محمد تابش صدیقی
منتظم
یہ طنزیہ مضمون محترم نعیم صدیقی کی قیامِ پاکستان سے قبل شائع ہونے والی کتاب ذہنی زلزلے سے لیا گیا ہے۔
فنِ صحافت دنیائے خیال کا ایک ایسا جزیرہ نما ہے جسے دو طرف سے دریائے خریداران اور ایک طرف سے ایجنسیوں کے سمندر نے گھیر رکھا ہے۔ اس کی موجیں ساحل کو کٹا پھٹا رکھتی ہیں۔ چوتھی طرف حکومت کا کوہِ گراں کھڑا ہے جو جزیره نما کی سرحد کو باہر کی طرف سرک جانے سے روکتا ہے۔
قدرتی تقسیم
جزیره نما چار قدرتی حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ (۱) حکومت پرست سرمایہ دار اخبارات۔ (۲) حکومت پرست غریب اخبارات۔ (۳) آزاد خیال سرمایہ دار اخبارات۔(۴) آزاد خیال غریب اخبارات۔
پہلے خطے میں سب سے مشہور مقام سول اینڈ ملٹری گزٹ کا ہے۔ دوسرے خطے میں مسلم اخبارات کو شہرت حاصل ہے۔ تیسرے خطے میں ہندوستان اسٹینڈرڈ اور ٹریبیون وغیرہ معروف ہیں اور چوتھے خطے میں قدرت نے مدینہ، زمزم اور کوثر(سابق مسلمان) جیسے اخباروں کو جگہ عطا فرمائی ہے۔
آب و ہوا
پہلے خطے کی آب وہوا سرد مرطوب ہے، دوسرے کی سرد خشک، تیسرے کی گرم مرطوب اور چوتھے کی گرم خشک۔
مشہور دریا
”دریائے پریس برانچ“ بہت مشہور ہے۔ جس کی بے شمار شاخیں کوہِ حکومت کی پگھلی ہوئی برف سے بنتی ہیں۔ یہ معاونوں کو اکٹھا کرتا ہوا ”پریس ایڈوائزر“ بن جاتا ہے۔ یہ دریا کبھی تو بتدریج بڑھنے لگتا ہے اور کبھی اچانک طور پر طغیانی لاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں آزاد خیال خطوں کی زرخیز مٹی کو بہا لے جاتا ہے اور حکومت پرست خطوں میں لے جا کر بچھا دیتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی طغيانی ”ضبطی ضمانت“ کے نام سے مشہور ہے۔
دوسرا دریا ”پرنٹر و پبلشر“ ہے۔ اس کی رفتار بھی بہت تیز ہے۔ اور یہ اپنی رودگاہ بھی بدلتا رہتا ہے۔ لہٰذا اس کی وجہ سے بستیاں کئی کئی بار اجڑتی ہیں اور نئے سرے سے بستی رہتی ہیں۔
بارش
بحیرۂ خریداران اور بحرِ ایجنسی سے جو مون سون ہوائیں اٹھتی ہیں وہ پہلے تو مرطوب علاقوں میں بارش برساتی ہیں۔ اس کے بعد خشک علاقوں میں کچھ چھڑکاؤ کر دیتی ہیں۔ بحرِ ایجنسی سے کبھی کبھی کھیتوں کو جلا دینے والی بادِ سموم میں چلتی ہے۔ خدا اس سے بچائے۔
پیداوار
ان بارشوں کے طفیل صحافت کی سرزمین میں طاقت پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ لیڈر نام کی فصل پیدا کرتی ہے۔ جس کے مشہور پھل تقریریں، جلوس، نعرے، ریزولیوشن اور بیانات ہیں۔ یہ پھل ملکی منڈیوں میں تو بہت قیمت پاتے ہیں۔ البتہ ان کی مانگ بیرونی ممالک میں کم ہے۔
دوسری فصل ”غیر شاعر شعراء“ اور مراسلہ نگاروں کی جھاڑیوں کی ہے۔ جو پھلی دار جنس ہونے کی وجہ سے زمین کو زرخیز بناتی ہیں۔ دنیائے صحافت کی آبادی کو اس کے ثمرات سے کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو، یہ خودرو ہونے کی وجہ سے بکثرت اگتی اور گہری جڑیں چھوڑ دیتی ہے۔ لہٰذا ایڈیٹر اس کا استیصال کرنے میں بالکل بے بس ہوتا ہے۔
