شور

ناعمہ عزیز

لائبریرین
سورج اپنی تمام تر وجاہتوں کے ساتھ گردن اکڑائے براجمان تھا ، اور وہ بے ہنگم ٹریفک کے شور میں سڑک کے کنارے اپنی سوچوں میں مگن برھتی جارہی تھی کہ ٹریفک کے شور نے اس کے دھیان میں خلل ڈالا ، اور یہ بلا اجازت دخل اندازی اسے بالکل پسند نا آئی ، مگر سوچوں نے ایک نیا رخ لیا ، یہ شور اسے اپنے اندر اترتا محسوس ہوا، ایسا شور جو زیادہ دیر تک برداشت نہیں ہو سکتا تھا ، مگر وہ سوچے گئی
بھلا گاڑیوں کو ہارن لگانے کی کیا تُک تھی ، جانے کس گدھے کا آئیڈیا ہو گا یہ !
افففف کتنی بُری طرح سے گاڑیوں کے پہیے چراچراتے ہیں جیسے پیدل چلنے والے کو بہرہ سمجھا ہو !
سائیکل کی ٹرن ٹرن
موٹر سائیکل کی پی پی ی ی ی ی ی ی
دو سر پھرے جو بغیر سائلنسر کے موٹر سائیکل چلا رہے تھے اس موٹر سائیکل کی آواز نے رہی سہی پر پانی پھیر دیا ،
ایڈیٹ ، ڈفر،
اس نے دل ہی دل میں کوسا
اور گھر پہنچنے کے لیے جلدی جلدی قدم بڑھانے لگی ،
گھر داخل ہوتے ہی اس نے "ہوم سویٹ ہوم " کا نعرہ لگایا اور اور بیڈ پر آڑی ترچھی لیٹ گئی ، لیکن اب زیادہ چلنے کی وجہ سے سانسوں سے سائیں سائیں کی آواز آرہی تھی ، اس نے جل کے سوچا "یہاں بھی شور"
اس نے کچھ دیر کو آنکھیں بند کیں کہ شاید کچھ سکون میسر ہو مگر بے سود ، وہ اٹھی اور کچن میں جا کر ایک گلاس پانی پیا اور پھر سکون کی آس میں لیٹ گئی ۔
اس نے سوچا ۔۔۔
مگر یہ شور سڑکوں کی ٹریفک تک محدود نہیں ہے شاید ، ہر انسان کے اندر شور ہوتا ہے ، وہ شور جسمانی درد کا ہو ، روحانی تکلیف کا ہو ، دل اور دماغ کی جنگ جاری ہو، پچھتاوں کی آگ جلے ، دکھوں کی کوئلے دہک رہے ہوں ، محسوس کرنے والوں کے لئے یہ شور اذیت سے کم نہیں ہوتا ،
کسی ایک شور سے جان چھڑاتے دوسرا آ کر اونچے تخت پر یوں بیٹھتا ہے جیسے اس نے یہ حقوق پہلے ہی اپنے نام کروائے ہوں ۔
وقت وہ ہی اچھا ہے جب ہم اپنی ذات سے آشنا نہیں ہوتے ، وہ بچپن جب آگہی اور شعور کے کانٹے ہماری روح کو چھلنی نہیں کرتے ، جب رشتوں سے سوائے خلوص اور محبت کے کچھ نہیں ملتا، جب ہماری مسکراہٹ سے لوگ مسکرا دیتے ہیں ، جب تکلیفوں سے ہماری آشنائی نہیں ہو پاتی ، جب در حقیقت درد ہمیں درد ہی نہیں لگتا ، وقت وہی اچھا ہے جب لوگوں کے اصل چہرے ہمارے سامنے نہیں آتے ، جب لوگ ہمارے مان اور اعتبار کا خون نہیں کرتے ، جب ہم اپنی ننھی اور معصوم خواہشیں رو کے ضد کر کے پوری کر لیتے ہیں
وقت وہی اچھا ہے جب ہم زندہ ہوتے ہیں ،
خدا بچائے اس اس وقت سے جب وہ سمندر کے طوفان کی طرح ظالم اور بے رحم ہو جاتا ہے، اور وہ طوفان جذبات اور احساسات کو بہا کر لے جاتا ہے، خدا بچائے اس وقت سے کہ جس کے آنے سے پہلے ہم ختم ہو جاتے ہیں اور پھر اس اختتام کا انتظار کرتے ہیں جب ہمارا نام و نشان مٹ جائے ۔

اور یہ سوچ اسے نیند کی وادیوں میں لے گئی ، شاید وہاں ہی اسے کچھ سکون مل پاتا مگر ایک ڈراؤنے خواب سے اس کی آنکھ کھل گئی ، اور اسے اپنی بے بسی پر بے انتہا رونا آیا ، تھک ہار کر اس نے سوچا کہ اب اسے اس شور کے ساتھ ہی زندگی گزارنا ہو گی ، اور بہتر یہی ہے کہ ووہ اس شور پر کان دھرنا ہی چھوڑ دے ، ڈھیٹ ہو جائے ، بے حس ہو جائے !
 
