شمس الرحمن فاروقی سے ایک بے تکلف گفتگو

الف عین

لائبریرین
ٌٌ***
نوٹ/ڈسکلیمر۔ از اعجاز عبید
یہ کوئی کتاب کا حصہ نہیں ہے، لائبریری میں پوسٹ کرنا تو نہیں چاہئے تھا لیکن افسوس کہ ادبی زمرہ کوئی ایسا نہیں ہے جہاں اس کو پوسٹ کیا جا سکے۔ یہ ’پسندیدہ تحریر‘ بھی نہیں ہے، اور نہ ’پسندیدہ کلام‘ یا ’اردو نامہ‘ کے تحت کوئی خبر۔ اس کو لائبریری میں شامل کرنے پر بھی لائبریری میں شامل نہ کیا جائے۔
***
 

الف عین

لائبریرین
شمس الرحمن فاروقی سے ایک بے تکلف گفتگو​

ا کرم نقاش (گلبرگہ)

رسالہ شب خون کے بانی و ترتیب کا ر عمر کی 73ویں منزل میں ہیں شب خون جیسے رجحان ساز و تاریخ ساز رسالے کی انفرادیت و اہمیت کا ذکر دوچار جملے نہیں، دفتر چاہتا ہے۔ اس رسالے کی اہمیت و ضرورت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی مسدودی کے قریب تین چار سال بعد بھی ادب کے سنجیدہ قاری و قلم کار ماتم کناں ہیں۔ اس رسالے کے روح رواں نے اس کے معیار و مزاج کی برقراری میں عمر عزیز کے چالیس سال لگا دیئے۔ اور اس کے وسیلے سے لکھنے والوں کو نئی فکر نئے رجحان و احساس سے نہ صرف روشناس کروایا بلکہ ان کی فکری و تخلیقی تربیت بھی فرمائی۔ اسی دوران شاعری میں نئے نام کے عنوان سے ایک انتخاب شائع کیا اس انتخاب میں شامل بیش تر شعراء آج بھی فلک شعر پر اپنی روشنی پھیلائے ہوئے ہیں۔
منفرد شاعر، رجحان ساز و مجتہد نقاد، دانشور محقق، بے باک مبصر، با کمال فکشن رائٹر، بے مثال مدیر، اتنی ساری جہات و خصوصیات اگر ایک شخص میں مجتمع ہوں تو اس کی جینیس میں کس کو شبہ ہو سکتا ہے۔ اُردو ادب میں بالخصوص ایسی کوئی نظیر شاید ہی ملے کہ کسی قلم کار نے جس صنف ادب کو بھی وسیلۂ اظہار بنایا اس میں اپنی غیر معمولی تخلیقی استعداد اور بے پناہ علمی بصیرت کا ثبوت بہ کمال فراہم کیا ہو۔ اس قلم کار نے اُردو ادب کو تقریباً 50 کتابیں دیں۔ یہ محض تعداد نہیں واقعتاً کتابیں ہیں جو دعوت فکر و انبساط دیتی ہیں۔ لفظ و معنی، اثبات و نفی، شعر غیر شعر اور نثر، افسانے کی حمایت میں، اُردو غزل کے اہم موڑ ، تفہیم غالب، شعر شور انگیز، گنج سوختہ، سبز اندر سبز، چار سمت کا دریا، آسماں محراب، سوار اور دوسرے افسانے، کئی چاند تھے سرِ آسماں، ایسی کتابیں ہیں جن سے دامنِ ادب مالا مال ہو گیا۔
اس نابغۂ روزگار شخصیت کی تنقید کے بارے میں محمد حسن عسکری لکھتے ہیں
’’حالی کے بعد اُردو تنقید فاروقی کے واسطے سے ایک نئے معیار تک پہنچی۔
محمد حسن عسکری کی کہی ہوئی اس بات کو بھی خاصا عرصہ گذر چکا ہے۔ اس کے بعد بھی تنقید میں اس بلند قامت نقاد کی متعدد فکر انگیز کتابیں منظر عام پر آئیں جن میں ایک کتاب (شعر شور انگیز) ہندوستان کے سب سے بڑ ے اعزاز ’’سرسوتی سمان‘‘ کی مستحق ٹھہری۔معاصر تنقیدی بساط پر دور دور تک اپنے حریف آپ نظر آتے ہیں۔
اسی ضمن میں شمیم حنفی کا کہنا ہے کہ ’’ہم تنقید کے اس عہد کو فاروقی کا عہد بھی کہہ سکتے ہیں ‘‘۔ ان کے ناول ’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘ کے بارے میں جدید فکشن کا معتبر نام انتظار حسین رقم طراز ہیں۔
’’مدتوں بعد اُردو میں ایسا ناول آیا ہے جس نے ہندو پاک کی ادبی فضاء میں ہلچل مچا دی ہے۔ کیا اس کا مقابلہ اس ہلچل سے کیا جائے جو امراؤ جان ادا نے پیدا کی تھی۔
فکشن کے بے باک نقاد وارث علوی اس شخصیت کے علمی تبحر کے بارے میں کہتے ہیں۔’’فاروقی پر لکھنے کے لئے فاروقی کا سا علم درکار ہے۔ اور وہ آج کسی کے پاس نہیں۔‘‘
مذکورہ مشاہیر کی یہ آراء، عہدِ حاضر میں صرف ایک ہی شخصیت کے بارے میں ہو سکتی ہیں اور اس شخصیت کا نام ہے۔ شمس الرحمن فاروقی۔
دیکھیے بے بدنی کون کہے گا قاتل ہے
سایہ آسا جو پھرے اس کو پکڑنا مشکل ہے
شمس الرحمن سے یہ گفتگو 30 مارچ 2009 کو گولف کلب، بنگلور، کے مہمان خانے میں ریکارڈ کی گئی۔مندرجہ ذیل احباب موجود تھے :
انیس صدیقی، راہی فدائی، ساجد حمید، اسد ثنائی، نیساں فاطمہ صدیقی

۔۔۔ جاری
 

الف عین

لائبریرین
ا ن:آپ محمود ایاز میموریل لکچر کے ضمن میں بنگلور تشریف لائے ہیں تو مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلا سوال محمود ایاز کے بارے میں ہی کیا جائے۔محمود ایاز ایک معتبر ادبی صحافی، مستند شاعر اور صاحب نظر نقاد تسلیم کیے جاتے ہیں۔ آپ ان کی شخصیت کو کس حیثیت سے دیکھتے ہیں ؟
ش ف:میں ہی کیا، میں سمجھتا ہوں جدید ادب کا ہر طالب علم محمود ایاز کو سب سے پہلے ’’سوغات‘‘ کے مدیر اور نئی شاعری کے فروغ میں بہت اہم، بنیادی کارنامہ انجام دینے والے شخص کی حیثیت سے دیکھتا ہے۔ اور ہم لوگوں نے تو گویا جب کام شروع کیا لکھنے پڑھنے کا، تو اس وقت محمود ایاز کا پرچہ منظر عام پر آ چکا تھا۔ ’’سوغات‘‘ 1959 میں نکلا، اور اس کا اثر دور دور تک پھیل رہا تھا اور اگر چہ ان کے خیالات پر ترقی پسند خیالات کا اثر تھا اور آخر تک رہا بلکہ میرے خیال میں یہ اثر آخر میں اور بڑھ بھی گیا تھا، لیکن وہ اس بات سے واقف تھے کہ ادب میں کوئی بھی منظر مستقل نہیں ہوتا۔اور اگر کوئی تحریک ہو، خاص طور سے جس کا تعلق کسی سیاسی مقاصد والے منظر نامے سے ہو، تو جب وہ سیاسی منظر نامہ بدل جائے تو اس تحریک کی معنویت بھی کم ہو جاتی ہے، بلکہ ختم ہو جاتی ہے۔ تو اس لیے وہ خوب سمجھتے تھے کہ ترقی پسند تحریک کی اپنی تمام تر قوت، کامیابی اور مقبولیت کے باوجود اس کا زمانہ اب ختم ہو چکا ہے اور نئے لوگ، نئے طرح کے سوچنے والے، نئے طرح کے کہنے والے، نئے طرح کے توقع رکھنے والے، ادب میں آ گئے ہیں، دنیا میں آ گئے ہیں۔ اور اس لیے انھوں جو ’’سوغات‘‘ شروع کیا تو یہی خاص مقصد تھا ان کا کہ ان نئے حالات کی نمائندگی کی جائے۔ اور ’’سوغات‘‘ کا جدید نظم نمبر، تو پوچھنا ہی کیا ہے اس کا۔
