صاد اوردوسری نظمیں - اعجاز عبید

الف عین

لائبریرین
ہزاروں سال کی سچا ئیاں جھوٹی نہیں ہیں

(خدا کے لیے ایک نظم)
ایک یُگ سے ہوا
گہرے پانی کی لہروں پر
مانوس سے دائروں کی زباں میں
دعا کر رہی ہے
***

کتنی صدیوںسے
چٹانوں کے خشک قرطاس پر
آندھیاں کیا ثناتیں رقم کر رہی ہیں
***

پتّیوں کی رگوں میں
ہرے خون کی شکل میں
ایک ہی نام .................
بس ایک نام ہے
اور دشمن اندھیوں نے اس جگمگاتے ہوئے نام پر
ایک چادر چڑھا دی ہے۔
***

اندھیرے کی چادر کے اس پار
’’ کوئی ہے""
’’ کوئی بھی تو نہیں ہے‘‘
ان صداؤں کو خاموشیوں کے کسی مقبرے میں سلادو
***

اندھیرے کی چادر کے اس پار کوئی
نوری کرنوں کے دھاگوں میں
معصوم گڑیاں پردے
ان کو صدیوں سے انجان سی حرکتیں دے رہا ہے
انگلیاں .........
مہرباں
بوڑھی
چمکیلی ...................نوری.......رحیم
***

صدا آ رہی ہے
’’ اندھیرے کے اس پار کوئی نہیں ہے ‘‘
صدا ڈوبتی جا رہی ہے
صدا ڈوبتی جا رہی ہے

ایپی لاگ Epilogue

پتّیوں کی رگوں میں
ایک ہی نام ہے ... جو ہرے خون کی شکل میں بہہ رہا تھا
دشمن اندھیروں کی موجودگی میں
خوف کے ساتھ
حلق کی گہری کہرائیوں میں
وہی نام اترنے لگا ہے

۔0۔0۔0۔0۔0۔00۔0۔
 

الف عین

لائبریرین
بارھویں تاریخ کی روشنی کے نام​
نعت​
غروب شام سےپہلے کا منظر
چمکتی آگ پھیلی آسمان میں
ہراس و خوف جاگا کارواں میں
اندھیروں نے چمکتی آنکھ کھولی
سمندر میں جو اتری سرخ ڈولی
سنہری رنگ کے اڑتے پرندے
بہت خاموشی سے پر کھولتے تھے
کہ شاید رات کی نیندیں نہ کھل جائیں
یہ موتی وقت سے پہلے نہ رُل جائیں
کئی فوجیں کنارے پر کھڑی تھیں
ہوا کے اک اشارے پر کھڑی تھیں
ہوا کے ہونٹوں پر مایوسیاں تھیں
جو اک مدت سے محتاج بیاں تھیں
کہ اب آ جائیں گے کالے اندھیرے
اُڑیں گے ہر طرف ڈر کے پھریرے

مگر لو......اب غروب شام کے بعد
ہوا کے ہونٹ پھیلے .......... مسکرائے
فرشتوں کے کئی پر پھڑ پھڑائے
ابھی کچھ لمحے پہلے آنکھ میں تھے
اندھیرے ۔۔اور اندھیرے ۔۔اور اندھیرے
مگر اب دور اک نوری نشاں تھا
فرشتوں سے چمکتا آسماں تھا
ہزاروں چاند تارے سات میں تھے
کئی سورج اسی بارات میں تھے
اندھیروں کے محل جو کنگرے تھے
اچانک وہ زمین پر آ رہے تھے
اندھیرے گھر میں اب تک تھا اندھیرا
مگر اس رات اک آئینہ اترا
سموئے تھا جو خود میں عکسِ نوری
بکھرتی تھی ہوا میں چاندی چاندی
فضا میں ٹوٹتی تھی چاندنی چاندنی
یہ قصّہ بارہویں تاریخ کا تھا

