شکیب بھائی کا انٹرویو

شکیب

محفلین
4) گھر پر کون کون ہے اور آپ کس کے سب سے زیادہ قریب ہیں؟
امی ،ابا، سات بہنیں اور ایک بھائی... آخری نمبر میرا ہے! فی الحال گھر میں صرف امی ابا اور دو بہنیں ہیں...
سب سے زیادہ قریب امی سے ہوں، جو پہلے شاید لاشعوری تھا، لیکن جماعت یاز دہم کے وقت پتہ نہیں کیسے یہ خیال دل میں جڑ پکڑ گیا تھا کہ میں زیادہ دنوں نہیں جی پاؤں گا... اس کے بعد سے جذبات کا شعوری طوراظہار پر کرنے لگا... مجموعی طور پر زیادہ expressive ہو گیا...
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بات آج پہلی بار کسی کے سامنے کہی ہے... مذاق میں البتہ دوستوں سے یہ کئی بار کہا ہے کہ میں ان سب سے پہلے غم دنیا سے رخصت لینے والا ہوں ... دوست بھی ٹائپ کے ملے ہیں، خوب مذاق اڑاتے ہیں!
یہ بھی بتائیے کہ گھر میں چھوٹے ہونے کے فوائد اور نقصانات کیا ہیں؟

چھوٹا ہونے کی وجہ سے بہن بھائی سب کو "محسوس ہوتا ہے" کہ ہمیں لاڈ زیادہ کیا جاتا ہے!
 
امی ،ابا، سات بہنیں اور ایک بھائی... آخری نمبر میرا ہے! فی الحال گھر میں صرف امی ابا اور دو بہنیں ہیں...
سب سے زیادہ قریب امی سے ہوں، جو پہلے شاید لاشعوری تھا، لیکن جماعت یاز دہم کے وقت پتہ نہیں کیسے یہ خیال دل میں جڑ پکڑ گیا تھا کہ میں زیادہ دنوں نہیں جی پاؤں گا... اس کے بعد سے جذبات کا شعوری طوراظہار پر کرنے لگا... مجموعی طور پر زیادہ expressive ہو گیا...
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بات آج پہلی بار کسی کے سامنے کہی ہے... مذاق میں البتہ دوستوں سے یہ کئی بار کہا ہے کہ میں ان سب سے پہلے غم دنیا سے رخصت لینے والا ہوں ... دوست بھی ٹائپ کے ملے ہیں، خوب مذاق اڑاتے ہیں!


چھوٹا ہونے کی وجہ سے بہن بھائی سب کو "محسوس ہوتا ہے" کہ ہمیں لاڈ زیادہ کیا جاتا ہے!
ہمارے شکیب بھیا نے (بلکہ مجھ سے بھی ذرا چھوٹے ہی ہیں آپ لیکن لاڈ سے کہا ہوا ہی سمجھیے!) ابھی زندگی کی وہ بہاریں دیکھنی ہیں جہاں سے بہاروں کی گنتی ابھی شروع ہوتی ہے اور کتنے ہی لامتناہی ثمر پانے ہیں. اللہ تعالی خیر کرے گا ان شاء اللہ! یہ خیالات آتے ہی رہتے ہیں، جڑ پکڑنے نہ دیجیے، ذہن سے نکال دیا کیجیے کہ ہمیں آپ کی ایسی باتیں قبول نہیں! :)
 