تو ہم سب لوگوں کے لیے ہمیشہ پہلی تصویر محمود ایاز صاحب کی جدید ادب کو، خاص طور پر جدید شاعری کو فروغ دینے والے ایک باخبر، بے باک اور صاحب نظر صحافی اور مدیر کی ہے۔ اور میں ان کے لیے اس میں کوئی کم تری کا پہلو نہیں سمجھتا جس میں ان کی کوئی ہیٹی ہوتی ہو کہ ان کو مدیر کہا جائے۔ اکثر ادبی تاریخ میں ایسا ہوا ہے کہ مدیروں نے بہت بڑے بڑے کام کیے ہیں۔ انگریزی میں مثال کے طور پر ٹی ایس الیٹ(T. S. Eliot)، ایزرا پاؤنڈ(Ezra Pound)ہیں، اردو میں نیاز فتح پوری کا نام سامنے ہے کہ ہم ان سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ کریں، انھوں نے غیر معمولی کارنامہ انجام دیا۔محمد طفیل صاحب کا نام سامنے ہے۔ ان کو تو محمد نقوش کہا جاتا ہے۔’’ نقوش‘‘ سے ان کا تعلق اتنا زیادہ اور متحد ہو گیا کہ طفیل اور نقوش ایک ہی ہو کر رہ گئے۔ مدیر کی حیثیت سے یاد رکھا جانا اصل میں اس آدمی کی کامیابی کی بڑی دلیل سمجھا جانا چاہیے، کیوں کہ عام طورپر رسالہ کچھ دن تک چلتا ہے، پھر لوگ اس کو بھول جاتے ہیں۔رسالے نے جن لوگوں کو پیدا کیا، جن لوگوں کو آگے بڑھایا، ان کی شہرتیں رسالے کی شہرت پر حاوی ہو جاتی ہیں۔ آپ دیکھ لیجئے کہ یہاں یہ نہیں ہوا۔’’سوغات‘‘ کے مدیر کی شہرت پر کسی اور کی شہرت کبھی حاوی نہیں ہوئی۔ اس سے بڑھ کر کامیابی کیا ہو سکتی ہے ؟
ا ن :کیا ادب میں ہما ہمی اور ہنگامی صورت حال کسی تحریک یا رجحان کی مرہون منت ہوتی ہے ؟ اگر نہیں تو پچھلی دو تین دہائیوں میں ادب تو تخلیق ہوتا رہا لیکن ہلچل سے محروم نظر آتا ہے۔ کیا وجہ ہے ؟
ش ف : اصل میں ادب کے بارے میں، یا کسی بھی انسانی عمل کے بارے میں کوئی عام اصول مرتب کرنا مشکل ہوتا ہے۔ بلکہ مشکل کیا، یہ کہیے کہ غلط بھی ہو سکتا ہے، خاص کر جب ادب کا معاملہ ہو، جو کہ انتہائی ذاتی شے ہے۔ اور ہر شخص کے اپنے اپنے مزاج، اپنے اپنے منہاج، اپنی فطری صلاحیتوں اور اپنی اپنی فطری توقعات جو خود سے اور ادب سے ہو سکتی ہیں، ان پر منحصر ہوتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ کبھی کبھی کسی خاص موقع پر، تاریخ کے یا سماجی پس منظر کے کسی خاص گوشے میں کوئی چیز ایسی آ جائے جو لوگوں کو جھنجھوڑ دے اور لوگوں کو نئی طرح سے نئی فکر کی طرف مائل کر دے۔
ویسے، ہمارے یہاں ایک بات یہ بھی ہے کہ ہم لوگ، ہندوستان کے سبھی لوگ چاہے اردو کے لکھنے والے بولنے والے ہوں، چاہے اور زبان کے ہوں، کنڑ کے ہوں، تلگو کے ہوں، ہندی کے ہوں، ہم لوگوں کے اور ہمارے ماضی کے بیچ میں ایک بہت بڑی دیوار یا ایک خلیج حائل ہے۔انگریزی حکومت اور انگریزی حکومت کا قیام اور سن1857 کا حادثہ جس نے ہمارے ماضی کو ہم سے منقطع کر دیا۔ اس انقطاع کی بنا پر جو تسلسل اور جو ایک فطری فروغ اور ارتقا تمام زبانوں میں ہونا چاہیے تھا وہ ہمارے یہاں رک گیا۔ اور اس کی جگہ پر ایک، اگر آپ غیر فطری نہ کہیں تو کم سے کم آپ اس کو ایک مصنوعی فروغ یا ارتقا ضرور کہیں گے، مصنوعی ارتقا وجود میں آیا۔یعنی انگریزی خیالات کو آگے لا کر، انگریزی خیالات کو بڑھاوا دے کر، ادب کو ایک نئے دھارے سے روشناس کیا گیا۔ اس میں کوئی ہرج نہیں ہے، نئی چیزوں کو روشناس کرنے میں کچھ ہرج نہیں۔ لیکن یہاں پر جو المیہ پیش آیا وہ یہ تھا کہ اس نئے دھارے نے ہمیں اور بھی دور کر دیا ان گذشتہ سر چشموں سے جہاں سے ہم نکلے تھے۔ یہاں کنڑ میں یہ بات سب لوگ جانتے ہیں کہ کس طرح سے نوآبادیاتی نظام نے، انگریزی تعلیم نے، اور ادب سے نوآبادیاتی توقعات نے ادب پڑھنے والوں اور ادیبوں کو ایک طرح سے بالکل گم کردہ راہ کر دیا۔ ہمارے یہاں تو خیر پھر بھی کچھ چیزیں مشترک تھیں جو کسی حد تک لوگوں کو مجتمع کیے رہیں۔ غزل کی لاکھ برائی کی گئی، حالی نے تو غزل کی کتنی برائی کی، اور دوسرے لوگوں نے بھی، مثلاً امداد امام اثر نے کتنی برائی کی غزل کی۔ لیکن پھر بھی غزل کی قوت ایسی تھی کہ وہ لکھنے والوں کو ایک نقطے پر مرتکز کیے رہی اور غزل کی وجہ سے لوگ غالب اور میر تک پہنچتے رہے۔جہاں پر یہ صورت نہیں تھی وہاں پر فطری انقطاع پیدا ہو گیا۔تو اس لیے ایک ہلچل تو ہوئی۔ آج کا میرا جو لکچر ہو گا اس میں یہی باتیں میں کہوں گا کہ سنسنی خیز باتیں ادب کے بارے میں کہی گئیں جو ہمارے یہاں پہلے نہیں کہی جا رہی تھیں۔ اور نئے تصورات کے نام پر مغربی اثرات کو کچا پکا ہم لوگوں پر حاوی و طاری کیا جانے لگا۔
