صلصلۃ الجرس۔ عمیق حنفی

الف عین

لائبریرین
سر زمینِ شام کے لمبے سفر پر چل پڑا
شہر مکہ سے ابی طالبؓ کا ننھا قافلہ
قافلے والوں میں اک بارہ برس کی جان ہے
سختیوں دشواریوں والا سفر ہے دور کا
سرخ اجلی ریت کا تپتا ہوا پھیلاؤ ہے
نجد سے تا بادیات الشام صحرا ہے بِچھا
جیسے دوزخ سے اڑی چنگاریاں ذرّاتِ ریگ
لو کے جھکّڑ سانس جیسے چھوڑتا ہو اژدہا
ایک چشمہ دوسرے چشمے سے کالے کوس دور
جھوٹی جھیلیں تپتے صحرا میں دِکھاتی ہے ہوا
اس سفر کی زحمتوں میں بھی چھُپی کچھ رحمتیں
ہر قدم پر اک سبق، ہر لمحہ تازہ تجربہ
درد کی تصویر عبرت ناک آثارِ ثمود
داستاں خاموش وحشت ناک وادی القریٰ
بدّوؤں کی خیمہ گاہیں اور قبائل کے پڑاؤ
گاؤں ریگستان میں کانٹوں کے بن میں پھول سا
سادہ و پر کار و شیریں ان کی عربیٌ مبین ۴۹۶
جس کے اک اک لفظ پر نکلے ہے دل سے مرحبا
پینٹھ بازاروں میں اہلِ شوق کا اظہارِ فن
شاعری کا لطف، قصّوں کی طلسماتی فضا
شام ۔۔۔ سبزہ زاروں باغوں گلشنوں کا ملک شام
بیل بوٹے پھول پھل چشمے مقامِ پُر فضا
راہ میں پلکیں بچھاتی شاخِ زیتوں کا سلام
شید کی نہروں کے لب پر شادمانی کی دعا
سر زمینِ شام کی شادابیاں جنّت نظیر
شہد و شیر و رنگ و نور و رقص و نغمہ جا بجا
ثنویت، تثلیثیت سے محوِ بحثِ ہست و بود
بحث میں دونوں فریقوں کے دلائل کا مزا
یہ مجوسی، وہ نصاریٰ، یہ یہودی، وہ عرب
کوئی ہے مرہم سخن تو کوئ ہے ہے شعلہ نوا
شاعری، جادو گری، فنِّ خطابت، ساحری
ذہن و دل سے بات کرنے کی مؤثر ہر ادا
حجرہ ہے راہب بحیرا کا نظر کے سامنے
سرحدِ لُبوا پر آ کر رک گیا ہے قافلہ

۔۔۔ جاری
 

الف عین

لائبریرین
۔۔۔ جاری

بوڑھے راہب کی نظر ہے سب سے چھوٹے فرد پر
جس پہ اک پیڑ اور بادل نے ہے سایہ کر دیا
حال و ماضی کی حکایت قافلے والے تمام
صرف بارہ سال کا یہ فرد مستقبل نما
بحیرا سُن رہا ہے
پرِ جبریل کی آوازِ برق انداز
جو اٹھائیس برسوں بعد ان کانوں میں گونجے گی

بحیرا کی نگاہوں میں ہے وہ سورج
چمکتا ہے جو دو شانوں کے بیچ
پرانے راہبوں کے مصحفوں کی روشنی میں
نشاناتِ کمالِ بشریت کی جگمگاہٹ

بحیرا سن رہا ہے
غبار آلود قدموں سے چمکتی بجلیوں میں
چھپی عیسیٰ کے اک موعود کی آہٹ

بحیرا دیکھتا ہے
غبار آلود قدموں سے چمٹ کر
زمیں ریزے مہ و خورشید سے آنکھیں ملاتے ہیں

بحیرا سن رہا ہے
مکان و لا مکاں، سمتیں موذّن بن گئ ہیں
اذانِ قرطبہ کو بخشتی ہے گونج ملکِ چین کی دیوار

