نے
اور نا بیناؤں نے بینائ
سینکڑوں سورج ہزاروں چاند
ہر تپوون، ہر گپھا، ہر دشت و صحرا کے الاؤ
ان گنت پیغمبروں کی صورت و سیرت کی آب و تاب کا یکجا رچاؤ

ایک مرکز پر حقیقت اور اس کی ہر مثال
روشنی سے روشنی محوِ وصال
کیا زمیں کیا آسماں کی روشنی
اِس جہاں اور اُس جہاں کی روشنی
ایک پیکر، ائک صورت بن گئی
شمعِ وحدت بن گئ
آیۂ ختمِ رسالت بن گئ ۱۱۳۹
 

الف عین

لائبریرین
ایک دن حضرتِ علی نے کہا
کیا ہے سرکار سنّتِ اکبر
تب ہوئے گویا یوں رسول اللہؐ
اے مرے عم زاد، جانِ جگر
معرفت ہے مری عطائے عزیز
عقل ہے میرے دین کا جوہر
عشق۔۔ بنیاد میرے مذہب کی
مرکب شوق پر ہے میرا سفر
میرا مخزن ہے اعتماد مرا
حزن۔۔ میرا رفیقِ شام و سحر
علم۔۔ تیر و تبر ہے میرے لئے
مجھ کو ڈھانپے ہے صبر کی چادر
ہے غنیمت کا مال میری رضا
فخر ہے مجھ کو فقر و فاقے پر
زہد۔ حرفت، یقین۔۔ قوت ہے
میرا احساب۔۔ طاعتِ اطہر
خُلق میرا جہاد اور نماز
قرّۃ العین، جانِ قلب و جگر ۱۱۵۷
 

الف عین

لائبریرین
اہلِ مکہ کے ستم کی بھٹیوں کے تیز شعلوں میں
ضبط کا لوہا بنا فولاد
ضبر کے سندان پر
بن گیا فولاد سیف
اور پھر یہ ذو الفقار
دم بہ دم کرتی رہی دو لخت
بدر کے میدان میں اہلِ ستم کی ریڑھ کا ہر جوڑ

سامنے جیش القریش
اک ہزار
بالمقابل تین سو افراد!

خیمۂ سالارِ یثرب
یعنی سبز و زرد پتّے پتّیوں کا جھونپڑا!
کہہ رہا ہے ظلم سہنے والوں کا سالار:
’’اے ابی بکرؓ اب نہ سوچو، فکر چھوڑو
خواب میں دیکھی ہے میں نے
حضرتِ جبریل کے دستِ مبارک میں
ایک گھوڑے کی لگام
جس کے نتھنوں پر جمی ہے دن کی تازہ دھول‘‘ ۱۱۷۵

جیشِ مکّہ کا یہ اک جاسوس
کہہ رہا ہے رعشہ بر آواز
تین سو ہیں یوں محمدؐ کے رفیق
لیکن ان کے ساتھ
قافلے یثرب کے، جن پر ہے لدا اسبابِ موت

وہ کھجوری جھونپڑی سے تیر کی مانند نکلا
حوصلہ، ہمت، یقین، ایمان کا پیغامبر
چند کنکریاں اٹھائیں
دشمنوں کی فوج پر پھینکیں
اور بولا:
’’اے پریشاں خاطری، اے ابری، اے انتشار
اس ہجومِ جاہلاں کا کر شکار

چل پڑی اک کالی آندھی
جھکّڑوں میں تیرتے ہیں اجلے شملے
ان گنت جگ مگ فرشتوں کے عماموں کے
صف بہ صف ہے گرد باد
یا خدائ فوج
اور یہ طوفانِ برق و باد
تیز بارش
یہ بشر، خیر البشر، منذر، مبشر اور بشیر
کوئی جادوگر نہیں،کاہن نہیں، ساحر نہیں
ایک باغی جو خدایانِ عرب کے چہروں سے جھوٹے ملمع کو کھُرچنے پر مُصر
ضد، جہالت، بربریّت کے خلاف
اک صدائے احتجاج
ایک غصّہ ولولہ سرکش امنگ
تنگ آمد ہر کسے آمد بجنگ
امرِ ربّی نے رکھی ہے تھام
اسپِ قوّت کی لگام!!

