شکاریات پر دلچسپ کہانیاں۔چار حصوں میں

راشد اشرف

محفلین
شکاریات پر کہانیاں۔ایک انتخاب۔حصہ اول-ستمبر 2013

شکاریات پر متفرق کتابوں سے منتخب کردہ دلچسپ کہانیوں پر مشتمل حصہ اول پیش خدمت ہے۔ یہ کہانیاں 1960 سے اسی کی دہائی میں شائع ہونے والی ان کتابوں سے اخذ کی گئی ہیں جن میں جم کوربیٹ، کینتھ اینڈرسن ، قمر نقوی جیسے نامور شکاریوں کی تحریریں شائع ہوئی تھیںاور جنہیں راقم الحروف نے اوائل عمری میں پڑھا اور آج تک یہ اکثر و بیشتر زیر مطالعہ رہتی ہیں۔ یہ ایک انوکھی دنیا ہے ، سانس روک دینے والے قصے۔ انداز بیان ایسا ہے کہ کئی جگہوں پر قاری خود کو انہی کا ایک حصہ تصور کرتا ہے۔ مذکورہ شکاریوں نے اپنی زندگی ہندوستان کے مختلف علاقوں کے ان معصوم لوگوں کے تحفظ کے لیے وقف کردی تھی جو آدم خور شیر وں اور دیگر جانوروں کا شکار ہوتے رہے تھے اور ان شکاریوں کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے تھے۔ یہ خوش قسمتی تھی کہ ان شکاریوں کو بندوق چلانے کے ساتھ ساتھ قلم چلانا بھی خوب آتا تھا، تبھی یہ داستانیں قلم کے ذریعے کاغذ پر منتقل ہوئیں اور انہیں دنیا بھر میں ہر خاص و عام میں مقبولیت حاصل ہوئی۔

نامور شکاری جم کوربیٹ 25 جولائی 1875 کو نینی تال میں پیدا ہوئے اور 79 برس کی عمر میں 19 اپریل 1955کو کینیا میں دل کے دورے کے سبب انتقال کیا۔ جم کوربیٹ Nyeri کے St. Peter's Anglican Church میں مدفو ن ہیں۔ انتقال سے ذرا قبل وہ اپنی چھٹی کتاب تحریر کرچکے تھے۔

1910 میں پیدا ہونے والے معروف شکاری کینتھ اینڈرسن کا تعلق بنگلور کے ایک اسکاٹش خاندان سے تھا۔ حصہ دوم کی ایک کہانی “ہوگرالی کا آدم خور“ میں اینڈرسن کے بیٹے ڈونلڈ(پ: 1937) کا تذکرہ بھی ہے جو اپنے والد کے ہمراہ شکاری مہمات میں شریک ہوا کرتے تھے اور شکار کی چند کہانیوں کے مصنف بھی رہے۔ ڈونلڈ بنگلور ہی میں قیام پذیر ہیں۔

کینتھ اینڈرسن کا انتقال 1974 میں ہوا تھا اور وہ بنگلور میں مدفون ہیں۔

زیر نظر حصہ اول کی دوسری روداد ایک دلچسپ مضمون ”شملہ سے مسوری تک“ ہے جو حکیم اقبال حسین کی کتاب” سیر و شکار“ میں شائع ہوا تھا۔ یہ وہی حکیم اقبال ہیں جن کے ہاتھوں جاسوسی ادب کے بے تاج بادشاہ ابن صفی مرحوم نے ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں ایک تکلیف دہ بیماری سے نجات پائی تھی اور بعد ازاں ابن صفی نے اپنے مشہور ناول ”ڈیڑھ متوالے“ کا انتساب حکیم صاحب کے نا م کیا تھا ۔ حکیم اقبال حسین 1909 میں شاہ جہان آباد ، دہلی میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم سینٹ اسٹیفن کالج سے حاصل کی اور بعد ازاں فارسی میں ایم اے کیا۔نومبر 1948 میں پاکستان چلے آئے۔وہ مولانا مودودی کے قریبی رفقاءمیں تھے۔ حکیم اقبال حسین کا انتقال 73 برس کی عمر میں 6 اپریل 1980 کو کراچی میں ہواتھا۔

حکیم اقبال حسین ایک حیرت انگیز شخصیت کے مالک تھے۔ ان کی متذکرہ کتاب ’بڑھاپا اور اس کا سدباب‘ نے ایک زمانے میں فروخت کے نئے ریکارڈ قائم کیے تھے۔ کم لوگ یہ بات جانتے ہوں گے کہ وہ ایک اعلی درجے کے شکاری بھی تھے۔ حکیم اقبال حسین نے 1939ءمیں شملہ سے مسوری تک اپنے احباب کے ہمراہ بسلسلہ سیر و شکار بارہ روز تک جاری رہنے والا ایک سفر کیا تھا جس کی دلچسپ روداد 1945 میں شائع ہوئی تھی۔ بعد ازاں یہ طویل مضمون ’ شملہ سے مسوری ‘ کے عنوان سے حکیم صاحب کی کتاب ’سیر و شکار‘ میں 1966 میں شائع ہوا۔ سن ساٹھ کی دہائی میں حکیم اقبال حسین ، ہمدرد کے حکیم محمد سعید مرحوم کی فرمائش پر ’ہمدرد صحت‘ کے لیے شکار کی کہانیاں قلم بند کرتے رہے تھے۔