شکیب

محفلین
5) کون سے تین الفاظ آپ کی پوری شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں؟
حقیقت پسند، معتدل مزاج، ambitious
دوسروں کی نظر میں (اکثر سنا ہوا) calm and composed
انٹرنیٹ کی دنیا میں arrogant، کچھ sarcasm اور کچھ شاید لا پرواہی کی وجہ سے... ابھی پچھلے ہفتے پرانے ای میل کھنگال رہا تھا، ایک 2016 کے ای میل کا جواب دیا ہے...
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
پتہ نہیں کیسے یہ خیال دل میں جڑ پکڑ گیا تھا کہ میں زیادہ دنوں نہیں جی پاؤں گا... اس کے بعد سے جذبات کا شعوری طوراظہار پر کرنے لگا.
دوستوں سے یہ کئی بار کہا ہے کہ میں ان سب سے پہلے غم دنیا سے رخصت لینے والا ہوں ... دوست بھی ٹائپ کے ملے ہیں، خوب مذاق اڑاتے ہیں!
بعض مرتبہ اچانک دماغ کو یہ خیال جکڑ لیتا ہے...
بلکہ بعض لوگ تو وقت کا تعین بھی کرلیتے ہیں...
اسی مہینے کی بات ہے ہمارے دفتر کے ایک ساتھی کو دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے اچانک یہ خیال آیا کہ یہ تمہاری زندگی کا دوپہر کا آخری کھانا ہے...
اب تمہیں کل دوپہر کا کھانا نصیب نہیں ہوگا...
اب جناب وسوسے کا شکار ہوگئے...
منہ فق، چہرہ پیلا...
خیر کسی سے کچھ کہا نہیں...
اگلے دن جیسے جیسے ظہر کا وقت قریب آتا گیا ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑتے گئے اور دل کی دھڑکن تیز سے تیز تر ہوتی گئی...
یہاں تک کہ ظہر کی نماز کے بعد سنتیں بھی نہیں پڑھیں اور نہایت گھبرائی ہوئی حالت میں مسجد سے باہر آگئے...
ایک صاحب ان کی حالت دیکھ کر پاس آئے کہ تمہیں کیا ہورہا ہے...
ڈرتے ڈرتے ان سے سارا ماجرا بیان کیا...
انہوں نے جلدی سے کسی سے روٹی منگوا کر دو لقمے انہیں کھلادیے...
اور کہا تمہارا وسوسہ جھوٹا ہوگیا...
دیکھو تمہیں دوپہر کا کھانا نصیب ہوگیا...
بس یہ سنتے ہی ان کی جان میں جان آگئی...
آج ہنستے ہیں کہ کیا واہیات خیال ذہن سے چمٹ گیا تھا...
لہذا اس وسوسے کو ذہن سے نکال دیں...
خود اپنی طرف سے یہ اندیشے مت پالیے کہ جلدی جاؤں گا یا فلاں سے پہلے...
یہ سوچنے کا آپ سے نہ خدا نے کہا نہ رسول نے...
آپ نے خود ہی بلا کسی کے کہے یہ وسوسہ پالا ہے...
اب آپ ہی اپنے ہاتھوں اس کا کریا کرم فرمائیں...
ورنہ ساری عمر کا روگ بنا رہے گا!!!
 