دیکھ کر اپنے مقابل
حوصلہ، ہمّت، یقین
اعتماد، ایمان
موت سے آنکھیں ملانے کی تمنّاؤں کا اک طوفان
خوف کے مارے قریشی فوج کی ہے ضیق کے عالم میں جان
ہوش گُم، بھولے ہوئے ہیں فنِّ حرب
جوڑتے ہیں تو لگا جاتے ہیں ضرب
نور کے سیلاب میں
ڈوبتے جاتے ہیں ظلمت کے جزیرے ۱۲۱۲
 

الف عین

لائبریرین
صدائے بوق اور ناقوس کی آواز کے ہمراہ​
یہ کیسی رعب دار آواز پھیلی ہے فضاؤں میں
نیا دلکش بلاوا لے کے آوازِ بلالؓ آئ
کشش ایسی کہاں ہے مردہ دھاتوں کی صداؤں میں
جب آتی ہے تو تو تن من پران کی جگ موہنی بن کر
عقیدے ہی عقیدت تیر جاتی ہے ہواؤں میں
نوا۔۔ یہ ان نواؤں میں سے ہے جو جان و دل چھو لیں
لپکتا شعلۂ سوزِ دروں ہے جن نواؤں میں
ہمیشہ درس تعلیم و رضا کا دیتی رہتی ہے
یقیں کی گونج بھر دیتی ہے روز و شب خلاؤں میں
سویرے نیند کی شبنم ڈھلک جاتی ہے پلکوں پر
گھٹن محسوس دل کرتا ہے خوابوں کی رِداؤں میں
اذاں دو پہر میں ہر محویت کو چیر جاتی ہے
کہ وہ بھی چونک اٹھیں جو گُم ہیں دنیا کی اداؤں میں
اسی نے ڈوبتے سورج سے کی شمعِ یقیں روشن
یہی ابھری رہی ہے ڈوبنے والی صداؤں میں
اندھیرے میں کڑکتی برق کی مانند کوندی ہے
لکھا اللہ اکبر نور سے تیرہ فضاؤں میں
ہوائیں شانتی کے منتر سن کو جھوم اٹھتی ہیں
تڑپ اٹھتی ہیں بھکتی کی کئی لہریں دِشاؤں میں
جبیں پر ذوقِ سجدہ دستکیں دیتا ہے رہ رہ کر
گنہگاروں کو لاتی ہیں اذانیں پارساؤں میں ۱۲۳۴
 

الف عین

لائبریرین
دو ہزار اسلامیاں

آگے آگے ناقۂ قصوا پہ میرِ کارواں
چل پڑے کعبے کے عمرے کے لئے
موجزن سینے میں بیت اللہ کا ذوقِ طواف
اور س مولود کی یاد

عمرے کے شیدائیوں میں فاتحوں کی شان
شہرِ مکّہ کے قریشوں کے دِلوں میں خوف سے ہیجان
دیکھ کر ایمان کی چڑھتی ہوئ امواج
عشق کا جوش و خروش
نور کی افواج
کفر ہے رو پوش
بت ہیں بے یار و مدد گار اڑ گئے ہیں کاہنوں کے ہوش
نعرۂ لبٓیک سے لرزاں خدایانِ قریش

اہلِ مکہ کے تحیّر کی کوئ حد ہی نہیں
دو ہزار اعراب کا یہ اجتماع
نے غنائے رقص، نے مے، نے زنا
ذوق و شوق و عیش کی کوئ شے نہیں
کعبہ عمرہ سنگ اسود کا طواف
جانی پہچانی رسوم اور جانے پہچانے رواج
ہر پرانی شے نئے مفہوم سے معمور
قوّتیں جو تھیں بتانِ کعبہ سے منسوب، سب کافور

