شہزاد قیس کی غزل یا "درخواست برائے زن مریدی "

محمداحمد

لائبریرین
غزل

خوشبوؤں کے کنول جلاؤں گا
سیج تو چاند پر سجاؤں گا

تُو شریکِ حیات بن جائے
پیار کی مملکت بناؤں گا

تھام لے ہاتھ میرا وعدہ ہے
تیری پازیب تک دَباؤں گا

تُو کرم ماں کے بھول جائے گی
میں ترے اِتنے ناز اُٹھاؤں گا

تیرے گُل رُخ کی تازگی کے لیے
شبنمی گیت گنگناؤں گا

خانقاہوں کے بعد تیرے لیے
مندروں میں دِئیے جلاؤں گا

مانگ تیری دَرخشاں رَکھنے کو
کہکشائیں بھی توڑ لاؤں گا

دِل کی رانی ہے ، نوکرانی نہیں
اَپنے گھر والوں کو بتاؤں گا

تیرے گھر والے روز آئیں گے
اُن سے یوں رابطہ بڑھاؤں گا

گھر سے میں سیدھا جاؤں گا دَفتر
اور دَفتر سے گھر ہی آؤں گا

یاروں کے طعنے بے اَثر ہوں گے
میں ترے ساتھ کھانا کھاؤں گا

چاندنی شب میں من پسند غذا
لقمہ لقمہ تجھے کھِلاؤں گا

کاسۂ آب پہلے دُوں گا تجھے
پیاس میں بعد میں بجھاؤں گا

بھول جائے گی گھر کی اُکتاہٹ
شب تجھے اِس قَدَر گھماؤں گا

ویسے بھر آئے دِل تو رو لینا
سوچ بھی نہ کہ میں ستاؤں گا

گر خطا تجھ سے کوئی ہو بھی گئی
دیکھ کر صرف مسکراؤں گا

چند لمحے خفا ہُوئے بھی اَگر
وعدہ ہے پہلے میں مناؤں گا

رات بارہ بجے تُو سوئے اَگر
دِن کے بارہ بجے جگاؤں گا

جل گئی ہنڈیا گر کبھی تجھ سے
اَگلے دِن کھانا میں بناؤں گا

بیٹیاں ہوں یا بیٹے رَب کی عطا
دونوں کو پلکوں پر بٹھاؤں گا

کان پہ تکیہ رَکھ کے سو جانا
میرے بچے ہیں ، میں سلاؤں گا

شکوہ تجھ سے کروں گا خلوت میں
سامنے سب کے گُن میں گاؤں گا

فیصلے ہم کریں گے مل جل کر
حکمِ حاکم نہیں چلاؤں گا

زَن مریدی کا طعنہ جوتی پر
مرد بن کر وَفا نبھاؤں گا

ایک دِن تیرا ایک دِن میرا
ٹی وی پر قبضہ نہ جماؤں گا

تیرا کیا واسطہ سیاست سے
بور خبریں نہیں سناؤں گا

مجھ کو حیرت ہے تُو نے سوچا کیوں
شادی کا دِن میں! بھول جاؤں گا؟

جگ منائے گا عید ، دیکھ کے چاند
میں تجھے دیکھ کر مناؤں گا

بن کہے تیری بات سمجھوں گا
بن کہے دَرد جان جاؤں گا

علم ، طاقت ، کمائی ، عقل ، جمال
ایک بھی رُعب نہ جماؤں گا

جب کوئی کھیل کھیلیں گے ہم تم
سوچ کر کچھ میں ہار جاؤں گا

اَپنی ہر کامیابی کا سہرا
میں ترے سر پہ ہی سجاؤں گا

گر کبھی ایک کو بچانا ہُوا
ڈُوب کر بھی تجھے بچاؤں گا

میں فقط تجھ پہ آنکھ رَکھوں گا
میں فقط تجھ سے دِل لگاؤں گا

زَخم اور تلخی کے سوا جاناں
تجھ سے میں کچھ نہیں چھپاؤں گا

حُسن کے ڈَھلنے کی تُو فکر نہ کر
آخری سانس تک نبھاؤں گا

ہجر تقدیر نے اَگر لکھا
صرف ہلکا سا یاد آؤں گا

میری حوریں کنیز ہوں گی تری
بن ترے میں اِرم نہ جاؤں گا

تُو فقط پڑھ کے اِتنی خوش نہ ہو
میں تجھے کر کے یہ دِکھاؤں گا

اور کیا چاہیے ثبوتِ خلوص
قیس کی ہر غزل سناؤں گا

شہزادقیس
شاید اسی لئے شاعروں کے لئے کہا جاتا ہے کہ یہ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں۔ :thinking:

اس غزل کو اس انداز میں صرف ازراہ تفنن پیش کیا گیا ہے اور لڑنے بھڑنے کا کوئی موڈ نہیں ہے۔ :notlistening:سو اگر کسی کو ہم سے شدید اختلاف ہو تو وہ تین حرف بھیجے صرف اس لڑی پر۔ :):evil::twisted:
 
غزل

خوشبوؤں کے کنول جلاؤں گا
سیج تو چاند پر سجاؤں گا

تُو شریکِ حیات بن جائے
پیار کی مملکت بناؤں گا

تھام لے ہاتھ میرا وعدہ ہے
تیری پازیب تک دَباؤں گا

تُو کرم ماں کے بھول جائے گی
میں ترے اِتنے ناز اُٹھاؤں گا

تیرے گُل رُخ کی تازگی کے لیے
شبنمی گیت گنگناؤں گا

خانقاہوں کے بعد تیرے لیے
مندروں میں دِئیے جلاؤں گا

مانگ تیری دَرخشاں رَکھنے کو
کہکشائیں بھی توڑ لاؤں گا

دِل کی رانی ہے ، نوکرانی نہیں
اَپنے گھر والوں کو بتاؤں گا

تیرے گھر والے روز آئیں گے
اُن سے یوں رابطہ بڑھاؤں گا

گھر سے میں سیدھا جاؤں گا دَفتر
اور دَفتر سے گھر ہی آؤں گا

یاروں کے طعنے بے اَثر ہوں گے
میں ترے ساتھ کھانا کھاؤں گا

چاندنی شب میں من پسند غذا
لقمہ لقمہ تجھے کھِلاؤں گا

کاسۂ آب پہلے دُوں گا تجھے
پیاس میں بعد میں بجھاؤں گا

بھول جائے گی گھر کی اُکتاہٹ
شب تجھے اِس قَدَر گھماؤں گا

ویسے بھر آئے دِل تو رو لینا
سوچ بھی نہ کہ میں ستاؤں گا

گر خطا تجھ سے کوئی ہو بھی گئی
دیکھ کر صرف مسکراؤں گا

چند لمحے خفا ہُوئے بھی اَگر
وعدہ ہے پہلے میں مناؤں گا

رات بارہ بجے تُو سوئے اَگر
دِن کے بارہ بجے جگاؤں گا

جل گئی ہنڈیا گر کبھی تجھ سے
اَگلے دِن کھانا میں بناؤں گا

بیٹیاں ہوں یا بیٹے رَب کی عطا
دونوں کو پلکوں پر بٹھاؤں گا

کان پہ تکیہ رَکھ کے سو جانا
میرے بچے ہیں ، میں سلاؤں گا

شکوہ تجھ سے کروں گا خلوت میں
سامنے سب کے گُن میں گاؤں گا

فیصلے ہم کریں گے مل جل کر
حکمِ حاکم نہیں چلاؤں گا

زَن مریدی کا طعنہ جوتی پر
مرد بن کر وَفا نبھاؤں گا

ایک دِن تیرا ایک دِن میرا
ٹی وی پر قبضہ نہ جماؤں گا

تیرا کیا واسطہ سیاست سے
بور خبریں نہیں سناؤں گا

مجھ کو حیرت ہے تُو نے سوچا کیوں
شادی کا دِن میں! بھول جاؤں گا؟

جگ منائے گا عید ، دیکھ کے چاند
میں تجھے دیکھ کر مناؤں گا

بن کہے تیری بات سمجھوں گا
بن کہے دَرد جان جاؤں گا

علم ، طاقت ، کمائی ، عقل ، جمال
ایک بھی رُعب نہ جماؤں گا

جب کوئی کھیل کھیلیں گے ہم تم
سوچ کر کچھ میں ہار جاؤں گا

اَپنی ہر کامیابی کا سہرا
میں ترے سر پہ ہی سجاؤں گا

گر کبھی ایک کو بچانا ہُوا
ڈُوب کر بھی تجھے بچاؤں گا

میں فقط تجھ پہ آنکھ رَکھوں گا
میں فقط تجھ سے دِل لگاؤں گا

زَخم اور تلخی کے سوا جاناں