آبادی
اس دنیا میں حسب ذیل جاندار بستے ہیں:-
1۔ كاتب: عام قسم کی ذی روح مخلوق سے اتنا ممتاز ہے کہ دور سے پہچانا جاتا ہے۔ دیکھنے میں بہت غریب الطبع، لیکن ”مالک اخبار“ جیسی زبردست مخلوق اس سے کانپتی ہے۔ البتہ مرطوب علاقوں میں جہاں ”بارانِ زر“ ہوتی رہتی ہے،
وہاں یہ خوب گھل مل کر رہتا ہے۔ سنا ہے کہ اس کی بہت سی نسل جنگی کارخانوں کو برآمد کر دی گئی ہے۔
2۔ منیجر: بظاہر تو یہ دفتر نامی غار میں مسکینی کے ساتھ بیٹھا نظر آتا ہے لیکن درحقیقت صحافت کا پورا کرہ اس کے سینگ پر کھڑا ہے۔ جب کبھی یہ سینگ کو ہلا دیا ہے تو زلزلہ آ جاتا ہے۔ ضرورت پڑے تو اس کے ہاتھ پاؤں، زبان کا اور زبان، ہاتھ پاؤں کا کام دے جاتی ہے۔
3۔ ورکنگ جرنلسٹ: خشک علاقوں اور ریگستانوں کا جہاز ہے۔ کئی کئی دن بے کھائے پیے گزر کر سکتا ہے۔ بار برداری کے کام آتا ہے۔ جس رخ کوئی چاہے چلا لے۔ اس کی ایک قسم ایسی بھی ہے۔ جو ایک خاص پسندیدہ منزل کے سوا کسی جانب ایک قدم نہیں رکھ سکتی۔ لیکن بہت محدود اور نایاب؛ کیونکہ اس خاص قسم پر افلاس نے تباہی لا رکھی ہے۔
4۔ چیف ایڈیٹر: یہ ورکنگ جرنلسٹ اور مالکِ اخبار کے درمیان کڑی ہونے کی وجہ سے دونوں کے اہم خواص کا جامع ہوتا ہے۔
5۔ مالک اخبار: اس کے جسم کا اہم قابلِ ذکر حصہ آنکھیں ہوتی ہیں۔ اور اس کا مشغلہ آنکھیں دکھانا ہے۔
6۔ مالک پریس: مرطوب علاقوں میں اس کے بدن کا ہر ہر عضو ڈھیلا پڑ جاتا ہے۔ اتنا ڈھیلا کہ اسے روندتے ہوئے گزر جاؤ تو بھی جنبش نہ کرے گا لیکن خشک علاقوں میں اس کی اکڑ فوں اور اس کی پھنکاریں مالکانِ جرائد کا خون خشک کر دیتی ہیں۔ عموماً ”ہاؤ“ کی خوفناک آواز نکال کر ڈراتا ہے۔
7۔ آر۔ ایم۔ ایس۔: صحافتی دنیا کا ”جن“ ہے۔ جو عوام کے لیے ”غیر مرئی“ لیکن مالک ، ایڈیٹر اور منیجر اس کے تصور سے خواب میں بھی چونک چونک کر اٹھتے ہیں۔ ہر اخباری ادارے کو لازماً اس سے واسطہ پڑتا ہے۔ لہٰذا اسے اخبار خوری کی عادت سی ہو گئی ہے۔ اس کے بے شمار منہ ہوتے ہیں اور ہر منہ میں سینکڑوں زبانیں۔ ایک ایک پرچہ ہر منہ میں ٹھونس دو، تو سب اچھا ہے ورنہ سینکڑوں زبانوں کا ایک لشکر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ بعض اخبار تو اس کی زد پر آ کر ”ڈیکلریشن“ یعنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ جو لوگ اخبار نہ ملنے کی شکایات بھیجتے رہتے ہیں انھیں اس اخبار خور جن کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
معاشرت
یہاں کے لوگ عموماً عالمِ خیال میں اڑتے رہتے ہیں۔ نیچے اترتے ہیں تو کاغذ کی گاڑیوں پر سفر کرتے ہیں۔ کاغذ ہی ان کی مشہور غذا ہے۔ اور کاغذ ہی پہناوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کاغذ فروشوں کے ہاتھوں میں پوری آبادی کی جان ہے۔ یہ لوگ مشین گن کا مقابلہ سوئیوں سے کرتے ہیں۔ قلم ان کا مشہور نیزہ ہے۔ شریف راہگیروں پر عموماً رنگ برنگ سیاہیاں انڈیل دینا عام مشغلہ ہے۔ یہ سیاہیاں ا خون کی آمیزش سے بنتی ہیں جو لوگوں کو لڑا کر بہایا جاتا ہے۔