۔0۔0۔0۔0۔00۔0۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک تلخ نظم

مجھے بچپن کی یادیں آ رہی ہیں
جب بڑوں کے چھوٹے چھوٹے کام کر کے
ڈھیر سی میٹھی دعائیں لے کے خوش ہوتا تھا
’’ تمہارا جسم کڑوے نیم کے پیڑوں سا لمبا ہو‘‘

مگر اب
مجھ کو یہ محسوس ہوتا ہے
کہ میں لمبا سہی
پر نیم کے ُیڑوں کے اتنا تو نہیں ہوں
نیم کے پتّوں کی تلخی
میری ساری زندگی میں گھل گئی ہے

0۔0۔00۔0۔
 

الف عین

لائبریرین
پہلے انسان کا سفر

وہ پہلا انسان جس کی طاعت سبھی فرشتوں پہ فرض تھی
وہ پہلا انسان
جس کی اکلوتی ذات میں کتنی کائناتوں کو دیکھتا تھا خدا
وہ انسان
کتنا تنہا
اکیلے پن کے سمندروں میں وہ ڈوبتا اور ابھرتا
ہر اک طرف اس کی نظریں اپنے ہی جیسے انساں کو ڈھونڈھتی تھیں
مگر اسی کو تو پہلے انسان کا لقب تھا !

پھر ایک دن
بجائے ذہن اس کی پسلیوں سے عجیب سا اک خیال پیدا ہوا
وہ پہلا انسان
اپنی ہی پسلیاں تعجب سے دیکھتا تھا

یہ ذات سے کائنات کی سمت
پہلے انسان کا سفر تھا

۔0۔0۔0۔0۔0۔0
 

الف عین

لائبریرین
تخلیقی عمل پر ایک نظم

مجھے ابھی ابھی لگا
کہ جیسے میں
اک عجیب کرب سے
بہت دنوں کے بعد یوں ملا ہوں
جیسے مدتوں سے میرے واسطے
وہ اجنبی رہا ہو

مگر وہ کرب
میری انگلیوں کی پور پور کو
بہت ہی دھیمے دھیمے چھو رہا ہے
چومتا ہے
میری آنکھیں چھو رہا ہے

یہ کرب آج میرے واسطے
خوشی کی وجہ بن گیا ہے
چیخ گیت بن گئی ہے

۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0
 

الف عین

لائبریرین
اپنی شکست کی یاد میں

وہ کوئی اور ہو گا
جو آنکھوں کے بجھتے دیوں کو بچانے کی کوشش میں مصروف ہوگا
وہ کوئی اور ہو گا
جو مضبوط ہاتھوں سے آکاش کا بوجھ اٹھاتا رہا ہے
اٹھاتا رہے گا
وہ کوئی اور ہو گا
جو ہر وقت مسکان لب پر سجائے ہوئے سب سے باتیں کرے گا
وہ کوئی اور ہو گا ................
مگر یہ ’’ کوئی اور ‘‘
یوں ہی بے اجازت مرے جسم کے خول میں چھپ گیا ہے
یہ ’’ کوئی اور ‘‘ کوئی بھی ہو
میں یہی سوچتا ہوں
آج اپنی شکست
سامنے اس کے تسلیم کر لوں

۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔
 

الف عین

لائبریرین
کھوکھلی زندگی جینے کے بعد

مری زندگی کھوکھلی ہو گئی تھی
مری زندگی کے خلا کو بھرو
دھوپ کے پھول پتو !
چاندنی کے حسیں نرم پھو لو !
نرم شاخوں پہ لٹکے ہوئے چہچہو !
سوندھی مٹی کی خوشبو سے مہکی ہواؤ .....!
بادلو !
آسمانو .......!!
چھت کے سوراخ
سریوں لگی کھڑکیوں سے گزر کر
میرے گھر کو
مجھے روح دے دو
میں بہت دیر سے
سگر ٹوں کی مہک میں بسی گرم سانسیں
لپ اسٹک کے ہونٹوں کے بے روح بو سے
رَم اور جِن میں ڈوبے ہوئے قہقہے
بھولنا چاہتا ہوں

