صلصلۃ الجرس۔ عمیق حنفی

الف عین

لائبریرین
لولاک کما خلقت الافلاک

بِسمِ اللہِ الرَحمٰنِ الرَّحِیم

اِنَّ اللہ وَ مَلٰئِکَتِہ یُصَلّوٗنَ عَلَی النَبِیّ یَا اَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوا صَلُّو عَلَیہِ وَ سَلِّمُو تَسلِیمَا
 

الف عین

لائبریرین
یہ دھواں دھواں دھند یہ چیخیں یہ کراہ
دنیا نظر آنے لگی اک لوحِ سیاہ
لکھ دے خطِ انوار سے اے خامۂ برق
لَاحَولَ وَلَا قُوَّۃَ اِلّا بِاللہ ۴
 

الف عین

لائبریرین
سیاہ کف در دہاں سمندر

ہر ایک موسم میں رنگ و آواز مختلف
ہر ایک موسم میں راگ اور ساز مختلف

سیاہ کف در دہاں سمندر
شکستہ ساحل کی لمحہ لمحہ بکھرتی چٹّان
فصیلِ کہنی کے جیسے پتھّر
سیاہ کف در دہاں سمندر
بہاؤ میں ہے یقین کی اینٹ اینٹ دیوار، الگ الگ در
بدن کے باہر بکھرتے منظر
بکھرتے منظر بدن کے اندر

سیاہ کف در دہاں سمندر
بکھرتی سمتوں کے رخ پہ جس کی صدائیں چھینٹے
بکھرتی سمتیں ہیں جس کے لقمے
کناروں کی بستیاں نگلتا اُجاڑتا ہے
کھجور کے سر بلند پیڑوں کو جڑ سے جیسے اکھاڑتا ہے
تناوروں کو پچھاڑتا ہے
ادھڑتے مجروح بادبانوں کے پھیپھڑوں سے نکل نکل کر
ہوائیں ان کے سیاہ خوشوں کو نوچتی ہیں
زمین اپنی سنہری فصلوں کو آپ ہی کھا رہی ہے

سیاہ کف در دہاں سمندر
نہنگ جس کے ہزار حلقے
سیاہ اجلا ڈراؤنا جال ڈالتا ہے
تڑپتی مچھلی کی طرح جس میں پھنسا ہوا ہے سارا عالم
تمام عالم پکارتا ہے
بچانے والا نہ آئے ہونٹوں پہ اس کا پیارا سا نام تو آئے
سیاہ کف در دہاں سمندر
ہر ایک دہلیز پر کھڑا ہے
مہیب وہم و گماں کا طوفاں
امڈ پڑا ہے

وہ دور اک تختہ بہہ رہا ہے
سہارا جس کا سفینۂ روح سے بڑا ہے ۳۵
 

الف عین

لائبریرین
یہ نیم اسرار وادی سے نکل کر کون آتا ہے

گماں کی گرد چھٹتی جا رہی ہے
سنکتی سنسناتی گولیاں
فضاؤں میں پگھلتی جا رہی ہیں
سرنگوں میں بچھی بارود آتش بازیاں بن کر
سیاہی پر اجالوں کی کشیدہ کاری کرتی جا رہی ہے
یہ کن خوش لمس پیروں کی رگڑ کھا کر
کبھی چنگاریوں جیسی کبھی برفیلی ریگِ بے یقینی
روپہلی اور سنہری روشنی کے پھول بن کر
نچھاور ہو رہی ہے
یہ قصوا اور جدعا کے نقوشِ پا
سیاہی پر چھڑکتے جا رہے ہیں روشنی کا عود و عنبر
سوار ان کا
دل و جاں کا امیرِ کارواں ہے

بدن دل جان عقل ایمان
یہاں اور پھر یہاں کے بعد جیتے رہنے کے ارمان
بہم یک جان
گھڑی کی سوئیاں غائب
تو کیلنڈر سے اس کی روشنائی مائلِ پرواز
حروف اعداد کی پیشانیوں میں موجزن ذوقِ نماز ۵۵
 

الف عین

لائبریرین
خیر الانامؐ خیر الانامؐ

خیر الانامؐ تم پر صلوٰۃ خیر الانامؐ تم پر سلام
آتے ہی لب پہ سرکار نام آتی ہے ہاتھ دل کی لگام
تبدیل ہونے لگتا ہے گویا احساس و فکر کا کُل نظام
تحلیل ہونے لگتے ہیں باہم صبح و الوانِ شام

یہ نام شمعِ بزمِ حیات یہ نام مشعلِ کائنات
یہ نام رحمتِ شش جہات یہ نام اصلِ حرفِ دوام

