شہزادی کیٹ کا ننگا پن اور مغرب کا دوغلہ پن

یوسف-2

محفلین
پڑھتا جا ، شرماتا جا :D

p10_06.jpg
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یوسف بھائی خوب لکھا ہے انہوں نے پر مجھ ناچیز کو یہ سمجھ نہیں آ رہی۔ کہ کیا محبت عملی نہیں ہوتی؟ ہم عمل سے دور ہیں تو محبت کے دعوے دار کیونکر ہیں؟ صرف اک دعوی محبت کو لے کر ہم نے زبانی کلامی وہ ادھم مچا رکھا ہے کہ الاماں ولحفیظ۔ جب تک ہم لوگ عملی میدانوں میں سبقت نہ لے جائیں گے ہماری اور ہمارے دین کی یہ جگ ہنسائی جاری رہے گی۔ اور ہماری قیمتی سے قیمتی بات کو بھی لفاظی کی مہر لگا کر ردی کی ٹوکری کی نظر کر دیا جائے گا۔ اور پھر ہر بات پر تاریخ کے دیکھو یوں کیا تھا ہمارے اسلاف نے۔ ہم سے پنگا نہ لو ہمارے اسلاف بڑے دلیر تھے۔ اور انکا جواب بقول اقبال
تھے تو وہ آباء تمہارے ہی مگر تم کیا ہو​
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو​
 

یوسف-2

محفلین
نیرنگ خیال بھائی! آپ کی بات درست ہے کہ ہم عمل سے دور ہیں اور تا حال صرف زبانی کلامی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن اس کالم کا ” اصل موضوع“ اُس مغرب کا ننگا پن اور دوغلہ پن دکھلانا ہے، جس کے ہم میں سے بہت سے مسلمان ”مرید“ ہیں۔ ان ”مغرب پرست“ مسلمانوں کو آئینہ ضرور دکھلاتے رہنا چاہئے کہ وہ دن رات جس کی ”حمد و ثناء“ کرتے نہیں تھکتے، ان کا اصل روپ کیا ہے۔
مغرب تو اسلام دشمنی میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لکھتا اور بولتا ہی رہتا ہے۔ ان کے ”طرفدار مسلمان“ (روئے سخن آپ کی طرف ہرگز نہیں ہے :) ) بھی مغرب کی حمایت اور عالم اسلام کی مخالفت کرت رہتے ہیں۔ اس کالم یا دھاگہ کا موضوع مسلمانوں کی خامیاں یا کمزوریاں نہین ہیں، جو اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ بلکہ اس کالم اور دھاگہ کا موضوع مغرب کا ننگا پن اوردوغلہ پن ہے، جس کے (بد قسمتی سے) ہم میں سے بعض مسلمان بھی ”عاشق“ ہیں۔ کیا ہمیں اپنی خامیوں کے ادراک رکھنے کے ساتھ ساتھ ”اغیار“ کی بدکرداریوں سے اپنی نئی نسل کو آگاہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ :)
پس نوشت: مجھے قوی اًمید ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کی خامیوں پر لکھتے اور بولتے نہیں تھکتے، وہ مغرب کے اس ننگے پن اور دوغلہ پن کی مذمت کبھی بھی نہیں کریں گے۔ نہ سوشیل میڈیا پر، اور نہ ہی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں۔ :)
 