مگر اس سے یہ ضرور فائدہ ہوا کہ ہمارے ہاں ایک زبردست تحرک پیدا ہوا ادب کی دنیا میں۔نئی شاعری آئی، ’’ نیچرل شاعری‘‘ اسے کہنے لگے۔ نئی نظمیں آنے لگیں، ترجمے آنے لگے۔ افسانہ شروع ہوا، ناول شروع ہو گیا۔ ادب میں اخلاقی اور سماجی اقدار کی غیر معمولی اہمیت قائم ہونے لگی۔ تو یہ سب چلتا رہا۔ترقی پسند تحریک نے بھی یہی کام کیا۔ ترقی پسند تحریک نے ان تمام دھاروں کو، حالی، آزاد اور سر سید اور ان کے ساتھیوں سے جن کا آغاز ہوتا ہے، ان کو ایک جگہ مجتمع کر دیا اور ایک سیاسی معنی اس پر ڈال دیے۔ لیکن کام انھوں نے وہی کیا جو حالی، آزاد اور سر سید اور ان کے ساتھی کر رہے تھے۔ یعنی اد ب کو ایک مقصد، خاص کر کے ایک سیاسی اور سماجی مقصد اور سماجی تبدیلی کی طرف لوگوں کو مائل کرنے کا آلہ بنا کر کے استعمال کیا جائے۔ پھر ایک نئی ہلچل ہوئی اور شور اٹھا کہ ان لوگوں نے ادب کو روایت سے منقطع قرار دیا ہے۔خود ترقی پسند ادب روایت سے خوف بھی کھاتا تھا اور چاہتا تھا کہ کوئی ایسی راہ اختیار کی جائے کہ دونوں چیزیں مل سکیں۔ تو اس طرح سے جو بھی نئی چیزیں سامنے آئیں ان کے ساتھ ایک ہلچل وابستہ تھی۔
ہم لوگوں نے جب قدم رکھا میدان ادب میں، تو پھر وہی بات پیدا ہوئی لیکن ایک تبدیلی کے ساتھ، کہ پچھلے سو برس یا اس سے کچھ زیادہ میں جن جن باتوں کو مرجح قرار دیا گیا تھا ان کو ہم لوگوں نے حاشیے پر رکھنا چاہا۔ مطلب یہ کہ ہم نے کہا کہ ادب کی کوئی سماجی، کوئی اخلاقی اور فلسفیانہ حیثیت ہے تو وہ اس کی ادبی او ر فنی حیثیت کے تابع ہے۔ اس کے اوپر نہیں ہے۔ فنی حیثیت مرجح ہے اور افضل ہے۔ ادب کی جو کچھ اور حیثیتیں ہیں وہ فضول ہیں۔ تو ہم لوگوں نے اس طرح جو چیزیں پہلے ہو چکی تھیں اور جن سے کہ انگریزی ادب اور مغربی اثرات کے زیر اثر ہم لوگوں نے بہت کچھ حاصل کیا تھا، انھیں ہم لوگوں نے ایک حد تک حاشیے پر رکھنا چاہا۔جو ہماری ہاں پرانی اقدار تھیں، کلاسیکی زمانے میں جو اقدار تھیں جن کی روسے ادب کو انسان کے فنی تصور کا، اس کی فنی شخصیت کا اظہار قرار دیا جاتا تھا، ان کو ہم لوگوں نے آگے بڑھایا۔ کچھ چیزیں ہم لوگوں نے اور ڈالیں جو ان چیزوں کا ایک طرح سے نتیجہ تھیں۔ مثلاً جب ہم نے یہ کہا کہ فن ذات کا اور فن کا، اور باطن کا اظہار ہوتا ہے۔ اور فن کار کے لیے آزادی ہے کہ وہ اپنے تصورات کو بلا کسی رو رعایت کے، بلا کسی پابندی کے پیش کرے۔ تو پھر ظاہر بات ہے کہ ابہام اور مشکل پسندی اور علامت نگاری اور پیچیدگی یہ تمام باتیں سامنے آئیں۔ تو پھر ایک ہلچل پیدا ہوئی۔ ان ہلچلوں کو تم کبھی بھی اس انقطاع سے الگ نہیں کر کے دیکھ سکتے ہو جو 1857ء ہے اور جو ہمارے ملک کی تاریخ میں سب سے بڑے انقطاع کا نقطہ ہے۔
اچھا ایسی ہلچلیں کیوں نہیں ہوئیں انگریزی، میں فرانسیسی میں یا اور زبانوں میں ؟ نئی تبدیلیاں وہاں بھی آئیں، مگر وہاں کبھی ایسا نہیں ہوا جو ہمارے یہاں ہوا۔ تو یہ بات تم کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اگر ہم لوگوں نے پچھلے سو، سوا سو برس میں کئی بار تلاطم کا سامنا کیا، یا تلاطم پیدا کیا، یا اس تلاطم سے ہم پیدا ہوئے، تو یہ ادب کی صفت تھوڑی ہے، یہ تاریخ کی صفت ہے۔تاریخ ہماری ایسی تھی اور خاص کر ہم جو غلام ملک تھے جو آج کی زبان میں جہانِ سوم (تیسری دنیا)کے لو گ تھے، جس طرح سے ہمارا استحصال کیا گیا اس کی مثال مغرب میں کہاں ؟اور پھر یہ کہ ہم مسلمان تھے۔ اس سے انکار نہیں کیا جانا چاہیے۔ بہر حال اگرچہ اردو زبان ہندو مسلمان کی زبان ہے، پہلے بھی تھی، اور اب بھی ہے چاہے لوگ اس سے لاکھ انکار کریں لیکن اس کے مزاج میں مسلمانی عناصر کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔ اور ہندوستانی عناصر یا ہندو عناصر کا عمل دخل بھی ہے۔ اس کے بغیر اس کا مزاج بنتا نہیں۔لیکن یہ کہنا کہ اردو میں مسلمانوں کا، اسلامی عناصر کا، کوئی ہاتھ نہیں یہ غلط بات ہے۔ اسی طرح یہ بات بھی غلط ہے جسے پاکستانیوں نے ایک زمانے میں عام کرنا چاہا کہ اردو ادب میں غیر مسلموں کا کوئی عمل دخل نہیں۔لہٰذا ہمارے ساتھ یہ دو باتیں ہوئیں۔ایک تو تہذیبی اور سیاسی طور پر ایک بہت بڑی خلیج پیدا ہوئی، گذشتہ سے ہم بالکل الگ ہو گئے۔ مثال کے طور پر، میں نام نہیں لینا چاہتا لیکن مجبوری ہے اس لئے عرض کرتا ہوں، مشہور درسی کتاب ’’غزل کا مطالعہ‘ ‘ (یا ایسا ہی کچھ نام ہے )اختر انصاری صاحب کی، کئی بار چھپی ہے اور اب بھی چھپتی ہے۔اس پوری کتاب میں غزل کی رسومیات کا کوئی ذکر نہیں۔ غزل کسے کہتے ہیں، غزل کے تقاضے کیا ہیں، غزل کے اشعار کے معنی کو سمجھنے کے لیے کس طرح کی روایت اور کس طرح کے رسومیات کے ڈھانچے سے ہمیں واقف ہونا چاہیے، غزل کے شعر میں معنی کیوں کر پیدا ہوتے ہیں، غزل میں معشوق اور عاشق کی حیثیت کیا ہے، معشوق کو قاتل اور عاشق کو مقتول کیوں کہتے ہیں ؟ ان باتوں کا اس کتاب میں کوئی ذکر نہیں۔