بحیرا دیکھتا ہے
منوّر جسمِ اطہر پر نبوّت کی ہر اک پہچان
دمکتا ہے دلِ پر سوز کے سورج کی کرنوں سے
جبینِ صندلیں کا چاند
الوہی آیتیں گویا کتابِ رُخ پہ لکھی ہیں

بحیرا ہے دعا بر لب
علاماتِ نبوت سے مزیّن جسمِ مطہر پر
یہودی سود خوروں کی نگاہیں پڑ نہ جائیں
مبادا وہ انہیں تکلیف پہنچائیں

موند لیں آنکھیں اجالا پتلیوں میں گھیر کر
اور اپنی دھُن میں پھر بوڑھا بحیرا کھو گیا
قافلہ بہرِ تجارت ساتھ میں لایا تھا مُشک
مشک بھی وہ مُشک جو جانِ جہاں مہکا گیا
شام کا پہلا سفر تو ہے سفر کی ابتدا
زندگی کے سامنے پھیلا ہے لمبا راستا
اس سفر کی ابتدا دنیا تو عقبیٰ انتہا
از مکاں تا لا مکاں ہے دور تک یہ سلسلا ۵۵۰
 

الف عین

لائبریرین
روح کی طرح گہرا ہے غارِ حرا​

دامنِ فکر اپنا سمیٹے ہوئے
سال ہا سال رمضاں گزرتے رہے
نقش بن بن کے مٹتے رہے
ذہن اسرارِ حول اور ماحول پر غور کرتا رہا
روح پر انکشافات ہوتے رہے
خانۂ کعبہ کی مورتیں
بے حسی اور جہادات کی صورتیں
ریزہ ریزہ ہوئیں اڑ گئیں، بہہ گئیں
غار میں سوچتے ذہن کی فکر آتش فشاں مادّہ بن گئ
چاند، سورج، شب و روز، موسم یہ کہتے رہے
کوئ ہے، کوئ ہے
کس کے احکام کے ہم مطیع و وفا دار ہیں
آ گئی لیلۃ القدر کی وہ مبارک گھڑی
نور کا اک ہیولہ مشکّل ہوا
غار کا گوشہ گوشہ منوّر ہوا
خاک کا ذرہ ذرہ منور ہوا
سارے اعصاب مبہوت
مرعوب سارے حواس
نطق و گویائ و دید پر سکتہ طاری
اک فرشتے کی بجلی کے لپکے کی مانند آواز گونجی
اس نے ریشم کا زرّیں خریطہ دکھا کر کہا
’یہ پڑھو‘
کانپتی۔ کپکپاتی، لرزتی اک صدا نے کیا اک سوال
’کیا پڑھوں؟‘
ہاتھ اس نے دبا کر کہا
’یہ پڑھو‘
’کیا پڑھوں؟‘
’یہ پڑھو‘
’اس میں کیا میں پڑھوں؟‘
اور فرشتے نے ریشم کے زریں خریطے پہ لکھی ہوئ
شعلہ شعلہ عبارت پڑھی
’نام اس رب کا لے کر پڑھو جس نے پیدا کیا
جس نے انسان کو منجمد خون کی ایک پھُٹکی سے پیدا کیا
ہاں پڑھو، رب تمہارا ہے اکرم
علم جس نے دیا بالقلم
اور انسان کو وہ سبھی کچھ سکھایا اسے جس کا سان و گماں بھی نہ تھا‘
یہ عجیب آیتیں اُس فرشتے کے ساتھ آپؐ نے بھی پڑھیں ۵۸۸