زیر نظر حصہ اول میں آگے چل کر میری لائبریری لاہور سے 1961 میں شائع ہونے والی کتاب ” شیر شیرشیر“ سے دلچسپ مضامین شامل کیے گئے ہیں۔ ان میں کینتھ اینڈرسن کی ”ماما ندر کی جوان شیرنی“ اور ”گومل پور کا شیطان“ جیسی تحریریں بھی شامل ہیں جو زبان و بیان کے اعتبار سے زندہ و جاوید تحاریر کہلائے جانے کے قابل ہیں ۔ مترجم نے بھی ترجمے کا حق ادا کردیا ہے۔ مذکورہ کتاب سے کرنل پیٹرسن کا مضمون ”ساؤ کے شیر“ اور ڈاکٹر محمد علی سبزواری کے مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں۔

امریکہ میں قیام پذیر معروف شکاری جناب قمر نقوی نقشبندی بھوپالی راقم الحروف کے خصوصی کرم فرما ہیں اور اپنی کئی اہم کتابیں راقم کو مرحمت فرما چکے ہیں۔ ”بالم پور کا آدم خور“ نقوی صاحب کی کتاب ہے جو سن ساٹھ کی دہائی میں شائع ہوئی تھی۔ مذکورہ کتاب سے ایک انتہائی دلچسپ مضمون ”چڑیل اور آدم خور“ شامل کیا گیا ہے جو سرزمین بھوپال پر رونما ہوئی شکار کی ایک داستان کا احاطہ کرتا ہے۔ مصنف کا تعلق بھوپال سے ہے اور یہ شہر ان کی تحریر کردہ شکار کی اکثر کتابوں کا مرکز و محور رہا ہے۔

اسی طرح قمر نقوی کی ایک اور کتاب ”آٹھ آدم خور شیر“ سے ”کھنڈر کا بھوت“ نامی دل لبھاتی روداد بھی زیر نظر پی ڈی ایف فائل میں پڑھی جاسکتی ہے۔
شکاریات پر ان منتخب کردہ کہانیوں کا دوسرا حصہ بھی جلد پیش کیا جائے گا جس میں مقبول جہانگیر، میاں توصیف عاصم اور قمر نقوی جیسے مترجمین و مصنفین کی تخلیقات شامل کی گئی ہیں۔


شکاریات پر کہانیاں۔ایک انتخاب۔حصہ دوم-ستمبر 2013

شکاریات پر متفرق کتابوں سے جاذب ِتوجہ و دلچسپ کہانیوں کے انتخاب پر مبنی پی ڈی ایف فائل کا حصہ دوم پیش خدمت ہے۔ یہ کہانیاں متفرق کتابوں سے اخذ کی گئی ہیں ۔

آدم خور شیر و دیگر درندوں کا شکار ہمیشہ ہی سے انسان کی شجاعت کو للکارتا رہا ہے۔ اور اس للکار کے جواب میں نسل انسانی کی بقا کے تحفظ کے لیے جم کوربیٹ، کینتھ اینڈرسن، قمر نقوی ، شوکت ہاشمی جیسے شکاری اپنے اپنے دور میں برسر پیکار رہے ہیں۔یہ سچی کہانیاں اپنے طرز تحریر کی خوبی کی بنا پر اچھے اچھے افسانوں کو بھی مات کرتی ہیں۔ان تحریروں میں جنگل کی پراسرار فضا اپنی تمام تر رنگینیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔

”ہوگرالی کا آدم خور“ نامی کتاب کی دو کہانیوں سے زیر نظر فائل کا آغاز ہوتا ہے۔ شکاریات پر مشتمل ان کہانیوں کے مترجم مقبول جہانگیر مرحوم ہیں ۔ مقبول جہانگیر 22 جنوری 1928 کو پیدا ہوئے۔ یاد رہے کہ یہ سال پیدائش ابن صفی مرحوم کا بھی ہے۔ صحافت میں نام پیدا کیا، بچوں کے لیے لکھا، اخبارات سے منسلک رہے۔ انداز تحریر جداگانہ اور اسلوب سادہ اور دلنشیں۔مقبول جہانگیر نے شکار کی کہانیوں پر مشتمل مزید کئی کتابیں تحریر کیں جو رابعہ بک ہاؤس سے شائع ہوئیں اور آج بھی ہورہی ہیں۔ مقبول جہانگیر کا انتقال24 اکتوبر 1985 کو لاہور میں ہوا تھا۔

”ہوگرالی کا آدم خور“ نامی کتاب سے اسی عنوان پر مشتمل مرکزی داستان کہنے کو کینتھ اینڈرسن (پیدائش:1910۔وفات:1974 )اور ان کے فرزند ڈونلڈ (پ: 1937) کے گرد گھومتی ہے۔ لیکن اس میں ایک جگہ نامور شکاری جم کوربیٹ کا ذکر بھی ستائشی الفاظ میں موجود ہے۔

زیر نظر حصہ دوم میں آگے چل کر میاں توصیف عاصم کی کتاب ”سیاہ چیتا“ سے ’کوہ ہلال کا آدم خور‘ نامی داستان شامل کی گئی ہے اور یہ بھی کینتھ اینڈرسن کی تحریر کردہ ہے جبکہ دوسری مذکورہ کتاب ہی سے کہانی ”مست ہاتھی کا شکار“ ہے جس کے مصنف کرنل وڈ ہیں ۔ لیفٹیننٹ کرنل ہنری وڈ 21مارچ 1865 کودیرہ دون میں پیدا ہوئے۔ برٹش آرمی میں بحیثیت ڈاکٹر ملازمت کی ۔سیر و شکار سے دلچسپی رکھتے تھے۔ان کی پہلی کتاب Shikar Memories ،1934 میں شائع ہوئی تھی۔بعد ازاں دو مزید کتابیں بھی شائع ہوئیں۔کرنل وڈ کا انتقال 15 جنوری 1956 کو سوئٹزر لینڈ کے ایک ہوٹل میں 91 برس کی عمر میں ہوا جہاں وہ ترک وطن (ہندوستان)کے بعد مستقل طور پر قیام پذیر تھے۔
حصہ دوم میںآگے چل کر ایک طویل و انتہائی جاذب توجہ داستانِ شکار معروف شکاری جناب قمر نقوی نقشبندی بھوپالی کی کتاب ”گنڈولا کا آدم خور “سے شامل کی گئی ہے۔ مذکورہ کتاب 1968 میں مقبول اکیڈمی لاہور سے شائع ہوئی تھی۔امریکہ میں قیام پذیر محترم قمر نقوی ،راقم الحروف کے کرم فرما ہیں اور اپنی کئی کتابیں ارسال کرچکے ہیں۔ قمر نقوی کی تاریخ پیدائش۰۳ مئی ۲۳۹۱ ہے ۔ مقبول اکیڈمی لاہور نے شکاریات و دیگر متفرق موضوعات پر قمر نقوی کی کئی کتابیں شائع کی ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔

حصہ دوم کے آخر میں ”سند ربن کے آدم خور“ نامی کتاب سے چند ابواب شامل کیے گئے ہیں۔ یہ کتاب اسی کی دہائی میں کراچی سے شائع ہوئی تھی۔ مصنف نے مشرقی پاکستان میں شکار کی داستانیں بیان کی ہیں لیکن پوری کتاب میں کہیں بھی ان کا نام ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔ مذکورہ کتاب سے شامل کردہ بیحد دلچسپ ابواب میں ”موت کاجزیرہ “، ” جائے ماندن نہ پائے رفتن“ اور ” عبدالغفور کی داستان“ شامل ہیں۔

شکاریات پر ان منتخب کردہ کہانیوں کا تیسرا حصہ بھی جلد پیش کیا جائے گا جس میں کینتھ اینڈرسن، محمد جسیم خان اور شوکت ہاشمی کی تخلیقات شامل کی گئی ہیں۔

شکاریات پر کہانیاں۔ایک انتخاب۔حصہ سوم-ستمبر 2013

شکاریات پر متفرق کتابوں سے جاذب ِتوجہ و دلچسپ کہانیوں کے انتخاب پر مبنی پی ڈی ایف فائل کا حصہ سوم پیش خدمت ہے۔

آدم خور شیر و دیگر درندوں کا شکار ہمیشہ ہی سے انسان کی شجاعت کو للکارتا رہا ہے۔ اور اس للکار کے جواب میں نسل انسانی کی بقا کے تحفظ کے لیے جم کوربیٹ، کینتھ اینڈرسن، قمر نقوی ، شوکت ہاشمی جیسے شکاری اپنے اپنے دور میں برسر پیکار رہے ہیں۔یہ سچی کہانیاں اپنے طرز تحریر کی خوبی کی بنا پر اچھے اچھے افسانوں کو بھی مات کرتی ہیں۔ان تحریروں میں جنگل کی پراسرار فضا اپنی تمام تر رنگینیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔

”جنگل نامہ“ نامی کتاب کینتھ اینڈرسن (پیدائش: 1910۔وفات: 1974)کی تحریر کردہ ہے۔یہ کتاب حنیف رامے نے اپنے ادارے سے 1967 میں شائع کی تھی۔ مترجم کا نام کتاب پر درج نہیں ہے لیکن چونکہ اس زمانے میں شکار کی اکثر کتابوں کے مترجم جاوید شاہین مرحوم ہوا کرتے تھے لہذا اسلوب کی مدد سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس کے مترجم بھی جاوید شاہین ہی رہے ہوں گے۔ جنگل نامہ سے ”یہ جنگل ہے“، ”ہواؤں کی وادی کا شیطان“، ”ٹانگ کٹا شکاری اور جنگلی مسکن“ اور ”کیلوں کے باغات کا آدم خور“ شامل کی گئی ہیں۔ ان میں موخر الذکر ایک بیحد دلچسپ داستان ہے۔ کینتھ اینڈرسن ہرگز ہرگز توہم پرست نہ تھے لیکن مذکورہ مہم کے دوران پیش آنے والے پراسرار واقعات نے انہیں بھی حیران کردیا تھا۔

کینتھ اینڈرسن کا شمار دنیا کے مشہور شکاریوں میں کیا جاتا ہے۔ شکاری کے ساتھ ساتھ وہ ایک جادوگر مصنف بھی تھے۔ اپنی تحریروں میں اینڈرسن نے جنگل کی رنگا رنگ زندگی کے پرتو اس طور کھولے ہیں کہ قاری کے سامنے گویا ایک حیرت کدہ کھل جاتا ہے ۔

حصہ سوم میں ” شکاریات “ نامی کتاب سے ایک باب شامل کیا گیا ہے۔ شکاریات کے مصنف محمد جسیم خان ہیں۔جسیم خان 7 جولائی 1925 کو کانپور میں پیدا ہوئے تھے اور ایک طویل عمر پانے کے بعد چند برس قبل کراچی میں انتقال کیا۔ سبکدوشی کے وقت وہ پولیس کے محکمے میں ایک اعلی عہدے پر فائز تھے۔کتاب سے شامل کردہ باب میں جسیم خان نے اس واقعے کو قلم بند کیا ہے جو انہیں دورانِ ملازمت، ڈیرہ اسمیل خان سے ملحقہ علاقہ غیر کے ایک مقام درازندہ کے ایک پہاڑی قلعے میں پیش آیا تھا۔

حصہ سوم میں آگے چل کر شوکت ہاشمی کی کتاب ”سند ربن کی ہولناک راتیں “ سے چند ابواب شامل کیے گئے ہیں۔ شوکت ہاشمی بمبئی کی فلمی صنعت سے وابستہ رہے تھے۔انہوں نے صحافت کے ساتھ ساتھ شکار پر بھی اپنی توجہ مرکوز رکھی تھی۔’نیما جو بک گئی‘ ان کے مشہور ناولوں میں سے ایک ہے۔ شوکت ہاشمی نے ہندوستانی اداکارہ پورنیما سے شادی کی تھی جو ناکام ہوئی اور بعد ازاں وہ پاکستان چلے آئے جہاں وہ سنڈے انجام اور سنڈے مشرق سے وابستہ رہے۔ شوکت ہاشمی کا انتقال یکم مئی 1995 کو لاہور میں ہوا۔