دوست

محفلین
شعلہ بیانیوں کی ہی تو روٹی کھاتے ہی جی۔
پر ہمیں اتنا سا پتا ہے کہ برطانیہ والوں نے عدالت میں جا کر مقدمہ کر دیا۔ مسلمانوں نے سفارتخانوں پر حملے شروع کر دئیے۔
عدالت مانتی یا نا مانتی وہ تو الگ بات ہے، لیکن جانے کا تو حق بنتا تھا۔
ہاں ان کی منافقت کے تو کیا کہنے، اپنے ہم نسلوں کا معاملہ آیا تو فٹ انصاف، مسلمانوں کا آیا تو دوہرا معیار۔ لیکن یہ محبت محبت اور اس محبت محبت میں آگ شاگ توڑ پھوڑ شور شار وغیرہ وغیرہ یہ محبت وحبت نہیں جی۔ یہ منافقت منافقت ہے۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
نیرنگ خیال بھائی! آپ کی بات درست ہے کہ ہم عمل سے دور ہیں اور تا حال صرف زبانی کلامی باتیں کر رہے ہیں۔ لیکن اس کالم کا ” اصل موضوع“ اُس مغرب کا ننگا پن اور دوغلہ پن دکھلانا ہے، جس کے ہم میں سے بہت سے مسلمان ”مرید“ ہیں۔ ان ”مغرب پرست“ مسلمانوں کو آئینہ ضرور دکھلاتے رہنا چاہئے کہ وہ دن رات جس کی ”حمد و ثناء“ کرتے نہیں تھکتے، ان کا اصل روپ کیا ہے۔
مغرب تو اسلام دشمنی میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لکھتا اور بولتا ہی رہتا ہے۔ ان کے ”طرفدار مسلمان“ (روئے سخن آپ کی طرف ہرگز نہیں ہے :) ) بھی مغرب کی حمایت اور عالم اسلام کی مخالفت کرت رہتے ہیں۔ اس کالم یا دھاگہ کا موضوع مسلمانوں کی خامیاں یا کمزوریاں نہین ہیں، جو اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ بلکہ اس کالم اور دھاگہ کا موضوع مغرب کا ننگا پن اوردوغلہ پن ہے، جس کے (بد قسمتی سے) ہم میں سے بعض مسلمان بھی ”عاشق“ ہیں۔ کیا ہمیں اپنی خامیوں کے ادراک رکھنے کے ساتھ ساتھ ”اغیار“ کی بدکرداریوں سے اپنی نئی نسل کو آگاہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ :)
پس نوشت: مجھے قوی اًمید ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کی خامیوں پر لکھتے اور بولتے نہیں تھکتے، وہ مغرب کے اس ننگے پن اور دوغلہ پن کی مذمت کبھی بھی نہیں کریں گے۔ نہ سوشیل میڈیا پر، اور نہ ہی الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں۔ :)
سر میں اس لیئے بے دھڑک آپ سے سوالات کر لیتا ہوں کہ آپ تسلی بخش جوابات دیتے ہیں۔ وگرنہ سیاست کے زمرے سے میں کوسوں دور بھاگتا ہوں۔
وہ بھلے مسلم کے خلاف لکھتے ہیں۔ مگر انکا لکھنا محض لکھنے تک محدود نہیں ہوتا۔ وہ اس پر عمل بھی کر کے دکھاتے ہیں۔ مثالوں کی چنداں ضرورت نہیں:p۔ دوغلہ پن بالکل ہے۔ اور ڈنکے کی چوٹ پر ہے۔ مگر نئی نسل کی خودمختاریوں کو یہ تصویر کا رخ دکھانے سے پہلے کیا یہ بتانا ضروری نہیں کہ کہاں سے بچ کر چلنا ہے۔ کہاں جانا ضروری ہے۔ فحش گوئی، لغویات کیا ہمارے معاشرے کا عام حصہ نہیں؟ کیا ان کو طرف توجہ دلانا ضروری نہیں۔ مگر ہم تو یہاں بھی عمل سے عاری ہیں حالانکہ اس میں ایسا کچھ نہیں جس پر ہم عمل نہ کر سکیں۔ بحثیت مسلم تو اک طرف کیا ہم بحثیت پاکستانی یا محض محلےدار ہونے کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہیں؟ ان کے معاشرے کی تصویر جسکا ہم سے تعلق ہی نہیں پیش کرنا پڑی لکڑی اٹھانے والی بات ہے۔ کیا نہیں؟
 

