صدام حسین کو پھانسی کی سزا

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

صدام حسین کوبغدادکی ایک عدالت نے پھانسی کی سزادی ہے اس کے متعلق آپ کے کیاخیالات ہیں ان پرضرورتبصرہ کریں(شکریہ)



صدام حسین کو پھانسی کی سزا
بغداد میں ایک عدالت نے عراق کے سابق صدر صدام حسین کے خلاف دجیل مقدمے میں جرم ثابت ہونے پر انہیں پھانسی کی سزا سنائی ہے۔
عدالت نے انہیں یہ سزا 1982 میں شیعہ اکثریتی علاقے دجیل میں 148 افراد کی ہلاکت میں ان کے کردار پر سنائی ہے۔ مقدمے میں ان کے مبینہ شریکِ جرم سابق جج ایواد حامد البندیر کو سزائے موت کا حکم دیا گیا ہے جبکہ نائب صدر طحٰہ یاسین رمضان کو عمر قید اور بعث پارٹی کے تین عہدے داروں کو پندرہ پندرہ سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
عدالت نے مقدمے کے ایک ملزم محمد آزاوی علی کو ناکافی شہادتوں کی بناء پر رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔ رہا ہونے والے آزاوی علی دجیل میں سابق حکمران پارٹی بعث پارٹی کے ایک عہدے دار تھے۔

بشکریہ بی بی سی

والسلام
جاویداقبال
 

اظہرالحق

محفلین
یہ تو خیر سے ہونا ہی تھا ، مگر ٹائیمنگ بڑی زبردست ہیں ، امریکہ کے الیکشن ، اور افغانستان کےایکشن اور فلسطین کے ری ایکشن کے لئے ایسی نیوز بہت ضروری تھی ۔ ۔ ۔ ۔
 
بغداد سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق صدام حسین کو ان کے مقدمے کی شنوائی کرنے والے ٹربیونل نے جسے امریکی لے پالک حکومت نے متعین کیا تھا ان کے دو ساتھیوں سمیت پھانسی کی سزا سنائی ہے ۔ صدام حسین عراق کے صدر کے طور پر کام کر رہے تھے جبکہ انکے ملک پر امریکیوں نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کے ہتھیار رکھنے کے الزام میں حملہ کیاتھا ۔ اور اس حملے کے نتیجے میں عراق کا انتظامی ڈھانچہ تہس نہس ہوگیا تھا ۔ سالوں کی دشمنیاں لوگوں نے اس دور میں نکالیں ۔ دشمنوں کو ہلاک کیا ۔ فرقہ پرستی کے جن نے ایسے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا کہ ہلاک شدگان کی شناخت انکے فرقوں سے ہونے لگی ۔ کتنی ہی زیارات کو امریکی ۔ بریطانی ۔اور کثیر الملکی افواج نے اپنے ناپاک پاؤں سے روندا ۔ ہزاروں خواتین نے اپنی عصمتیں گنوائیں ۔ اور لاکھوں (بلامبالغہ) افراد نے اپنی جانوں سے ہاتھ دھوئے ۔