صحافت کا مختصر جعرافیہ
حدودِ اربعہ
فنِ صحافت دنیائے خیال کا ایک ایسا جزیرہ نما ہے جسے دو طرف سے دریائے خریداران اور ایک طرف سے ایجنسیوں کے سمندر نے گھیر رکھا ہے۔ اس کی موجیں ساحل کو کٹا پھٹا رکھتی ہیں۔ چوتھی طرف حکومت کا کوہِ گراں کھڑا ہے جو جزیره نما کی سرحد کو باہر کی طرف سرک جانے سے روکتا ہے۔
قدرتی تقسیم
جزیره نما چار قدرتی حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ (۱) حکومت پرست سرمایہ دار اخبارات۔ (۲) حکومت پرست غریب اخبارات۔ (۳) آزاد خیال سرمایہ دار اخبارات۔(۴) آزاد خیال غریب اخبارات۔
پہلے خطے میں سب سے مشہور مقام سول اینڈ ملٹری گزٹ کا ہے۔ دوسرے خطے میں مسلم اخبارات کو شہرت حاصل ہے۔ تیسرے خطے میں ہندوستان اسٹینڈرڈ اور ٹریبیون وغیرہ معروف ہیں اور چوتھے خطے میں قدرت نے مدینہ، زمزم اور کوثر(سابق مسلمان) جیسے اخباروں کو جگہ عطا فرمائی ہے۔
آب و ہوا
پہلے خطے کی آب وہوا سرد مرطوب ہے، دوسرے کی سرد خشک، تیسرے کی گرم مرطوب اور چوتھے کی گرم خشک۔
مشہور دریا
”دریائے پریس برانچ“ بہت مشہور ہے۔ جس کی بے شمار شاخیں کوہِ حکومت کی پگھلی ہوئی برف سے بنتی ہیں۔ یہ معاونوں کو اکٹھا کرتا ہوا ”پریس ایڈوائزر“ بن جاتا ہے۔ یہ دریا کبھی تو بتدریج بڑھنے لگتا ہے اور کبھی اچانک طور پر طغیانی لاتا ہے۔ دونوں صورتوں میں آزاد خیال خطوں کی زرخیز مٹی کو بہا لے جاتا ہے اور حکومت پرست خطوں میں لے جا کر بچھا دیتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی طغيانی ”ضبطی ضمانت“ کے نام سے مشہور ہے۔
دوسرا دریا ”پرنٹر و پبلشر“ ہے۔ اس کی رفتار بھی بہت تیز ہے۔ اور یہ اپنی رودگاہ بھی بدلتا رہتا ہے۔ لہٰذا اس کی وجہ سے بستیاں کئی کئی بار اجڑتی ہیں اور نئے سرے سے بستی رہتی ہیں۔
بارش
بحیرۂ خریداران اور بحرِ ایجنسی سے جو مون سون ہوائیں اٹھتی ہیں وہ پہلے تو مرطوب علاقوں میں بارش برساتی ہیں۔ اس کے بعد خشک علاقوں میں کچھ چھڑکاؤ کر دیتی ہیں۔ بحرِ ایجنسی سے کبھی کبھی کھیتوں کو جلا دینے والی بادِ سموم میں چلتی ہے۔ خدا اس سے بچائے۔
پیداوار
ان بارشوں کے طفیل صحافت کی سرزمین میں طاقت پیدا ہوتی ہے۔ اور یہ لیڈر نام کی فصل پیدا کرتی ہے۔ جس کے مشہور پھل تقریریں، جلوس، نعرے، ریزولیوشن اور بیانات ہیں۔ یہ پھل ملکی منڈیوں میں تو بہت قیمت پاتے ہیں۔ البتہ ان کی مانگ بیرونی ممالک میں کم ہے۔
دوسری فصل ”غیر شاعر شعراء“ اور مراسلہ نگاروں کی جھاڑیوں کی ہے۔ جو پھلی دار جنس ہونے کی وجہ سے زمین کو زرخیز بناتی ہیں۔ دنیائے صحافت کی آبادی کو اس کے ثمرات سے کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو، یہ خودرو ہونے کی وجہ سے بکثرت اگتی اور گہری جڑیں چھوڑ دیتی ہے۔ لہٰذا ایڈیٹر اس کا استیصال کرنے میں بالکل بے بس ہوتا ہے۔
آبادی
اس دنیا میں حسب ذیل جاندار بستے ہیں:-