یوسف-2

محفلین
سر میں اس لیئے بے دھڑک آپ سے سوالات کر لیتا ہوں کہ آپ تسلی بخش جوابات دیتے ہیں۔ وگرنہ سیاست کے زمرے سے میں کوسوں دور بھاگتا ہوں۔
وہ بھلے مسلم کے خلاف لکھتے ہیں۔ مگر انکا لکھنا محض لکھنے تک محدود نہیں ہوتا۔ وہ اس پر عمل بھی کر کے دکھاتے ہیں۔ مثالوں کی چنداں ضرورت نہیں:p۔ دوغلہ پن بالکل ہے۔ اور ڈنکے کی چوٹ پر ہے۔ مگر نئی نسل کی خودمختاریوں کو یہ تصویر کا رخ دکھانے سے پہلے کیا یہ بتانا ضروری نہیں کہ کہاں سے بچ کر چلنا ہے۔ کہاں جانا ضروری ہے۔ فحش گوئی، لغویات کیا ہمارے معاشرے کا عام حصہ نہیں؟ کیا ان کو طرف توجہ دلانا ضروری نہیں۔ مگر ہم تو یہاں بھی عمل سے عاری ہیں حالانکہ اس میں ایسا کچھ نہیں جس پر ہم عمل نہ کر سکیں۔ بحثیت مسلم تو اک طرف کیا ہم بحثیت پاکستانی یا محض محلےدار ہونے کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہیں؟ ان کے معاشرے کی تصویر جسکا ہم سے تعلق ہی نہیں پیش کرنا پڑی لکڑی اٹھانے والی بات ہے۔ کیا نہیں؟
نہیں ایسا نہیں ہے۔ ان کے معاشرے سے ہما را ”تعلق“ نہ صرف ہے، بلکہ بڑھتا جارہا ہے۔ ہماری سو فیصد یوتھ، خواہ پڑھی لکھی ہو، یا ان پڑھ، اسکلڈ ہو یا اَن اسکلڈ، سب کے سب (الا ماشاء اللہ) ان ممالک کو جنت ارضی سمجھتے ہیں اور وہاں جانا اور وہاں رہائش اختیار کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ لوگ قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے لاکھوں روپے (قرض یا سب کچھ بیچ کر) دے کر بھی وہان جانا چاہتے ہیں، خواہ وہاں پہنچ کر ان کی حالت بد سے بدتر ہی کیوں نہ ہوجائے۔ لہٰذا ایسے معاشرے کی منفی تصویریں بھی انہیں دکھلاتے رہنا چاہئے۔ یہ کام بھی ساتھ ساتھ کرنا بہت ضروری ہے، تاکہ ”دور کے ڈھول سہانے“ کا سحر ختم کیا جاسکے
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
السلام علیکم
یہ یونائٹڈ کنگڈم والے کس کس کا منہ بند کریں گے۔
نیٹ میں تو یہ شاہکار بھرے پڑے ہیں۔
برائی رات کو ہو اکیلے میں یا ایسی جگہہ جہاں کوئی نہ ہو پھر بھی چھپ نہیں سکتی۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
نہیں ایسا نہیں ہے۔ ان کے معاشرے سے ہما را ”تعلق“ نہ صرف ہے، بلکہ بڑھتا جارہا ہے۔ ہماری سو فیصد یوتھ، خواہ پڑھی لکھی ہو، یا ان پڑھ، اسکلڈ ہو یا اَن اسکلڈ، سب کے سب (الا ماشاء اللہ) ان ممالک کو جنت ارضی سمجھتے ہیں اور وہاں جانا اور وہاں رہائش اختیار کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ لوگ قانونی اور غیر قانونی طریقوں سے لاکھوں روپے (قرض یا سب کچھ بیچ کر) دے کر بھی وہان جانا چاہتے ہیں، خواہ وہاں پہنچ کر ان کی حالت بد سے بدتر ہی کیوں نہ ہوجائے۔ لہٰذا ایسے معاشرے کی منفی تصویریں بھی انہیں دکھلاتے رہنا چاہئے۔ یہ کام بھی ساتھ ساتھ کرنا بہت ضروری ہے، تاکہ ”دور کے ڈھول سہانے“ کا سحر ختم کیا جاسکے
تو کبھی ان وجوہات کا بھی تذکرہ ہو جائے جنکی وجہ سے انکو جنت ارضی سمجھا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ میرے اس مراسلے کا دوغلے پن والے موضوع سے تعلق نہیں۔ :) بات وہیں کہ ہم وہ حالات خود کیوں نہیں پیدا کرتے۔ جب ہم امریکن بینکوں کے لیئے کام کرتے تھے یہاں پاکستان میں تو میری تنخواہ محض چند ہزار روپے تھی۔ جبکہ جوکمپنی انکو میرا چارج کرتی تھی وہ کوئی 60ڈالر فی گھنٹہ تھا۔ اسی طرح کی اور بہت سے مثالیں دے سکتا ہوں۔ وہ مزدور کے لیول پر بھی کسی کا حق نہیں دباتے۔ چاہے سیاسی و مذہبی طور پر کتنےہی اختلافات ہوں۔ پھر انکا انداز انصرام۔ ہمارا معاشرہ ہر سطح پر سیاسی چالوں اور ٹانگ کھینچنے والے طرز عمل سے بھرا ہوا۔ میرا اس وقت بھی مینیجر اک انگریز ہے اور اسکا جب میں یہاں موجود باقیوں سے موازنہ کرتا ہوں تو کیا کہوں۔ اب اس بات کو دبا رہنے دیں۔:) اگر ہم خود بھی اسی طرح محنت کریں اور تحقیق کے پیشہ کو اپنائیں بجائے اسکے جو میں نے پڑھا سب صحیح باقی سب غلط تو یہ بھی جنت ارضی ہی کہلائے گا۔ انشاءاللہ
 