تفصیلات کے مطابق صدام حسین ، انکےسوتیلے بھائی اور انکی حکومت کے ایک اعلیٰ اہلکار کو انسانیت کے خلاف جرائم پر عراقی ہائی کورٹ نے سزائے موت سنائی ۔ سزا سن کر کمرہ عدالت اللہ اکبر کے نعروں سے گونج پڑا جو کسی اور نے نہیں بلکہ صدام ھسین اور اس کے ساتھیوں نے لگائے تھے ۔ فیصلہ سنانے سے پیشتر صدام حسین کے وکیل صفائی کو کمرہ عدالت سے (باقاعدہ گیٹ آؤٹ کہ کر) نکال دیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے جج کو ایک یاد داشت پیش کرنے کی جسارت کی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ عدالت انصاف کے تقاضوں کے مطابق غیر جانبدار نہیں ہے اور اس پر امریکی اثرات واضح ہیں ۔
یاد رہے کہ اس سے پیشتر گزشتہ روز عراق کی کٹھ پتلی حکومت کے سربراہ نوری المالکی نے امید ظاہر کی تھی کہ صدام حسین کو پھانسی کی سزا ہو جانی چاہیئے ۔ انہوں نے یہ بیان گزشتہ روز اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے دیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ صدام حسین پر الزام ثابت ہوجائے گا اور اسے وہ سزا ملے گی جس کا وہ حقدار ہے ۔ اور اس سزا پر عراقی عوام اپنی خوشی کا اظہار جیسے مناسب سمجھے گی کرے گی ۔ یاد رہے کہ 1982 میں صدام حسین پر ہونے والے قاتلانہ حملے میں جو کہ موجودہ کٹھ پتلی وزیر اعظم مالکی کی دعوہ پارٹی نے کروایا تھا صدام حسین بال بال بچے تھے اور کئی فوجی بھی اس حملے میں ہلاک ہو گئے تھے ۔ اس کے بعد ہونے والے آپریشن کلین اپ میں 148 شیعہ شہریوں کی ہلاکت کا واقعہ صدام کی گرفتاری کے بعد ہی امریکی اور انکے حمایت یافتہ حکومتی اہلکاروں کے ذریعے منظر عام پر آیا تھا ۔ گواہ بھی مل گئے ۔ امریکی حملے سے تباہ شدہ عراق میں جہاں کوئی بھی سرکاری دفتر لوگوں کے حملے سے نہ بچ پایاتھا ۔ اور سرکاری دفتروں میں سے لوگ بجلی کے بلب تک نکال کر لے گئے تھے ۔ جہاں کا نوے فیصد سرکاری ریکارڈ ابھی تک نہیں مل پایا وہاں صدام حسین کے وہ حکمنامے بھی مل گئے جن کے تحت انہوں نے یہ عمل جاری کرنے کا کہا تھا ۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ نوری المالکی جو موجودہ کٹھ پتلی وزیر اعظم ہیں عراق کے انکے لئے اگر اس فیصلے پر اپیل نہ ہوئی تو اپنے دیرینہ دشمن کو ختم کرنے کا سنہری موقع ہوگا ۔
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ،

اظہرالحق نے کہا:
یہ تو خیر سے ہونا ہی تھا ، مگر ٹائیمنگ بڑی زبردست ہیں ، امریکہ کے الیکشن ، اور افغانستان کےایکشن اور فلسطین کے ری ایکشن کے لئے ایسی نیوز بہت ضروری تھی ۔ ۔ ۔ ۔

واقعی اظہربھائی، یہ بھی ان کی زبردست پلاننگ ہے جسطرح جب پہلے الیکشن تھے اسی وقت اسامہ کی وڈیوریلیزکی ہے اوراب جب پھرالیکشن کی آمدآمدہے انہوں نے صدام کوپھانسی کی سزادی ہے۔

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

فیصل عظیم نے کہا:
بغداد سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق صدام حسین کو ان کے مقدمے کی شنوائی کرنے والے ٹربیونل نے جسے امریکی لے پالک حکومت نے متعین کیا تھا ان کے دو ساتھیوں سمیت پھانسی کی سزا سنائی ہے ۔ صدام حسین عراق کے صدر کے طور پر کام کر رہے تھے جبکہ انکے ملک پر امریکیوں نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے کے ہتھیار رکھنے کے الزام میں حملہ کیاتھا ۔ اور اس حملے کے نتیجے میں عراق کا انتظامی ڈھانچہ تہس نہس ہوگیا تھا ۔ سالوں کی دشمنیاں لوگوں نے اس دور میں نکالیں ۔ دشمنوں کو ہلاک کیا ۔ فرقہ پرستی کے جن نے ایسے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا کہ ہلاک شدگان کی شناخت انکے فرقوں سے ہونے لگی ۔ کتنی ہی زیارات کو امریکی ۔ بریطانی ۔اور کثیر الملکی افواج نے اپنے ناپاک پاؤں سے روندا ۔ ہزاروں خواتین نے اپنی عصمتیں گنوائیں ۔ اور لاکھوں (بلامبالغہ) افراد نے اپنی جانوں سے ہاتھ دھوئے ۔