ریگِ شکوک خاکِ عجاب گردِ مہاب دشتِ جماد
پاتے ہیں لفظ کُن کا سراغ بنتی ہے سانس بادِ مراد
پوتا ہے ریشے ریشے کے نام علم الیقیں کا تازہ پیام

یہ نام صلحِ کل کا پیام، یہ نام امن کا آبشار
ہوتی ہے چشمِ کثرت شمار یہ نام سن کے وحدت شعار
اس نام پر ہیں دل سے نثار کیا خاک و باد کیا نور و نار
سرما کا مہرِ تاباں یہ نام، یہ فصلِ گُل کا ماہِ تمام ۶۹

ہر ایک چہرا سادہ بیاضِ مشق نگارشِ ماہ و سال
ہر اک جبیں تختیِ حال پر اک شکن ہے سطرِ سوال
سامانِ عیش و عشرت زیاد، لیکن سکونِ خاطر محال
تہذیبِ عصرِ حاضر عجیب، اِس پل عروج اُس پل زوال
یہ عہد ایک پاگل سوار، رہوارِ جس کا ہے بے زمام

ہر چند حکمتِ آدمی کی زد میں ہیں آج ماہ و نجوم
ذرے کے قلب قطرے کے دل کو طے کر چکے ہیں پائے علوم
نفسِ خرد سے بادِ بہار کی شکل پکڑے بادِ سموم
صحرا و دشت وادی ع شہر ہر گاہ بڑھ رہا ہے ہجوم
ہر شہر رشکِ شہرِ دمشق، ہر ملک رشک یونان و روم
لیکن تمام کاغذ کا کام، کاغذ بساط کاغذ خیام

عادت کی طرح رو میں تمام کیا فقر و عجز کیا رعب و داب
عادت خرام عادت قیام عادت کلام عادت کتاب
عادت حلال عادت حرام عادت ثواب عادت عذاب
یک رنگ عیش یک رنگ فکر یک رنگ حرف یک رنگ باب
ہر شخص و شے کو دامن میں لے کے بڑھتی ہے آگے موجِ سراب
اتنی حسین اتنی حسین جتنے حسین ہوتے ہیں خواب
غرقاب جوئے رفتارِ تیز گم کردگانِ راہ و مقام ۸۷
 

الف عین

لائبریرین
(۔۔۔۔۔۔۔جاری
انسان ریزہ ریزہ ہے لیکن اس پر ہے وقت کا ارتکاز
دنیا میں تا بہ گردن ہے غرق دنیا کے راز پھر بھی ہیں راز
اس نجد میں نہیں کوئی قیس لیکن ہزار لیلیٰ نواز
اہلِ فسوق کی آستیں کا خنجر ہے منطقِ خانہ ساز
خوابِ گناہ کرتا ہے پیشِ تعبیر سے بھی پہلے جواز
ذوقِ غنا و شوقِ قمار و شغلِ نشاطِ پیمانہ باز
بازار و بزمِ رونق فزا سے آتا ہے یاد سوق العکاز
موجِ سرور و موجِ شِرور و موجِ فجور ہر موجِ

ہر سمت آج خبط الحواس مشرق ہے لاف مغرب گزاف
ذہنوں کو ڈھانپتے جا رہے ہیں تاریکیوں کے بھاری لحاف
حکمت خلا کی سجدہ گزار مرّیخ و زہرا جس کے مطاف
ہو جائیں شہر کے شہر خاک قوّت ہے ایسی خارہ شگاف
اس نور کی ہے پھر سے تلاش ہر تیرگی تھی جس کے خلاف
وہ نور جس سے تھا تار تار ظلمِ جہول کا ہر غلاف
وہ نور جس سے اصنام صاف اوثان صاف انصاب صاف
تھے زیرِ خاک لاۃ و مناۃ عزّیٰ و ودّ ہبل و اساف
پھر ہو طلوع مثلِ ہلال خنجر یقین کا بے نیام ۱۰۴

اس نا مرادیوں کے جہان کو خونِ دل کی کتنی ہے پیاس
اذہان پر ہیں طاری شکوک اعصاب پر ہے طاری ہراس
وہ شخص فوقِ فطرت ہے آج قائم رکھے جو ہوش و حواس
دورِ جدید، عہدِ تضاد، کرتا رہا ہے اکثر اداس
الجھی ہوئی ہے شعلوں میں فکر، لیکن نہیں ہے دل صرفِ یاس
بھڑکے ہوئے ہیں پھر شعلہ زار جن کے کنارے خوش، ذونواس
ایمان والے ایندھن ہیں خشک جن کے بدن کے ریشے ہیں گھاس
اس کا ہے شعلہ شعلہ وجود، اس کا ہے شعلہ شعلہ لباس
ہونے لگا ہے ایسا گمان سارا جہاں ہے شعلہ اساس
شب کے دھوئیں میں گھٹتی ہے صبح، دن کی چِتا میں جلتی ہے شام
۔۔۔۔ جاری
 