یوسف-2

محفلین
بھائی یہ الگ موضوع ہے، اس کے لئے کسی الگ دھاگہ میں بحث کی جاسکتی ہے۔ اس دھاگہ میں مغرب کے ننگا پن اور دوغلہ پن کی حمایت یا مخالفت میں جو بھی دلائل ہوں، دئے جاسکتے ہیں۔ منتظمین فورم کا بار بار اصرار ہوتا ہے کہ ٹاپک سے ہٹ کر گفتگو کرنے کے لئے الگ دھاگہ بنایا جائے :D
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
مجھے مغرب کے دوغلے پن کی حمایت نہیں کرنی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ دوسروں کے عیب گنتے وقت خود کی کارگزاریوں پر بھی کڑی نظر ہونی چاہیئے۔ :bighug:
 

نایاب

لائبریرین
واہ رے گفتار کے غازی
یہ بھی لکھنا تھا کہ " وہاں کے عوام اپنی ملکہ اور اس کے خاندان سے اپنی محبت کا کیسے ثبوت دیتے ہیں ۔
ملکہ کی زبان سے نکلے لفظ بنا کسی حیل و حجت کے قانون بنا خود پر لاگو کر لیتے ہیں ۔ عملی ثبوت دیتے ہیں ملکہ سے محبت کا "
"وہ" منفی رحجانات کے حامل ہوتے بھی انسانیت سے پیار دکھلاتے ہیں ۔ مسلم و غیر مسلم کی تفریق کیئے بنا سب کو اپناتے ہیں ۔
احتجاج بھی کرتے ہیں تو عمل سے مہذب قرار پاتے ہیں ۔ اپنے مطالبے کو منواتے ہیں ۔
اور " ہم " دعوی عشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم " کچھ ایسے فرماتے ہیں ۔
بینک لوٹتے ۔ ٹائر جلاتے ۔ ملک کو آگ لگاتے انتشار پھیلاتے ہیں ۔
اور پھر نعرہ لگاتے ہیں کہ مطالبے ہمارے مانے نہیں جاتے ہیں ۔
دو کشتیوں کے سوار بھلا کبھی منزل پاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عثمان

