صاد اوردوسری نظمیں - اعجاز عبید

الف عین

لائبریرین
احساس

اب تک جو کچھ بھی سوچا ، سمجھا، جانا اور دیکھا تھا
تیرے روپ کا سپنا تھا ، یا میری آنکھ کا دھوکا تھا

تو بھولی بھالی سی لڑکی جس کے روپ ہزار
تیرے سوابھی گھٹا ۔چمیلی ۔ گگن سے مجھ کو پیار
تو اک ست رنگی سی دھنک اور پھر چوڑی کے رنگ
میں آئینے کا ٹوٹا ٹکڑا اور وہ بھی بے رنگ
تو گوری جوسیج پہ سوئے مکھ پر ڈارو کیس
میں رمتا جوگی جو ہر پل آئے بدل کر بھیس
تو وہ بہار کا پھول کہ جس سے بادِ صبا کو پیار
ہیں جیسے کسی ویرانے میں اک تھو ہر کی قطار
یا وہ برگ خزاں جو پاؤں سے چرمر ٹوٹ گیا
پھر کیوں مجھ کو دکھ ہو تیرا ہاتھ جو چھوٹ گیا

تو وہ تیز ندی جیسے گنگا کاویری پیاس
میں ریگستانوں کی ترشنا ۔۔ میری انمٹ پیاس
تو نے ہاتھ جھٹک کے دیا مجھ ان سب کا احساس
۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک سیاسی نظم
(ایمرجینسی کا زمانہ

وہ دن آگیا
جب ہر اک آنکھ
سرخ
اپنے ہی خون
اپنے ہی چلتے ہوئے سرخ شعلے
کی سرخی سے پُر تھی

تو اس پل خدا نے
فرشتوں کو بھیجا
کہ ہر سمت جائیں
زمیں پر جہاں بھی کہیں
سرخ کے ماسوا اور کچھ رنگ
ان کو دکھائی دے
اس کو
سرخ ہی رنگ سے
پینٹ کر دیں
۔0۔0۔0۔0۔0۔
 

الف عین

لائبریرین
فیض اور فیض کے غم کے نام

موسمِ گل کے قدم
جانے کہاں کون سے رستے پہ مڑے
اس طرف تو نہیں آئے شاید
موسمِ گل کے قدم
راستہ گھر کا مرے بھول گئے ہیں شاید
(جو کوئی مشکل تو نہ تھا )

ابتدا سے مری تقدیرمیں لکھّے ہیں وہی
دشتِ امکاں کے سراب
جو مرے خون میں شامل ہیں
بصارت میں، سماعت میں گھُلے
گفتگو ۔ لمس۔ نظر میں شامل
اور یہ عالم ہے مرا
کچھ پتہ ہی نہیں چلتا مجھ کو
کب ہوئیں ، جلوہ گہِ وصل کی شمعیں روشن
کب کسی مہرِ جدائی سے اندھیرے پھوٹے
خواہشِ ہجر ہو کب عرضِ وصال
پھول مہکیں تو ہنسا جائے
کہ رویا جائے
دل جو خوں ہو
تو میں روؤں کہ ہنسوں
جشن کا غم ہو کہ ماتم کی خوشی
اب تو کچھ بھی مجھے احساس نہیں ہوتا ہے

موسمِ گل کےقدم
جانے کب آئیں مرے گھر کی طرف
کب مٹیں گے یہ سراب
کس طرف جاکے رکے ’’ قافلۂ نکہت غم‘‘
۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔
 

الف عین

لائبریرین
طَیراً اَبَابِیل َ

ہر سمت
تا حدِّ نظر
بس گرد ہے
اور کچھ ڈرونی سی صداؤں کی کئی موجیں
یہ سب مل کر مرے قرطاس پر شب خون آور ہیں

اے ابرہہ ۔۔۔ اے ابرہہ
• تو مطّلبؓ کی بکریاں چھوڑے نہ چھوڑے
ہا تھیوں کے لشکروں کو دور لے جا
یہ نظم لکھنے دے مجھے۔۔۔ اپنے خدا کے نام
بس ایک ننھی منّی نظم
کہ ترے ہاتھیوں کے لشکروں کی گرد سے میرے قلم کی روشنائی
خشک ہو جانے کو ہے
قرطاس پر لکھے ہوئے الفاظ سب مٹنے کو ہیں

اے ابرہہ ..............! اے ابرہہ !!
بس اک ذراسی نظم لکھنے دے مجھے

میرے خدا .............. میرے خدا ........!!
تیری ابابیلیں کہاں ہیں ؟
۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔
 

الف عین

لائبریرین
ایک کہانی

بہت دیر سے میں بہت پر سکوں تھا
بڑی دیر سے وہ بھی خوش خوش بہت تھی
بڑی دیر سے میں بہ آرام بیٹھا
یہ کہتا رہا.............
’’ میری تھی خوش نصیبی
کہ مجھ کو ملی ہے بہت پیاری بیوی
کہ جس نے مجھے پیار سے بھی نوازا
مجھے ایک ننھی سی گڑیا بھی دی ہے
کہ اگلے مہینے کے اٹھارویں دن
جو دو سال اپنے مکمل کرے گی
بہت باتیں کرتی ہے
نٹ کھٹ بہت ہے ‘‘

