شہید حجاب: 3 ماہ کی حاملہ مسلمان عورت جرمن عدالت میں قتل

مہوش علی

لائبریرین
جرمنی کے میڈیا کو ہمیں دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔
1۔ ٹی وی
2۔ رسائل و اخبارات

جرمن رسائل و اخبارات بہتر ہیں اور یہاں آپ کو غیر جانبدارانہ تجزیے پڑھنے کو مل جائیں گے۔

مگر جرمن ٹی وی [خصوصا نیوز چینل] بہت زیادہ یہودیوں کے زیر اثر ہیں اور انکی رپورٹنگ بہت زیادہ جانبدارانہ ہے۔ حتی کہ انکے سامنے بی بی سی اور سی این این آپ کو آسمان کی بلندیوں پر نظر آئیں گے، اور یہ بہت دردناک حقیقت ہے [جرمن قوم بذات خود اچھی ہے اور اتنی نفرت نہیں رکھتی، چنانچہ ایسی قوم کو ایسا میڈیا نہیں ملنا چاہیے تھا]

موجودہ چانسلر خاتون اینجلا میرکل سے میں بہت زیادہ متنفر ہوں۔ یہ خاتون اگرچہ کہ اتنا ظاہر نہیں کرتیں، مگر غیر ملکیوں اور خصوصا مسلمانوں کے خلاف ہیں۔

سی ڈی یو پارٹی کی اس وقت حکومت ہے۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ اس پارٹی میں اچھے لوگ بھی ہیں اور برے لوگ بھی۔ حال ہی میں یہاں کے ایک شہر فرینکفرٹ میں ایک پاکستانی مسجد بنانے کی اجازت صوبائی حکومت نے دی ہے [صوبائی حکومت بھی سی ڈی یو کی ہے]۔ اس اجازت پر شہر کے اس علاقے میں بہت احتجاج ہوا، مگر اسی پارٹی نے پاکستانی مسجد والوں کا بھرپور ساتھ دیا اور آخر کار پروجیکٹ منظور ہو گیا۔

ایک حقیقت اور یہ ہے کہ جرمنی میں گیارہ ستمبر کے واقعے سے قبل مسلمانوں کے خلاف اتنی نفرت نہیں پائی جاتی تھی۔ مگر گیارہ ستمبر کے بعد جہاں ایک طرف ہمارے ملکوں میں طالبان و القاعدہ جیسے انتہا پسند مضبوط ہوئے ہیں، اسی طرح جرمنی میں بھی انتہا پسندوں کو مقبولیت مل رہی ہے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔

خاص طور پر یہاں کے نیوز چینل وغیرہ مسلمانوں کے خاصے خلاف لگتے ہیں اور ان پر یہودی چھاپ لگی ہوئی ہے۔

اسی طرح پہلے تو صرف ایک فلم Not without my Daughter ہر دوسرے تیسرے مہینے دکھائی جاتی تھی، مگر حال ہی میں ایسے بہت سے ڈرامے انہی چینلوں پر دکھائی دینے شروع کر دیے گئے ہیں جن میں دکھایا گیا ہے کہ یہاں جرمنی کی مسلمان فیملیز میں کس طرح لڑکیوں پر ظلم ہوتا ہے اور انہیں شادیوں کے لیے مجبور کیا جاتا ہے اور اگر کسی جرمن لڑکی نے کسی مسلمان لڑکے سے شادی کر لی ہے اور بیٹی پیدا ہو گئی ہے تو کس طرح مسلمان باپ زبردستی بچی کو قران سکول بھیجتا ہے اور کس طرح پابندیاں عائد کرتا ہے اور موقع ملتے ہی کس طرح بیٹی کو لیکر اپنے آبائی ملک فرار ہو جاتا ہے اور ماں کو بیٹی سے ملنے نہیں دیتا۔

مجھے حیرت ہے کہ پاکستان میں لوگ اس فلم Not without my Daughter کو نہیں جانتے، حالانکہ جرمنی میں ایک وقت تھا جب یہ فلم ہر دوسرے مہینے چینلز پر دہرائی جاتی تھی۔

آج سے 15 قبل کا جرمن معاشرہ مجھے یاد ہے اور وہ اتنا ننگا نہیں تھا۔ آجکل یہاں معاشرے کے طبقات انتہاؤؤں پر پہنچ گئے ہیں۔ جرمن ٹی وی ایسے غیر اخلاقی پروگرام پیش کرتا ہے جس کے بعد ہمارے گھر میں ٹی وی چلنا تقریبا ختم ہی ہو گیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ یہ غیر اخلاقی جرمن ٹی وی تک محدود نہیں، بلکہ جرمن نئی نسل واقعی غیر اخلاقی اقدار کا شکار ہے اور معاشرے اور ٹی وی میں جرمن نسل اور مسلمانوں کے درمیان ایک واضح تناؤ مجھے نظر آتا ہے۔