تفصیلات کے مطابق صدام حسین ، انکےسوتیلے بھائی اور انکی حکومت کے ایک اعلیٰ اہلکار کو انسانیت کے خلاف جرائم پر عراقی ہائی کورٹ نے سزائے موت سنائی ۔ سزا سن کر کمرہ عدالت اللہ اکبر کے نعروں سے گونج پڑا جو کسی اور نے نہیں بلکہ صدام ھسین اور اس کے ساتھیوں نے لگائے تھے ۔ فیصلہ سنانے سے پیشتر صدام حسین کے وکیل صفائی کو کمرہ عدالت سے (باقاعدہ گیٹ آؤٹ کہ کر) نکال دیا گیا تھا کیونکہ انہوں نے جج کو ایک یاد داشت پیش کرنے کی جسارت کی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ عدالت انصاف کے تقاضوں کے مطابق غیر جانبدار نہیں ہے اور اس پر امریکی اثرات واضح ہیں ۔
یاد رہے کہ اس سے پیشتر گزشتہ روز عراق کی کٹھ پتلی حکومت کے سربراہ نوری المالکی نے امید ظاہر کی تھی کہ صدام حسین کو پھانسی کی سزا ہو جانی چاہیئے ۔ انہوں نے یہ بیان گزشتہ روز اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے دیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ صدام حسین پر الزام ثابت ہوجائے گا اور اسے وہ سزا ملے گی جس کا وہ حقدار ہے ۔ اور اس سزا پر عراقی عوام اپنی خوشی کا اظہار جیسے مناسب سمجھے گی کرے گی ۔ یاد رہے کہ 1982 میں صدام حسین پر ہونے والے قاتلانہ حملے میں جو کہ موجودہ کٹھ پتلی وزیر اعظم مالکی کی دعوہ پارٹی نے کروایا تھا صدام حسین بال بال بچے تھے اور کئی فوجی بھی اس حملے میں ہلاک ہو گئے تھے ۔ اس کے بعد ہونے والے آپریشن کلین اپ میں 148 شیعہ شہریوں کی ہلاکت کا واقعہ صدام کی گرفتاری کے بعد ہی امریکی اور انکے حمایت یافتہ حکومتی اہلکاروں کے ذریعے منظر عام پر آیا تھا ۔ گواہ بھی مل گئے ۔ امریکی حملے سے تباہ شدہ عراق میں جہاں کوئی بھی سرکاری دفتر لوگوں کے حملے سے نہ بچ پایاتھا ۔ اور سرکاری دفتروں میں سے لوگ بجلی کے بلب تک نکال کر لے گئے تھے ۔ جہاں کا نوے فیصد سرکاری ریکارڈ ابھی تک نہیں مل پایا وہاں صدام حسین کے وہ حکمنامے بھی مل گئے جن کے تحت انہوں نے یہ عمل جاری کرنے کا کہا تھا ۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ نوری المالکی جو موجودہ کٹھ پتلی وزیر اعظم ہیں عراق کے انکے لئے اگر اس فیصلے پر اپیل نہ ہوئی تو اپنے دیرینہ دشمن کو ختم کرنے کا سنہری موقع ہوگا ۔

فیصل بھائی، آپ نے خوب لکھاہے لیکن بات تووہی ہے کہ عراق کی آبادی کوامریکیوں نے واضح طورپردوحصوں میں بانٹ دیاہے شعیہ اورسنی اب دیکھیں کہ شعیہ والے علاقوں میں ان کی پھانسی کے لئے خوشیاں منائی گئیں ہیں جبکہ سنی اکثریت والے علاقے میں اس فیصلے کے خلاف احتجاج کیاگیاہے۔

والسلام
جاویداقبال
 

زیک

مسافر
خس کم جہاں پاک۔

آپ لوگ یہ نہ بھولیں کہ صدام کتنے ہی لوگوں کی موت کا ذمہ‌دار ہے۔
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

زکریا نے کہا:
خس کم جہاں پاک۔

آپ لوگ یہ نہ بھولیں کہ صدام کتنے ہی لوگوں کی موت کا ذمہ‌دار ہے۔

زکریابھائی، یہ بات توروزروشن کی طرح عیاں ہے۔ بات یہ ہے کہ امریکہ نے جوبھی الزام عراق پرلگایاتھاکہ اس کے پاس تباہ کن ہتھیارہیں وہ ابھی تک سوالیہ نشان ہے اورملک کی حالت بھی اتنی خراب ہوچکی ہے الامان۔
اورمیرے خیال سے اس فیصلہ سے حملوں میں اوربھی شدت آجائے گی۔ اورعراق میں امریکہ پہلے ہی دھنساہواہے جس کاوہ کبھی اعتراف بھی کرتاہے لیکن بات یہ ہے کہ اب وہ نہ اس کوچھوڑسکتاہے اورنہ ہی اس کوجاری رکھ سکتاوالی بات ہے کہ اس میں بری طرح پھنساہے۔