مری زندگی کھوکھلی ہو گئی تھی

۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0
 

الف عین

لائبریرین
بچھڑے لمحے کی سرگوشیاں

دبلے پتلےجسم
سونے کے ورق
صبح کی ہلکی سنہرے روشنی
شہر ................ باتیں
گاؤں .................. سناٹے
کیمرے کی آنکھ .....
ہونٹ
دور سے خوشبو کا بوسہ
ایک ہالے میں گھرے
دبلے پتلے جسم سونے کے ورق

شفق ملبوس میں لپٹا ہوا سورج
اور ماتھے پر سنہری جنّتیں
اور جنّتوں میں ہم
اپنے دل میں گنگناتی چاہتیں
چاہتوں کے رنگ سے رنگیں فضا
اور فضاؤں میں کئی سرگوشیاں
سرگوشیوں میں پیار
اور پھر ............
چاہتوں کو روندتے
ریل کے انجن کی بھاری گڑ گڑاہٹ
اور پھر
لب پر جدائی گیت
اور
پھر
لب پر
جدائی
گیت

۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔00۔
 

الف عین

لائبریرین
پاتال میں

لو..............
وہ چاند ستارے پھر پاتال میں جا ڈوبے
پل بھر پہلے
یہی چاند اس گہرے اندھیارے پاتال سے ابھرا تھا
اور اس کے پیچھے کتنے تارے تھے
اور ان کے پیچھے
فرشتوں کی نوحیں
ہاتھوں میں نوری علم نے
پھر بچے تھے ........
معصوم ........... سنہری بالوں والے
یہ پورا قافلہ ابھی ابھی پاتال سےابھرا تھا

اک شیشے کا ٹکڑا
جو دھرتی پر پڑا ہوا تھا
چمک گیا
کرنیں ٹکرائیں تو
شیشے کے دل میں نورانی .......... کچھ غیر مرئی
کچھ بہت عجیب سی گونگی روشنی
گہری.................
گہری..............
گہری اتر گئی
پھر تارے ۔۔۔
بچّوں کی چمکتی آنکھیں
چمکیلے فرشتوں کے پر
ساری روشنیاں
نورانی راتیں تھیں
اور شیشہ ۔۔۔۔!!

لو وہ چاند ستارے پھر پاتال میں جا ڈوبے
کیا گہری ۔۔ گونگی دلدل ہے
سب دھنسنے لگے
دھنستے گئے
گہرے۔۔۔۔۔۔۔۔
گہرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گہرے اتر گئے
اور شیشہ ؟

۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0
 

الف عین

لائبریرین
ایک مختصر مرتے لمحے کی نظم

یہ مردہ لاش جنگل کی
ہمارے چھوٹے سمٹے شہر کی
مٹی میں کیسے دفن ہوگئی
ہمارے شہر میں
مٹی کہاں ہے ؟؟

۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔
 

الف عین

لائبریرین
یا خدا
(قدرت اللہ شہابؔ کے لیے )​

رب المشرقین

مشرق میں سورج کے ٹکڑے
مغرب میں اک چاند
جس کی نیلی چمک کے آگے
سورج بھی ہے ماند
آنکھوں میں تصویر چاند کی
ہونٹوں پر نیزے
ہاتھ گناہوں کی گٹھڑی کا
کتنا ملائم ہے
تسبیحوں کے موتی بکھرے
تعویذوں کے حرف
سرخ سلاخیں سینوں پر ہیں
اور ہونٹوں پر برف

رب المغربین

بڑی سی کشتی کے عرشے پر
جلے ہوئے کچھ ہاتھ
مغرب کی خوشبو کی لیکن
یہ کیسی برسات
جن ناموں سے کانوں میں
کچھ شہد سا ٹپکا تھا
بچے کی آنکھوں نے ان کو
جلتا دیکھا تھا
رب العالمین