۔۔۔ جاری
 

الف عین

لائبریرین
۔۔۔ جاری

بار بار ایک بجلی چمکتی رہی
دل پہ یہ آیتیں خامۂ برق لکھتا رہا
گونجتی گھنٹیاں گونج کے دائروں میں بہت دیر تک گنگناتی رہیں
جو حرم میں محجّر تھی ایمان کی نغمگی
حمد بن کر فضاؤں میں بہنے لگی
لات و عزّیٰ مناۃ و ہبل بھاپ بن کر موحّد کے ایمان میں گھُل گئے
ہو گیا آفتابِ رسالت طلوع
چوندھیا سی گئ خود نگاہِ رسول
ختم جب کیفیت اس وحی کی ہوئ
جسم میں کپکپی
ہر بنِ مو عرق ریز
تازہ آیات بجلی کے چابُک
جِسم کا ہر رُواں اپنے اپنے سِرے پر کھڑا
دھڑکتا ہوا دل کی مانند داغِ حرا
تمتمائے ہوئے سرخ تانبے سے رخسار
اور پیشانی ابرِ گُہر بار
تیز قدموں نے گھر کی طرف رُخ کیا
ہانپتے کانپتے گھر پہنچ کر کہا
’زملونی
ڈھانپ لو اے خدیجہ مجھے ڈھانپ لو
جلد چادر میں مجھ کو لپیٹو مجھے ڈھانپ لو
گونجتی گھنٹیاں گنگناتی رہیں
گونجتی گھنٹیاں موج در موج نغمے سناتی رہیں
گونجتی گھنٹیاں روشنی کے بھنور چادرِ آبِ شب پر اُٹھاتی رہیں
گونجتی گھنٹیاں خواب میں بھی فرشتے کی آمد کا منظر دکھاتی رہیں
گونجتی گھنٹیاں وہ دکھاتی رہیں دیکھ کر جس کو تھرّا گیا تھا وجُود
جس نے بیدار کی آرزوئے سجود
گونجتی گھنٹیوں نے لٹائے اجالوں کے پھُول
بن گیا آج اللہ کا عبد اس کا رسولؐ

ایک دن جب حرا کی طرف جا رہے تھے
وسط میں اس پہاڑی کے پہنچے تو پھر پردۂ گوش پر
ضرب کرنے لگی گونجتی گھنٹیوں کی صدا
جس جگہ رک گئے بس کھڑے کے کھڑے رہ گئے
سہمی سہمی نگاہیں فلک کی طرف جب اٹھائیں
تو وہی جگمگاتا ہیولیٰ، خدا کا مقرّب فرشتہ
آدمی کی شباہت میں تھا آسماں پر کھڑا
سوچا بچ کر نکل جائیں۔۔۔ لیکن کہاں؟
ہر طرف تو فرشتہ کھڑا تھا
رات میں اس فرشتے نے آ کر کہا:
’اے مدثّر! رِدا میں لپٹ جانے والے سنو
اب اٹھو اور لوگوں کو آگاہ کر دو
اور اللہ اکبر کی سچائ ان کو بتا دو ۶۳۰
 

الف عین

لائبریرین
طلسمِ عناصر تمام​

زمیں کی کشش خام
بہر گام بکھرے ہوئے ہیں دِشاؤں کے دام

فرشتوں نے پھر کھول ڈالا بدن
کیا آبَ زمزم سے صاف اندروں
دھلے لوحِ دل سے
جو بھی اکّا دُکّا نشاں جاہلی عہد کے بچ گئے تھے
گھلے کفر و تشکیک کے جو بھی سائے کہیں تھے
 

الف عین

لائبریرین
ملبّب سنہرے پیالے میں شاید
وہ محلول عرفان و ایمان کا تھا
جسے ان فرشتوں نے سینے کے اندر انڈیلا
فرشتوں نے کیا ایثرائے ہیں قلب و جگر
کہ طے ہو خلائی سفر؟

سواری
بدن اسپِ تازی کا چہرا کسی حور کا
دھنک رنگ شہپر
کسی چست، طرّار چیتے کی نازک کمر
رگ و پے میں پگھلی ہوئی بجلیاں
یہ برّاق برقِ مجسّم
شعاعیں لگام
بھرا ایک ڈگ اور طے ہو گیا عرصۂ صبح و شام

بیک جست بیت المقدّس میں لے آئ برّاق
سلیمانؑ کے ہیکلِ خاص پر
براہیمؑ و موسیٰؑ شریک نماز
رفیقِ سفر جبرئیلؑ

زمیں کو فلک سے ملانے لگا ایک زینہ
فلک جیسے چاندی کا فرش
ستارے سبک زر کی زنجیر میں کہکشانوں ہی لٹکے ہوئے
کیا جدِّ اوّل کو بڑھ کر سلام
نظر آئ مصروفِ تسبیح مخلوق جس کا نہیں کچھ شمار