بعض مرتبہ اچانک دماغ کو یہ خیال جکڑ لیتا ہے...
بلکہ بعض لوگ تو وقت کا تعین بھی کرلیتے ہیں...
اسی مہینے کی بات ہے ہمارے دفتر کے ایک ساتھی کو دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے اچانک یہ خیال آیا کہ یہ تمہاری زندگی کا دوپہر کا آخری کھانا ہے...
اب تمہیں کل دوپہر کا کھانا نصیب نہیں ہوگا...
اب جناب وسوسے کا شکار ہوگئے...
منہ فق، چہرہ پیلا...
خیر کسی سے کچھ کہا نہیں...
اگلے دن جیسے جیسے ظہر کا وقت قریب آتا گیا ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑتے گئے اور دل کی دھڑکن تیز سے تیز تر ہوتی گئی...
یہاں تک کہ ظہر کی نماز کے بعد سنتیں بھی نہیں پڑھیں اور نہایت گھبرائی ہوئی حالت میں مسجد سے باہر آگئے...
ایک صاحب ان کی حالت دیکھ کر پاس آئے کہ تمہیں کیا ہورہا ہے...
ڈرتے ڈرتے ان سے سارا ماجرا بیان کیا...
انہوں نے جلدی سے کسی سے روٹی منگوا کر دو لقمے انہیں کھلادیے...
اور کہا تمہارا وسوسہ جھوٹا ہوگیا...
دیکھو تمہیں دوپہر کا کھانا نصیب ہوگیا...
بس یہ سنتے ہی ان کی جان میں جان آگئی...
آج ہنستے ہیں کہ کیا واہیات خیال ذہن سے چمٹ گیا تھا...
لہذا اس وسوسے کو ذہن سے نکال دیں...
خود اپنی طرف سے یہ اندیشے مت پالیے کہ جلدی جاؤں گا یا فلاں سے پہلے...
یہ سوچنے کا آپ سے نہ خدا نے کہا نہ رسول نے...
آپ نے خود ہی بلا کسی کے کہے یہ وسوسہ پالا ہے...
اب آپ ہی اپنے ہاتھوں اس کا کریا کرم فرمائیں...
ورنہ ساری عمر کا روگ بنا رہے گا!!!
میرے ساتھ بھی ایسا ہوا تھا بلکہ ایک آدھ بار بہت شدت سے! تاہم خود ہی قابو پانے کی کوشش کی اور عمومی طور پر کامیاب رہی.:)
 

سید عمران

محفلین
میرے ساتھ بھی ایسا ہوا تھا بلکہ ایک آدھ بار بہت شدت سے! تاہم خود ہی قابو پانے کی کوشش کی اور عمومی طور پر کامیاب رہی.
بہت اچھا کیا...
حدیث کی چھوٹی سی دعا ہے...
کوئی بھی وسوسہ چمٹ جائے تو اسے مسلسل پڑھنا شروع کردیں...
سارے وساوس جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے...
آمنْتُ بِاللّہِ و رُسُلِہْ!!!
 

شکیب

محفلین
6) اب تک کن کن غیر نصابی اور فلاحی سرگرمیوں میں حصہ لے چکے ہیں
جتنی سرگرمیاں یاد آ رہی ہیں فی الحال۔۔۔
گانا: بچپن سے۔ اکثر انٹر اسکول مقابلوں میں اول پوزیشن ملتی تھی۔ کافی سال پوری اسکول بشمول جونیر کالج کو "لب پہ آتی ہے دعا" بھی پڑھانے کا موقع ملا جس میں ہم سوالی ہوتے تھے اور پوری اسکول جوابی۔ اس سے بھی کئی یادیں وابستہ ہیں۔

کھیل(فٹ بال): دسویں تک۔ اس کے بعد محض شوقیہ کھیلتے رہے۔

قرآت: ٹین ایج سے۔ نویں جماعت میں تھے تو ایک استاد نے کسی تقریب کے لیے پہلی مرتبہ قرات کے لیے کہا۔ ان سے میری شاید پہلی گفتگو تھی،کیونکہ وہ جونیر کالج میں پڑھاتے تھے۔ میں نے حسبِ عادت فیصلہ لینے کے لیے سوچتے ہوئے پیشانی پر شکن کرکے خلا میں گھورا تو پتہ نہیں وہ کیا سمجھے، کہنے لگے"قرات کا سن کے نخرہ دکھا رہا ہے،ابھی گانے کو کہتے تو جھٹ تیار ہوتا" میں تو دہل گیا، فوراً ہامی بھرلی۔ وہ پہلی مرتبہ تھا،اور کوئی مقابلہ نہیں تھا، پروگرام کے آغاز کی قرات تھی،تو انہوں نے زیادہ پریشان نہیں کیا۔
دو سال بعد گیارہویں جماعت میں ضلع (ناگپور) کی سطح کے مسابقہ حسن قرات کا نوٹس آیا،اور جس ٹیچر کے ساتھ جانا تھا، وہ پہلے ہی دبے لفظوں کہہ چکے تھے کہ "اچھا پڑھنا" یوں جیسے کوئی گانا ہو۔ بالآخر روانگی والے دن فائنل "ریہرسل"سنانے پرنسپل کے پاس پہنچے،وہ تو دو چار اسٹائل مارنے کی بھی ٹپ دے بیٹھے۔ میں بھی بھرا بیٹھا تھا، ان کو فائنل ریہرسل کے طور پر تراویح کی طرح سنا دی جس پر وہ"اور تھوڑا گا کے پڑھو" کی رٹ لگاتے رہے۔ اب میں انہیں کیا سمجھاتا کہ قرات فیلنگ کے ساتھ ہوتی ہے،من لگا کر۔۔۔ اور میرا دل ہر گز نہیں چاہتا تھا کہ اس مصنوعی پن کے ساتھ قرآن پڑھوں۔
خیر, اس مسابقے میں دوم پوزیشن پائی، تجزیے کے وقت بتایا گیا کہ ہمارا "ذ" ذرا سختی سے ادا ہو رہا تھا۔

