صحابہ کرام : وارثین کتاب میں صف اول کے لوگ

بسم اللہ الرحمن الرحیم​
سورۃ فاطر میں اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے :
وَالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ هُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ ۗ إِنَّ اللَّ۔هَ بِعِبَادِهِ لَخَبِيرٌ‌ بَصِيرٌ‌ ﴿٣١﴾ ثُمَّ أَوْرَ‌ثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَ‌اتِ بِإِذْنِ اللَّ۔هِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ‌ ﴿٣٢﴾
ترجمہ : ’’جو کتاب ہم نے آپ کی طرف بذریعہ وحی بھیجی ہے وہ سراسر برحق ہے ۔ وہ اپنے سے پہلے کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے ، بے شک اللہ تعالی اپنے بندوں کے حال سے باخبر اور دیکھنے والا ہے ۔ (۳۲)
(پھر پچھلی قوموں کے بعد) ہم نے اپنے بندوں میں سے ان لوگوں کو کتاب الہی (قرآن) کا وارث ٹھہرایا جنہیں ہم نے اپنی خدمت کے لیے اختیار کر لیا (یعنی مسلمانوں کو ) پس ان میں سے
ایک گروہ تو ان کا ہے جو اپنے نفوس پر ترک اعمالِ حسنہ و ارتکاب معاصی سے ظلم کر رہے ہیں ،
دوسرا گروہ ان کا جنہوں نے معاصی کو ترک اور اعمال حسنہ کو اختیار کیا ہے ، خدا پرستی اور ترک نفسانیت میں ان کا درجہ درمیانہ اور متوسطین کا ہے ۔
تیسرے وہ جو اذنِ الہی سے تمام اعمال حسنہ و صالحہ میں اوروں سے بڑھے ہوئے ہیں ۔ اور یہ خدا کا بہت ہی بڑا فضل ہے ۔ ‘‘(ترجمہ ختم ہوا)۔

اہل ایمان کے تین طبقے قرار دے کر مولانا آزاد اس کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ا: جو نفوس پر ظلم کر رہے ہیں کیوں کہ خدا سے غافل اور اس کے رشتے کی عزت کو بھولے ہوئے ہیں ، دلوں میں اعتقاد اور حسن ایمانی تو ضرور رکھتے ہیں ۔ پر ایمانی قوت میں ضعف بدرجہ کمال ہے اور عمل مفقود۔
ب: درمیانی طبقہ جو غفلت سے متنبہ ہوا ، اعمالِ حسنہ اختیار کیے اور امرِ الہی کے آگے سرِ اطاعت خم کیا ۔
ج: اعلی ترین طبقہ جو نہ صرف خیرات و محاسن کا انجام دینے والا ہے بلکہ ان میں اوروں سے پیش رو بھی ہے اور نیکی کی صفوں میں آگے بڑھنے والا ۔
الغرض یہ تیسرا طبقہ وارثین کتاب میں صف اول کے لوگ ہیں ۔ اور یہ صحابہ کرام میں مہاجرین و انصار میں السابقون الاولون لوگ ہیں جن میں سر فہرست بالترتیب خلفاء اربعہ ، عشرہ مبشرہ شامل ہیں ۔ (رضی اللہ عنہم اجمعین )

اقتباس : ترجمان القرآن از ابوالکلام آزاد۔ بحوالہ الہلال ۲۴ جون ۱۹۱۴ء ۔
 
جزاک اللہ۔۔۔
کاش اس امت کے مذہبی شدت پسند اس آیت پر غور فرمائیں۔۔۔یعنی بات بات پر دوسروں کے ایمان کو ٹٹولنے والے اور زمین پر خدا بننے کی کوشش کرنے والے اس بات پر غور کریں کہ اللہ ان لوگوں کو بھی اپنی کتاب کا وارث کہہ رہا ہے اور انکو اپنے چنے ہوئے بندوں میں شمار کر رہا ہے جو بقول مولانا آزاد "اپنے نفوس پر ظلم کر رہے ہیں، جو خدا سے غافل اور اسکے رشتے کی عزت کو بھولےہوے ہیں، دلوں میں اعتقاد اور حسنِ ایمانی تو ضرور رکھتے ہین، پر ایمانی قوت میں ضعف بدرجہ کمال ہے اور عمل مفقود۔
خدا تو یہ کہے، لیکن مذہبی شدت پسند؟۔۔۔یہ تو ان لوگوں کو منافقت اور کفر کے لیبل لگا کر ان کے خون کو مباح قرار دئے ہوئے ہیں اور خودکش حملے کر رہے ہیں ان پر۔۔۔:)
 

الشفاء

لائبریرین
جزاک اللہ۔۔۔
کاش اس امت کے مذہبی شدت پسند اس آیت پر غور فرمائیں۔۔۔ یعنی بات بات پر دوسروں کے ایمان کو ٹٹولنے والے اور زمین پر خدا بننے کی کوشش کرنے والے اس بات پر غور کریں کہ اللہ ان لوگوں کو بھی اپنی کتاب کا وارث کہہ رہا ہے اور انکو اپنے چنے ہوئے بندوں میں شمار کر رہا ہے جو بقول مولانا آزاد "اپنے نفوس پر ظلم کر رہے ہیں، جو خدا سے غافل اور اسکے رشتے کی عزت کو بھولےہوے ہیں، دلوں میں اعتقاد اور حسنِ ایمانی تو ضرور رکھتے ہین، پر ایمانی قوت میں ضعف بدرجہ کمال ہے اور عمل مفقود۔
خدا تو یہ کہے، لیکن مذہبی شدت پسند؟۔۔۔ یہ تو ان لوگوں کو منافقت اور کفر کے لیبل لگا کر ان کے خون کو مباح قرار دئے ہوئے ہیں اور خودکش حملے کر رہے ہیں ان پر۔۔۔ :)

