مصحفی شیخ غلام ہمدانی :::::: ہم تو سمجھے تھے کہ ناسورِ کُہن دُور ہُوئے::::: Shaikh Ghulam Hamdani Mushafi

طارق شاہ

محفلین
غزل
غلام ہمدانی مُصحفیؔ امروہوی

ہم تو سمجھے تھے کہ ناسورِ کُہن دُور ہُوئے
تازہ اِس فصل میں زخموں کے پِھر انگُور ہُوئے

سَدِّ رہ اِتنا ہُوا ضُعف، کہ ہم آخرکار!
آنے جانے سے بھی اُس کُوچے کے معذُور ہُوئے

رشک ہے حالِ زُلیخا پہ، کہ ہم سے کم بخت
خواب میں بھی نہ کبھی وصل سے مسرُور ہُوئے

بیچ سے اُٹھ گئے ہم، آئنہ لے ہاتھ میں وے
آپھی ناظر ہُوئے اور آپ ہی منظُور ہُوئے

بس کہ سُنتا رہا مَیں نیش زنوں کے طعنے
پردۂ گوش مِرے خانۂ زنبُور ہُوئے

اشک تھم جاویں جو آنکھوں سے مِری، تو بہ طعن
مُجھ سے کہتا ہے کہ، "چنگے تِرے ناسُور ہُوئے"

لگ کے جِس نخلِ چَمن کے مَیں گَلے سے رَویا
شاخ و برگ اُس کے پُر از خوشۂ انگور ہُوئے

بن گیا داؤں مِرا مُصحفیؔ اُس دَم کیسا
جِس گھڑی رات نشے میں وہ بہت چُور ہُوئے

غلام ہمدانی مُصحفیؔ
 
Top