تقریر: گیارہویں جماعت میں کلچرل پروگرام کے وقت پہلی بار تقریر میں حصہ لیا۔ یاد پڑتا ہے کہ جو ٹیچرز دوسری ذمہ داریوں میں الجھے ہوئے تھے،وہ چھوڑ کر میری تقریر سنی کہ بچہ پہلی مرتبہ تقریر کر رہا ہے (اس سے قبل ہماری پہچان گانے کی وجہ سے تھی۔) الحمد للہ پہلا انعام پایا۔
اسی سال ضلعی سطح کے تقریری مقابلے میں دوسرا انعام پایا۔
--------------
فلاحی کام کچھ نہیں۔
 
آخری تدوین:

شکیب

محفلین
ہمارے شکیب بھیا نے (بلکہ مجھ سے بھی ذرا چھوٹے ہی ہیں آپ لیکن لاڈ سے کہا ہوا ہی سمجھیے!) ابھی زندگی کی وہ بہاریں دیکھنی ہیں جہاں سے بہاروں کی گنتی ابھی شروع ہوتی ہے اور کتنے ہی لامتناہی ثمر پانے ہیں. اللہ تعالی خیر کرے گا ان شاء اللہ! یہ خیالات آتے ہی رہتے ہیں، جڑ پکڑنے نہ دیجیے، ذہن سے نکال دیا کیجیے کہ ہمیں آپ کی ایسی باتیں قبول نہیں! :)
بعض مرتبہ اچانک دماغ کو یہ خیال جکڑ لیتا ہے...
بلکہ بعض لوگ تو وقت کا تعین بھی کرلیتے ہیں...
اسی مہینے کی بات ہے ہمارے دفتر کے ایک ساتھی کو دوپہر کا کھانا کھاتے ہوئے اچانک یہ خیال آیا کہ یہ تمہاری زندگی کا دوپہر کا آخری کھانا ہے...
اب تمہیں کل دوپہر کا کھانا نصیب نہیں ہوگا...
اب جناب وسوسے کا شکار ہوگئے...
منہ فق، چہرہ پیلا...
خیر کسی سے کچھ کہا نہیں...
اگلے دن جیسے جیسے ظہر کا وقت قریب آتا گیا ہاتھ پاؤں ڈھیلے پڑتے گئے اور دل کی دھڑکن تیز سے تیز تر ہوتی گئی...
یہاں تک کہ ظہر کی نماز کے بعد سنتیں بھی نہیں پڑھیں اور نہایت گھبرائی ہوئی حالت میں مسجد سے باہر آگئے...
ایک صاحب ان کی حالت دیکھ کر پاس آئے کہ تمہیں کیا ہورہا ہے...
ڈرتے ڈرتے ان سے سارا ماجرا بیان کیا...
انہوں نے جلدی سے کسی سے روٹی منگوا کر دو لقمے انہیں کھلادیے...
اور کہا تمہارا وسوسہ جھوٹا ہوگیا...
دیکھو تمہیں دوپہر کا کھانا نصیب ہوگیا...
بس یہ سنتے ہی ان کی جان میں جان آگئی...
آج ہنستے ہیں کہ کیا واہیات خیال ذہن سے چمٹ گیا تھا...
لہذا اس وسوسے کو ذہن سے نکال دیں...
خود اپنی طرف سے یہ اندیشے مت پالیے کہ جلدی جاؤں گا یا فلاں سے پہلے...
یہ سوچنے کا آپ سے نہ خدا نے کہا نہ رسول نے...
آپ نے خود ہی بلا کسی کے کہے یہ وسوسہ پالا ہے...
اب آپ ہی اپنے ہاتھوں اس کا کریا کرم فرمائیں...
ورنہ ساری عمر کا روگ بنا رہے گا!!!
ایسا کچھ نہیں ہے جیسا آپ حضرات سمجھ رہے ہیں۔ اس وقت کے جذبات کے پیچھے کا اصل سبب جو بھی رہا ہو، فی الحال موت کا ذکر کرنے کے پیچھے یہ نیت ہوتی ہے کہ اسکے بعد کی زندگی کی تیاری کی فکر ہو،جو مطلوب عمل ہے۔
 