سلیمانؑ و داؤدؑ و یحیٰ و نوحؑ
براہیمؑ و ہارونؑ و موسیٰؑ
ملاقات ان سب سے ۶۶۳
 

الف عین

لائبریرین
فرشتہ وہیں موت کا
شرر بار۔۔۔ ایک آنکھ سے دوسری آنکھ کا فاصلہ یوم ستّر ہزار
فرشتے ہیں اک لاکھ اس کے جلو میں
دفاتر کھلے ہیں
دفاتر میں ہیں اندراجاتِ موت و حیات

فرشتہ ہے اک تیسرے منطقے پر
خطاؤں پہ انسان کی جو ہمیشہ بہاتا ہے آنسو
یہ اک تیسرا ہے عذاب و سزا کا فرشتہ
بدن جس کا تپتے ہوئے سرخ تانبے کی مانند

فرشتہ ہے یہ ایک اور
بدن نصف ہے برف کا، نصف ہے آگ کا
پگھلتے نہیں آگ سے برف تو برف سے آگ بجھتی نہیں

زمیں سے زیادہ وسیع اک فرشتہ
کہ سو جس کے ستّر ہزار
ہر اک سر میں منہ بھی ہیں ستر ہزار
ہر اک منہ میں اس کی زبانیں بھی ستّر ہزار
زباں محوِ حمد و ثنا، ہر زباں پر دعا ہے جُدا

رُکے،،، سدرۃ المنتہیٰ آ گیا
کروڑوں فرشتوں کے سائے میں عرشِ بریں پر
ادھر ایک لبریز دریا کے پار
کئی منطقے ہیں
یہ ہے نور و ظلمات کا
یہ ہے آگ کا اور وہ آب کا
ہوا کا ہے وہ آخری منطقہ
بہم پانچ سو سال کے فاصلے پر

نظر آ رہا ہے حجابِ جمال
حجابِ جلال اور حجابِ کمال
ٹھٹھک کر کھڑے ہو گئے جبرئیلؑ
کہا یہ ہے حدِّ ادب
بڑھیں آگے حضرت اکیلے ہی اب

اٹھے سب حجاب
قریب آ گیا عرش، اب فاصلہ قاب قوسین کا بھی نہیں
کہ گویا مقامِ فنا آ گیا
وہ سیلابِ انوار۔۔ سورج بھی شرما گیا
کئی لاکھ سورج
مگر روشنی چاندنی مثلِ کافور
نہ ٹیڑھی ہوئ وہ نگاہ
نہ حد سے تجاوز کیا
لگا جیسے دو ہاتھ دل اور شانے کی جانب بڑھے
مشاماتِ جاں میں پگھلنے لگے برف کے کوہسار
سکون اور راحت کا یہ انتہائ مقام
سفر وہ مکاں کا زماں کا
سفر لا مکاں کا

ہوئ ریزہ ریزہ رصد گاہِ ادراک
ہوئے ذرہ ذرّہ تمام آئینہ خانہ ہائے حواس
بہر گام بکھرے ہوئے ہیں دِشاؤں کے دام
زمیں کی کشش خام
طلسمِ عناصر تمام

جو لوٹے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بستر ابھی گرم ہے ۷۱۲
 

الف عین

لائبریرین
کر کبھی فرصت میں اے ذہنِ فساد

باز خوانیِ زوالِ قومِ عاد
ایک آندھی چل پڑی چلتی رہی
سات راتوں آٹھ دن تک ہر گھڑی
تاش کی مانند گھر اڑتے رہے
بال کی مانند سر اُڑتے رہے
اس قدر اڑتا رہا گرد و غبار
بن گئی ساری فضا تاریک غار
خود سری کے پھل نے کر ڈالا ہلاک
آپ تھا انجام کتنا درد ناک
آدمی بکھرے گرے نزدیک و دور
گر پڑے ہوں جیسے دھرتی پر کھجور
اَنَّھُم اعجَازُ نَخلٍ خَاوِیَہ
دیکھ اس آیت میں جو ہے زاویہ ۷۲۶
 