1۔ كاتب: عام قسم کی ذی روح مخلوق سے اتنا ممتاز ہے کہ دور سے پہچانا جاتا ہے۔ دیکھنے میں بہت غریب الطبع، لیکن ”مالک اخبار“ جیسی زبردست مخلوق اس سے کانپتی ہے۔ البتہ مرطوب علاقوں میں جہاں ”بارانِ زر“ ہوتی رہتی ہے،
وہاں یہ خوب گھل مل کر رہتا ہے۔ سنا ہے کہ اس کی بہت سی نسل جنگی کارخانوں کو برآمد کر دی گئی ہے۔
2۔ منیجر: بظاہر تو یہ دفتر نامی غار میں مسکینی کے ساتھ بیٹھا نظر آتا ہے لیکن درحقیقت صحافت کا پورا کرہ اس کے سینگ پر کھڑا ہے۔ جب کبھی یہ سینگ کو ہلا دیا ہے تو زلزلہ آ جاتا ہے۔ ضرورت پڑے تو اس کے ہاتھ پاؤں، زبان کا اور زبان، ہاتھ پاؤں کا کام دے جاتی ہے۔
3۔ ورکنگ جرنلسٹ: خشک علاقوں اور ریگستانوں کا جہاز ہے۔ کئی کئی دن بے کھائے پیے گزر کر سکتا ہے۔ بار برداری کے کام آتا ہے۔ جس رخ کوئی چاہے چلا لے۔ اس کی ایک قسم ایسی بھی ہے۔ جو ایک خاص پسندیدہ منزل کے سوا کسی جانب ایک قدم نہیں رکھ سکتی۔ لیکن بہت محدود اور نایاب؛ کیونکہ اس خاص قسم پر افلاس نے تباہی لا رکھی ہے۔
4۔ چیف ایڈیٹر: یہ ورکنگ جرنلسٹ اور مالکِ اخبار کے درمیان کڑی ہونے کی وجہ سے دونوں کے اہم خواص کا جامع ہوتا ہے۔
5۔ مالک اخبار: اس کے جسم کا اہم قابلِ ذکر حصہ آنکھیں ہوتی ہیں۔ اور اس کا مشغلہ آنکھیں دکھانا ہے۔
6۔ مالک پریس: مرطوب علاقوں میں اس کے بدن کا ہر ہر عضو ڈھیلا پڑ جاتا ہے۔ اتنا ڈھیلا کہ اسے روندتے ہوئے گزر جاؤ تو بھی جنبش نہ کرے گا لیکن خشک علاقوں میں اس کی اکڑ فوں اور اس کی پھنکاریں مالکانِ جرائد کا خون خشک کر دیتی ہیں۔ عموماً ”ہاؤ“ کی خوفناک آواز نکال کر ڈراتا ہے۔
7۔ آر۔ ایم۔ ایس۔: صحافتی دنیا کا ”جن“ ہے۔ جو عوام کے لیے ”غیر مرئی“ لیکن مالک ، ایڈیٹر اور منیجر اس کے تصور سے خواب میں بھی چونک چونک کر اٹھتے ہیں۔ ہر اخباری ادارے کو لازماً اس سے واسطہ پڑتا ہے۔ لہٰذا اسے اخبار خوری کی عادت سی ہو گئی ہے۔ اس کے بے شمار منہ ہوتے ہیں اور ہر منہ میں سینکڑوں زبانیں۔ ایک ایک پرچہ ہر منہ میں ٹھونس دو، تو سب اچھا ہے ورنہ سینکڑوں زبانوں کا ایک لشکر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ بعض اخبار تو اس کی زد پر آ کر ”ڈیکلریشن“ یعنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ جو لوگ اخبار نہ ملنے کی شکایات بھیجتے رہتے ہیں انھیں اس اخبار خور جن کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
معاشرت
یہاں کے لوگ عموماً عالمِ خیال میں اڑتے رہتے ہیں۔ نیچے اترتے ہیں تو کاغذ کی گاڑیوں پر سفر کرتے ہیں۔ کاغذ ہی ان کی مشہور غذا ہے۔ اور کاغذ ہی پہناوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کاغذ فروشوں کے ہاتھوں میں پوری آبادی کی جان ہے۔ یہ لوگ مشین گن کا مقابلہ سوئیوں سے کرتے ہیں۔ قلم ان کا مشہور نیزہ ہے۔ شریف راہگیروں پر عموماً رنگ برنگ سیاہیاں انڈیل دینا عام مشغلہ ہے۔ یہ سیاہیاں ا خون کی آمیزش سے بنتی ہیں جو لوگوں کو لڑا کر بہایا جاتا ہے۔
٭٭٭