آپ تو مجھ سے بھی چھوٹے ہیں ۔۔:p
اسی لیے تو ان کے تعارف میں یہ فقرہ بھی لکھا تھا.
اتنی کم عمری میں سوچ کی یہ اڑان، فکر کا یہ انداز اور کلام کا یہ سوز معدودے چند لوگوں کے نصیب میں ہوتا ہے.
اور تو اور ان کے برسوں پہلے کے اشعار ملاحظہ ہوں. :)
 

شکیب

محفلین
7) اردو محفل پر کیسے آنا ہوا اور اس کے آپ کی زندگی پر کیا اثرات ہیں ؟
فیس بک پر کسی نےان پیج کی پی ڈی ایف کا متن اخذ کرنے کے لئے سوفٹویر بتایا۔ دس بارہ پیج کا ایک مضمون اور تقریبا اسی نوے پیج کی ایک کتاب یونیکوڈ میں چاہیے تھی۔ سوفٹویر نے دونوں سے متن اخذ کرنے سے انکار کر دیا۔ اباؤٹ میں جا کر دیکھا تو کوئی رانا بھائی سب کا شکریہ ادا کر رہے تھے۔ عارف کریم نامی کسی بھلے بندے کا ذکر بھی تھا جس نے ان کے سافٹ ویئر بنانے میں مدد کی تھی۔ ساتھ ہی اردو ویب کا لنک تھا۔
ہم یہاں آ دھمکے۔ آتے ساتھ رانا بھائی کو مکالمے میں اپنا دکھڑا سنایا۔ بندے نے تین دن بعد سافٹویر اپڈیٹ کرکے دیدیا۔ ہماری کیفیت تو اس وقت کیا تھی بتا نہیں سکتے، ذاتی مکالمے کا یہ پیغام دیکھیے:
___________________________
اوئے ہوئے ہوئے ہوئے ہوئے۔ وہ مارا!
80 سے 90 فیصد کیا، تقریبآ سب کچھ درست تھا۔ ارے واہ یار۔ پروگرامرز ہوں تو ایسے۔
بے حد و حساب شکریہ کی بوچھاڑ۔ بھیگتے رہو بھیگتے رہو بھیگتے رہو۔
___________________________
چنانچہ ہم محفل آنے سے پہلے رانا بھائی اور بھائی عارف کریم کو جانتے تھے۔
محفل کی وجہ سےزندگی میں بہت سی مثبت تبدیلیاں آئیں ۔۔۔ اس کے پیچھے اہم وجہ یہ احساس تھا کہ اب ہم ان لوگوں کے درمیان ہیں جن کی عرصے سے تلاش تھی۔
زبانی تو اب بھی کوشش جاری ہے اصلاح کی، البتہ اب اس موضوع پر لکھنے کی نہ تو فرصت ہے اور نہ ہی ضرورت۔ محفل کا ادبی معیار دیکھ کے کبھی کبھی آنکھ میں پانی آجاتا ہے، اور بے انتہاء دعائیں نکلتی ہیں کہ پیارے اللہ، میں نے تو کچھ لوگ مانگے تھے جنہیں وزن کی شد بد ہو، یہاں تو آپ نے اساتذہ سے ملا دیا۔
ان مثبت تبدیلیوں میں سر فہرست سوچ کی وسعت ہے۔
 