الف عین

لائبریرین
مرا ماحول کہتا ہے

درختوں کو گرا دوں
کہیں چمنی کہیں سکائی سکریپر اگا دوں
پرندوں کو اڑا دوں
گراموفون پر گانا بجا دوں
چمکتے معدنوں کو ہضم کر لوں
دھوئیں سے پھیپھڑے بھر لوں
رگوں کو کیمیائی زہر کی نہریں بنا لوں
صحیفوں کو جلا دوں
کتابیں جنس، جاسوسی، تشدد کی سجا دوں
عقیدت، عشق، پیمانِ وفا کو
خدا کے ساتھ آیاتِ خدا کو
عمل کے علم کے ہر رہنما کو
ادب، تاریخ، فکر و فن کو محفل سے اٹھا دوں
بلا کر ساد، کیسا نووا، زیرو زیرو سیون کو بٹھا دوں
لپیٹوں جا نماز ، اخبار پر گردن جھکا دوں
مشینوں کا تو اب یہ دل پرانا آشنا ہے
بہت سے معدنوں کو میرا معدہ جانتا ہے
دھوئیں کا ذائقہ یہ پھیپھڑے برداشت کر لیتے ہیں میرے
رگوں میں زہر کر لیتا ہے پھیرے
نہیں ہے ٹیپ، گراموفون بھی مرا دشمن
زوال آمادہ سمتوں نے بڑھا دی میری الجھن

یہ نا آسودگی کی گرد، کہرا نا مرادی کا
دھواں محرومیوں کا درمیاں، اپنے سوا کچھ بھی نہیں رکھتا

یہ منزل کون سی ہے کس سے پوچھوں
کوئ منزل کی پوچھے تو خلا کی سمت دیکھوں ۷۵۲
 

الف عین

لائبریرین
مرے ہم نواؤ

چلو ہم بھی الفاظ کی بس پرستی سے دامن بچائیں
علامت پرستی سے پیچھا چھڑائیں
علامت کو بس ہم علامت ہی مانیں
علامت فقط راستہ ٹھہرا، منزل نہیں ہے
لہو کو تموّج ہے، یہ دل نہیں ہے

چلو ہم بھی اس معنویّت کو ڈھونڈھیں
جو الفاظ کی شکل میں مومیائ ہوئ ہے
جو حرفوں کی سورت محجّر پڑی ہے
عبارات میں منجمد ہو گئی ہے
علامات کے پیکروں میں ڈھلی ہے
جو اصلِ حیات و زمان و مکاں ہے
بدن، ذہن، دل، روح میں جو رواں ہے

دبی ہو گی کوئ تو چنگاری اس راہ کے ڈھیر میں
کسی تودۂ ریگ کو تو ملی ہو گی توفیق آئینہ بننے کی خاطر
کسی مرغِ قبلہ نما میں تو ہو گی یہ قوت، کہ رفتار کی سمت دکھلائے ۷۶۸
 

الف عین

لائبریرین
۔۔۔۔ جاری

چلو کھنڈروں کے لبوں پر جمے ہیں جو الفاظ، پگھلائیں ان کو
مقیّد ہیں جو لفظ جز دان میں، کھول دیں بند اس کے
صدائیں جو سینے میں اس کے چھپی ہیں، فضا میں بکھیریں

چلو شور و غل کے بھنور کے دلِ زار میں نغمہ ڈھونڈھیں
غبارِ زماں میں شرارِ یقیں ڈھونڈھنے کی سعی کر کے دیکھیں
شرر کر شرر، گرد کو گرد رکھنے کی فطرت غبارِ زماں کو ملی ہے
ہٹا کر وہ کہرا جسے چمنیوں نے بکھیرا
موذّن کی آواز کی چاندنی چھا رہی ہے

ط؂چلو چل کے اس ماہِ تاباں کو ڈھونڈھیں
خلاؤں سے اتریں
زمیں میں ہے برداشت کی کتنی قوّت، ذرا غور کر لیں
تہِ گرد ہوں گے نقوشِ سجود
عجب کیا کہ بخشے ہمیں وہ یقینِ وجود ۷۸۱
 