آخری تدوین:
قلم جتنی مرضی لے لیں بھیا ، بلکہ آپ کی سالگرہ پر تحفہ دے دون گا آپ کو
تحفہ سالگرہ پر نہیں چاہیے بچو جی، اس کے علاوہ ہم نے سوچ رکھا ہے کہ بٹیا سے کیا کیا تحائف وصول کرنے ہیں۔ :) :) :)
رہا سوال قلم کا تو ابھی ہمیں کسی نے سمجھایا کہ:

جوتے کی بڑی ہیل سے بڑھتی نہیں قامت
ٹوپی کی بلندی سے سر اونچا نہیں ہوتا

کے مصداق قلم چرا لینے سے لکھنا نہیں آجائے گا۔ لہٰذا بٹیا رانی لکھتی رہیں، قلم ہم فراہم کرا دیا کریں گے۔ :) :) :)
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
تحفہ سالگرہ پر نہیں چاہیے بچو جی، اس کے علاوہ ہم نے سوچ رکھا ہے کہ بٹیا سے کیا کیا تحائف وصول کرنے ہیں۔ :) :) :)
رہا سوال قلم کا تو ابھی ہمیں کسی نے سمجھایا کہ:

جوتے کی بڑی ہیل سے بڑھتی نہیں قامت
ٹوپی کی بلندی سے سر اونچا نہیں ہوتا

کے مصداق قلم چرا لینے سے لکھنا نہیں آجائے گا۔ لہٰذا بٹیا رانی لکھتی رہیں، قلم ہم فراہم کرا دیا کریں گے۔ :) :) :)


پہلے تو ہمیں یہ بتائیں کہ آپ کو کس نے سمجھایا یہ

جوتے کی بڑی ہیل سے بڑھتی نہیں قامت
ٹوپی کی بلندی سے سر اونچا نہیں ہوتا ؟؟؟؟


دراصل ہم یہ شعر چرانا چاہتے ہیں اور قوی امید ہے اس کے جملہ حقوق محفوظ ہوں گے تو سوچا پوچھ ہی لیں ۔


باقی جہاں تک لکھنے کی بات ہے تو حوصلہ افزائی کے لئے ممنون ہیں بھیا۔ جیسا ٹوٹا پھوٹا لکھا جاتا ہے لکھ ہی لیتے ہیں :)
 

نایاب

لائبریرین
مختصر مختصر مگر پر اثر
حساس قلم سے نکلی صدا جو خود میں ایسا شور سموئے ہوئے ہے ۔
جو روح پر بادوباراں کی مانند برستا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں بٹیا رانی
ڈھیٹ ہونا یا بے حسی اختیار کرنے سے بہتر خاموشی کے ساتھ اپنے حصے کے چراغ جلاتے رہنا بہتر عمل ۔۔۔۔۔۔۔۔
 
پہلے تو ہمیں یہ بتائیں کہ آپ کو کس نے سمجھایا یہ

جوتے کی بڑی ہیل سے بڑھتی نہیں قامت
ٹوپی کی بلندی سے سر اونچا نہیں ہوتا ؟؟؟؟


دراصل ہم یہ شعر چرانا چاہتے ہیں اور قوی امید ہے اس کے جملہ حقوق محفوظ ہوں گے تو سوچا پوچھ ہی لیں ۔


باقی جہاں تک لکھنے کی بات ہے تو حوصلہ افزائی کے لئے ممنون ہیں بھیا۔ جیسا ٹوٹا پھوٹا لکھا جاتا ہے لکھ ہی لیتے ہیں :)
گڑیا رانی، شعر میں ایک ٹاپو تھا، "نہیں ہوا" کے بجائے "نہیں ہوتا" ہونا چاہیے تھا۔ خیر ہم نے اس کی تدوین کر دی ہے۔ :) :) :)
یہ شعر کس کا ہے، یہ ہمیں خود نہیں معلوم۔ ہم نے شاید اسے پہلی دفعہ سن 2003 کے آس پاس کسی وقت کہیں پڑھا تھا اور لکھنؤ کے ایک ایف ایم چینل ریڈیو سٹی میں ای میل کر کے ایک پروگرام "کھٹا میٹھا" میں پڑھنے کو کہا تھا لیکن اینکر صاحب نے اس شعر کو ایسے بگاڑ کر پڑھا کہ پھر ہمت نہ ہوئی کچھ اور بھیجنے کی۔ :) :) :)
 
Top