الف عین

لائبریرین
۔۔۔جاری
سیلِ زماں پہ کشتی مکاں ہے، ظاہر بہاؤ باطن جمود
کھینچے خرد کی جھنجھلاہٹوں نے دشتِ عدم میں پائے وجود
مشکل ہے نیک و بد کی تمیز، گڈمڈ ہوئے ہیں ایسے حدود
نیلے سمندری پانیوں پہ چھایا ہو جیسے چرخِ کبود
آبِ رواں پہ مثلِ حباب، تہذیبِ نو کی نام و نمود
تہذیبِ نو ہے ایسا چراغ جس کو ملا ہے فانوسِ دود
چھوتا ہے علمِ مرّیخ و ماہ لیکن ہے دور اصلِ شہود
ایماں نہ ہو تو مشقِ حساب تحقیق عالمِ ہست و بود
مدّت کے بعد، مدّت کے بعد پیشانیوں میں تڑپے سجود
ہوتے گئے تھے ہم تم سے دور اور کتنی دور! تم پر درود
ٹوٹے ہوئے ہیں سارے قیود لب پر تمہارا آیا ہے نام

خیر الانامؐ تم پر درود، تم پر صلوٰۃ، تم پر سلام ۱۲۶
 

الف عین

لائبریرین
بگولے رقص کرتے ہیں​

برے اچھے خبر ناموں پہ ٹپکے ہے رگِ تاکِ چکیدہ سے کشیدہ بے نیازی
حروفِ آب کی صورت پگھلتی جا رہی ہے پکّی روشنائی
فضاؤں میں ڈبو دیتی ہے ہر دم چیختے چنگھاڑتے خبروں کے جسموں کو
جنونی سرگموں مجذوب لے دیوانہ تالوں پر تھرکتی خواہشیں اپنے پہ خود مغرور ہونے کی

بگولے رقص کرتے ہیں
تموّج ہے خیالوں میں، نہایت مضطرب ہیں ان کی موجیں
بہا کر لا رہی ہیں مختلف رنگوں کے منظر خواب زاروں میں
کناروں سے ہزاروں سیپیاں جن میں نہیں موتی
لہو جو آنکھ سے ٹپکا، نہ فن پاروں سے ہی چھَلکا
کروڑوں سنگ ریزوں کے دلوں سے پھوٹ پڑتا ہے
وہ فرعونوں کی، چنگیزوں کی لاشوں کے عناصر فتنہ خو ذرّے
سیاست کی جنوں خیزی، تجارت کی ہوس ناکی کے جِن جِن میں اسیر
اڑا دیتے ہیں جو لاکھوں کروڑوں جانداروں کو بنا کر بھاپ
مئے گلفام میں تر قہقہے یوں چھوٹتے ہیں جیسے آتش بازیاں ہوں
بدن اک دوسرے کے نشّے میں ڈوبے ہوئے ہیں ۱۴۳


بگولے رقص کرتے ہیں
ہزاروں لاکھوں بلکہ اربوں انسانوں کا چیونٹی دل
اٹھائے اپنے اپنے حصّے کا بارِ گراں دن رات محنت میں مگن
مقدر دم بدم دن کی مشقّت، رات کی بھاری تھکن
یہ دھرتی اور کاغذ پر ہلوں کو کھینچنے والے
مشینوں پر فسانے، خواب، نغمے ڈھالنے والے
کروڑوں پیٹ سر دل پالنے والے
نہایت سادہ ہیں ان کے عقیدے، سادہ جذبے، خواہشیں سادہ
انہیں مطلب نہیں، کیا ہو رہا ہے اور کیا ہو گا
انہیں منظور ہے بھٹّی میں جلنے کے لئے سر سبز ہونا، پھولنا، پھلنا
بالآخر خشک ہو کر شعلہ بننا، راکھ ہو جانا

بگولے رقص کرتے ہیں
زباں پر حرفِ تضحیکِ وجودِ حق، لبوں پر کلمۂ انکار
دلوں میں بعل و عزّیٰ کے لئے ہر گام سو سجدے
تصور میں ہبل کا بت بناتے ہیں کہیں حرص و ہوا کے ابخرات
کہیں۔۔۔۔ آبادیوں سے دور۔۔۔ آثارِ قدیمہ۔۔۔۔۔۔۔
یقیں کے گنبد و مینار محراب و ستوں طاق و در و دیوار کے ملبے
در و دیوار کے ملبے فضاؤں کو غبار آلود کرتے ہیں ۱۶۱
 