والسلام
جاویداقبال
 

قیصرانی

لائبریرین
زکریا نے کہا:
آپ لوگ یہ نہ بھولیں کہ صدام کتنے ہی لوگوں کی موت کا ذمہ‌دار ہے۔
اس میں تو کوئی شک نہیں، لیکن بات پھر وہیں ہے کہ مسٹر بش کی افواج اور پالیسی نے ایک سال میں‌جتنے بندے مروائے ہیں، صدام کے پورے دورِحکومت میں اتنے بندے شاید نہ مرے ہوں (ایران عراق جنگ کے علاوہ)

اب یہ کیا مسٹر بش کے خلاف بھی جنگی جرائم کے مقدمات چلیں گے؟


مجھے بش سے ایک ڈاکٹر صاحبہ یاد آتی ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں ان کا ایک بہت بڑا میٹرنٹی کلینک ہے۔ انہیں آپریشن کرنے کا بہت شوق ہے لیکن سرجری کا علم محدود، اکثر اوقات یہ ہوا کہ انہوں نے ایمرجنسی میں‌آپریشن کا کہہ کر آپریشن شروع کیا اور آگے چل کر کیس بگڑ گیا اور دورانِ آپریشن دیگر سرجنز کو ہنگامی کال دی گئی کہ پلیز جلدی سے آکر مدد کریں :D
 

نبیل

تکنیکی معاون
صدام حیسن پر کردوں کو کیمیائی ہتھیاروں سے ہلاک کرنے کا الزام آتاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1992 میں خیلج کی جنگ کے اختتام پر امریکہ نے عراق کی شیعہ اور کرد آبادی کو صدام حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی شہہ دی۔ لیکن جب شیعوں اور کردوں نے صدام حکومت کے خلاف جدوجہد کا آغاز کر دیا تو امریکہ کی سٹریٹجی یکایک بدل گئی۔ صدام حسین کیمیائی ہتھیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹرز سے کردوں اور شیعوں کو ہلاک کرتا رہا اور امریکی خاموشی سے تماشہ دیکھتے رہے۔ ذرا ان کیمیائی ہتھیاروں کے سپلائر کا پتا کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ 80 کی دہائی میں امریکی صدر ریگن کا وزیر ڈونلڈ رمز فیلڈ کِھلی ہوئی باچھوں کے ساتھ صدام کو یہ ہتھیار سپلائی کرنے بغداد پہنچا تھا۔ صدام حسین کا ایک اور بڑا جرم کویت پر حملہ کرنا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کویت میں کام کرنے والی امریکی آئل کمپنیز نے عراق کے علاقے میں تیل پمپ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور اس وقت عراق میں تعینات امریکی سفیر نے صدام حسین کو یقین دہانی کرائی تھی کہ کویت پر حملے کی صورت میں امریکہ غیر جانبدار رہے گا۔

دنیائے اسلام پر مسلط ڈکٹیٹر حکمرانوں کی حیثیت امریکہ کے نزدیک محض شطرنج کے پیادوں کی طرح ہے۔ وہ انہیں جس طرح چاہیں استعمال کرتے ہیں اور استعمال کے بعد ڈسٹ بن میں پھینک دیتے ہیں۔ کیا معلوم کل پاکستان کے حکمران بھی باجوڑ پر بمباری کے جرم کی پاداش میں عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے اور انہیں وہاں پہنچانے والے وہی انکے پرانے امریکی آقا ہوں گے۔
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
قیصرانی نے کہا:
زکریا نے کہا:
آپ لوگ یہ نہ بھولیں کہ صدام کتنے ہی لوگوں کی موت کا ذمہ‌دار ہے۔
اس میں تو کوئی شک نہیں، لیکن بات پھر وہیں ہے کہ مسٹر بش کی افواج اور پالیسی نے ایک سال میں‌جتنے بندے مروائے ہیں، صدام کے پورے دورِحکومت میں اتنے بندے شاید نہ مرے ہوں (ایران عراق جنگ کے علاوہ)