جرمن میڈیا سے ایسے ہی میں لاتعلق رہتی ہوں، مگر اس شہیدہ حجاب کے معاملے میں تو واقعی جرمن ٹی وی نے کنجوسی کا مظاہرہ کیا ہے اور اسے نا ہونے کے برابر کوریج دی ہے۔ صرف یہاں کی مسلمان کموینٹی اس پر احتجاج کر رہی ہے، مگر افسوس یہ کہ مسلمان بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود میڈیا میں انکی نمائندگی تقریبا نا ہونے کے برابر ہے اور یہودیوں کی تعداد کم ہے مگر یا تو وہ بذات خود میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں یا پھر جرمن مکمل طور پر ان یہودیوں کے زیر اثر ہیں۔
 

arifkarim

معطل
مہوش آپنے اب تک جو کچھ بھی لکھا ہے۔ یہ سب New World Order کا اثر ظاہر کر رہا ہے۔ جو Illuminati کے سات اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ خاندان، اخلاقیات و مذاہب کا معاشرے سے صفایا کر دیا جائے۔ اور یہی صیہونی ایجنڈا میڈیا کے ذریعہ سے آجکل کر رہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت بھرے جذبات ابھارنا بھی اسی پلین کا حصہ ہے تاکہ عوام کو مذہب دشمن بنایا جائے :grin:
 

محمداسد

محفلین
جرمنی کے میڈیا کو ہمیں دو حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔
1۔ ٹی وی
2۔ رسائل و اخبارات
۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جرمن رسائل و اخبارات کس حد تک غیر جانبدارانہ ہیں؟
اور کیا وہ بھی اس معاملہ کو اتنا ہی حساس محسوس کرتے ہیں کہ جیسے پاکستانی اخبارات؟
 

شمشاد

لائبریرین
پاکستانی اخبارات کی تو آپ بات ہی نہ کریں۔ انہیں تو کوئی خبر چاہیے جسے مرچ مصالحہ لگا کر اور چٹ پٹی بنا کر اپنی بِکری بڑھائیں۔
 

فخرنوید

محفلین
جناب کو تو ہر پاکستانی چیز میں برائی ہی نظر آتی ہے۔

مجھے یہ سمجھ نہیں آتی ہے ایک حقیقت کو میڈیا دکھاتا ہے۔ اس میں مرچ مصالحہ کیسے لگایا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی واقعہ ہوا ہے تو اس کی ویڈیو بن گئی یا خبر بن گئی ۔ یہ کوئی سٹیج ڈرامہ یا فلم تو نہیں مرضی سے سب کردار سیٹ کر کے مرچ مصالحہ لگا لیا جائے۔

سوری
 

فخرنوید

محفلین
shaheed_hijaab_muslim_egypt.gif
 

arifkarim

معطل
یہ سب کچھ مسلمانوں اور مغربی تہذیب کے مابین فرق بڑھانے کیلئے کیا جاتا ہے۔ آخر کو تیسری جنگ عظیم کی راہ بھی تو ہموار کرنی ہے نا!
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

جناب یہ ایک لنک کے اندر 6 لنکس ہیں پہلا لنک انگلینڈ کا ھے باقی سب جرمن کے ہیں
اس بےچارہ مسلمہ شہید کی خبر آپ جرمنی اخباروں میں بھی بمہ کورٹ کی تصویروں کے دیکھ سکتے ہیں



http://www.indymedia.ie/article/93125


والسلام
 

کعنان

محفلین
السلام علیکم

بھائی صاحب مسلمانوں کا جگا کے کیا کرو گے یہ کام قیادت کے ہوتے ہیں

ایران پر حملے کرنے کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کے لیے سب سے پہلے سعودی عرب نے اعلان کیا ھے۔ وہ امریکہ کو اپنے اڈے دینے کے لیے تیار ھے۔

یہ چار مسلمانوں کو جگا کے کیا کرو گے۔

ہم بس دکھ اور افسوس کے سوا کچھ نہیں کر سکتے

والسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
اس واقعے پر جرمن میڈیا کے کردار پر مجھے افسوس ہوا ہے کہ انہوں نے اس واقعے کو اتنی کوریج نہیں دی جتنی کہ دینی چاہیے تھی۔ جرمن میڈیا واقعی میں بہت حد تک غیر جابندار ہوتا جا رہا ہے [خصوصا ٹی وی میڈیا]

بہرحال، دوسری طرف یہ باتیں یاد رکھئیے کہ:

1۔ جرمن عوام کا بڑا حصہ ابھی بھی اس غیر ملکی دشمنی کی خلاف ہے۔

2۔ اور مسلمانوں کا اپنا کردار کچھ زیادہ مثالی نہیں ہے۔

مثلا اس بات کا تذکرہ کیا جا رہا ہے کہ جرمن نازی نے مروہ کو اسلامی دہشتگرد کہا۔ مگر یہاں جرمنی کی ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ یہاں پر غیر ملکی جرمنوں کو اتنی ہی بڑی گالیاں روز کئی کئی مرتبہ دیتے ہیں۔ یہ بات شاید آپ کے لیے اچھنبے کا باعث ہو، مگر یہ بہت کھلی حقیقت ہے کہ یہاں غیر ملکیوں میں ایک طبقہ ایسے ہی جرمنوں سے نفرت کرتا ہے جیسا کہ جرمنوں کا ایک طبقہ [نازی] غیر ملکیوں سے۔ خود کئی پاکستانی ہیں جو کام کرتے ہیں اور نہ کاج، اور بیٹھ کر مفت میں جرمن حکومت سے شوشل کے پیسے لیکر کھاتے ہیں اور دن رات جرمنوں کو برا بھلا کہتے ہیں۔

یہ چیزیں مشرقی جرمنی کے الحاق سے قبل بہت ہی کم تھیں، مگر الحاق کے بعد یہ طوفان بنیادی طور پر مشرقی جرمنی سے آیا ہے۔

نیز گیارہ ستمبر کے بعد سے اس چیز کو اور مہمیز لگی اور یہاں کے انتہا پسندوں کے ہاتھ میں مزید ہتھیار ہاتھ میں آ گئے اور انسان دوست قوتیں یہاں پر کمزور ہونا شروع ہو گئیں۔

**********************

ایران میں جو مظاہرین نے اس واقعے کے احتجاج کے طور پر جرمن سفارتخانے پر جر انڈنے برسانے شروع کر دیے ہیں وہ غیر ضروری اور غیر دانشمندانہ قدم ہے۔

یہ دیکھئیے کہ جرمنی میں بہت سے جرمن لوگ اس واقعے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ جب انہیں پتا چلے گا کہ ایران میں انکے سفارتخانے پر انڈے برسائے گئے ہیں تو ان کا کیا ردعمل ہو گا؟ اس طرح کے جذباتی اعمال سے صرف انتہا پسند ہی مضبوط ہوتے ہیں، یہاں بھی اور وہاں بھی ۔۔۔ یعنی دونوں طرف۔

ہمیں چاہیے ہے کہ احتجاج کریں، مگر صبر و ضبط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ احتیاط اچھی چیز ہے۔

جرمن پولیس والے نے جو مروہ کے شوہر پر فائر کیا تھا، تو ایسا غلطی سے ہوا ہے۔ پولیس والوں کو ٹریننگ دی جاتی ہے کہ وہ ڈائریکٹ فائر کرنے کی بجائے ایسی صورتوں میں ٹانگوں پر فائر کریں۔

ہمیں یہ بات واضح طور پر لکھنی چاہیے کہ یہ غلطی تھی، ورنہ ہمارے میڈیا میں موجود انتہا پسندوں کے حمایتی اسے اس طریقے سے پیش کریں گے جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ پولیس والے نے غلطی سے نہیں بلکہ جان بوجھ کر مروہ کے شوہر پر اپنی نفرت کی وجہ سے فائر کیا۔

انصاف بہت ضروری چیز ہے، لہذا اس پولیس والے کی غلطی کو غلطی ہی رہنے دیں اور انتہا پسندوں کو یہ موقع نہ دیں کہ وہ اسے اپنے مقاصد کے استعمال کے لیے نفرت سے جان بوجھ کر کی گئی فائرنگ کا تاثر دیں اور اس بل بوتے پر ہماری عوام کے اندر نفرتیں پیدا کریں۔

***************

ایک چیز اور یاد رکھیں کہ یہ کبھی کبھار ہی ہوتا ہے کہ جرمن کسی غیر ملکی کو قتل کر رہا ہو۔ مگر ایسے واقعات یہاں پر زیادہ تعداد میں ہیں جب غیر ملکی یہاں پر جرمنوں کو قتل کر رہے ہوتے ہیں۔

جرمن میڈیا سے تو مجھے مایوسی ہوئی ہے، مگر جرمن معاشرہ ابھی تک کافی حد تک محفوظ اور بہتر ہے۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ دونوں طرف موجود انسان دوست قوتیں مضبوط ہوں اور انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی نہ ہونے پائے۔
 
Top