الف عین

لائبریرین
۔۔۔۔ جاری

نئ دلّی کے جن پتھ پر رواں کرّے مثلّث مستطیل اہرام
دلوں میں خواہشوں کو اک نئی ترتیب دیتے ہیں
بہت بے باک ہے منظر، بڑی گستاخ ہیں نظریں
وسیع القلب ہیں پروردگانِ دانشِ حاضر
حجابوں سے انہیں مطلب نہیں ہے
حجابات آدمی کو نا مرادی کی گھُٹن میں مبتلا جو کرتے رہتے ہیں!
بہر ہنگام پہلو میں نیا ہم دم نئی لذت
نہ کوئی معترض اِس پر نہ کوئی معترض اُس پر
رقابت، ہجر، پیمانِ وفا بے مغز حرفوں کی عبارت؂
یہ جن پتھ ہے کہ چورنگی کہ چوپاٹی کا منظر ہے
یہ پیرس ٹوکیو لاہور لندن قاہرہ نیو یارک برلن روم ہے، کیا ہے؟

بگولے رقص کرتے ہیں
یہ صحرائے شبِ تاریک میں چھوٹی بڑی ٹولی بنا کر
کدھر یہ آہوانِ دشت رم کرنے لگے ہیں
اندھیرے میں بھی ان کے جسم زینت کدے جگ مگ اجاگر
کہ نخلستان میں تاروں کی چھاؤں میں تلہٹی تال، ٹیلے، گھاٹیاں، میداں، جزیرے
یہ آرائش یہ زیبائش یہ اظہارِ وفورِ جذبہ و خواہش
نمائش جن کے ایک ایک نکتے کی
نگاہوں میں، اداؤں میں، لبوں پر ناچتی دعوت
نشاطِ عام کے رنگین شعلوں میں پگھلتی رشتوں کی عصمت ۱۸۱
مچلتی آتشِ سیّال کی بے تاب موجوں میں یہاں بیوی وہاں شوہر
نہ اِس کو اعتراض اُس پر، نہ اُس کو اعتراض اِس پر
بدن لہ حکمرانی، بے حجابی کی فراوانی، صلائے عام
یہ جب پتھ سئ گزرتی لڑکیاں
وہ کھجراہو کی دیواروں پہ ابھری شوخ مدرائیں
وہ امرء القیس کی امِ ربابی اور عنیزہ اور فلاں بنتِ فلاں
بدن تحریر اور تصویر کے اعصاب پر شہوات کی لذّت
خطوط و رنگ و صوت و انگ میں یکسانیِ حدّت
کہاں سے اُمڈے آتے ہیں رئی شعرائے عہدِ جاہلی کے
ابھی تو میں مکاں میں تھا
زماں کے فاصلے طے ہو گئے کیسے
درِ تاریخ پہ دستک نہ دی تھی اپنا ماتھا کھٹ کھٹایا تھا

بگولے رقص کرتے ہیں
نگاہوں میں پرندے ہیں سوالوں کے
بتانِ سنگ ہاتھوں میں لئے ہیں تیر فالوں کے
ستاروں اور برجوں میں، قمر کی منزلوں اور زائچوں میں
مقدر کا نوشتہ آدمی اور جہانِ آدمی کا
مشینوں کی بلی ویدی پہ قلب و روح کی قربانیاں دے کر
بشر زادوں کا ریوڑ خاک اڑاتا جا رہا ہے
بتانَ آتش و آہن نے چھوڑے ہیں یہ راکٹ (تیر فالوں کے)
خلا پیما پرندے ہیں سوالوں کے ۲۰۲
 

الف عین

لائبریرین
۔۔۔ جاری

بگولے رقص کرتے ہیں
فضائے عصر کی لَے بے تحاشا بھاگتی ہے
صدا کو سست ٹھہرا کر اجالے کی رفاقت چاہتی ہے
بہت ہی تیز ایقاعات ہیں لیکن خیال و لفظ اب تک سست رو ہیں
کہ اتنی تیز لَے میں جسم ان کا پارہ پارہ ہو رہا ہے
خیال و لفظ کی ترتیب معنی یا اثر کچھ بھی سلامت رہ نہیں سکتا
فقط لے تال کی تیزی صدائے شور، وحشی قہقہے، چیخیں
فقط بے جسم آوازیں، فقط بے روح آوازیں
سماعت کے مقدّر میں فقط بے چہرہ جسموں کے ہجومِ مضطرب کی شور پیمائ
اڑا کر نغمگی کی دھجّیاں
سُروں کے خون میں تر لَے کے پہیے گھومتے ہیں تیز تر
کتر ڈالے نے ہیں حسنِ ذوق کے کس مسخرے نے پَر؟