دور آتی ہے نظر رہوارِ مستقبل کی ٹاپوں کی اُڑائ خاک
فرشِ راہِ افلاک
آئینۂ ادراک ۱۲۵۹
 

الف عین

لائبریرین
کہہ رہا ہے خدا

دیکھنا چاہتے ہو ہمارے نشاں
دیکھ لو
بادلوں سے برستا ہے آبِ حیات
سانس لیتی ہے پھر
قحط خوردہ و مُردہ زمیں
رحمتوں نعمتوں برکتوں کے کئ خواب لادے ہوئے
از کراں تا کراں کے ممالک کا سباب لادے ہوئے
پانیوں ہر چلاتے ہیں سِل کوہ پیما جہاز
سینۂ بحر اپنے خزانوں کے منھ کھول کر
غوطہ خوروں کو تقسیم کرتے ہیں گوہر
وسعتوں میں زمیں کی ہیں پھیلے ہوئے
کتنے انواع و اقسام کے جان دار
رُخ بدلتی ہواؤں کی موجیں
درمیاں آسماں ور زمیں کے
مسخر سحابوں کا دل کش سماں
عقل والو یہ سب کتنے روشن نشاں
ہم ہی تو رات کی کوکھ سے کھینچ لیتے ہیں دِن
ہم نے طے کر دی ہیں چاند کی منزلیں
پھانک سے اس کا بن جانا پھل
اور گھٹنا تو رہ جانا اک منحنی ٹیڑھی میڑھی سی شاخ

دیگر الفاظ میں
مردِ حق آشنا
ناپ لے آسماںچھان لے یہ زمیں
دل میں روشن رہے شمعِ علم الیقین

کھال اپنی ادھیڑ
جسم کا گوشت چھیل
ہڈیوں کی سرنگوں میں گھوم
روح کے ہونٹ چوم
اپنے اندر کی دنیا کا بن سند باد
اپنے باہر کی دنیا میں کر اجتہاد ۱۲۹۱
 

الف عین

لائبریرین
کعبۃ الکونین

کیا یہی وہ لوگ ہیں؟
تیرا دامن ہو گیا تھا جن پہ تنگ

قبلۃ الکونین
کیا یہی ہیں وہ غریبان الوطن
جو تری سچی محبت کے لئے برداشت کر کے آئے ہیں صدماتٕ ہجر

مسجد الشٓرفین
ہیں انہیں پیشانیوں پر وہ سجود
جو ہوئے تھے تیری مٹی سے طلوع

معبد الغربین
یہ وہی دل ہیں جنہوں نے گُل نہیں ہونے دئے
تیری بے پایاں عقیدت کے دئے

مرجع القطبین
تو انہیں پہچان لے
دور رہ کر بھی رہے قبلہ نما

اے مکانِ لا مکاں
لوٹ آئے تیرے بچھڑے کارواں
تیرے شیدائ عرب کے گوشے گوشے سے کھنچ آئے

رحمۃ اللعالمینؐ
آئے ہیں کرنے ادا حجّ الوداع
آج ہونے والی ہے تکمیلِ دین

یاد گارِ دینِ ابراہیمؑ
دیکھ پھر ہے آتشِ نمرود سرد
سارے غیر اللہ گرد

دیکھ یہ عرفات کا میدان
اپنی قصوا پہ سوار
خطبہ فرما ہیں رسولؐ

’’اے مری امت کے لوگو!
غور سے سن لو کہ میرا آخری خطبہ ہے یہ
اب نہ آئندہ برس آئے گی ملنے کی گھڑی
تم گواہ
اور میرا رب گواہ
میں نے اپنا فرض پورا کر دیا

ہاں یہ سچ ہے ختم شیطاں کی عبادت کا رواج
لیکن اکثر صرف اطاعت سے بھی خوش ہو جاتا ہے اس کا مزاج
اس لئے وسواسِ شیطانی سے رکھو دور دینی کام کاج