تجھ سے میں کچھ نہیں چھپاؤں گا

حُسن کے ڈَھلنے کی تُو فکر نہ کر
آخری سانس تک نبھاؤں گا

ہجر تقدیر نے اَگر لکھا
صرف ہلکا سا یاد آؤں گا

میری حوریں کنیز ہوں گی تری
بن ترے میں اِرم نہ جاؤں گا

تُو فقط پڑھ کے اِتنی خوش نہ ہو
میں تجھے کر کے یہ دِکھاؤں گا

اور کیا چاہیے ثبوتِ خلوص
قیس کی ہر غزل سناؤں گا

شہزادقیس
شاید اسی لئے شاعروں کے لئے کہا جاتا ہے کہ یہ جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں ہیں۔ :thinking:

اس غزل کو اس انداز میں صرف ازراہ تفنن پیش کیا گیا ہے اور لڑنے بھڑنے کا کوئی موڈ نہیں ہے۔ :notlistening:سو اگر کسی کو ہم سے شدید اختلاف ہو تو وہ تین حرف بھیجے صرف اس لڑی پر۔ :):evil::twisted:
عمدہ مزے دار شراکت ،
بہت شکریہ احمد بھائی ۔
 

محمداحمد

لائبریرین

سید عمران

محفلین

فلک شیر

محفلین
سنا کر غزل، قیس اسے منکوحہ بنائے گا
اور پھر یک دممم یو ٹرن مار جائے گا

مینوں پتہ
کیسا دیا... ہاتھ لائیں احمد بھائی
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
غزل کسی کی۔۔۔
بھیجی کسی نے۔۔۔
ناراضگی آپ سے کس خوشی میں دور ہو؟؟؟

نا تو ہم نے انہیں یہ غزل آپ کو بھیجنے کو کہا۔ :confused:

اور نہ وہ اتنے سیدھے ہیں کہ آپ کو بھیجیں۔:p

غالباً جہاں بھیجنی ہوگی وہاں تو بھیج ہی دی ہو گی۔ :D
 
غزل کسی کی۔۔۔
بھیجی کسی نے۔۔۔
ناراضگی آپ سے کس خوشی میں دور ہو؟؟؟
اوہو ،
ارے بس بھی کریں بھائی ،
اچھا ہم آپ کو گانا سنا کر مناتے ہیں ۔
روٹھے ہو میں تم کو کیسے مناؤں بھیا ،
بولو نا بولو نا ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
قیس غزل سنا کے اسے منکوحہ بنائے گا
اور پھر یک دم یو ٹرن مار جائے گا

مینوں پتہ
کیسا دیا... ہاتھ لائیں احمد بھائی

ہاہاہاہا۔۔!

یعنی قیس اس جنگل میں اکیلا نہیں ہے بلکہ یو ٹرن مارنے والوں کی ایک تاریخ ہے اس خطے میں۔ :)
 

سید عمران

محفلین
نا تو ہم نے انہیں یہ غزل آپ کو بھیجنے کو کہا۔ :confused:

اور نہ وہ اتنے سیدھے ہیں کہ آپ کو بھیجیں۔:p

غالباً جہاں بھیجنی ہوگی وہاں تو بھیج ہی دی ہو گی۔ :D
جی بالکل۔۔۔
مگر دیکھیے۔۔۔
آپ کے سمجھائے کو وہ سمجھے بھی تو کیا سمجھے۔۔۔
خاک سمجھے!!!
 

محمداحمد

لائبریرین
جی بالکل۔۔۔
مگر دیکھیے۔۔۔
آپ کے سمجھائے کو وہ سمجھے بھی تو کیا سمجھے۔۔۔
خاک سمجھے!!!

غالباً عدنان بھائی ہینگ اور پھٹکری بچا کر اس غزل سے ہی کام چلانا چاہ رہے ہیں۔

اُنہیں یہ نہیں پتہ کہ اُن کا واسطہ کس سے ہے۔ :)
 
Top