جل ہی چکیں جو گلیاں آخر
جلنے والی تھیں
پھر ہونٹوں پر نیزے تھے
اور آنکھیں خالی تھیں

۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔
 

الف عین

لائبریرین
دائرہ​

ٹافیوں کے ڈبے سے
اک دھواں سا نکلے گا
اور اگلے ہی لمحے
کاغذوں پہ رینگے گا
اپنے ٹوٹے جوتوں سے
راستوں کو ٹاپے گا
اور ایک چمنی میں
گول گول گھومے گا
دوسرا سرا جس کا بادلوں میں گم ہو گا
بادلوں پہ اک ارتھی
اک چتا میں سلگے گی
اور سحر کی ساوتری
اس میں کود جائے گی
اور چتا کے انگارے
آسمان کے تارے
بن کےروز چمکیں گے
آنچلوں کے سائے میں
پھر بھی جسم چہکیں گے
اک ستارہ ٹوٹے گا
اور اگلے ہی لمحے
ایک چھوٹا سا بچہ
ٹوٹتے ستارے کو
پھر سے ایک ٹافی کے
ڈبے میں چھپالے گا
ٹافیوں کے ڈبے سے
اک دھواں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک نظم

ہم آج بھی چپ کھڑے ہوئے ہیں
سوچا تھا کہ آج در کھلے گا
اور کوئی حسین شاہزادی
ہاتھوں میں سنبھالےسچے موتی
آتے ہی بکھیر دے گی سارے
آنکھوں سے جو اپنی ہم چ)نیں گے
مدت سے خزانہ ہے جو خالی
بھر جائے گا موتیوں سے .......
لیکن ..............
دستک کاجواب کچھ نہیں ہے
اب تک بھی یہ در کھلا نہیں ہے
آنکھوں کی خلا چھپائے سب سے
ہم آج بھی چپ کھڑے ہوئے ہیں
۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0
 

الف عین

لائبریرین
ایک نظم

اک اجلی سی لڑکی جس نے
بکھیرے رنگ شام
ہاتھوں پہ مہندی سے لکھا
اپنا میرا نام

اک پیاری سی بہن کے دونوں
سوئٹر بنتے ہاتھ
اک دن جس کے نین آکاش نے
رم جھم کی برسات

ان دونوں نے باندھ رکھے ہیں
میرے سارے چھور
ریشم اون سے جوڑ رکھی ہے
میری سانس کی ڈور
۔00۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0
 

الف عین

لائبریرین
ایک نظم​

کورا کاغذ سمندر بنے
اور کئی کشتیاں
اک کنارے سے اگلے کنارے کی جانب بہیں
اور ہوا
باد بانوں کو جھولے جھلاتی چلے
یہ مگر اک تمنا ہے
(یا پھر دعا ......؟)
کون جانے ..........
روشنائی کی اک بوند
میرے لیے
کونسے لمحے امرت بنے گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔00000
 

الف عین

لائبریرین
رات کے بعد

ابھی رات کی بات ہے
چاندنی کے کئی ننھے قتلے درختوں کے سائے میں بکھرے پڑے تھے
پوکلپٹس پہ چاندی کی اک اور تہہ چڑھ گئی تھی
اور اک دیو داسی
ایک تارہ لیے
جے جے دنتی کے بولوں میں کھوئی ہوئی
کچھ وہ جاگی ہوئی ۔۔۔ کچھ وہ سوئی ہوئی
چاندنی میں وہ آنچل بھگوئی ہوئی

اور پھر .............
ساز ٹوٹ جاتا ہے
گیت روٹھ جاتا ہے
پتیاں بکھرتی ہیں
بستیاں اجڑتی ہیں
چاند بھیگ جاتا ہے
خواب چیخ اٹھتا ہے