تم سبھی ہو امّتی
ہے اخوّت لازمی
تا قیامت جان و مال اک دوسرے کا ہے حرام اک دوسرے پر

روزِ اوّل
جب خدائے عزّ و جل نے یہ زمین و آسماں پیدا کئے
وقت اسی نقطے پہ واپس آ گیا ہے

(وہ عناصر کی نمو کا وقت تھا
جب ملا تھا مادّے کو حکمِ اظہارِ وجود
آج ہے رازِ ازل احیائے ایماں کے لئے)

ہاں گرہ میں باندھ لو
چھوڑ کر جاتا ہوں دو اسناد
ایک قرآنِ حکیم اور دوسری سنّت

تم اگر ان کی ہدایت پر رہے ثابت قدم
تو نہ کھاؤ گے کبھی ٹھوکر
دونوں دنیاؤں میں ہو گے اور رہو گے سرخ رو‘‘

یہ مقامِ صخّرات
یہ نزول آیۂ تکمیلِ دیں
(جھومتا ہے آسماں اور وجد کرتی ہے زمیں)

’’دین اکمل کر دیا
اتمامِ نعمت کر دیا
اسلام تم سب کے لئے ہم نے کیا ہے انتخاب‘‘ ۱۳۴۸
 

الف عین

لائبریرین
بہت تیز شعلے بھڑکنے لگے ہیں
شبِ ظلم کی طرح فتنے امڈتے چلے آ رہے ہیں
’’خدا کی قسم
تمسّک نہ کرنا کسی اور شے سے
سوا میرے فرمان کے
خدا کی قسم میں نے جو کچھ کیا ہے حلال
وہ قرآن ہی کے مطابق کیا ہے
نہیں حکمِ ربّی و حکمِ رسالت میں کوئ تضاد
وہ قومیں جو نبیوں کی قبروں کو مسجود ٹھہرائیں
ملعون ہیں‘‘

یہ الفاظ ہیں اس نبی کے
جو ختم الرسل ہے
نہ جس نے خدائ کا دعویٰ کیا
نہ جس نے حلولِ خدا کا فسانہ کہا
نہ جس نے کہا "میں مشکّل خدا یا مجسّم خدا زادہ ہوں"
جو خیر البشر تھا مگر تا بہ آخر بشر ہی رہا

محمدؐ کی سورت ہے قرآن میں:
’’کہ (اے اس کی امت کے لوگو)
کرو صرف الہ کی راہ میں جو بھی کچھ ہے تمہارا
مگر تم میں سے کچھ بخیل
خسارے میں اپنی ہی روحوں کو ڈالے چلے جا رہے ہیں
غنی صرف اللہ ہے اور ہم سب فقیر
اگر تم پلٹ جاؤ گے تو خدا دوسری قوم کو بخش دے گا تمہارا مقام
مگر دوسری قوم تم سی نہ ہو گی‘‘

’’مرے دل کبھی بھولنا مت تباہیِ قومِ ثمود
ہمیشہ رہے یاد بربادیِ قومِ عاد
رہے یاد حشرِ گو سالہ پرستانِ قومِ یہود ۱۳۷۵
 

الف عین

لائبریرین
ہزاروں گھنٹیوں کی گونج میں لپٹی ہوئی آواز آتی ہے
’’خدیجہ ختم عہدِ نوم و راحت
مجھے دنیا کو دینا ہے یہ دعوت
کرو معبود واحد کی عبادت‘‘

زمانے کی رِدائیں چیر کر آواز آئ
محمدؐ کی عبادت کرنے والوں کو خبر ہو
محمدؐ جا چکے ہیں
خدا کی جو عبادت کرنے والے ہیں، انہیں معلوم ہو
خدائے لا یموت و حی و قیّوم"