محفلین
مجھے مغرب کے دوغلے پن کی حمایت نہیں کرنی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ دوسروں کے عیب گنتے وقت خود کی کارگزاریوں پر بھی کڑی نظر ہونی چاہیئے۔ :bighug:
یہاں دھاگہ ان مقاصد کے لئے نہیں ہے۔ صرف مغرب کے ننگ پنے پر بات کریں بلکہ شہزادی کیٹ کی تصویر چسپاں کر کے جزائے خیر وصول کریں۔ :mrgreen:
 

یوسف-2

محفلین
شاعر نے شہزادی کیٹ سمیت بہت سوں کے لئے کہا تھا ع
کوئی تو ہو جو میری ”وحشتوں“ کا ساتھی ہو :eek:
مگر یہاں ”کوئی“ نہیں بلکہ ”کئی“ ہیں جو ۔۔۔۔ :D
 

عثمان

محفلین
سوال یہ ہے کہ تصویر چسپاں کرنے کی اجازت ہے کہ نہیں۔ دھاگے کا موضوع چیخ چیخ کے اجازت طلب کر رہا ہے۔
ابن سعید بھائی اور شمشاد بھائی ، اجازت مہیا کر کے قارئین ، بلکہ ناظرین کی تشفی کریں۔ :whistle:
 

محمداحمد

لائبریرین
سر میں اس لیئے بے دھڑک آپ سے سوالات کر لیتا ہوں کہ آپ تسلی بخش جوابات دیتے ہیں۔ وگرنہ سیاست کے زمرے سے میں کوسوں دور بھاگتا ہوں۔
وہ بھلے مسلم کے خلاف لکھتے ہیں۔ مگر انکا لکھنا محض لکھنے تک محدود نہیں ہوتا۔ وہ اس پر عمل بھی کر کے دکھاتے ہیں۔ مثالوں کی چنداں ضرورت نہیں:p۔ دوغلہ پن بالکل ہے۔ اور ڈنکے کی چوٹ پر ہے۔ مگر نئی نسل کی خودمختاریوں کو یہ تصویر کا رخ دکھانے سے پہلے کیا یہ بتانا ضروری نہیں کہ کہاں سے بچ کر چلنا ہے۔ کہاں جانا ضروری ہے۔ فحش گوئی، لغویات کیا ہمارے معاشرے کا عام حصہ نہیں؟ کیا ان کو طرف توجہ دلانا ضروری نہیں۔ مگر ہم تو یہاں بھی عمل سے عاری ہیں حالانکہ اس میں ایسا کچھ نہیں جس پر ہم عمل نہ کر سکیں۔ بحثیت مسلم تو اک طرف کیا ہم بحثیت پاکستانی یا محض محلےدار ہونے کی ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہیں؟ ان کے معاشرے کی تصویر جسکا ہم سے تعلق ہی نہیں پیش کرنا پڑی لکڑی اٹھانے والی بات ہے۔ کیا نہیں؟

پیرزادہ قاسم کا ایک شعر آپ کے لئے معمولی ترمیم کے ساتھ:

جو بھی ہو اُن پہ معترض، اُس کو یہی جواب دو
آپ بہت شریف ہیں، آپ نے کیا نہیں کیا
 

یوسف-2

محفلین
بات دہرے معیار کی ہی ہے یعنی:

وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
متفق۔ اور اگر کوئی ان کی نشاندہی کرنے کی کوشش کرے تو ہم لوگ آگ بگولہ ہوجاتے ہیں کہ تم نے ہماری شہزادی، ہماری ملکہ عالیہ، ہماری سابقہ (اور ذہنی طور پر ”موجودہ“) آقا زادی کے بارے میں ایسی بات کہی کیسے؟ :eek: یعنی شہزادی کا ننگے ساحلوں پر گھومنا پھرنا، تصویریں اُتروانا، تو اُن کا ”ذاتی فعل“ ہے، لیکن اس ”خبر“ پر تبصرہ کرنا گناہ کبیرہ ہے :D
 
Top