پھر ہمیں بعض اور لوگوں ... پھر نام لینا پڑتا ہے، مثلاً ڈاکٹر گیان چند۔انھوں نے یہ لکھا ہے کہ صاحب اردو غزل کے اشعار کو انگریزی میں ترجمہ کیجئے تو مضحکہ خیز معلوم ہوتے ہیں، معنی سے معرا ہو جاتے ہیں۔ گویا اردو کے اشعار کو جب تک انگریزی میں با معنی نہ بنایا جائے تب تک وہ اشعار بامعنی نہیں کہلائیں گے۔حالانکہ پوچھنے کا سوال یہ تھا کہ اگر اردو کے کسی شعر میں کوئی خاص معنی پیدا ہو رہے ہیں تو ان معنی کے پیدا ہونے کا پس منظر کیا ہے، ان کا رسومیاتی، ان کا فنی، ان کا ارتقائی پس منظر کیا ہے ؟ جب شاعر/متکلم کہتا ہے کہ
اسد ہم وہ جنوں جولاں گداے بے سروپا ہیں
کہ ہے سر پنجۂ مژگانِ آہو پشتِ خار اپنا
تو ظاہر بات ہے اس کو انگریزی کیا، صاف اردو میں نثر کیجیے تو معنی سے معرا معلوم ہو گا۔ اس کے لفظی معنی بیان کیجئے یا اس کو نثر میں لکھیئے تو یہ شعر سراسر معنی سے معرا ہے۔ لیکن ایک دنیا ایسی ہے جس میں یہ شعر با معنی ہے، اور اس دنیا سے متعارف ہوئے بغیر، اس دنیا کو پہچانے بغیر، اس شعر کے ساتھ انصاف تو بڑی بات ہے آپ اس کے نزدیک تک نہیں پہنچ سکتے۔ اور اردو کا ایک بہت بڑا پروفیسر یہ کہتا ہے کہ اس طرح کے شعروں کا ترجمہ اگر انگریزی میں کیا جائے یا ہندی میں کیا جائے تو لوگ ہنستے ہیں۔ کیوں نہ ہنسیں گے، کیوں کہ اس کی کنجی ان کے پاس نہیں ہے۔
مطلب کہنے کا یہ ہے کہ اردو کے ساتھ، ہم لوگوں کے ساتھ، جو اردو کے ادیب ہیں، ان کے ساتھ دو بڑے سانحے ہوئے۔ ایک انقطاع ہوا۔ ایک دیوار ہمارے اور ہمارے ماضی کے بیچ آ گئی۔ ہمارے ماضی میں مسلمانوں کا بہت بڑا ہاتھ تھا اس ماضی کو بنانے میں۔ میں اسلامی نہیں کہتا، مسلمان کہتا ہوں اور اس لیے مسلمان کہتا ہوں کہ ہم مسلمان بھی ایک حد تک ہند و ہیں۔ ہمارے اندر بھی ہندو موجود ہے۔ وہ میر حسن ہوں، میر ہوں، غالب ہوں یا محمد قلی قطب شاہ ہوں، غواصی ہوں، سب کے ہاں ہم دیکھتے ہیں کہ ہندو موجود ہے۔ مگر وہ مسلمان ہو کر کے موجود ہے۔ وہ مسلمان رنگ میں ڈھل کر موجود ہے۔دوسرا سانحہ یہ کہ مسلمانوں نے خود کو نئی دنیا میں اور زیادہ استحصال کا شکار دیکھا۔ اور چونکہ اردو کے ادیبوں میں بڑی تعداد ان کی تھی جو مذہبی اور تہذیبی دونوں طور سے مسلمان تھے، لہٰذا انھوں نے اس انقطاع کو عالمی سطح پر محسوس کیا۔ ایک ایک کر کے مسلمان حکومتوں کی آزادی چھنتی چلی گئی۔ پہلے یہ شروع ہوا وسط ایشیا میں جہاں روسیوں نے ہماری ریاستوں کو ہڑپنا شروع کیا۔ کیا بخارا ہو، کیا سمرقند ہو، کیا ازبکستان، کیا آذربائیجان تمام ممالک مسلمانوں کے ہاتھ سے چلے گئے۔ مصر کو اور ایران کو غلام بنایا گیا معاشی طور پر۔ غرض کہ ہر جگہ ہم دیکھتے ہیں ...آج عراق کا حال تم جانتے ہو لیکن کل کی بات بھی دیکھو کہ کس طرح عراق کا ملک اور نئی حکومت پیدا کی گئی، عثمانی ترکی حکومت کو توڑ کر۔یہ بات کوئی بے وجہ نہ تھی کہ 1920 کی دہائی میں ہندوستان کے ہندو مسلمان سب اس بات پر متفق ہو کر انگریز سے نبرد آزما تھے کہ عثمانی خلافت ختم نہ کی جائے تو ان چیزوں نے بھی بہت حد تک ایک شکست خوردہ اور مدافعانہ ذہن ہم میں پیدا کیا۔ ان سب باتوں کی وجہ سے جب بھی کوئی نئی بات پیدا ہوئی تو ایک ہلچل مچی، ایک تلاطم پیدا ہوا، اور ہم تلاطم کو پیدا کرنے والے بھی ٹھہرے اور تلاطم کے پیدا کردہ بھی ٹھہرے۔ لیکن یہ کوئی اصول نہیں ہے ادب کا، اور میں سمجھتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آئندہ پچاس سو سال میں اردو ادب کے پڑھنے والے اور لکھنے والے باقی رہتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ باقی رہیں گے، تو شاید یہ صورت حال بدلے اور نوآبادیاتی انہدام کے نتیجے میں جو ہماری تہذیب کا استحصال ہوا اس کی ہم ایک حد تک تلافی مافات کر سکتے ہیں۔
ا ن:جدیدیت کے زیر اثر تخلیقی آزادی اور تجربہ پسندی کو جس قدر رواج و فروغ ہوا اس کی مثال اردو ادب میں ملنا مشکل ہے۔اس سلسلے میں ’’ شب خون‘‘ کی خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ یہ سب شعوری عمل تھا کہ ادب میں امکانات کی تلاش؟
ش ف:دونوں ایک ہی بات ہیں، شعوری عمل کہو، یا امکانات کی تلاش۔ جیسا ابھی میں نے کہا، ہمارے ادب کی تاریخ میں پچھلے سو، سوا سو برس میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جسے ہم پچھلے انقطاع اور استحصال سے الگ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ اور یہ بھی ایک طرح سے استحصال تھا جب ہم سے یہ کہا گیا کہ آپ عنوان دے کر نظم کہیے، فلاں موضوع پر نظم لکھیئے، برکھا رت پر نظم لکھیے، اور کہا گیا کہ آپ کی پوری شاعری بالکل ازکار رفتہ ہے اور اس کا کوئی مقصد کوئی مطلب ہی نہیں ہے۔ اسے آپ بھول جائیے بالکل۔ بلکہ یہاں تک کہہ دیا گیا کہ یہ کچھ ہے ہی نہیں، وجود ہی نہیں رکھتی۔ تو اس پس منظر میں جب تم دیکھو تو لازم ہے کہ کبھی ایسا کوئی ذہن پیدا ہو جو ادب کی اور خاص کر ہمارے ادب کی ادبیت کو اور اس کی روایات کو، اور اس کے اصولی اور نظریاتی پس منظر کو آگے لائے، تو اس کو شعوری عمل کہیں تو بھی درست، یا اسے پچھلے سو، سوا سو برس کی تاریخ کے دباؤ سے آزاد ہونے کی باغیانہ کوشش کہیں تو وہ بھی درست، یا یہ کہیں کہ اتنا دباؤ بڑھ چکا تھا کہ اس کی ایک انتہا آ چکی تھی اور اس کا زوال ہونا تو لازمی تھا تو وہ بھی ٹھیک۔ تم جانتے ہو کہ ترقی پسند زمانے میں یہاں تک کہا جانے لگا تھا کہ جو اچھا کمیونسٹ نہیں وہ اچھا ادیب نہیں ہے۔ کتنے ہی لوگوں کو تحریک سے باہر نکالا گیا اور یہ کہا گیا کہ آپ تحریک کے مقاصد کو پورا نہیں کرتے ہیں۔جو تقاضا ادب کے بارے میں ہم آپ سے کر رہے ہیں وہ تقاضا آپ پورا نہیں کر رہے ہیں۔ تو اس زمانے کے جو بہترین لوگ تھے، یا تو وہ تحریک میں شامل نہیں ہو سکے یا تحریک سے نکالے گئے۔ جیسے کہ منٹو صاحب ہوئے، بیدی صاحب ہوئے، عسکری صاحب ہوئے، قرۃ العین حیدر ہوئیں۔ تو یہ کیوں ہوا؟ یہ اس لیے ہوا کہ نو آبادیاتی اثرات کا دباؤ اتنا بڑھ گیا تھا... تو ایک انتہا تک پہنچنے کے بعد دباؤ کی بھی ایک حد آ جاتی ہے پھر زوال شروع ہوتا ہے۔
تو جدیدیت یا ’’شب خون‘‘ یا شمس الرحمن فاروقی یا ان کے ساتھی، ان لوگوں نے جو بھی کیا اس میں یہ سب چیزیں موجود تھیں۔ بنیادی طور پر ایک تاریخ ہمارے پیچھے تھی اور اس تاریخ کے استحصالی تجربے نے ہمیں مجبور کیا تھا کہ ہم اس دباؤ سے باہر نکلیں۔ چنانچہ یہ صورت حال پیدا ہوئی، اور ظاہر ہے کہ نئی صورت حال جب پیدا ہوتی ہے کہیں پر بھی تو اس کے نتیجے میں افراط بھی ہوتی ہے، اور تفریط بھی ہوتی ہے۔اور اس افراط و تفریط کو میں برا بھی نہیں سمجھتا کیوں کہ کسی بھی چیز کو، خاص کر کسی قائم شدہ چیز کو، مسترد کرنے میں یا اس کی بیخ کنی کرنے میں یا اس کی قدر کو صحیح طرح سے بیان کرنے میں، ہو سکتا ہے کہ نئی چیزوں کے بارے میں کچھ مبالغے سے کام لیا جائے۔ کسی چیز کو بڑھا کر بتایا گیا یا زور دے کر بتایا گیا۔ اب وہ مبالغہ باقی نہیں ہے۔وہ ہلچل نہیں ہے جو اس زمانے میں تھی۔ نئی چیزوں کی ہلچل پہلی جیسی نہیں رہ گئی ہے کیوں کہ نئی چیزوں میں خود بھی ایک طرح کا اعتبار، ایک طرح کا استحکام آ گیا ہے۔

۔۔۔ جاری
 

الف عین

لائبریرین
ا ن:آپ کی شخصیت جدیدیت کے بانی و مبلغ کی رہی ہے۔ لیکن جب آپ کی تحریروں پر نظر ڈالتے ہیں تو آپ بالکل مختلف رنگ میں نظر آتے ہیں اس کی کیا وجوہات ہیں ؟
ش ف:آپ کے بیان میں خود تضاد ہے۔ میں جدیدیت کا بانی و مبلغ ہوں تو میری تحریروں میں اسے نظر آنا چاہیے۔ اصل میں تم جو کہنا چاہتے ہو وہ یہ ہے ... جس کو کہ میرے دوستوں نے اور میرے مخالفوں نے، انھیں جو بھی نام دیا جائے، کئی طرح سے محسوس کیا ہے۔مثلاً یہ کہا گیا کہ فاروقی صاحب ماضی کے کھنڈر میں پناہ لے رہے ہیں۔ کہا گیا کہ شمس الرحمن صاحب تو Neo Conservativeہو رہے ہیں حالانکہ یہ بات جو لوگ کہہ رہے ہیں وہ یہ جانتے بھی نہیں کہ Neo Conservativeکیا بلا ہوتی ہے، لیکن کہا انھوں نے، کیونکہ انھیں تو محض نام دھرنے سے غرض تھی، میرے کام اور پیغام کو سمجھنے سے انھیں کوئی غرض نہ تھی۔
اصل میں اگر تم ایک منٹ بھی غور کر کے دیکھو تو کل سے لے کر اب تک جو بھی میرے یہاں ہے اس میں بالکل ایک فطری ارتقا ہے۔ یعنی یہ نہیں ہے کہ کسی اندھے کے ہاتھ میں لالٹین ہے، کبھی یہاں پڑ رہی ہے کبھی وہاں پڑ رہی ہے۔ اس میں ایک فطری ارتقا ہے۔ شروع شروع میں، میں نے جب لکھنا شروع کیا، تو لوگوں نے کہا کہ صاحب لیجئے آپ تو وہ سب باتیں کہہ رہے ہیں مضمون کی، تشبیہ، کی استعارے کی، جو نیاز صاحب کہا کرتے تھے، شبلی صاحب کہا کرتے تھے۔نئی بات کون سی کہہ رہے ہیں آپ ؟ میں نے کہا۔ اور کہاں سے کہوں، یہ تو بنیادی باتیں ہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ان لوگوں کا نقطۂ نظر محدود تھا، ہمارا تناظر وسیع تر ہے۔ تو میں نے یہ کہا، پہلی بار میں نے ہی کہا اور اس پر اب تک قائم ہوں، کہ نئی شاعری اور پرانی شاعری میں کوئی فرق نہیں ہے، دونوں شاعری ہیں۔اس سے مراد یہ تھی کہ ایک اصل ہے، ایک بنیاد ہے جس پر ایک پورا محل قائم ہے۔ تو فطری طور پراس کا ایک تقاضا یہ بھی تھا کہ میں پہلے تو لوگوں کو پرانی، جو اس وقت کی شاعری تھی جس کو وہ ترقی پسند شاعری کہتے تھے، اس کی کمزوریوں سے لوگوں کو مطلع کر دوں۔ چنانچہ آپ کو یاد ہی ہو گا... نہیں یاد تو نہیں ہو گا کہ آپ تو بہت چھوٹے رہے ہوں گے اس وقت، لیکن اور لوگوں کو یاد ہو گا کہ میں نے ایک تبصرہ لکھا سردار جعفری پر۔ تو صاحب اس تبصرے سے معلوم ہوا کہ ایک چیز جو کہ قائم ہے اور جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ قائم ہو چکی ہے،
اس میں بھی نا پائیداری کے عناصر ہیں۔ اس میں بھی عناصر ایسے ہیں جو اتنے مستحکم نہیں ہیں جتنا کہ بیان کئے گئے ہیں۔ تو پہلے تو میں نے وہ کام کئے۔ پھر میں نے اصولی طور پر جدید شاعری کے تقاضے کیا ہیں، یہ شاعری کیا چاہتی ہے ہم سے، یا ہم اس شاعری سے کیا چاہتے ہیں، وہ مسائل بیان کئے۔پھر وہی معاملہ افسانے کے ساتھ بھی رہا۔