غبار و گرد کے پردوں سے اک آواز آتی ہے
’’مرے ابّی کی بوئے قبر آ جائے میسر جس کسی کو
زمانے میں کوئ خوشبو پسند اس کو نہ آئے گی
مقدّر نے جدائ کا جو صدمہ مجھ کو دے ڈالا
دنوں کو جھیلنا پڑتا یہ صدمہ تو یقیناً
شبِ تاریک میں تبدیل ہو جاتے ابد تک‘‘ ۱۳۹۰

کھنکتی گھنٹیوں کی نقرئ آواز کے گھیرے
سماوی سرمدی آواز کے گھیرے
غبار و گرد کا کہرا ہٹائے جا رہے ہیں
فضائیں اس مزمّل کی صدا کے دائرے میں رقص کرتی ہیں
جو استغراق کے عالم کا گرویدہ رہا ہے
کئ راتیں گزاریں جس نے اپنی سرخ آنکھوں میں
کہ آدم زادگاں کفر و جہالت کی سیاہی چیر کر ابھریں
کہ اس کے نام لیواؤں کی آنکھوں کو ملے خوابوں کی جنّت
جو پتھر پیٹ پر باندھے ہوئے پھرتا رہا
کہ اس کے کلمہ گویوں کو غذائے جسم و جاں آئے میسر ۱۴۰۰
 

الف عین

لائبریرین
نہ کچھ بعدِ مکانی ہے
نہ کچھ فصلِ مکانی ہے
سفر آرام دہ آسان راہیں ہیں
سفر کا منتہا گم ہے
نسافر کو ملی زائد بگاہیں ہیں
مگر قبلہ نما گم ہے
بلا رفتار پہیے گھومتے ہیں
عطائے صنعتِ امروز فرصت اور فراغت
مگر بے چین ہیں ارصاب، دم ہیں بے سکینۃ

مرے احساس کے صحرا میں فکرِ نجد پیمانے
یقیں کا سبزہ زار و لیلیِ ایماں کی خیمہ گاہ آخر ڈھونڈھ لی ہے
تصوّر وادیِ بے آبم، جس میں ریت کے تودے ہی تودے
مؤذّن بن گئے ہیں عوسجِ افکار کے پودے
تو نخلستانِ ماضی کی اذاں میرے وجودِ کل سے ٹکرا کر
مرے اندر بکھرتی ہے
ادھڑتی جا رہی ہے کائ چودہ صدیوں کے پانی کی چادر پر
نئے پَر آ گئے ہیں پھر یقیں کے طائرِ قبلہ نما پر ۱۴۱۷

کتاب و سیرت و سنت کے پردوں سے مجھے آواز دیتا ہے
مہ مومنؐ، مستقیمؐ و مستطاب و صاحبِ تقویٰؐ
وہ مسلمؐ، صاحبِ قوّت، اولو العزم و جواں ہمت
وہ محسنؐ، صاحبِ درد و کریم النفسؐ و عالی ظرفؐ
حرائے دل میں غرقِ فکر ہے کوئی مدثّرؐ
مرے احساس کے یثرب میں ہے کوئی مہاجرؐ
نقوشِ پائے جدعا اور قصوا سے رگِ جاں میں چراغاں
مرے باطن کے کعبے میں ہے کوئ فاتحِ مکّہؐ، مبشّرؐ

فضا میں اڑ رہی ہے روشنی دھنکی ہوئی سی
ہزاروں گھنٹیوں کی گونج سے پیدا صداؤں کے بھنور
صداؤں کے بھنور کے قلبِ محزوں میں
طمانیّت، سکینت، شاد مانی کا بسیرا
پسِ حزن و ملال و اضطراب اک انقلاب
بکھرتے ٹکڑے میرے خاکداں کے ایک ہوتے جا رہے ہیں
قدم جمتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں
مرے قدموں کے نیچے پھر زمیں بچھنے لگی ہے
مرے سر پر کھُلا پھیلا ہوا اک آسماں لحسوس ہوتا ہے

مصائب کے سمندر سے کہاں سے ڈھونڈھ لایا دل
ستارہ، بادباں، پتوار، کشتی، ناخدا، ساحل
وہی قبلہ نما ، ایمان محکم، ہستیِ کامل
مبارک دم قدم سے جس کے حق آیا، گیا باطل
 

