شمس الرحمن فاروقی سے ایک بے تکلف گفتگو
ا کرم نقاش (گلبرگہ)
رسالہ شب خون کے بانی و ترتیب کا ر عمر کی 73ویں منزل میں ہیں شب خون جیسے رجحان ساز و تاریخ ساز رسالے کی انفرادیت و اہمیت کا ذکر دوچار جملے نہیں، دفتر چاہتا ہے۔ اس رسالے کی اہمیت و ضرورت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی مسدودی کے قریب تین چار سال بعد بھی ادب کے سنجیدہ قاری و قلم کار ماتم کناں ہیں۔ اس رسالے کے روح رواں نے اس کے معیار و مزاج کی برقراری میں عمر عزیز کے چالیس سال لگا دیئے۔ اور اس کے وسیلے سے لکھنے والوں کو نئی فکر نئے رجحان و احساس سے نہ صرف روشناس کروایا بلکہ ان کی فکری و تخلیقی تربیت بھی فرمائی۔ اسی دوران شاعری میں نئے نام کے عنوان سے ایک انتخاب شائع کیا اس انتخاب میں شامل بیش تر شعراء آج بھی فلک شعر پر اپنی روشنی پھیلائے ہوئے ہیں۔
منفرد شاعر، رجحان ساز و مجتہد نقاد، دانشور محقق، بے باک مبصر، با کمال فکشن رائٹر، بے مثال مدیر، اتنی ساری جہات و خصوصیات اگر ایک شخص میں مجتمع ہوں تو اس کی جینیس میں کس کو شبہ ہو سکتا ہے۔ اُردو ادب میں بالخصوص ایسی کوئی نظیر شاید ہی ملے کہ کسی قلم کار نے جس صنف ادب کو بھی وسیلۂ اظہار بنایا اس میں اپنی غیر معمولی تخلیقی استعداد اور بے پناہ علمی بصیرت کا ثبوت بہ کمال فراہم کیا ہو۔ اس قلم کار نے اُردو ادب کو تقریباً 50 کتابیں دیں۔ یہ محض تعداد نہیں واقعتاً کتابیں ہیں جو دعوت فکر و انبساط دیتی ہیں۔ لفظ و معنی، اثبات و نفی، شعر غیر شعر اور نثر، افسانے کی حمایت میں، اُردو غزل کے اہم موڑ ، تفہیم غالب، شعر شور انگیز، گنج سوختہ، سبز اندر سبز، چار سمت کا دریا، آسماں محراب، سوار اور دوسرے افسانے، کئی چاند تھے سرِ آسماں، ایسی کتابیں ہیں جن سے دامنِ ادب مالا مال ہو گیا۔
اس نابغۂ روزگار شخصیت کی تنقید کے بارے میں محمد حسن عسکری لکھتے ہیں
’’حالی کے بعد اُردو تنقید فاروقی کے واسطے سے ایک نئے معیار تک پہنچی۔
محمد حسن عسکری کی کہی ہوئی اس بات کو بھی خاصا عرصہ گذر چکا ہے۔ اس کے بعد بھی تنقید میں اس بلند قامت نقاد کی متعدد فکر انگیز کتابیں منظر عام پر آئیں جن میں ایک کتاب (شعر شور انگیز) ہندوستان کے سب سے بڑ ے اعزاز ’’سرسوتی سمان‘‘ کی مستحق ٹھہری۔معاصر تنقیدی بساط پر دور دور تک اپنے حریف آپ نظر آتے ہیں۔
اسی ضمن میں شمیم حنفی کا کہنا ہے کہ ’’ہم تنقید کے اس عہد کو فاروقی کا عہد بھی کہہ سکتے ہیں ‘‘۔ ان کے ناول ’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘ کے بارے میں جدید فکشن کا معتبر نام انتظار حسین رقم طراز ہیں۔
’’مدتوں بعد اُردو میں ایسا ناول آیا ہے جس نے ہندو پاک کی ادبی فضاء میں ہلچل مچا دی ہے۔ کیا اس کا مقابلہ اس ہلچل سے کیا جائے جو امراؤ جان ادا نے پیدا کی تھی۔
فکشن کے بے باک نقاد وارث علوی اس شخصیت کے علمی تبحر کے بارے میں کہتے ہیں۔’’فاروقی پر لکھنے کے لئے فاروقی کا سا علم درکار ہے۔ اور وہ آج کسی کے پاس نہیں۔‘‘
مذکورہ مشاہیر کی یہ آراء، عہدِ حاضر میں صرف ایک ہی شخصیت کے بارے میں ہو سکتی ہیں اور اس شخصیت کا نام ہے۔ شمس الرحمن فاروقی۔
دیکھیے بے بدنی کون کہے گا قاتل ہے
سایہ آسا جو پھرے اس کو پکڑنا مشکل ہے
شمس الرحمن سے یہ گفتگو 30 مارچ 2009 کو گولف کلب، بنگلور، کے مہمان خانے میں ریکارڈ کی گئی۔مندرجہ ذیل احباب موجود تھے :
انیس صدیقی، راہی فدائی، ساجد حمید، اسد ثنائی، نیساں فاطمہ صدیقی
۔۔۔ جاری