الف عین

لائبریرین
ورق تاریخ کے پلٹے
یہ خالد کے بہادر
قُراقِر سئ سوا کے راستے پر
بہت دشوار صحرائ مسافت
نہ پانی
نہ پانی کا نشاں
یہ رافع۔۔۔ رہنمائے لشکرِ تشنہ لباں
بڑھانا چاہتا ہے حوصلہ لیکن
دہکتی ریگ کے آئینے سے سورج کی کرنیں
پلٹ کر آگ برساتی ہیں دیدوں پر
اجالا آتشیں نیزے چلاتا ہے
چپک جاتی ہیں پلکیں
مگر چشمِ یقیں یَنظُر بِنُورِ اللہ
تہِ ریگِ رواں پانی کا چشمہ ڈھونڈھ لیتی ہیں

پکار اٹھتا ہے رافع
کہیں عوسج کا پودا ہو تو دیکھو
سپاہی ڈھونڈھ لیتے ہیں
کھدائ کرتے ہیں اس کی جڑوں کے آس پاس
نمیدہ ریگ ہوتی ہے نمو دار
نکل پڑتی ہے جلتی ریت سے پانی کی ٹھنڈی دھار
کنٹیلی جھاڑی عوسج کی دہکتے دشت میں پانی کی تابندہ نشانی

ملا ہے لَا سے اِلاّ کا پتہ اہلِ یقیں کو ۸۰۳
 

الف عین

لائبریرین
زمین کا نور بھی خدا، آسمان کا نور بھی خدا ہے

یہ بات کچھ اس طرح ہے گویا کہ طاق ہے جس پہ اک دیا ہے
دیا ہے فانوس میں تو فانوس موتی ایسے ستارے سا ہے
دیا یہ وہ ہے جسے مقدّس شجر سے روشن کیا گیا ہے
شجر وہ زیتون کا جو پورب سے اور نہ پچھم ہی سے اگا ہے
یہ روغن از خود چمک رہا ہے کہ آگ نے کب اسے چھوا ہے
خدائے بر حق کا نور ہے عام، نور پر نور چھا رہا ہے
جسے خسا چاہتا ہے اس کا وہ جانبِ نور رہنما ہے

حواس کے طاق پر ہے نفسِ مدرّکہ کا چراغ روشن
لطیف نفسِ مخیّلہ جس کے گرد فانوس سی مزین
شجر ہے زیتون کا وہ نفسِ مدللہ جس کا زرد روغن
جو نفسِ فوق المدرّکہ کی عنایتوں سے چمک رہا ہے
وہ روغن از خود چمکنے والا، جسے کبھی آگ چھو نہ پائی
وہی نبوّت کا جوہرِ قلب ہے، رسالت کا خاصّہ ہے
جو اس کے ہر طاق پر ہزاروں چراغ جلتے ہیں مظہروں کے
نظر میں ہیں جھلکیاں تو لیکن، جو اصلیت ہے، وہ ماورا ہے
دلیل اسراء نے پیش کی ہے، ثبوت معراج نے دیا ہے
زمین کا نور بھی خدا، آسماں کا نور بھی خدا ہے
 

الف عین

لائبریرین
اک خدا ہے دوسرا کوئ نہیں

آپ اپنا نام اپنی ذات اپنی کائنات
وہ سدا بیدار، جاری اور ساری
وہ عمل روحِ عمل سمتوں پہ طاری
سوچئے تو دور حدِّ منطق و ادراک سے
کیجئے محسوس تو وہ ہے رگِ جاں کے قریب
جو بھی کچھ ارض و سما میں ہے، اسی کا ہے
ابتدا و انتہا و وسط کا دانائے کل
اس کی کرسی ہے زمین و آسماں گھیرے ہوئے
وہ زمین و آسماں کا پاسبانِ بے تکان
عرشِ اعظم سے رگِ جاں تک ہے اس رب کا مکان
وہ خدائے ہر زمان ۸۳۳
 

الف عین

لائبریرین
یہ قریش کے بڑے عمائد، بزرگ قائد، بڑے خفا ہیں

کہتے ہیں : ہم بتوں کے آگے سجدہ و قربانی کرتے ہیں
تاکہ یہ بت جن روحوں کے مظہر ہیں، وہ ہم سے خوش ہوں
کیوں کہ وہ روحیں تختِ خدا کی ہم سایہ ہیں
ان کی سفارش خدا ذرا جلدی سنتا ہے
اور بتوں کو سجدا کر کے قربِ خداوندی ملتا ہے