بگولے رقص کرتے ہیں
یہ نخلستان اور یہ حرطۂ غسّان
حنا و یاسمیں کی مسندِ برگ و گلِ تازہ پہ جبلہ ابنِ الایہم
چنیدہ ساتھیوں کے درمیاں مصروف دادِ عیش دینے میں
کبھی دورِ مئے احمر، کبھی دورِ مئے اصفر
ادھر بربط پہ گاتی پانچ یونانی حسینائیں
ادھر ہے پانچ حیرائی پری زادوں کی ٹولی
لبوں پر جن کے بابل دیس کے گانے
وہ بدوی لڑکیاں ابیاتِ مکہ گا رہی ہیں
ظروفِ سیم و زر میں مشک و عنبر ۲۲۴

بگولے رقص کرتے ہیں
شکاری لشکرِ سیروس شاہِ فارس
نہیں۔۔ یہ مغ بچہ کب ہے،،، یہ شاہی گارد کا چھیلا جواں
چمکتی جگمگاتی قرمزی جس کی قبا
بنفشہ رنگ بیلیں حاشئے پر
وہ برق انداز ہاتھوں پر سجائے باز!
ادھر نازک کمر چیروں کو ریشم ڈوریوں میں باندھے اک دستہ
بلوریں عطر دانوں سے چھڑکتے جا رہے ہیں خوشبوئیں وہ خاصہ دار
شکاری فوج کی ہیں مطربائیں پیشوا
بڑی شعلہ نوا، روشن ادا، جادو مزا
غبار و گرد کے پردے کے پیچھے اہرمن ہے آگ جو یزداں کی بیٹھا تاپتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
،،، جاری

بگولے رقص کرتے ہیں
بزنطینی عساکر روندتے ہیں سر زمینِ مصر و شام
گلی کوچوں میں ذوقِ بحثا بحثی عام
’’بکارت بی بی مریم کی رہی قائم جنم کے بعد بھی عیسیٰ کے! کیسا معجزہ تھا‘‘
’’خبر بھی ہے کہ مریم تیسرا قنوم ہیں تثلیث اقدس کا‘‘
’’عدم سے کیسے ابن اللہ نے پایا وجود؟‘‘
’’بتاؤ کیا عقیدہ ہے تمہارا مادّے میں ہے قدامت یا ہے جدّت!‘‘
’’خدا کیا ہے؟ فقط راس المثلّث!!‘‘ ۲۴۳

حلیف قیصرِ روما بزنطینہ کا شاہنشاہ
مسیحی سجدہ ریزوں نے رگڑ کر گھس دئے پائے بتِ پطرس
حجاز و نجد کے صحرا نشینوں نے ستاروں کی پرستش ترک کر کے
چنے چقماق کے پتھر
درِ کعبہ پہ دیکھو تو ہبل کا بُت کھڑا ہے
وہی اعرابِ مکہ کا خدا ہے
کہیں انصاب یا چقماق کی اقلیدسی شکلیں
کہیں اوثان یا انسان صورت پتھّروں کی مورتیں
کہیں اصنام یعنی دھات یا لکڑی کے بت، انسان صورت
غذائے ریگ ہے نو زائیدہ بچی
مگر لاۃ و مناۃ و عزّیٰ ان کی دیویاں سچّی
حقیقت کی خبر ہی ہے نہ قدرِ آدمی ہے
پرستش آدمی صورت بتوں کی ہو رہی ہے ۲۵۶
 

الف عین

لائبریرین
،،،،، جاری

بگولے رقص کرتے ہیں
گزشتہ عہد کی رنگینیاں گویا پلستر تھیں، ادھڑتی جا رہی ہیں
امارت، دولت و سطوت کے گنبد اور محرابیں
اٹھائے ہیں جو دیوار و ستوں تہذیب کے وہ سب کے سب
غلاموں کاشتکاروں دستکاروں کے سر و شانے پہ استادہ
ہر اک پتھر انہیں کے گوشت کا ٹکڑا
انہیں کے منہ نظر آتے ہیں دیواروں کے بیچ
وہی اشراف کی نظروں میں ٹھہرے ہیں ہمیشہ نیچ
ہر اک بدوی کو فخر اس پر کہ وہ ہے مالک الاسود
ہر اک شیخِ حجاز اس بات پر نازاں کہ کعبے میں ہیں اس کے سینکڑوں معبود
کہ اس کے کاروانوں کی پہنچ شام و یمن تک
کہ الطائف ہے اس کا موسمِ گرما کا مسکن
جہاں تربوز، کیلے، شید، شفتالو کی بہتات
جہاں زیتون اور انجیر اور انگور کی افراط
جہاں کا ہر گلاب اک طبلۂ عطّار
ہر اک بدوی کو فخر اس پر کہ وہ اس شیخ کا منجملۂ خدّام ۲۷۲