پھر میں نے اس طرح کی چیزوں کو چھاپا، اس طرح کی چیزوں کا ذکر کیا جنھیں میں ادب کے صحیح نمونے سمجھتا تھا، یعنی ایسے نمونے جن میں تخلیقی شان ہو، تجربہ کوشی ہو، کسی سیاسی یا سماجی غرض کو فن پر فوقیت نہ دی گئی ہو۔میں نے ان کی تفہیم کی، سمجھایا، لوگوں تک پہنچایا، تو اس طرح آہستہ آہستہ وہ بات بڑھتی چلی گئی۔ اچھا، جب یہ ہو چکا تو اس کے بعد یہ ہوا کہ ایک بار پھر ذرا رک کے دیکھیں کہ ہماری بنیادیں کیا کیا ہیں ؟ان بنیادوں میں صرف غالب تو نہیں ہیں ؟ غالب پر بہت کچھ لکھا گیا ہے، لیکن غالب سب کچھ تو نہیں ہیں، ہماری بنیادوں میں اور کیا ہو سکتا ہے ؟ اس طرح آگے چلے۔تو جو کچھ بھی میرا کام ہے، داستانوں تک میرا پہنچنا، لغت پر، الفاظ پر غور کرنا میرؔ کے بارے میں غور کرنا، مرثیے کی شعریات اور زبانی بیانیے کی شعریات کو بیان کرنا، پھر یہاں تک کہ تنقید سے ہٹ کر افسانہ اور ناول میں بھی اس طرح کی تہذیب کو دوبارہ لانے کی کوشش کرنا جو ہم سے کھو چکی ہے لیکن جس کے سمجھے بغیر ہم اپنے کو نہیں سمجھ سکتے، اپنے ادب کو نہیں سمجھ سکتے ... تو ان سب میں ایک فطری عمل ہے یہاں سے وہاں تک۔ ایسا نہیں ہے کہ کئی ایک بٹن دبائے چلے جا رہے ہیں، ایک کھٹکا دبایا گیا ایک راستہ بند ہوا، ایک راستہ کھلا۔
بلکہ یہ تو ہونا ہی تھا۔شمس الرحمن فاروقی جیسے آدمی کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ میں صرف نثری نظم اور معرا نظم کی بحث میں ہی الجھا رہ جاتا۔ ان بحثوں کو میں نے اپنے طور پر طے کر لیا کہ یہ ایسا ہے ایسا نہیں ہے۔ اب چاہے وہ میں نے غلط طے کیا یا صحیح طے کیا۔ یا میں نے طے شاید نہیں بھی کیا لیکن میں نے گمان کیا کہ میں نے طے کر لیا ہے۔ اپنی طرف سے جو کچھ کہنا تھا میں نے کہہ دیا ہے۔اب سوال یہ اٹھا کہ یہ چیزیں کن چیزوں پر قائم ہیں ؟ اب دیکھیے کہ ہم کسی نظم کو معرا کیوں کہتے ہیں یا کسی نظم کو آزاد کیوں کہتے ہیں ؟ ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے کوئی اصول ہو گا کہ کوئی نظم ایسی بھی ہو گی جو غیر آزاد ہو گی، جو کچھ پابند ہو گی، تو وہ کیسی ہوتی ہو گی، کس طرح سے بنتی ہو گی ؟اگر جدید نظم کوئی چیز ہے تو محمد قلی قطب شاہ سے لے کر نظیر اکبر آبادی تک، اور پھر نظیر اکبر آبادی سے حالی اور آزاد تک جو نظم لکھی گئی اسے ہم کس طرح سمجھا سکتے ہیں کہ اس کلام کی نظمیت بھی قائم رہے اور اقبال، میراجی، راشد، فیض، اخترالایمان، مجید امجد کی بھی نظمیت کو بیان کیا جا سکے ؟اس طرح کے سوال اٹھنے اور اٹھانے لازمی تھے۔ اس طرح سے ہر چیز ایک کے بعد ایک چلی آتی ہے۔ان کے بیچ میں کوئی تفرقہ نہیں ہے اور کوئی وقفہ نہیں ہے، ایک ارتقا ہے۔
ا ن:سنہ1960 کے بعد شاعری افسانہ اور تنقید میں بے شمار نئے نام ادبی منظر نامے پر ابھرے اور بہت کم عرصے میں انھوں نے اپنی شناخت بھی بنائی۔ پچھلے بیس تیس سالوں میں ان اصناف میں کیا ایسے کچھ نام ہیں جو فوری طور پر ذہن میں آتے ہیں جنھوں نے اپنے وجود کا احساس دلایا اور اپنی مستحکم پہچان بنائی؟
ش ف:یار یہ فیشن جو تم لوگوں نے شروع کیا ہے نام گنوانے کا، اسے بھول جاؤ۔ دس نام گنواؤں گا، دو نام بھول جاؤں گا تو کہیں گے کہ صاحب یہ نام چھوڑ دیا، یا یہ کہ فلاں کو کیوں رکھا ؟بھئی نام وام میں نہیں گنوانا چاہتا۔میں یہ کہنا چاہتا ہوں ... صرف ایک بات بتا دوں کہ جیسی بھی آج شاعری ہو رہی ہے یا افسانہ لکھا جا رہا ہے ... اچھا ہے یا خراب، میں نہیں کہتا۔ لیکن یہ ضرور کہتا ہوں کہ کیا اس طرح کے افسانے 1960 کے پہلے ممکن تھے ؟ کیا ایسی شاعری 1960 کے پہلے ممکن تھی؟نا ممکن۔آزادی اظہار اور آزادی فکر کی جو فضا آج ہے وہ جدیدیت کے پہلے کہاں تھی؟ وہ پورا نظام بدل گیا شعریات اور اصولوں کا جو پہلے قائم تھا۔اب اس میں زوال پیدا ہوا یا نہیں پیدا ہوا یا اس کے بعد کے لوگوں نے اسے ترک کیا یا نہیں کیا، یہ الگ بحثیں ہیں۔لیکن متعدد نام ایسے موجود ہیں ہمارے سامنے، افسانے کی دنیا میں یا شعر کی دنیا میں، جنھوں نے اس ترقی پسند یا نام نہاد کلاسیکی بوطیقا سے منحرف ہو کر اس سے برگشتہ ہو کر کہا کہ دیکھیے شعر یوں بھی کہتے ہیں۔ نام ہی چاہتے ہیں اگر آپ تو آپ کے سامنے محمود ایاز کی مثال موجود ہے محمود ایاز کا رنگ کلاسیکی رنگ ہے۔لیکن پھر بھی کسی بھی جگہ، 1960 کے پہلے کسی جگہ اس کو آپ قائم نہیں کر سکتے۔ کیوں وہاں کوئی جگہ ہی نہیں ہے اس کے واسطے۔ اس کی جگہ اگر ہے تو ہمارے درمیان ہے، اور آج بھی ہے۔سنہ1960 کو گذرے پچاس برس ہونے والے ہیں۔ محمود ایاز کی جگہ آج بھی قائم ہے، لیکن ہم لوگوں میں، ترقی پسندوں میں نہیں۔
تو یقیناًً اس پورے فکری انقلاب نے جو کچھ قائم کیا یا جس چیز کو ادب میں متعارف کیا اس کی ایک معنویت اب بھی موجود ہے۔اور یہی ہمارے لیے کافی ہے ... نام لینے کو میں لے سکتا ہوں لیکن نام لینے سے میں گریز کرتا ہوں کیوں کہ ہمیشہ لوگوں کو توقع ہوتی ہے کہ میرا نام ضرور لیا جائے گا یا فلاں کا نام نہیں لیا جائے گا۔ میں دونوں باتوں سے گریز کرتا ہوں۔
ا ن:دو چار نام لیجیے گا لوگ خوش ہو جائیں گے۔
ش ف:خوش کرنے کا کام میں نہیں کرتا۔ میں خوش کرنے کے بزنس میں ہوں ہی نہیں۔اور لوگ ہیں، وہ نام گنوا دیں گے۔
ا ن:جدیدیت نے ادب کو شاعری اور فکشن کے رنگوں سے مالا مال کیا۔ ان میں سے کس صنف میں زیادہ کامیاب تجربے ہوئے اور تا حال جدید شاعری اور فکشن کے بڑے نام کون سے ہیں ؟