شوکت ہاشمی کی تحریر کردہ ایک اہم کتاب ” یہ پری چہرہ لوگ“ ( سن اشاعت:1965) راقم کو پرانی کتابوں کے اتوار بازار سے ملی تھی۔مذکورہ کتاب بمبئی کی فلمی صنعت کی چند مشہور شخصیتوں کے خاکے پر مشتمل ہے۔ان میں جدن بائی، خواجہ احمد عباس، نگار سلطانہ، دلیپ کمار، شیاما، مدھو بالا ، گیتا نظامی، نادرہ، دیو آنند اور طلعت محمود جیسی شخصیات شامل ہیں۔ان خاکوں کے مطالعے سے تقسیم ہند سے قبل مصنف کی فلمی زندگی کی مصروفیت اور خود ان کے مقام کا اندازہ ہوتاہے۔

آگے چل کر مقبول جہانگیر کی تلخیص ”یہ جنگل یہ درندے“ (نوے کی دہائی میں لاہور سے شائع ہوئی)نامی کتاب سے ”شیر کا بھوت“ نامی داستان شامل کی گئی ہے۔ اس کے مصنف نواب قطب یار جنگ (اصلی نام مولوی قطب الدین)ہیں ۔نواب قطب ریاست حیدرآباد دکن میں ایک اعلی عہدے پر فائز تھے۔وہ مولانا ظفر علی خان، مولانا شوکت علی جیسے مشاہیر کے ہم جماعت رہے تھے۔
”یہ جنگل یہ درندے“ کا پہلا اور آخری ایڈیشن نصف صدی قبل نواب قطب کے فرزند سراج الدین احمد نے دکن ہی سے شائع کیا تھا۔

حصہ سوم کے آخر میں مقبول جہانگیر کی ترجمہ کردہ کتاب ”آنائی کے آدم خوری وحشی“ سے شکار کی تین کہانیاں شامل کی گئی ہیں۔

شکاریات پر ان منتخب کردہ کہانیوں کا چوتھا اور آخری حصہ بھی جلد پیش کیا جائے گا جس میں جم کوربیٹ و دیگر کی تخلیقات شامل کی گئی ہیں۔

شکاریات پر کہانیاں۔ایک انتخاب۔حصہ چہارم۔ستمبر 2013

شکاریات پر متفرق کتابوں سے جاذب ِتوجہ و دلچسپ کہانیوں کے انتخاب پر مبنی پی ڈی ایف فائل کا حصہ چہارم پیش خدمت ہے۔

اس حصے میں دیگر کتب کے علاوہ کرنل جم کوربیٹ کی کتابوں سے مختلف کہانیاں شامل کی گئی ہیں۔کوربیٹ ہندوستان کے معروف ترین شکاریوں میں سرفہرست تھے۔شکار کی داستانیں اس انداز میں قلم بند کیں کہ ان کے مطالعے کے بعد قارئین کی اکثریت نے انہیں اس صنف میں صف اول کا ادیب ٹھہرایا۔
آدم خور شیر و دیگر درندوں کا شکار ہمیشہ ہی سے انسان کی شجاعت کو للکارتا رہا ہے۔ اور اس للکار کے جواب میں نسل انسانی کی بقا کے تحفظ کے لیے جم کوربیٹ نے ہمیشہ ہی ہراول دستے کے رکن کا کردار ادا کیا۔ غیر منقسم ہندوستان میں گاؤں دیہاتوں کے لوگ جم کوربیٹ کی پوجا کرتے تھے۔ انسان دوستی ان کی گٹھی میں پڑی تھی اور اس وصف خاص کا مظاہرہ جابجا ان کی تحریروں میں بھی بکھرا پڑا ہے۔

جم کوربیٹ 25 جولائی 1875 کو نینی تال میں پیدا ہوئے ، ہمالیہ پہاڑ کی ترائی میں واقع ایک چھوٹے سے قصبے ”کالا ڈھنگی“ میں ان کی تربیت اپنے والدین کے ہاتھوں ہوئی۔جم کوربیٹ نے 79 برس کی عمر میں 19 اپریل 1955کو کینیا میں دل کے دورے کے سبب انتقال کیا۔ جم کوربیٹ Nyeri کے شہر میںSt. Peter's Anglican Church میں مدفو ن ہیں۔ انتقال سے قبل وہ اپنی چھٹی کتاب ”ٹری ٹاپس“ تحریر کرچکے تھے۔
جم کوربیٹ نے عرصہ بیس برس تک ریلوے کے محکمے میں ملازمت کی۔پہلی جنگ عظیم کے دوران جم کوربیٹ نے سترویں لیبر کور کے کمانڈر کی حیثیت سے فرانس میںخدمات سرانجام دیں اور سخت علالت کے باوجود برطانوی فوجیوں کو یوپی اور سی پی کے جنگلوں میں لڑنے کے طریقوں سے روشناس کیا۔ انہی خدمات کے صلے میں ان کو عارضی لیفٹننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دی گئی ۔1946 میں حکومت برطانیہ نے جم کوربیٹ کو سی۔آئی۔ایس کے خطاب سے نوازا اور ان کو آزادیَ جنگلات کا خطاب دیا ۔
جم کوربیٹ ایک سخت کوش انسان تھے۔ ”روپریاگ “ کے آدم خور کوسخت محنت کے بعد ہلاک کرنے کے دنوں میں ان کی عمر 51 برس تھی جبکہ ”ٹھاک کے آدم خور“ کے شکار کے وقت وہ 63 برس کے ہوچکے تھے۔ ان دونوں آدم خور درندوں کے شکار کی داستانیں قارئین کے لیے بیحد جانی پہچانی ہیں اور دنیا کی کئی زبانوں میں ان کے تراجم ہوئے ہیں۔