سبحان اللہ۔۔۔ جی غزنوی بھائی۔ یہ اصطفینا والوں کے ایک درجے کی بات تھی کہ جو ارتقاب معاصی کی وجہ سے اپنے نفوس پر ظلم کر رہے ہیں لیکن پھر بھی اصطٍفینا میں داخل ہیں۔ لیکن ذرا اللہ عزوجل کے رحم و کرم کا اندازہ فرمائیں کہ جو لوگ اصطفینا میں داخل نہیں ہیں اور ظلم عظیم میں پڑے ہوئے ہیں، ان کو بھی "عبادنا" کے اعزاز سے محروم نہیں رکھا۔ اور عبادنا میں یہ جو " نا" کی ضمیر لگی ہے یہ بھی بہت بڑی نسبت ہے اگر سمجھا جائے تو۔۔۔
اور اصطفینا والوں کی تو کیا ہی بات ہے۔ اور یہ صرف اور صرف میرے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی رحمتوں کا صدقہ، اور آپ کی اپنی امت کے لئے دعاٖؤں کا نتیجہ ہے کہ ہم جیسے بے عمل لوگوں کو بھی اللہ عزوجل نے اصطفینا کی لسٹ میں کسی نہ کسی درجے میں رکھ لیا۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔ شائد اسی لئے موسیٰ علیہ السلام اس امت کو حاصل کرنے یا امت محمدی میں سے ہونے کے خواہش مند تھے۔۔۔ سبحان اللہ۔۔۔
 
بہترین کو معیار بنا کر جدوجہد کرنے والے شاید درمیانے درجے کو پالیں ، بد ترین کو معیار بنانے والے پائیں گے کیا ؟
اس آیت میں امت قرآن کے بہترین ، درمیانہ اور بدترین درجات کا ذکر ہے ۔ان سب کو یکساں قرآن کی نعمت ملی لیکن ان کے اعمال کی بنیاد ہر یہ تین درجات میں تقسیم ہو گئے ۔ بہترین ، درمیانہ اور بدترین ۔
اور اپنے نفس پر ظلم کرنے والے (ظالم لنفسہ ) بدترین لوگ ہیں جنہیں قرآن مجید جیسی نعمت ملی، ہدایت کی بات سنی ، لیکن نہ تو وہ نیکی کی راہ میں قربانی پر تیار ہوئے اور نہ برائیوں سے باز آئے ۔ یہ اگر توبہ کیے بغیر اسی حال میں مر گئے تو بد ترین امتی ہوں گے ۔ یہ موت کے بعد بہانے بنائیں گے لیکن ان کے بہانے قبول نہ ہوں گے ، بالکل اسی طرح جیسے نالائق طالب علم جو بالکل کوئی محنت نہیں کرتا ، نتیجتا فیل ہو جاتا ہے اور نتیجے کے روز بہانے بناتا ہے ۔ ان کی موت اور سوال و جواب کا منظر سورۃ النسا ایک اور آیت مبارکہ میں یوں ہے :

إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْ‌ضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْ‌ضُ اللَّ۔هِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُ‌وا فِيهَا ۚ فَأُولَ۔ٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرً‌ا ﴿٩٧
جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں جب فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں تو پوچھتے ہیں، تم کس حال میں تھے؟ یہ جواب دیتے ہیں کہ ہم اپنی جگہ کمزور اور مغلوب تھے۔ فرشتے کہتے ہیں کیا اللہ تعالیٰ کی زمین کشاده نہ تھی کہ تم ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وه پہنچنے کی بری جگہ ہے (97)
گویا ان کو ہدایت کا علم تھا ، حق کو پہچانتے تھے لیکن اس کے لیے کسی قربانی پر تیار نہ ہوئے ، یہ بہانہ بنائیں گے کہ ہم بڑے مجبور تھے ۔
ان سے اللہ تعالی نے صرف کم زور مردوں ، عورتوں اور بچوں کو مستثنی قرار دیا ہے کہ وہ واقعتا مجبور تھے :
لَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّ‌جَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا ﴿٩٨
مگر جو مرد عورتیں اور بچے بے بس ہیں جنہیں نہ تو کسی چارہٴ کار کی طاقت اور نہ کسی راستے کا علم ہے (98)
 
معیار تو ہمیشہ بہترین اور اعلیٰ و ارفع ہی ہوتا ہے لیکن وہ اپنی ذات پر اور اپنے نفس پر لاگو کیا جانا چاہئیے، ایک آئیڈئیل مسلمان جتنا اپنے نفس کیلئے strict ہوتا ہے اتنا ہی دوسرے مسلمانوں کیلئے Tolerant اور positive mindedہوتا ہے۔چنانچہ دوسروں کو ہمیشہ زیادہ سے زیادہ الاؤنس دیا جاتا ہے، حسنِ ظن رکھا جاتا ہے، لیکن اپنے نفس کے ساتھ رویہ سخت گیر اور کڑے محاسبے والا ہوتا ہے۔۔۔اگر دوسروں کو بھی ہم اسی سخت معیار سے ماپنا شروع کردیں جو اپنے نفس کیلئے ہونا چاہئیے، تو ہوتا وہی ہے جو ہورہا ہے یعنی ہر انسان قابلِ نفرت ٹھہرتا ہے۔
 
Top