شکیب جلالی

لیکن اُن کےجیب سے ملنےوالا شعر تویہ ہی کہہ رہاہے:)
اصل میں بلال کی کیفیت غیریقینی سی ہے۔ اس لیے کنپھیوژ ہیں یہ۔۔۔:D
3sxkn.jpg
 

محمداحمد

لائبریرین
ہو سکتا ہے۔
لیکن یہ شعر بے حس زمانے کی عکاسی بھی کر رہا ہے۔
ہو سکتا ہے وہ محبوب کی بجائے زمانے سے مخاطب ہوں۔
یہ فقرہ دیکھیے:
تعلقاتِ عامہ کے محکمے میں بھی انہیں ایک ذمہ دارانہ ملازمت مل گئی۔ لیکن وہ ان سب چیزوں سے مطمئن نہیں تھے۔

بہرحال کوئی اور اس پہ روشنی ڈالے۔
محمداحمد بھائی آپ کچھ بتائیں۔
لیجے:
torch-light-2.jpg
 

محمداحمد

لائبریرین
ہو سکتا ہے۔
لیکن یہ شعر بے حس زمانے کی عکاسی بھی کر رہا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ محبوب کی بجائے زمانے سے مخاطب ہوں۔
یہ فقرہ دیکھیے:
تعلقاتِ عامہ کے محکمے میں بھی انہیں ایک ذمہ دارانہ ملازمت مل گئی۔ لیکن وہ ان سب چیزوں سے مطمئن نہیں تھے۔

متفق

یوں بھی اگر آپ شکیب جلالی کی شاعری پڑھیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اُن کی شاعری خالص عاشقی معشوقی والی نہیں ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
میری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے
نہ اتنا تیز چلے سر پھری ہوا سے کہو
شجر پہ ایک ہی پتا دکھائی دیتا ہے

شکیب جلالی ، جدید غزل کا اہم نام،علی گڑھ کے ایک قریبی قصبے جلالی میں پیدا ہوئے ۔

ابھی دس برس ہی کے تھے کہ والدہ چل بسیں۔

گلے ملا نہ کبھی چاند، بخت ایسا تھا
ہرا بھرا بدن اپنا، درخت ایسا تھا

میٹرک کے بعد شکیب پاکستان چلے آئے۔

تعلیم حاصل کرنے کے بعد پہلے تو مختلف جرائد کے ساتھ منسلک رہے بعد میں تھل ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں نوکری شروع کی۔ اِسی سلسلے میں سرگودھا میں تعیناتی کے دوران صرف 32برس کی عمر میں خودکشی کر لی۔

ہر چند راکھ ہو کے بکھرنا ہے راہ میں
جلتے ہوئے پروں سے اڑا ہوں مجھے بھی دیکھ
تو نے کہا نا تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں
آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتا بھی دیکھ

لنک
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جہاں تلک بھی یہ صحرا دکھائی دیتا ہے
مری طرح سے اکیلا دکھائی دیتا ہے

نہ اتنی تیز چلے سر پھری ہوا سے کہو
شجر پہ ایک ہی پتّا دکھائی دیتا ہے

برا نہ مانیے لوگوں کی عیب جوئی کا
انھیں تو دن کو بھی سایا دکھائی دیتا ہے

یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے
تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے

وہیں پہنچ کے گرائیں گے بادباں اپنے
وہ دور کوئی جزیرا دکھائی دیتا ہے

وہ الوداع کا منظر، وہ بھیگتی پلکیں
پسِ غبار بھی کیا کیا دکھائی دیتا ہے

مری نگاہ سے چھپ کر کہاں رہے گا کوئی
کہ اب تو سنگ بھی شیشہ دکھائی دیتا ہے

سمٹ کے رہ گئے آخر پہاڑ سے قدم بھی
زمیں سے ہر کوئی اونچا دکھائی دیتا ہے

کھلی ہے دل میں کسی کے بدن کی دھوپ شکیب
ہر ایک پھول سنہرا دکھائی دیتا ہے
 
Top