بگولے رقص کرتے ہیں
ہلالِ راس سرطانی عرب کے مہ پرستوں کو
بلا لایا ہے کعبے میں کہ کعبہ چاند کا مندر
حرم کا حجرِ اسود چاند کا ٹکڑا
جسے چھو کر ہر اک زائر لبوں سے چوم لیتا ہے
ہر اک ہے دیوتا کے رو برو ننگا
عقیدت، انکسار اور عاجزی کی اک علامت
حرم میں اس کی مادر زاد حالت
طوافِ کعبہ کے ہیں تیز چکّر تین پہلے اور پھر آہستہ چار
زمین پر سات سیّاروں کی رفتار
دا ان سیٹیوں اور تالیوں سے سخت بیزار
 

الف عین

لائبریرین
۔۔۔ جاری

بگولے رقص کرتے ہیں
مکان و لا مکاں کا تار سے باریک تر خطِّ وصال
لرزتا ہے کہ جیسے نور کی زنجیر ہلتی ہے
ازل سے حق و خیر و حسن کا جو عشق رکھتے ہیں
انہیں ان ارتعاشوں سے نویدِ دید ملتی ہے
یہ دنیا جامدوں کو جس نے صدیوں سے خدا مانا
یہ دنیا اپنی روح النفس کا پیغام پاتی ہے

فضا ہے پھر ثنا بر لب، ہوا پھر حمد گاتی ہے
بگولے رقص کرتے ہیں

سنہری بالیوں میں چوگنی فصلیں دمکتی ہیں
چمن میں پھول ہیں اتنے کہ سمتیں تک مہکتی ہیں
کہیں باغوں میں خوشوں سے لدی بیلیں لچکتی ہیں
سرِ ریگِ رواں آئندہ کی شکلیں چمکتی ہیں
زمیں اپنے مقدّر پر بہت اٹھلائے جاتی ہے
نزول برکتِ حق کا صبا پیغام لاتی ہے

بڑے غیض و غضب سے مکہ پر اصحابِ فیل آئے
مگر طیراً ابابیل ابر بن کر یک بیک چھائے
پکی مٹی کی کنکریاں وہ چونچوں میں دبا لائے
وبا تھی، جن کے آگے حملہ آور رک نہیں پائے
تعجّب بت کدے کو قوّتِ حق کیوں بچاتی ہے
خزاں کی اوٹ سے بادِ بہاری مسکراتی ہے

دشائیں ہند و ایران و فلسطیں کی کتابوں کو
پلٹتی ہیں کہ دیکھیں پھر سے بھولے بسرے خوابوں کو
درست آہنگ کرتی ہیں عقیدت کے ربابوں کو
سرکتا دیکھتی ہیں نور و ظلمت کے حجابوں کو
عناصر سے اذاں کی پر کشش آواز آتی ہے
خدائ اپنے مرکز کی طرف سب کو بلاتی ہے

’’زمیں نے ایک سوئ سا نیا انکھوا نکالا ہے
عناصر نے غذا بن بن کے اس انکھوے کو پالا ہے
ملی قوّت تو اس نے نال پر خود کو سنبھالا ہے
دلِ دہقاں نشاط و کیف سے لبریز پیالا ہے
حسد کی آگ اہلِ کفر کا تن من جلاتی ہے‘‘
کہ وادٍ غَیر ذِی زَرعٍ میں کھیتی لہلہاتی ہے
بگولے رقص کرتے ہیں ۳۱۷
 