کہتے ہیں: یہ شخص ہمارے دین کا دشمن بنا ہوا ہے
کہتے ہیں: یہ شاعر ہے، اس کے قبضے میں رئ ہیں
کہتے ہیں: یہ کاہن ہے، اس کے سر پر جن کا سایہ ہے
کہتے ہیں: یہ ساحر ہے، جادوگر ہے دیوانہ ہے
کہتے ہیں: ہذیان ہے جس کو یہ الہام و وحی کہتا ہے
کہتے ہیں: بس یہ دنیا ہے اور یہاں مرنا جینا ہے
چھوڑو جنت کا ہر سپنا، اور جہنم سے نہ ڈرو
کہتے ہیں: ہر شے ہے یہیں، مے بھی ہے، حور و غلماں بھی
جنت و دوزخ محض فسانے، کھاؤ پیو اور عیش کرو

آپ کی راہ میں کوڑا کرکٹ اور غلاظت
روز ابہو لہب کی بیوی لا کے بچھاتی رہتی ہے
آگ لگاتی رہتی ہے
آپ حرم میں سجدہ ریز ہیں
عقبہ ابنِ معیط نے اپنی جہالت کی لمبی چادر کو رسّی کی صورت بل دے کر
آپؐ کی گردن میں اس کا اک پھندا ڈال دیا
اور پھر اس کو اتنا کسا ہے، گھٹنوں کے بل آن پڑے ہیں

آپ حرم میں محوِ دعا ہیں
عقبہ اونٹ کی اوجھ اٹھا لایا ہے
جیسے ہی سجدے میں گئے ہیں اوجھ کو پیٹھ پہ لاد دیا ہے

لعن، طعن۔ کج بحثی، گالی
استہزا، غنڈہ گردی
ڈستے کانٹے، تپتی ریت، نوکیلے پتھر، گند غلاظت اور نجاست
یہ انعام رسالت کے ہیں، یہ حق گوئ کی ہے قیمت ۸۶۲
 

الف عین

لائبریرین
یہ بلد الامین

یہ کوہِ صفا
یہ حق کی صدا
’’اگر میں کہوں
کہ اس کوہ کے پیچھے جرّار لشکر چھپا ہے
تو کیا تم مری مان لو گے‘‘
’’یقیناً!!! کہ تم نے کبھی جھوٹ بولا نہیں
کہ تم الامین‘‘
’’تو میری سنو
مجھے میرے رب نے تمہارے لئے ایک تنبیہ سونپی ہے
کہ تم سب مرے اقربا ہو
مگر جب کبھی آخرت کا عذاب آئے گا
یہ رشتہ بھی تم کو نہ ہر گز بچا پائے گا
اگر لا شریک اور واحد ضدا پر نہ ایمان لائے تو مٹ جاؤ گے
اگر خیریت چاہتے ہو تو میری سنو اور مانو
نہیں کوئ معبود اللہ کے ما سوا‘‘

۔۔۔ جاری
 

الف عین

لائبریرین
،،،،جاری

سنی یہ صدا تو ابی لہب کا تن بدن جل اٹھا
’’ہمیشہ رہے تو تباہ‘‘ اس نے کہا

بشارت خدا نے مگر دوسری دی
’’ابی لہب کے ہاتھ ٹوٹے، سدا کے لئے ہو گیا وہ تباہ
نہ کام آئے گا اس کا مال و متاع
اسے عنقریب آگ کھا جائے گی، بھسم ہو جائے گا
اٹھائے گی خود اس کی بیوی چِتا کے لئے خشک ایندھن
گلے میں پڑی ہو گی اس کے
کھجوروں کے پتوں کے ریشوں کی چبھتی ہوئی سخت رسّی‘‘ ۸۸۷
 