تقسیم ہند کے بعد وہ ہندوستان چھوڑ کر کینیا کے شہر نیئیر ی چلے گئے۔انتقال سے کچھ عرصہ قبل جم کوربیٹ نے نیئیر ی میں ایک بہت بڑے اور بلند و بالا درخت پر ایک نہایت خوبصورت، محفوظ اور آرام دہ کاٹیج تعمیر کروایا تھا جہاں انہوں نے ملکہ الزبتھ اور پرنس فلپس کو ایک رات بسر کرنے کی دعوت دی تھی۔جم کوربیٹ نے 1952میں ملکہ کے ٹری ٹوپس پر مدعو کیے جانے کا قصہ اپنے انتقال سے چند ہی روز قبل 19 اپریل 1955 کو مکمل کیا تھا ۔اس وقت ان کی عمر اسی برس ہوچکی تھی۔

جم کوربیٹ تمام عمر غیر شادی شدہ رہے۔ ان کی اکثر تحریروں میں ”میگی“ نام کی خاتون کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ ان کی جاں نثار بہن تھیں جو ان کے انتقال کے بعد تک زندہ رہی تھیں۔میگی نے بھی اپنے بھائی کے ہمراہ ہندوستان سے ترک سکونت کیا تھا اور کینیا میں جابسی تھیں۔
جم کوربیٹ کا ہندوستان شکار سے زیادہ ہند کے باسیوں کی داستانیں ہیں۔ اس کتاب کو ہم جم کوربیٹ کی خودنوشت بھی کہہ سکتے ہیں۔

حصہ چہارم میں ان کتابوں سے تحریریں شامل کی گئی ہیں :

شیر آیا شیر آیا۔جم کوربیٹ /کینتھ اینڈرسن۔مترجم: جاوید شاہین۔اشاعت: 1960
جم کوربیٹ کا ہندوستان ۔مترجم: سمیع محمد خان (نقی محمد خان خورجوی کے فرزند)۔ اشاعت: 1990
مجھولی کا آدم خور تیندوا۔اشاعت: 1991
شکاریوں کا قاتل۔مترجم: مقبول جہانگیر۔اشاعت: 1991
کماؤں کے آدم خور۔ مترجم: سمیع محمد خان
درندوں کی بستی۔مترجم: مقبول جہانگیر۔اشاعت: 1975

 
آخری تدوین:

راشد اشرف

محفلین
تلمیذ نایاب نیرنگ خیال الف عین شمشاد زبیر

گزشتہ ایک ہفتے سے کہانیاں منتخب کرنے میں مصروف رہا تھا، یہ جن کتابوں سے اخذ کی گئی ہیں ان کو ایک زمانے سے حرز جاں بنا کر رکھا ہے۔ شکاریات پر مبنی یہ کتابیں سن ساٹھ سے سن اسی تک کے عرصے میں شائع ہوئیں۔ جم کوربٹ، کینتھ اینڈرسن، قمر نقوی اور شوکت ہاشمی اور اسی طرح مترجمین میں مقبول جہانگیر اور جادی شاہین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کہنے ان لوگوں کے
ان کہانیوں کو بارہا پڑھا اور پر مرتبہ نیا لطف اٹھایا۔ انتخاب میں اس بات کا خیال رکھا کہ منتخب کردہ داستانیں دلچسپ ہوں اور خود کو پڑھوانے کی اہلیت رکھتی ہوں۔

جو چیز مجھے پسند ہو ضروری نہیں کہ وہ اوروں کو بھی پسند آئے لیکن اس مرتبہ یہ خوش فہمی بہرحال ہے۔
 

تلمیذ

لائبریرین
جناب راشد اشرف, صاحب، بے حد شکریہ کہ آپ نے بچوں کے ادب کے شائقین کی طرح شکاریات کے موضوع پر توجہ دی۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی یہ کاوش بھی اس صنف کے شائقین میں انشاء اللہ خاطر خواہ پذیرائی حاصل کرے گی۔
آپ نے تعارفی تحریر میں جن حکیم اقبال صاحب مرحوم کا ذکر کیا ہے۔ میں ان سے خوب (لیکن غائبانہ) واقف ہوں۔ وہ ایک زمانے میں ہفت روزہ اخبار جہاں میں باقاعدگی سے لکھا کرتےتھے اور ہم جیسے لوگوں کو طب و حکمت اور امراض و معالجہ جات پر ان کے تحقیقی مضامین کا انتظار رہتا تھا۔ ان کے ہفتہ وار کالم میں اکثر تقسیم برصغیر سے قبل اور مابعدان کے علاج کے محیر العقول واقعات بھی درج ہوتے تھے لوگ اپنے امراض کا علاج بھی پوچھتے تھے۔ ایک مجرب علاج جو انہوں نے بتایا مجھے یاد رہ گیا ہے۔ وہ یہ کہ ایک پاؤ انجیر یکمشت کھانے سے کہنہ سے کہنہ قبض کا نام و نشان نہیں رہتا۔ اور بعد میں کئی لوگوں نے اس کو آزما کر اس کے کار گر ہونے کی تصدیق بھی کی۔ غرض یہ کہ وہ کراچی کے ایک جیّد اور مانے ہوئے حکیم تھے۔
شکاریات سے ان کی دلچسپی ، البتہ میرے معلومات میں اضافہ ہے۔
میں اس پوسٹ کو اپنے قیصرانی, جی کو ٹیگ کررہا ہوں جو شکاریات میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ انہوں نے اوپر حصہ چہارم میں مذکور ایک کتاب 'کماؤں کا آدم خور' کا اردوترجمہ بھی کررکھاہے۔ (آپ نے مترجم کا نام سمیع محمد خاں لکھا ہے)۔
جناب قیصرانی ضرور اپنے تآثرات یہاں لکھنا پسند کریں گے۔
سید شہزاد ناصر,
 