الف عین

لائبریرین
جہانِ جاں سے غیر اللہ کا ڈر دور ہوتا ہے
روانی اور حرارت سے لہو معمور ہوتا ہے
سفر آمادہ پھر میرا دلِ معذور ہوتا ہے

مرے احساس میں اک روشنی سی پھیل جاتی ہے
سکوتِ موت پر اک نغمگی سی پھیل جاتی ہے
کھنکتی گھنٹیوں کی نقرئی آواز آتی ہے ۱۴۴۳

لِیَخرَجَ الَّذِینَ آٰمَنُوا عَمِلُو الصَّالحِٰتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ اِلَی النُّور
 

الف عین

لائبریرین
حواشی​

عنوانِ نظم: مشکوٰاۃ۔ حارث بن ہشام کے پوچھنے پر کہ وحی کیسے آتی ہے، رسول اللہؐ نے فرمایا
اَحیَاناً یٓاتِینِی مِثلَ صَلصَلَۃُ الجَرَس
۳۱۱ تا ۳۱۵: قرآن: ۲۹: ۴۸
۳۲۶ تا ۳۲۷: قصیدہ بردہ از امام بوصیریؒ
کَالشَمسِ تَظہَرُ لِلعِینُ مِن بُعدٍ
صَفِیرۃً وَ لِکُلِّ الظّرَفَ مِن اُمَمٍ
۵۸۳ تا ۵۸۷: قرآن: ۹۶: ۱ تا ۵
۶۲۸ تا ۶۲۹: قرآن ۷۴: ۱ تا ۳
۶۳۰ تا ۷۱۲: مشکوٰۃ، سیرۃ ہشام
۷۰۰ تا ۷۰۱: قرآن ۱۷: ۵۳
۷۱۳ تا ۷۲۶: قرآن ۴۱:۴۱۔۴۲، ۴۴: ۱۸ تا ۲۲، ۷:۵۹
۸۰۴ تا ۸۱۱: قرآن ۲۳:۲۵
۸۱۲ تا ۸۲۱: امام غزالیؒ
۸۸۲ تا ۸۸۷: قرآن ۱۱۱: ۱ تا ۵
۸۸۷ تا ۹۹۷: قرآن، مشکوٰۃ، انجیل، دانتے، ملٹن
۱۱۴۴ تا ۱۱۶۱: المعرفت راس المالی والعقل اصل دینی
والحب اساسی والشوق مرکبی
وذکر اللہ انیسی والثقتہ کنزی
والحزن رفیقی والعلم سلاحی
وابصر ردانی والرضا غنیمتی
والفقر فخری والزہد حرفتی
والیقین قوتی والصدق شفیعی
والطاعۃ حسبی والجہاد خلقی
وقرۃ عینی فی الصلوٰاۃ
۱۲۶۰ تا ۱۲۸۰: قرآن ۲:۱۶۴، ۳:۱۹، ۱۲:۱۷ ، ۴۶:۳۰، ۳۱:۳۱، ۲: ۲۰ تا ۲۳، ۴۱: ۳۹۔۴۰
۱۳۴۶ تا ۱۳۴۸: قرآن ۳:۵
۱۳۴۹ تا ۱۳۵۸: حدیث
۱۳۶۶ تا ۱۳۷۲: قرآن ۳۸:۴۷
۱۳۷۷ تا ۱۳۷۹: حدیث
۱۳۸۱ تا ۱۳۸۴: صدیق اکبرؓ
۱۳۸۴ تا ۱۳۹۰: فاطمۃ الزہرا
نظم کے مصرعوں کی تعداد ۱۴۴۳ ہے، یہ تعداد اس رعایت سے کہ امسال ۱۳۹۰ھ میں جب یہ نظم پایۂ تکمیل کو پہنچی، قمری حساب سے ۱۴۴۳ میلادی چل رہا ہے
 
Top