الف عین

لائبریرین
پرد ۂ مشرق کے پیچھے
پرد ۂ مشرق کے پیچھے ہے فصل ربیع کی صبحِ امید
ہے پسِ مطلع حدِّ ادب میں منتظرِ آمد خورشید
خانۂ زہرا میں داخل ہونے کو ہے خورشیدِ بہار
دریا ایک قدم کا کیا ہے، میدانِ مرّیخ ہے پار
کس کے لئے بے چین چاند ہے، کس پہ لگی ہے اس کی نگاہ
تھوڑی کمی تکمیل میں جو ہے دیکھ رہا ہے کس کی نگاہ
نام محمّدؐ ۔۔۔ اس کے پہلے کس کو ملا یہ پیارا نام
صلی اللہ علیہ و سلم، دونوں عالم بھیجیں سلام
’’سورج ہے یہ جس چھوٹا دیکھ رہی ہے دور سے آنکھ
قرب جو پائے تو خیرہ ہو جائے اس کے نور سے آنکھ‘‘
ریت کا ساگر ریت کی لہریں سنگِ حرم اور خاکِ حریم
کنکریوں کے بیچ میں جگ مگ دُرِّ یتیم اک دُرِّ یتیم ۳۲۹
 

الف عین

لائبریرین
سیپ نے کھول دیا منہ اپنا​

ذرے ذرے میں سحر در آئ
گونج اٹھی وسعتِ صحرا میں صدائے فیکون
ریت آئینہ بنی
ریت کا کرّۂ بلّور بنا
عکس آئندہ حقائق کا نظر آنے لگا
دور تک ممبر و محراب نظر آنے لگے
ریت میں خواب نظر آنے لگے
قرطبہ، قاہرہ، بغداد و دمشق
آگرہ، دلّی و لاہور، بخارا و سمر قند
بلخ و شیراز نظر آنے لگے
طاقِ کسریٰ پہ ضیا بار ہوئ شمعِ حرم
تختِ جمشید پہ قرآن کھُلا
الف لیلیٰ کو حقیقت کا ملا پیراہن
ہو گیا جمنا کی پلکوں پہ کھڑا تاج محل
قصرِ الحمرا سے شرمانے لگی سطوتِ روم ۳۴۵

مصر و یونان و فلسطیں کے دماغوں کو نچوڑ
ہند و ایراں کے خیالات کا عطر
علمِ عرفان سے ایمان سے عرفان بہم شیر و شکر
وہ عمامہ و سرابیل و عبا پوش فلاطون و ارسطو کا نزول
ریت کے کرۂ بلّوریں میں
وقت کے آئینے میں عکس نظر آنے لگے ۳۵۱
 

الف عین

لائبریرین
یہ بنو سعد کی ہے خیمہ گاہ

نیلگوں آسمان حدِّ نگاہ
دامنِ دشت ہے کہ طشتِ نجوم
کہکشان ہے یہاں کی اک اک راہ
ہیں ہوا میں فرشتوں کے انفاس
چشمۂ معرفت ہے چاہ بہ چاہ
صل کھجوروں میں ہے سنہرا شہد
تازہ مکھّن سے پُر ہے سینیِ ماہ
سبزہ حورانِ خلد کی پوشاک
ٹیلے فردوس زادگاں کی کُلاہ

بزمِ فطرت سے ہے رضاعت خواہ
دین و دنیائے حق کی مشعلِ راہ
یہ حلیمہ و حارث و شیما
جن پہ ہے مہربان بارِ الٰہ
جان و دل سے ہیں لاڈلے پہ نثار
دیدہ و دل ہیں ان کے فرشِ راہ ۳۶۳

ہیں حلیمہ خلوص کی تصویر
سر بسر ممتا ممتا جن کی نگاہ
دودھ میں جن کی چاندنی اور دھوپ
جن کا آنچل ہے مہر و ماہ پناہ
سیدھی خوشیاں ہیں اور سیدھے درد
سیدھے موسم کے لمسِ گرم و سرد
یہ کھُلا آسمان پھیلی زمین
پرورش پاتے ہیں یہاں پامرد
سختیاں سادگی و نظم و ضبط
جسم میں ڈھالتے ہیں دشت نورد
وسعتِ دشت تختۂ تصویر
اور تصویر نگر غبار و گرد
نقشِ تجرید چھینٹے سرخ و سبز
اور زمیں کالی، نیلی، بھوری، زرد
گردشِ روز و شب ہوئی ہے تیز
بیتے جاتے ہیں پل میں گرم و سرد
رو نما ہو رہے ہیں وہ حالات
ہکّا بکّا ہیں خاندان نکے فرد

اہلِ حبشہ کا کارواں سالار
کھینچ کر اپنی اونٹنی کی مہار
جانے کیوں سب کے ساتھ اتر آیا
اک تجسس ہے آنکھ میں بیدار
مرحبا مرحبا پکارتے ہیں
کر رہے ہیں نشانیوں کا شمار
’’یہ ہے موعود، اسے ہمیں دے دو‘‘
کرتے جاتے ہیں بار بار اصرار