راشد اشرف

محفلین
جناب راشد اشرف, صاحب، بے حد شکریہ کہ آپ نے بچوں کے ادب کے شائقین کی طرح شکاریات کے موضوع پر توجہ دی۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی یہ کاوش بھی اس صنف کے شائقین میں انشاء اللہ خاطر خواہ پذیرائی حاصل کرے گی۔
آپ نے تعارفی تحریر میں جن حکیم اقبال صاحب مرحوم کا ذکر کیا ہے۔ میں ان سے خوب (لیکن غائبانہ) واقف ہوں۔ وہ ایک زمانے میں ہفت روزہ اخبار جہاں میں باقاعدگی سے لکھا کرتےتھے اور ہم جیسے لوگوں کو طب و حکمت اور امراض و معالجہ جات پر ان کے تحقیقی مضامین کا انتظار رہتا تھا۔ ان کے ہفتہ وار کالم میں اکثر تقسیم برصغیر سے قبل اور مابعدان کے علاج کے محیر العقول واقعات بھی درج ہوتے تھے لوگ اپنے امراض کا علاج بھی پوچھتے تھے۔ ایک مجرب علاج جو انہوں نے بتایا مجھے یاد رہ گیا ہے۔ وہ یہ کہ ایک پاؤ انجیر یکمشت کھانے سے کہنہ سے کہنہ قبض کا نام و نشان نہیں رہتا۔ اور بعد میں کئی لوگوں نے اس کو آزما کر اس کے کار گر ہونے کی تصدیق بھی کی۔ غرض یہ کہ وہ کراچی کے ایک جیّد اور مانے ہوئے حکیم تھے۔
شکاریات سے ان کی دلچسپی ، البتہ میرے معلومات میں اضافہ ہے۔
میں اس پوسٹ کو اپنے قیصرانی, جی کو ٹیگ کررہا ہوں جو شکاریات میں خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ انہوں نے اوپر حصہ چہارم میں مذکور ایک کتاب 'کماؤں کا آدم خور' کا اردوترجمہ بھی کررکھاہے۔ (آپ نے مترجم کا نام سمیع محمد خاں لکھا ہے)۔
جناب قیصرانی ضرور اپنے تآثرات یہاں لکھنا پسند کریں گے۔
سید شہزاد ناصر,

نوازش بھائی
کماؤں کے آدم خور کا بہترین ترجمہ سمیع محمد خان نے نوے کی دہائی میں کیا تھا، سرورق ملاحظہ ہو۔
سمیع محمد خان، نقی محمد خان خورجوی (عمر رفتہ والے) کے فرزند ہیں۔ حیات ہیں، عمر نوے سے اوپر ہوگئی ہے۔
ابا نے عمر رفتہ لکھی تو بیٹے نے عمر گزشتہ (خودنوشت)۔
سرورق کا لنک ملاحظہ کیجیے، 2006 میں شائع ہوئی تھی:

http://www.wadi-e-urdu.com/wp-conte...m-e-takhleeq-adab-khi-2006-second-edition.jpg

کیا قیصرانی صاحب ہی نے کینتھ اینڈرسن کی لکھی شکار کی وہ کہانی ترجمہ کی تھی جس میں بیرا پجاری نامی کردار تھا اور جس کا ترجمہ ہوگرالی کے آدم خور میں مقبول جہانگیر نے بھی کیا تھا ؟


اور ہاں، شملہ سے مسوری ضرور پڑھیے گا، حکیم اقبال حسین کی یہ تحریر بیحد دلچسپ ہے
 

تلمیذ

لائبریرین
۔
کماؤں کے آدم خور کا بہترین ترجمہ سمیع محمد خان نے نوے کی دہائی میں کیا تھا
۔
کیا قیصرانی صاحب ہی نے کینتھ اینڈرسن کی لکھی شکار کی وہ کہانی ترجمہ کی تھی جس میں بیرا پجاری نامی کردار تھا اور جس کا ترجمہ ہوگرالی کے آدم خور میں مقبول جہانگیر نے بھی کیا تھا ؟

ا س کا بہتر جواب تو جناب قیصرانی ہی دے سکتے ہیں۔ مجھے اتنا پتہ ہے کہ انہوں ایک اور کتاب 'پاگل ہاتھی' کا ترجمہ بھی کیا تھا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
شیئرنگ کا بہت شکریہ جناب۔ کرنل جم کاربٹ کی کتب کا بہت سے لوگوں نے ترجمہ کیا ہے۔ ان سے میری واقفیت دراصل ہوئی ہی مقبول جہانگیر مرحوم کے تراجم سے تھی۔ لیکن جب محمد سمیع صاحب کا اور دیگر احباب کے تراجم کو دیکھا تو اصل پڑھنے کو دل چاہا اور پھر اسی شوق میں خود چند کتب پر ہاتھ پھیرا
کینتھ اینڈرسن کی کتاب کا نام Nine maneaters and one rogue تھا۔ تاہم یہ عنوان ایک طرح سے دھوکہ ہے کیونکہ سارے درندے جن پر یہ کتاب لکھی گئی ہے، آدم خور نہیں تھے
ذاتی طور پر میں جم کاربٹ کو اونچے پائے کا شکاری اور محقق سمجھتا ہوں جبکہ کینتھ اینڈرسن میرے نزدیک ایک عطائی ہیں۔ تاہم پسند اپنی اپنی :)
 