الف عین

لائبریرین
کسی کی آواز چشم و دل کو مہیب منظر دکھا رہی ہے

گمان ایٹم بموں کے پھٹنے کا ہو رہا ہے
یہ جسم و جاں کا جہان ہے ابخرات بن کر جو اڑ رہا ہے
رواں فضاؤں میں سات رنگوں کے اونی گالے
کبھی پہاڑوں کے نام سے جو کھڑے ہوئے تھے
اجالوں اور ابخرات نے ایک سانپ کی چھتری کھول دی ہے

نہیں یہ ایٹم بموں کے پھٹنے کا جانا پہچانا لمحہ کب ہے
یہ ساعت اس سے مہیب تر ہے
یہ پیش منظر ہے تب کا، جب اشتعال سا ہے
عناصرِ کائنات کے جوہروں کے ایک ایک دل کے اندر
ہر ایک ذرّے میں کوہِ آتش فشاں سے زائد تباہ کاری کی قوتیں ہیں

زمین جیسے سفید میدے کی سرخ روٹی
زمین بیلی ہوئی پڑی ہے
نہیں کوئ راز اس کے سینے میں، جو بھی کچھ تھا۔ ۔ ۔ ابل کے باہر نکل پڑا ہے
پہاڑ غائب کہ جیسے کوئ طلسم ٹوٹا
کسی کی اک ضرب نے کیا چٗور اور پَل میں اُڑا دیا ۹۰۳

۔۔۔جاری۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
تو دھوپ سورج سے اڑ گئ ہے
نقاب الٹ دی ہےحسن نے خود تو آئینوں کی نہیں ضرورت
یہ جھینی جھینی یہ نیلی نیلی فلک کی چادر
الگ الگ تار تار جس کی بناوٹوں کا ہر ایک ٹکڑا
چھُپے ہوئے تھے جو راز پردوں میں، سامنے ہیں
برس رہی ہے گھٹا دھواں دھار
الٹ الٹ کر قبور لاشیں اگل رہی ہیں
ہر ایک عجب الذنب ہے بیج اس سے اگ رہے ہیں بشر کے کاہ و گیاہ جیسے
سمندروں کا تمام پانی ابل پڑا ہے
تمام ارضی نشان ڈوبے ہوئے پڑے ہیں

پتنگوں کی طرح لوگ بکھرے ہوئے پڑے ہیں
برہنہ پا ہیں، برہنہ تن اور غیر مختون
بہم قریب اتنے جتنے جسموں سے پیرہن ہوں
مگر ہے وہ ہولناک منظر ۹۲۴
 

الف عین

لائبریرین
کسی کو ذوقِ نظر نہیں ہے کسی کو تابِ نظر نہیں ہے
گروہ یہ کیسے لوگوں کا ہے کہ آگ سایہ بنی ہوئ ہے
جہاں یہ جاتے ہیں آگ بھی ساتھ جا رہی ہے
یہ کھانا کھاتے ہیں، آگ بھی ساتھ، کھا رہی ہے
ی8ہ سو رہے ہیں تو آگ بھی ساھ سو رہی ہے
جہاں بھی کرتے ہیں صبح یہ لوگ، آگ بھی آنکھ مل رہی ہے۔

ابھی ہے آوازِ راجفہ ہی فضا میں تازہ
کہ رادفہ کی صدا فضاؤں میں بال و پر تولنے لگی ہے
فرشتے ہیں بے شمار
کھڑے ہیں باندھے ہوئے قطار
اٹھائے ہیں آٹھ اپنے شانوں پہ عرش کا بار

جہنم اپنے کروڑوں شعلوں کی لال جیبھیں نچا رہا ہے
غضب کا ہے درجۂ حرارت کہ جس کو سورج سے ناپئے تو
پرخچے سورج کے پَل میں اڑ جائیں
کھلے ہوئے سات در جہنّم کے بھیجتے ہیں ہجوم اندر
دھوئیں کے بادل سیاہیوں کو فضا میں پھیلا رہے ہیں ہر سو
لباس شعلے، اساس شعلے، سروں پہ شعلے، قریب و دور، آس پاس شعلے
جلا جلا کر اگائی جاتی ہیں جسم پر بار بار کھالیں
دہکتے لوہے کے سرخ گرزوں کی مار اوپر سے پڑ رہی ہے ۹۴۴
 
Top