جاری۔۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
۔۔۔۔ جاری

دو ہیولے سے شخص نور آثار
پیکر انوار، پیرہن انوار
عرش سے اترے اور آئے قریب
رک گئے تھے جہاں وہیں سرکار
کر کے سرکار کو زمیں پہ دراز ۴۰۶
چیر کر سینہ کھول ڈالا غار
ننھئ سینے میں ڈھونڈھتے کیا ہیں
جھانکتے ہیں درونِ دل سو بار
اسمِ اعظم تلاش کرتے ہیں
یا دلِ کائنات کے اسرار

ننھے سینے میں ماضی رخشندہ
ننھے سینے میں وقت پائندہ
ننھے سینے میں اک دلِ زندہ
ابتدا انتہا سرائندہ ۴۱۷
 

الف عین

لائبریرین
سبز دامنِ جیاد
آسماں کھلا ہوا
گنبد اک زمین پر رکھا ہوا
بے ستون ہے فصیل!
چڑھ کے اس پہاڑ پر
دیکھئے ملی ہوئ ہے آسمان سے زمین
کتھّئی سیاہ بھوری اجلی لال بکریاں
چَر رہی ہیں گھاس اور پتیّاں ببول کی
کر رہی ہیں چھاؤں میں جگالیاں
اور ان کا گلّہ بان
سوچتا ہے کون ہے جہاں کا پاسبان
کس کے حکم سے ٹکا ہوا ہے آسمان
کس کے حکم سے بہاؤ آب و باد میں
کس کے حلم سے جماؤ خاکِ خور نژاد میں
کس نے رکھ دئے ہیں فرشِ خاک پر پہاڑ
کس کے حکم سے برس رہی ہیں بدلیاں
کس کے حکم سے س،ندروں کی سمت بہہ رہی ہیں ندّیاں ۴۳۴
کس کے حکم سے سفر میں ہیں مہر و ماہ
کس کا ہے ستاروں میں اشارۂ نگاہ
دور تک چلا گیا ہے سوچ کا یہ سلسلہ
ہے تہِ غبار اک کڑی سے دوسری کڑی ملی ہوئ
اک سرے پہ ابنِ آذر اور دوسرے پہ آپؐ
صاحبانِ عہد نامہ ہا بھی گلہ بان
صاحبِ زبور بھی
صاحبان وید و گیتا بھی تھے گلٓہ بان
دور تک چلا گیا ہے سلسلہ ۴۴۳
 

الف عین

لائبریرین
ایک دن سوچا کہ گلّہ چھوڑ کر​

شہر کی شب دیکھیں صحرا چھوڑ کر
شہر کے ہنگام،وں سے بہلائیں جی
چپ کی چوپانی کی دنیا چھوڑ کر
سوچ کو آیا ہے کیا، اور سو گیا
بے نیازِ عیش و مستی ہو گیا

سرگمیں پگھلی ہوئ چاندی کی رو
لے دھڑکتی خواہشوں کے تار پو
شہر کا جشنِ عروسی عیش گاہ
عشرتیں تازہ بہ تازہ نو بہ نو
کون ہے یہ جو یہاں بھی سو گیا
بے نیازِ عیش و مستی ہو گیا

زلف کا گھنگھور بادل چھا گیا
عاقرض و رخ جامِ مے چمکا گیا
ہاتھ لہرائے کہ لچکی شاخِ برق
پاؤں کیا تھِرکے کہ بھونچال آ گیا
کون ہے یہ جو یہاں بھی سو گیا
بے نیازِ عیش و مستی ہو گیا

دو جزیرے وجد فرمانے لگے
دو سمندر ان سے ٹکرانے لگے
پنڈلیاں چمکیں کہ اُچھلیں بجلیاں
لفظ اپنے جال پھیلانے لگے
کون ہے یہ جو یہاں بھی سو گیا
بے نیازِ عیش و مستی ہو گیا

دل رُبا، دل گیر، دل آویز بزم
رقصِ شعلہ بار، نغمہ ریز بزم
سر بسر ہیجان اعصابی نظام
اشتعال انگیز دعوت خیز بز،م
کون ہے یہ جو یہاں بھی سو گیا
بے نیازِ عیش و مستی ہو گیا

فکر ہنگاموں سے غافل ہو گئ
نیند پردہ بن کے حائل ہو گئ
آرزو جو لے کے آئ تھی یہاں
خود بہ خود سینے سے زائل ہو گئ
مردِ حق آگاہ پل میں سو گیا
بے نیازِ عیش و مستی ہو گیا ۴۷۹
 
Top