شکیب

محفلین
8) آپ کا روزمرہ کا معمول کیا ہے؟

9) آپ کا تعلیمی شعبہ کیا ہے اور آج کل کیا کر رہے ہیں؟ یہ بھی بتائیے کہ یہی شعبہ کیوں منتخب کیا اور اس شعبے میں آگے کیا کرنا چاہتے ہیں؟
شعبہ کمپیوٹر سائنس۔ پچھلے سال انجینئرنگ مکمل ہوئی، فائنل ایئر میں جو آئی ٹی کمپنیاں آئیں ان میں aptitude سے مار کھا گئے کہ تیاری نہیں تھی۔ کچھ کمپنیوں میں ہم نہیں گئے،کچھ میں بہن نے جانے نہیں دیا۔ آئی ٹی سیکٹر کی جابز ہمیں اتنا اپیل نہیں کرتی تھیں کہ شروع ہی سے شعبہ تدریس پسند تھا۔ خیر، کیمپس سیلیکشن ہوا، امیزان میں کسٹمر سروس،ریٹرنز و ریفنڈز کا شعبہ۔ واللہ بڑا دلچسپ کام تھا۔ بس ایک غم تھا کہ شعبہ ہماری تعلیم کے مطابق نہیں تھا۔ اور ہمارا پڑھانے کا شوق تشنہ تھا۔
عید الاضحیٰ پر گھر جا چکر لگایا تو ایک بہن سے پتہ چلا کہ یہیں آرمی پبلک اسکول میں کچھ ویکنسیز ہیں۔۔۔ڈیمو دے آؤ۔ وہاں پہنچے تو ایسا کچھ نہیں تھا، تھوڑا اور زور دیا تو پتہ چلا کہ فزکس اور میتھس کے لیے جونیئر کالج میں ضرورت ہے۔ دونوں مضامین ہمارے پسندیدہ رہے ہیں، خصوصاً میتھس۔
امیزان میں ورک انوائرمنٹ ایسا ہے آپ جیسا چاہیں رہیے بس کام ہونا چاہیے۔ ہمارا حلیہ کافی کوششوں کے بعد بھیcasual سا تھا، جبکہ فارمل میں ملبوس تھے۔ خیر، فزکس اور میتھس کے لیے دو کلاسوں میں جا کر ڈیمو دیا(آستینیں حسب عادت فولڈ تھیں جس پر بعد میں پرنسپل نے بڑے سلیقے سا جھاڑ پلائی۔)
ڈیمو دے کر امیزان واپس پہنچ گئے۔اس وقت امی کی طبیعت خراب رہنے لگی اور گھر پر نہ میں تھا نہ بھائی۔۔۔ اسکول کی طرف سے اپوائنٹمنٹ لیٹر آگیا اور ہم نے امیزان کو خیر باد کہہ رخت سفر باندھ لیا۔
پہلے تصور کیا تھا کہ کافی وقت ملے گا جس میں ایم ٹیک کے داخلہ امتحان کی پڑھائی کر سکیں گے، لیکن وقت بالکل نہیں بچ رہا تھا جاب گویا فل ٹائم ہوگئی تھی، اسی ہماہمی میں امتحان دے دیا اور حسب توقع کلیئر نہیں کر پائے۔
کیونکہ مقصد انجینئرنگ کالج میں لیکچرر شپ ہے(جس کے لیے ایم ٹیک لازمی ہے)، خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں جونیئر کالج ہی نہ پڑھاتے رہ جائیں۔ چنانچہ مشورے کے بعد سیشن ختم ہونے پر اس اپریل اسکول کو خیر باد کہہ دیا۔ ہماری "رخصتی" کی خبر سن کر بچوں کے تاثرات۔۔۔ آہو۔۔۔ کچھ لمحوں کے لئے تو ہمیں بھی یوں لگا کہ ان سے لپٹ کر رو پڑیں۔
یوں کل ملا کر چار مہینے ایمیزان میں اور چھ مہینے آرمی پبلک سکول۔
اب پلان یہ ہے کہ یکسوئی سے اگلے سال فروری کے ایگزام کی تیاری کی جائے، ایم ٹیک میں داخلے کے بعد اس کی پڑھائی کرتے ہوئے کسی جونیئر کالج میں کمپیوٹر سائنس کی جاب کریں۔
فی الحال امتحان کی تیاری کے ساتھ دو بیچز میں میتھس کی ٹیوشن پڑھا رہا ہوں، آجکل کچھ بچوں نے فزکس کی بھی ضد کی ہوئی ہے۔ ابھی تو ٹال رہا ہوں، زیادہ بچے ہوگئے تو شاید ارادہ بن جائے۔
 