قیصرانی

لائبریرین
راشد اشرف صاحب، قمر نقوی صاحب کا میں بہت بڑا فین ہوں۔ اگر ان سے کوئی رابطہ ممکن ہو تو بتائیے گا۔ قدم بوسی کے لئے میں بطور خاص امریکہ جانے کو تیار ہوں
 

راشد اشرف

محفلین
نقوی صاحب سے فیس بک پر مستقل رابطہ رہتا ہے۔ میرے لیے بھی وہ لمحہ یادگار تھا جب انہوں نے پیغام کا جواب دیا اور اس کے بعد اس کی کرم نوازیاں بڑھتی چلی گئیں۔
ان کی فیس بک آئی ڈی اور ای میل پتہ آپ کو بھیج دیا ہے۔ میرا حؤالہ دے دیجیے گا۔

نقوی صاحب کو اردو بورڈ والی اس لغت کی شدت سے تلاش ہے جو 22 جلدوں میں شائع ہوئی تھی۔ ان کا پیغام ملاحظہ کیجیے:
کیا کو ءی ایسا ذ ریعہ ہے کہ یہ لغت مجھے ارسال کر دی جا ءے، میں لغت کی قیمت اور پار سل کا خرچ معلوم ہو نے پر ادا کر سکتا ہو ں۔ م،یرا خیال ہے، دو یا تی بنڈلز کی شکل میں سمندر ی جہاز کی ڈاک سے بھیجی جا سکتی ہین جو دو ڈھ ءی ماہ میں مل جا ءینگی

یہ اس لیے لکھا کہ شاید آپ کی دسترس میں یہ لغت ہواور کچھ اطلاع مل جائے
 

قیصرانی

لائبریرین
نقوی صاحب سے فیس بک پر مستقل رابطہ رہتا ہے۔ میرے لیے بھی وہ لمحہ یادگار تھا جب انہوں نے پیغام کا جواب دیا اور اس کے بعد اس کی کرم نوازیاں بڑھتی چلی گئیں۔
ان کی فیس بک آئی ڈی اور ای میل پتہ آپ کو بھیج دیا ہے۔ میرا حؤالہ دے دیجیے گا۔

نقوی صاحب کو اردو بورڈ والی اس لغت کی شدت سے تلاش ہے جو 22 جلدوں میں شائع ہوئی تھی۔ ان کا پیغام ملاحظہ کیجیے:
کیا کو ءی ایسا ذ ریعہ ہے کہ یہ لغت مجھے ارسال کر دی جا ءے، میں لغت کی قیمت اور پار سل کا خرچ معلوم ہو نے پر ادا کر سکتا ہو ں۔ م،یرا خیال ہے، دو یا تی بنڈلز کی شکل میں سمندر ی جہاز کی ڈاک سے بھیجی جا سکتی ہین جو دو ڈھ ءی ماہ میں مل جا ءینگی

یہ اس لیے لکھا کہ شاید آپ کی دسترس میں یہ لغت ہواور کچھ اطلاع مل جائے
اس لغت کو تو میں بھی تلاش کر رہا ہوں۔ تاہم جونہی ملی فوراً پیش خدمت کر دی جائے گی :)
 
اللہ آپ کوجزائے خیر عطا فرمائے :)
کینتھ اینڈرسن جم کاربٹ فرینک سی ھبن کرنل جان پیٹرسن قمر نقوی محمد جیسم خان اور حکیم اقبال حسین کی تحریروں کا میں ایک زمانے میں شیدائی تھا مقبول جہانگیر کی تقریباََ تمام کتب میں نے پڑھی ہیں بلاشبہ یہ تحریریں سدا بہار ہیں اور ہمیشہ سدا بہار رہیں گی شراکت کا بہت بہت شکریہ کتب ڈاؤن لوڈ کر لی ہیں فارغ وقت کے لئے ایک اچھا مصرف نکل آیا ہے
 
ایک زمانے میں اخبار جہاں میں حکیم محمد عیسیٰ کے مچھلی کے شکار کے مطعلق مضامین شایع ہوا کرتے تھے ممکن ہے کہ اخبار جہاں کی پرانی فائلوں میں موجود ہوں
 

قیصرانی

لائبریرین
اللہ آپ کوجزائے خیر عطا فرمائے :)
کینتھ اینڈرسن جم کاربٹ فرینک سی ھبن کرنل جان پیٹرسن قمر نقوی محمد جیسم خان اور حکیم اقبال حسین کی تحریروں کا میں ایک زمانے میں شیدائی تھا مقبول جہانگیر کی تقریباََ تمام کتب میں نے پڑھی ہیں بلاشبہ یہ تحریریں سدا بہار ہیں اور ہمیشہ سدا بہار رہیں گی شراکت کا بہت بہت شکریہ کتب ڈاؤن لوڈ کر لی ہیں فارغ وقت کے لئے ایک اچھا مصرف نکل آیا ہے
اگر کوئی کتب عنایت کر سکیں تو پی ایم میں رابطہ کریں :)
 