اب یہ کیا مسٹر بش کے خلاف بھی جنگی جرائم کے مقدمات چلیں گے؟


مجھے بش سے ایک ڈاکٹر صاحبہ یاد آتی ہیں۔ ڈیرہ غازی خان میں ان کا ایک بہت بڑا میٹرنٹی کلینک ہے۔ انہیں آپریشن کرنے کا بہت شوق ہے لیکن سرجری کا علم محدود، اکثر اوقات یہ ہوا کہ انہوں نے ایمرجنسی میں‌آپریشن کا کہہ کر آپریشن شروع کیا اور آگے چل کر کیس بگڑ گیا اور دورانِ آپریشن دیگر سرجنز کو ہنگامی کال دی گئی کہ پلیز جلدی سے آکر مدد کریں :D

بالکل بھائی منصور(قیصرانی) آپ نے ٹھیک کہاہے اورآپریشن والالطیفہ بھی ٹھیک بیٹھتاہے اس پورے واقعہ پر۔

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

نبیل نے کہا:
صدام حیسن پر کردوں کو کیمیائی ہتھیاروں سے ہلاک کرنے کا الزام آتاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 1992 میں خیلج کی جنگ کے اختتام پر امریکہ نے عراق کی شیعہ اور کرد آبادی کو صدام حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی شہہ دی۔ لیکن جب شیعوں اور کردوں نے صدام حکومت کے خلاف جدوجہد کا آغاز کر دیا تو امریکہ کی سٹریٹجی یکایک بدل گئی۔ صدام حسین کیمیائی ہتھیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹرز سے کردوں اور شیعوں کو ہلاک کرتا رہا اور امریکی خاموشی سے تماشہ دیکھتے رہے۔ ذرا ان کیمیائی ہتھیاروں کے سپلائر کا پتا کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ 80 کی دہائی میں امریکی صدر ریگن کا وزیر ڈونلڈ رمز فیلڈ کِھلی ہوئی باچھوں کے ساتھ صدام کو یہ ہتھیار سپلائی کرنے بغداد پہنچا تھا۔ صدام حسین کا ایک اور بڑا جرم کویت پر حملہ کرنا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کویت میں کام کرنے والی امریکی آئل کمپنیز نے عراق کے علاقے میں تیل پمپ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور اس وقت عراق میں تعینات امریکی سفیر نے صدام حسین کو یقین دہانی کرائی تھی کہ کویت پر حملے کی صورت میں امریکہ غیر جانبدار رہے گا۔

دنیائے اسلام پر مسلط ڈکٹیٹر حکمرانوں کی حیثیت امریکہ کے نزدیک محض شطرنج کے پیادوں کی طرح ہے۔ وہ انہیں جس طرح چاہیں استعمال کرتے ہیں اور استعمال کے بعد ڈسٹ بن میں پھینک دیتے ہیں۔ کیا معلوم کل پاکستان کے حکمران بھی باجوڑ پر بمباری کے جرم کی پاداش میں عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے اور انہیں وہاں پہنچانے والے وہی انکے پرانے امریکی آقا ہوں گے۔

نبیل بھائی، آپ نے صحیح تجزیہ کیاہے امریکہ کامفادہمیشہ ڈکیٹرشپ نے ہی پوراکیاہے کیونکہ وہ ون مین شوہوتاہے اورجوکچھ وہ فیصلہ کرتاہے باقی سب اس کے فیصلے کی توثیق ہی کرتے ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں یہ باجوڑکاجوحملہ ہے اس کی کاروائي کب امریکہ کرتاہے اورکہٹرے میں ہمارے صدرصاحب کب آتے ہیں؟ لیکن ابھی تک توان کوہمارے صدرکی ضرورت ہے اورامریکیوں کوجب تک ان کی ضرورت رہے گی اس وقت تک وہ تمام واقعات پرچشمہ پوشی کریں گے اورجب ضرورت ختم ہوجائے کی توٹشوکی طرح استعمال کرکے پھینک دیں گے۔


والسلام
جاویداقبال
 
Top