صبح مسکراتی ہے
۔۔۔۔۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0
 

الف عین

لائبریرین
ایک نظم

میں تو رستے کا مسافر ہوں
نہ منزل ہے نہ جادہ کوئی
میں ابھی ایک گھنے نیم تلے سویا تھا
اور اب اک میل کے پتھر سے ٹکا بیٹھا ہوں
اگلے پل چوم رہی ہوں گی کئی موجیں مرے نقش قدم
ریت میں ثبت نشاں

میں تو رستے کا مسافر ہوں
مگر آنکھوں میں
اک شفق رنگ تمنا کی لویں چلتی ہیں ۔۔۔۔۔۔
کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں میں جاؤں مرے لیے
کوئی صبح پھول بکھیر دے
کوئی دھوپ رنگ میں رنگ دے
کوئی شام چھیڑ دے شیام راگ
کوئی رات تھپکیاں دے مجھے
کوئی بھولی بھالی سی سوہنی
کہ تمام رنگ تمام نور
کسی اداس برامدے کے
اندھیرے ایک ستون سے لگی منتظر ہو مرے لیے
۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔
 

الف عین

لائبریرین
موسم کا سکوت

عجیب فصل ۔۔ عجیب موسمِ سکوت ہے یہ
حرم حرم نہ صدائے اذاں کی گونج ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔نے
حرب حرب میں وہ پوجا کی تھالیوں کے چراغ
زباں زباں پہ نہ آیت کسی صحیفے کی
نہ بزم بزم میں رقصاں ہیں مستیوں کےایاغ

فلک فلک پہ نہیں ضو کسی ستارے کی
فضا فضا نہ کوئی نغمۂ ربابی ہے
نہ موج موج کوئی ڈولتی ہوئی کشتی
نہ سطح آب کوئی خیمۂ حبابی ہے

سکوتِ دریا نہیں پیش خیمہ طوفاں کا
کہ سنگ سنگ پہ تحریرِ سبز کاہی ہے
کراں کراں ہے حروف و صدا کی حد بندی
ورق ورق پہ نہ اک قطرۂ سیاہی ہے

افق افق نہ شفق کے حریری آنچل ہیں
چمن چمن میں نہ وہ جگنوؤں کے مہ پارے
نہ شاخ شاخ پرندے پروں کو تولے ہوئے
روش روش نہ کہیں خوشبوؤں کے فوارے

ہوا میں اڑتی کوئی گرد کارواں ہی نہیں
نہ رستہ رستہ ہے آہٹ کسی مسافر کی
نہ دشت دشت گر یباں دریدہ قیس کوئی
نہ صحرا صحرا کہیں کوئی ناقۂٔ لیلی

نہ کھڑکیوں میں ہےملبوس رنگ رنگ کوئی
نہ بام بام کوئی محفل نگاراں ہے
گلی گلی نہ کہیں کنواریوں کے ڈھولک گیت
نہ شہر شہر ہجومِ غزال چشماں ہے

عجیب فصل عجب موسم سکوت ہے یہ
جہان سارا عجب کرب و اضطراب میں ہے
دکھائی کچھ نہیں دیتا ہے دھند کے اس پار
ادھر بھی چار سو ماحول کس عذاب میں ہے

کوئی تو وقت کو آواز دے ۔ بلائے اسے
چلائے تیر ۔۔ فضاؤں کو جو جھنجھوڑ سکے
دبیز پردہ خاموشی چاک کر ڈالے
اور اس عذاب کے پتھر کو توڑ پھوڑ سکے
۔0۔0۔0۔0۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک نظم

آج کی سہ پہر خوب بارش ہوئی
پہلی بارش کی بوندوں نے
کیا جانے کیا
سنسناتی سلگتی زمیں سے کہا

سبز آشفتگی نے خداوندِ عالم کے
شکرانے کے طور پر
خوب نفلیں پڑھیں

آج کی سہ پہر خوب بارش ہوئی
۔۔۔۔۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top