قیصرانی

لائبریرین
چند ایک گذارشات۔ تیسرے حصے میں لکھا ہوا ہے کہ کینتھ اینڈرسن ایک جادوگر مصنف تھے۔ یہ بات سولہ آنے سچ ہے کہ ان کا انداز بیان بھی عمدہ ہے اور یہ بھی کہ انہیں جادو ٹونے سے دلچسپی رہی ہے اور مبینہ طور پر یہ ہمزاد وغیرہ تابع کرنے کی کوشش کرتے رہے تھے اور دیگر ماورائے عقل باتیں بھی انہوں نے کی ہیں جو ان کے علم کے مطابق درست تھیں لیکن بعد میں وہ غلط ثابت ہوئیں۔ اسی طرح کینتھ اینڈرسن نے شکار میں بھی جادو ٹونے سے مدد بہت بار لی تھی
شوکت ہاشمی جیسے ناتجربہ کار لکھاری (شکاریات سے متعلق ناتجربہ کار) کے بارے کچھ بھی لکھنا کارِ دارد (بشکریہ تلمیذ صاحب) ہے۔ انہوں نے محض جھوٹ کے پلندے باندھے ہیں۔ سب سے پہلے انہوں نے فورٹ منرو کے آدم خور کے بارے لکھا تھا۔ فورٹ منرو پاکستان میں ہمارے گھر ڈیرہ غازی خان سے سو کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر ہے اور وہاں تو کیا پورے مغربی پاکستان میں آج تک شیر کا وجود ثابت نہیں ہوا۔ دوسرا ایک اور جہالت ان کی یہ تھی انہوں نے ڈیرہ غازی خان سے فورٹ منرو جاتے وقت جو منظر کشی کی ہے، وہ حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ ڈیرہ غازی خان سے فورٹ منرو مغرب کی سمت ہے اور یہ صاحب لکھ رہے تھے کہ ڈیرہ غازی خان سے فورٹ منرو جاتے ہوئے پہاڑ سے قبل وہ لوگ رکے اور سورج اس وقت پہاڑوں سے (یعنی مغرب سے) طلوع ہو رہا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے وہ محض تعلی باز لکھاری لگے کہ جس نے شکاریات پر بھی محض کہانیاں گھڑنا شروع کر دی تھی جن کا نہ سر تھا نہ پیر
جسیم خان کا انداز بیان کافی عجیب لگا مجھے۔ تاہم ان کی محض یہی تحریر میں نے پڑھی تھی۔ ان کے شکاری ہونے کے بارے مجھے شبہ نہیں۔ درازندہ نامی مقام اور دیگر باتیں بھی کافی حد تک سچ ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
پس نوشت: سندر بن کے آدم خور دراصل "تہاور (بشکریہ تلمیذ ) تہوّر علی خان" کی تحریر ہے :) میرے پاس یہ انگریزی اور اردو دونوں شکل میں موجود ہے۔ مصنف نے اصل میں انگریزی میں بیان کی تھی اور ان کا طرزِ تحریر بہت سلیس ہے اور فقرے بہت لمبے ہونے کے باوجود بھی بور نہیں کرتے :)
 
آخری تدوین:

راشد اشرف

محفلین
چند ایک گذارشات۔ تیسرے حصے میں لکھا ہوا ہے کہ کینتھ اینڈرسن ایک جادوگر مصنف تھے۔ یہ بات سولہ آنے سچ ہے کہ ان کا انداز بیان بھی عمدہ ہے اور یہ بھی کہ انہیں جادو ٹونے سے دلچسپی رہی ہے اور مبینہ طور پر یہ ہمزاد وغیرہ تابع کرنے کی کوشش کرتے رہے تھے اور دیگر ماورائے عقل باتیں بھی انہوں نے کی ہیں جو ان کے علم کے مطابق درست تھیں لیکن بعد میں وہ غلط ثابت ہوئیں۔ اسی طرح کینتھ اینڈرسن نے شکار میں بھی جادو ٹونے سے مدد بہت بار لی تھی
شوکت ہاشمی جیسے ناتجربہ کار لکھاری (شکاریات سے متعلق ناتجربہ کار) کے بارے کچھ بھی لکھنا کارِ دارد (بشکریہ تلمیذ صاحب) ہے۔ انہوں نے محض جھوٹ کے پلندے باندھے ہیں۔ سب سے پہلے انہوں نے فورٹ منرو کے آدم خور کے بارے لکھا تھا۔ فورٹ منرو پاکستان میں ہمارے گھر ڈیرہ غازی خان سے سو کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر ہے اور وہاں تو کیا پورے مغربی پاکستان میں آج تک شیر کا وجود ثابت نہیں ہوا۔ دوسرا ایک اور جہالت ان کی یہ تھی انہوں نے ڈیرہ غازی خان سے فورٹ منرو جاتے وقت جو منظر کشی کی ہے، وہ حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔ ڈیرہ غازی خان سے فورٹ منرو مغرب کی سمت ہے اور یہ صاحب لکھ رہے تھے کہ ڈیرہ غازی خان سے فورٹ منرو جاتے ہوئے پہاڑ سے قبل وہ لوگ رکے اور سورج اس وقت پہاڑوں سے (یعنی مغرب سے) طلوع ہو رہا تھا۔ اس کے علاوہ مجھے وہ محض تعلی باز لکھاری لگے کہ جس نے شکاریات پر بھی محض کہانیاں گھڑنا شروع کر دی تھی جن کا نہ سر تھا نہ پیر
جسیم خان کا انداز بیان کافی عجیب لگا مجھے۔ تاہم ان کی محض یہی تحریر میں نے پڑھی تھی۔ ان کے شکاری ہونے کے بارے مجھے شبہ نہیں۔ درازندہ نامی مقام اور دیگر باتیں بھی کافی حد تک سچ ہیں

تمام باتیں معلوماتی ہیں اور میرے لیے نہایت اہم ہیں۔ بہت بہت شکریہ
شوکت ہاشمی بنیادی طور پر فلمی صحافی تھے، یقینا یہی وجہ رہی ہوگی۔
ان کی 1956 میں لکھی ایک دلچسپ کتاب "یہ پری چہرہ لوگ" کل ہی اپ لوڈ کی ہے۔
بہرحال ان کی لکھی شکاریات کی کہانیوں پر سوالیہ نشان آپ نے لگا دیا ہے
 
Top