شکار کی اقسام

محمد امین

لائبریرین
مجھے حلال شکار میں دلچسپی ہے

آپ نے اپنی پہلی پوسٹ میں پہلے عمومی شکار کا ذکر کیا پھر کہا خاص طور سے کھانے کے لیے۔۔ تو میں نے عمومی بات کی تھی سر :)


امین بھائی کتنے سوروں کا کریں گے؟

ویسے بھی عزیز بھائی پرندوں کے شکار کی بات کر رہے ہیں۔ اور وہ بھی غالباً حلال پرندوں کے شکار کی بات کر رہے ہیں۔

مجھے شکار پر ویسے ہی یاد آگیا۔ انٹرنیٹ پر پاکستانی شکاریوں کا فورم جوائن کر رکھا ہے میں نے۔ وہ لوگ اکثر سور کا شکار کرتے رہتے ہیں۔۔

کیوں بھئ؟ آپ اس معصوم جانور کا اپنی سرزمین سے خاتمہ کیوں چاہتے ہیں؟ کیا مسلمان انتہا پسندی سے معصوم جانور بھی محفوظ نہیں رہ سکتے۔؟
تمام جانوروں کا ایکو سسٹم میں ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ کسی ایک نوع کے جڑ سے خاتمے کی خواہش کس بنیاد پر کی جارہی ہے۔میری سمجھ سے بالاتر ہے۔

میں نے کسی جذبۂ شدت پسندی کے تحت یہ بات نہیں کی تھی۔ مزاحا کی تھی۔ نہ جانے آپ آپ نے اس پوسٹ میں سے مسلمانی اور انتہا پسندی کیسے ڈھونڈ لی :) ۔۔۔ ویسے اگر بات ختم کرنے کی ہے تو مسلمان انتہا پسندی سے زیادہ کچھ دوسرے لوگ ہیں جو اپنے جوتوں، پرسوں اور ڈرائنگ روم میں لٹکانے کے لیے نایاب نسل کے جانوروں کا شکار کرتے ہیں :)۔ میں نہیں چاہتا کہ یہ موضوع مذہب و سیاست کے زمروں کی طرح خراب ہوجائے لہٰذا میں آپ سے استدعا کروں گا میری باتوں کو غلط مت لیجیے پلیز۔
 

قیصرانی

لائبریرین
یہ شکار نہیں یہ ظلم ہے۔ نر اور مادہ کی تمیز کئے بنا اور محض قتل کی نیت سے اس طرح کا شکار دراصل جنگلی حیات کی تباہی کہلاتا ہے۔ ایک بندہ ایک وقت میں کتنے پرندے کھائے گا؟ کتنے خراب ہوں گے اور کتنے دوسروں کو دیئے جائیں گے؟ کتنے پرندے حلال ہی نہیں ہو سکے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
شکار کی دو بڑی اقسام ہیں۔ بڑا شکار اور چھوٹا شکار۔ بڑے شکار میں وہ جانور ہوتے ہیں جن کا شکار کرتے ہوئے اگر احتیاط نہ کی جائے تو شکاری کی جان بھی جا سکتی ہے۔ اس میں شیر، چیتا، تیندوا، ہاتھی، گینڈا، جنگلی بھینسا وغیرہ آ جاتے ہیں۔ دوسری قسم وہ جس میں شکاری کامیاب ہو یا ناکام، جانور یا پرندے کی طرف سے شکاری کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ اس قسم میں ہر قسم کے شکار کے قابل پرندے اور چھوٹے جانور آ جاتے ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
تیسری قسم یہ بھی ہے جو جانور چھوٹے شکار کے حساب سے بڑے اور بڑے شکار کے حساب سے چھوٹے ہوں تو انہیں درمیانی قسم کے شکار میں بھی رکھا جا سکتا ہے تاہم یہ کوئی مستند درجہ نہیں

تاہم ایسے شکاری جن کا کام ہر جانور یا پرندے کو دیکھتے ہی اسے ہلاک کرنے کی حد تک محدود ہو، انہیں شکاری نہیں بلکہ سنگ دل قاتل کہا جانا چاہیئے
 

محمد امین

لائبریرین
یہ شکار نہیں یہ ظلم ہے۔ نر اور مادہ کی تمیز کئے بنا اور محض قتل کی نیت سے اس طرح کا شکار دراصل جنگلی حیات کی تباہی کہلاتا ہے۔ ایک بندہ ایک وقت میں کتنے پرندے کھائے گا؟ کتنے خراب ہوں گے اور کتنے دوسروں کو دیئے جائیں گے؟ کتنے پرندے حلال ہی نہیں ہو سکے؟

منصور بھائی نر اور مادہ والی بات سمجھ نہیں آئی۔ اور یہ تو درست ہے کہ بندہ کتنے پرندے کھائے گا شکار کے خلاف تو میں بھی ہوں۔ حلال والی بات پر بھی مجھے ہمیشہ شبہ رہا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کبھی شکار کرنے کی نوبت نہیں ائی۔
 
منصور بھائی نر اور مادہ والی بات سمجھ نہیں آئی۔ اور یہ تو درست ہے کہ بندہ کتنے پرندے کھائے گا شکار کے خلاف تو میں بھی ہوں۔ حلال والی بات پر بھی مجھے ہمیشہ شبہ رہا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کبھی شکار کرنے کی نوبت نہیں ائی۔
نر اور مادہ کی بات غالبا نسل کی تباہی کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے ۔
ویسے اچھا کہا آپ نے قیصرانی بھائی
 

قیصرانی

لائبریرین
منصور بھائی نر اور مادہ والی بات سمجھ نہیں آئی۔ اور یہ تو درست ہے کہ بندہ کتنے پرندے کھائے گا شکار کے خلاف تو میں بھی ہوں۔ حلال والی بات پر بھی مجھے ہمیشہ شبہ رہا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کبھی شکار کرنے کی نوبت نہیں ائی۔
عام طور پر جانوروں کے شکار کے لئے اس کے سینگوں، کھال اور جسامت کو مد نظر رکھا جاتا ہے کہ شکار شدہ جانور کو ٹرافی بنایا جا سکے۔ عام طور پر نر کی جسامت، سینگ اور دیگر خصوصیات اسے زیادہ اہم بناتے ہیں۔ دوسرا افزائش نسل کے لئے کہا جاتا ہے کہ ایک مادہ جانور کو قتل کرنے کا مطلب بہت بھیانک ہے۔ جیسے شیرنی ایک جھول میں تین سے پانچ تک بچے دیتی ہے۔ ہر تین سال بعد اس کے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ایک شیرنی کی عمر تیس سال سمجھی جائے کہ وہ افزائش نسل کا کام کر سکتی ہو تو اس کے قتل کے نتیجے میں (اوسط دو بچے ہر تین سال بعد) بیس شیروں اور شیرنیوں کی اس دنیا میں آمد روک دی گئی ہے۔ جبکہ اگر آپ ایک نر کو شکار کریں گے تو وہ محض ایک جانور ہلاک ہوگا کہ افزائش نسل میں بہت کم تعداد میں نروں سے بھی گذارا ہو سکتا ہے کہ شیروں کے جنسی ملاپ کا موسم نومبر سے اپریل تک پھیلا ہوتا ہے
 
Top