بہت دیر سے وہ بھی خوش خوش بہت تھی
سناتی رہی اپنے شوہر کی باتیں
’’ ابھی اپنےدفتر سے آتے ہی ہوں گے۔
تھکے ہارے آتے ہیں ۔جب چائےپی کر
بلاتے ہیں بچے کو ، کچھ کھیلتے ہیں
کبھی جاتے ہیں پارک میں سب کو لے کر
کوئی فلم اچھی اگر چل رہی ہو
کہ شاپنگ ہی کرنےنکلتے ہیں گھر سے
کسی چینی ہوٹل میں کھاتےہیں کھانا
کبھی وہ جو ہوٹل ہے اُڈپی صد رمیں
وہاں اڈلی ڈوسا کھلاتے ہیں سب کو
بہت دھیان رکھتے ہیں بچے کا ‘‘
اور پھر
لجاتے ہوئے سے کہا ۔۔۔’’ اور مرا بھی ’’

اچانک وہ رونے لگی ہچکیوں سے
کہ بچے کو مجھ سےملانے کی خاطر
جب ’اعجاز‘ کہہ کر پکارا تھا اس نے
نہ میں ضبط کر پایا اپنے بھی آنسو
اسے یہ بتا بھی نہ پایا
کہ میں نے بھی نام اپنی لڑکی کا ’نکہت‘ رکھا ہے
۔0۔0۔0۔0
 

الف عین

لائبریرین
منظر ایک

دروازے پر ایک پرانا چہرہ نظر آتا ہے
کھٹیا پر بیٹحے بوڑھے حقے کی گڑ گڑ گڑ گڑ
اک پل کو تھمتی ہے
ہاتھ بھوؤں تک اٹھتے ہیں
اُپلے چھت پر رکھتی لڑکی سُن سی رہ جاتی ہے
ناند کے پاس کھڑی عورت
ٹک دیکھتی رہتی ہے
کانپتے ہاتھ ۔ چمکتی آنکھیں ۔ تھر تھر کرتے ہونٹ
سارے بدن سے ’بیٹا ‘ کہہ کر بڑھتی ۔ گر جاتی ہے
 

الف عین

لائبریرین
منظر دو

کچی مسجد کے پیچھے تھوہر کی لمبی قطار
رستے میں کچھ گولیاں کھیلتے ۔ بچے بھی دوچار
رستے کے اس طرف پڑاگھورے کا بڑا انبار
کچھ چنتی ۔ کچھ چگتی مرغی ۔ اور اس کے چوزے
تال کے بند پہ پھبلے ہوئے رنگین کئی کپڑے
گھر کی چھت پر سیم کی بیلیں۔ بکہرے ہوئے اُپلے
جو ہڑ کے گندے پانی میں نہاتی دو بھینسیں
گھڑے لیے کچھ سانوریاں پنگھٹ کے رستے میں
مندر کی کلسی پر بیٹھی کچھ بوڑھی چیلیں
دور شہر کے رستے میں جاتی ہوئی ایک برات
اور ادھر کانٹوں کی باڑھ کے پیچھے ہلتے پات
ننھے ننھے اجلے اجلے دانوں کی برسات
چُپ چُپ گرتی لیکن سوپ میں چھن چھن کرتی جوار
رک رک کر نیزے سے چبھوتی ایک سوچ ہر بار
کتنا غلّہ گھر میں بچے کیا جائے گا بازار
 

الف عین

لائبریرین
منظر تین

ناریل کے درختوں میں پاگل ہوا
سیٹیاں سی بجاتی رہی سارا دن
کنج میں اپنے من موہی کی منتظر
شام کےدھیان میں سوچ کر کیا کیا کچھ
ایک لڑکی لجاتی رہی سارا دن
 

الف عین

لائبریرین
منظر چار

ہاتھ میں دوپٹے کا کونہ ۔ تھر تھر کرتے ہونٹ
دروازے کی جھری سے لگے کچھ چوکنے سے کان
در میں کسی ممکن سوراخ کی کھوج لگاتی آنکھ
کچھ اپنے میں لجانے کانپتے جسم کا سندر لوچ
دروازے کے پار .........
کھنکتی عجب سی شوخ ہنسی
چوکھٹ پر بھیا کی پوری جلتی ہوئی سگریٹ
بھابھی کی نٹ کھٹ نٹ کھٹ سی چوڑی کی کھن کھن کھن
کچھ ہنستی ساون کی بوندیں ۔ کچھ بجتے کنگن
کچھ جنگل میں ہونکتے سناٹے کی بھاری صدا
کچھ باغوں کی طرح کمرے میں سر سر کرتی ہوا

اور ادھر ....۔ وہی تیز سی سانسیں ۔ جلتے جلتے ہونٹ
ہاتھ میں دوپٹے کا کونہ .۔۔ چوکنّے سے کان
۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔0۔`

نظمیں ختم شد
 
Top