ش ف:پھر وہی نام کا چکر ہے۔ تجربے دونوں صنفوں میں ہوئے۔شاعری میں بھی ہوئے اور افسانے میں بھی ہوئے۔افسانے کے تجربات نے لوگوں کو زیادہ پریشان کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افسانہ اس وقت تک بالکل ایک سیدھی لکیر میں چلتا چلا جا رہا تھا۔ منٹو صاحب کے کچھ افسانوں کے علاوہ، بیدی صاحب کے ایک دو افسانوں کے علاوہ، انحراف کی مثال مشکل ہی سے ملتی تھی۔ایک افسانہ پریم چند کا، ایک افسانہ کرشن چندر کا، پانچ سات افسانے عسکری صاحب کے اس فہرست میں اور شامل کر لیجئے۔ پریم چند کا افسانہ ’’کفن‘‘ تو لوگوں کو یاد تھا، لیکن غلط وجوہ سے۔ عسکری صاحب کے افسانوں کو زیادہ تر لوگ بھول چکے تھے اور منٹو صاحب، بیدی صاحب، کے جو افسانے ڈگر سے ہٹے ہوئے تھے ( مثلاً منٹو کا ’’پھندنے ‘‘، بیدی صاحب کا ’’سونفیا‘‘) ان کا ذکر کرتے لوگ گھبراتے تھے۔ تو ان کے علاوہ افسانے کی ایک منہاج جو چل پڑی تھی اس کے حساب سے سیدھا سادہ افسانہ لکھا جا رہا تھا جس میں کچھ کردار ہوں گے، کچھ واقعات ہوں گے۔اور خاص طور پر بلا کسی پیچیدگی کے ایک پیغام ایک مقصد یا معنی اس میں ڈال دیئے جائیں گے۔کرشن چندر صاحب کا افسانہ ’’دو فرلانگ لمبی سڑک‘ ‘ سامنے کی مثال ہے کہ اس کو بہت بڑا انقلاب قراردیا گیا تھا کہ اس میں کوئی پلاٹ نہیں تھا۔ حالانکہ وہ آج کے ... یا آج اس کو پڑھیے تو بالکل وہ انتہائی سیدھا، انتہائی سپاٹ افسانہ معلوم ہوتا ہے لیکن چونکہ اس میں کوئی پلاٹ نہیں تھا، بلکہ ایک شخص لب سڑک بیٹھا ہوا آنے جانے والوں کا ذکر کر رہا ہے۔ وہ دیکھ رہا ہے، مشاہدہ کر رہا ہے، بیان کر رہا ہے۔تو اسے ایک انقلاب قرار دیا گیا۔
اس سے تم سمجھ سکتے ہو کہ افسانے میں اس وقت جو ہوا بہ رہی تھی وہ کتنی آسان اور سادہ تھی۔ اس لیے نئے افسانے نے لوگوں کو زیادہ مبتلائے رنج کیا، پریشان کیا۔ کہیں تو کوئی پلاٹ نہیں ہے، کہیں کردار نہیں ہے۔ کہیں لکیریں کھنچی ہوئی ہیں، کہیں نثر کے نام پر نثری نظم نظر آ رہی ہے۔ کہیں پر اتنی علامتیں ہیں کہ پلے نہیں پڑ رہا ہے کہ کیا کہا جا رہا ہے۔ تو آہستہ آہستہ، ظاہر ہے، وہ بھی ختم ہوا۔کچھ تو افسانہ نگاروں کے ہاں بھی شدت ختم ہوئی کہ ان کا پہلا مقصد جو تھا، لوگوں کو نئے امکانات کی طرف متوجہ کرنا، وہ پورا ہوا۔ کچھ یہ بھی ہے کہ لوگوں کو عادت پڑ گئی۔جس طرح سے پہلے ... آپ کو تو خیال ہی ہو گا کہ ترقی پسند حضرات نے آزاد نظم کہنے سے بہت حد تک گریز کیا۔ان کا خیال تھا کہ ہم یہ سب کہیں گے تو بدنام ہو جائیں گے۔یا یہ شاعری کا طریقہ ہی نہیں ہے کہ آزاد نظم کہی جائے۔پھر آہستہ آہستہ ان لوگوں نے، مخدوم صاحب نے، پہلے آزاد نظم کہنی شروع کی اور پھر سب ترقی پسندوں میں عام ہو گئی۔ غزل کا بھی یہی معاملہ تھا ...تو اس طرح سے جب کوئی چیز مسلسل ہونے لگتی ہے تو پھر اس کی لوگوں کو عادت پڑ جاتی ہے۔ لوگ اس سے ایک طرح سے مانوس ہو جاتے ہیں۔ مانوس ہوتے ہیں تو اس سے لگاؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ تو وہی یہاں بھی ہوا۔افسانے کچھ تھوڑے بہت آسان بھی ہوئے اور لوگ کچھ مانوس بھی ہوئے اس کے ساتھ۔ تو آہستہ آہستہ وہ جو ایک عنصر تھا سنسنی خیزی کا، وہ نئے افسانوں میں کم نظر آنے لگا۔ ورنہ تجربہ تو دونوں اصناف میں ہوا، شعر میں بھی ہوا اور افسانے میں بھی ہوا۔اور دونوں میں نئی باتیں کہی گئیں، اور نئے اشارے دیے گئے اور نئی راہیں دریافت کی گئیں۔ آج کوئی افسانہ نگار ایسا نہیں ہے جس نے ان را ہوں سے کہیں نہ کہیں اپنے کو منسلک نہ کیا ہو۔وہ لوگ جو جدیدیت کے خلاف ہیں ان کے افسانے دیکھئے۔ اچھے یا برے، جیسے بھی وہ افسانے ہیں، اس طرح کے افسانے جدیدیت کے پہلے ممکن نہ تھے۔ابھی کچھ دن پہلے ’’آج کل‘‘ دہلی کا افسانہ نمبر آیا ہے۔ اس میں کئی افسانہ نگار ایسے ہیں (جو کسی نہ کسی وجہ کی بنا پر) خود کو جدیدیت کا مخالف بتاتے ہیں۔ مذکورہ نمبر میں ان کے افسانے جیسے بھی ہیں، اچھے یا برے، لیکن جدیدیت کے پہلے وہ وجود میں نہ آ سکتے تھے۔یہ کہنا اگرچہ کافی نہیں ہے کہ زمانہ بدل گیا ہے اس لئے افسانہ بھی بدل گیا ہے لیکن یہ بات بھی ہماری ہی سکھائی ہوئی ہے اور ترقی پسند لوگ اس پر بہت ناک بھوں چڑھاتے تھے، کیونکہ ان کے خیال میں ادب کی مارکسی اقدار قائم و دائم تھیں اور زمانے کے بدلنے کا ان پر کوئی اثر نہ پڑنا تھا۔ان بچاروں کو یہ معلوم کر کے بڑا دھکا لگا کہ جب زمانہ بدلتا ہے تو ادب کے اقدار بھی بدل سکتے ہیں۔ لیکن زمانے کے بدل جانے کے علاوہ دوسری بات یہ بھی ہے کہ ان افسانوں کا مثالی نمونہ (Paradigm) جدیدیت ہی میں ہے۔
۔۔۔ جاری
 

الف عین

لائبریرین
ا ن:آپ کا کہنا ہے کہ آج جو ادب خلق ہو رہا ہے وہ کچھ اور نہیں جدیدیت ہی ہے یا اس کا تسلسل ۔ کیا پچھلے پچیس تیس سالوں کی تخلیقات میں اور جدیدیت کی حامل تخلیقات میں کوئی فرق نہیں ہے؟