ہماری "رخصتی" کی خبر سن کر بچوں کے تاثرات۔۔۔ ہائے۔۔۔ کچھ لمحوں کے لئے تو ہمیں بھی یوں
میرے ساتھ بھی ایم فل میں ایڈمیشن اور اسکول جاب چھوڑتے ہوئے یوں ہی ہوا تھا. (اور سکول بھی میرا سکول تھا! )


جونیئر کالج میں ضرورت ہے۔
جونئیر کالج کسے کہتے ہیں انڈیا میں؟
:)
 
آخری تدوین:

شکیب

محفلین
کچھ بچوں نے فزکس کی بھی ضد کی ہوئی ہے۔
بچوں کا بھی ویسے خوب لطیفہ ہے۔ گیارہویں بارہویں کے طلبہ و طالبات کو بیٹا کہتے ہوئے سن کر ایک مرتبہ بہنوں نے خوب مذاق اڑایا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسی آرمی اسکول میں 2009 میں ہم نے ایک سمر کیمپ میں بطور طالبعلم شرکت کی تھی۔ (2009 یعنی جماعت نہم)
جونیر کالج کے طلباء ہم سے زیادہ سے زیادہ 5 یا 6 سال چھوٹے ہونگے۔
قاسم علی شاہ صاحب کے کسی لیکچر میں سنا تھا کے طلبہ کو ہمیشہ بیٹا بلانا چاہیے۔
ویسے شکر ہے کہ اسکول انگلش میڈیم ہے، ورنہ کوئی نہ کوئی بچہ بھولے بھٹکے یہاں پہنچ کر ہماری یہ داستان پڑھ لیتا تو۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
تاریخ و سن پیدائش explicitly بتائیں۔
یہ سوال اب سے ایسے پوچھا کریں مریم افتخار
ارے نہیں نہیں! آپ کا بتانے کا انداز بہت اچھا لگا تھا! بس ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ناظرین تک ابلاغ بھی خوب ہو! اور آپ کے اشعار مجھے بذاتِ خود جتنے پسند رہے ہیں، ذہن میں تھا کہ کھل کر واضح رہے کہ اتنے کم عمر قلم اور قلم کار نے لکھے ہیں! :)
 
Top