ش ف:ان معنی میں فرق ضرور ہے کہ آج کل جو لکھا جا رہا ہے زیادہ تر،وہ اچھے ادب میں شامل نہیں ہے۔ کیا نثر کیا نظم ،کیا تنقید کیا شاعری، کیا افسانہ کیا ناول... میں تو اس کے بارے میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ یہ اچھا نہیں ہے۔اچھا کیوں نہیں ہے اور اس میں کیا کمیاں ہیں؟ مثلاً یہ کہ آج افسانے میں بہت بڑی کمی یہ ہے کہ اس میں تخلیق اور تخیل کی کوئی کارگذاری نہیں ہے۔جو کچھ اخبار میں نکل آتا ہے ، یا ٹی وی پر ہم دیکھ لیتے ہیں ،اس کو ہم لوگ افسانہ بنا لیتے ہیں۔ آج کا فکشن، اگر انگریزی اصطلاح استعمال کی جائے ، تو Underimagined ہے۔یعنی افسانہ نگار واقعے کو ننگا بوچا بیان کر دیتا ہے، اس میں تخیل کی آمیزش نہیں کرتا۔ جس چیز کو ادب کے لیے ،کسی بھی ادب کے لیے انتہائی سم قاتل قرار دیا جاتا ہے وہ ہے موضوعات کا فقدان ۔ دیکھ لو اپنے ہاں، افسانے پڑھ لو کسی رسالے میں۔ بس یہ دو تین موضوع ہوں گے: اول،عورتوں پر بہت ظلم ہو رہا ہے۔ بابا ہم مانتے ہیں کہ بہت ہو رہا ہے۔ ہم سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ظلم ہو رہا ہے۔ لیکن یہ بھی ظلم ہے کہ اس موضوع کو بیس تیس لوگوں نے ایک ہی طرح لکھ لکھ کر ادھ موا کر دیا ہے۔ اور دوسرا موضوع Terrorismہے۔ مسلمانوں کو Terroristکہا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو پولیس والے پیٹتے رہتے ہیں۔ تیسرا موضوع یہ کہ پالیٹیکس والے سب بدمعاش ہیں ۔جتنے سیاسی لوگ ہیں سب چور ہیں۔ان موضوعات کو سرسری طور پر لکھا اور افسانے کے حق سے ادا ہو گئے۔جہاں افسانہ نگار کی تخئیلی کارروائی اتنی محدود ہو چکی ہو توکیسے کہہ سکتے ہو کہ افسانہ نگاری اچھی ہو رہی ہے؟
شاعری کو تم دیکھ لو۔ ایک تھوڑا تیکھا پن ، تھوڑا سا ایک طنز کا پہلو، تھوڑ سی ایک طرح کی انانیت، اسی طرح کی آزادہ روی۔ اب اس میں چاہے شعر بنا کہ نہیں بنا ،نظم بنی کہ نہیں بنی ،بات ہوئی بھی کہ نہیں ہوئی، اس کی کسی کو پروا نہیں۔ جس ارتکاز اور قوت کی ضرورت ہے اس طرح کے انداز کو، وہ آج نہیں ہے ۔سبھی لوگ کہہ رہے ہیں کہ بس جو پرچہ آپ کھولیے ہر آدمی وہی لکھ رہا ہے۔ یا اور بہت زیادہ ترقی پر آئے تو مشاعرے میں چلے گئے ۔پھر شرو ع کر دیا کہ لڑکیوں کی شادی میں اپنا خون بیچ کر جہیز کا انتظام کیا۔یا پھر یہ کہ اماں راستہ دیکھتی رہ گئی بچہ لوٹ کر نہیں آیا شہر سے ۔اور کیا ہوتا ہے آج کی شاعر ی میں؟ مانا کہ یہ خود اپنی جگہ ایک اہم بات ہے کہ ایسے موضوعات لائے جا رہے ہیں جو ادب میں پہلے نہیں تھے۔ لیکن ان موضوعات کے لائے جانے کا جواز بھی جدیدیت ہی ہے ۔جدیدیت ہی نے کہا کہ جو سمجھ میں آئے لکھو۔ جو تمھارا جی چاہے، جو تمھارا باطن کہے ،اس کو ظاہر کرو۔لیکن جدیدیت نے یہ نہیں کہا تھا کہ آپ ایک چیز کو بار بارکسی فنی اور کسی تخلیقی قوت کے اظہار کے بغیر کہے جائیے ۔کہے جائیے یہاں تک کہ تھک کے ہاتھ چور ہو جائیں۔یہ تو نہیں کہا تھا جدیدیت نے۔یہ کہا تھا کہ تخلیقی اظہار پر زور دیجیے ۔تو وہ زور نہیں نظر آ رہا ہے مجھے، بس اتنا فرق ہے ۔
ا ن:کہا جاتا ہے کہ انگریزی ذریعۂ تعلیم کے سبب ہماری نئی نسل اردو سے دور ہوتی جا رہی ہے لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ اس نسل میں کوئی انگریزی ادیب بھی مشکل سے نظر آتا ہے کیا یہ نسل زبان و ادب کو کار زیاں سمجھتی ہے؟
ش ف: میں اس بات کو نہیں مانتا کہ انگریزی ذریعۂ تعلیم کی بنا پر لوگ انگریزی یا اردو میں ادب لکھنے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ اردو سے دور ہونے کی، یا اردو کی صورت حال، آج جو اچھی نہیں ہے تو اس کے دو پہلو ہیں۔ اور ملک کے ہر حصے میں وہ پہلو برابر برابر نمایاں نہیں ہیں۔ مثلاً کرناٹک میں اردو کا حال یوپی سے پھر بھی بہتر ہے۔کرناٹک میں اردو کا حال مدھیہ پردیش سے بہتر ہے ،راجستھان سے بہتر ہے۔ بہار میں یا مہاراشٹرا میں اردو کا حال بہت ہی اچھا ہے۔ اس طرح الگ جگہوں پر الگ الگ ماحول ہے۔آندھرا میں یا پرانا علاقہ حیدرآباد کا جو تھا جس میں آج کا کرناٹک بھی تھوڑا بہت شامل ہے ، ایک حد تک تامل ناڈ بھی شامل ہے، وہاں اردو کی حالت یقیناً پہلے کے مقابلے میں اچھی ہو رہی ہے۔ مغربی بنگال ،دہلی ، اور گجرات میں اردو کا حال غنیمت ہے لیکن ہر جگہ وجہ مختلف ہے۔ کشمیر میں تو خیر کچھ سرکاری زبان ہونے کا بھی فائدہ ہے۔ ہماچل پردیش میں اردو کی تعلیم آٹھویں درجے تک لازمی ہے۔
تو اردو کا حال مجموعی طور پرمایوس کن نہیں۔ لیکن جو چیز ہر جگہ نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ اردو پڑھنے والے تو ہیں ،لیکن اردو کے پڑھانے والے الا ماشا ء اللہ اچھے نہیں ہیں۔ اردو کی تعلیم دینے والے اچھے نہیں ہیں ۔اردو کا یہ حال دراصل سو سواڈیڑھ سو برس کے تاریخی حوادث کا نتیجہ ہے۔ ہم لوگوں نے اپنی اصل اقدار کو نظرانداز کر دیا۔ یہ میری نواسی نیساں فاطمہ جو آپ کے سامنے بیٹھی ہے، بی اے میں اردو پڑھتی ہے۔ اپنی کتابیں ساتھ لائی ہے اور مجھ سے پڑھ رہی ہے ۔ اب میں دیکھتا ہوں کہ حصۂ غزل میں اصغر گونڈوی، فانی بدایونی، شاد عظیم آبادی، حسرت موہانی کے اس قدر پلپلے شعر ہیں کہ دل بیٹھ جاتا ہے۔ اکثر شعروں میں تو معنی ہی ٹھیک سے قائم نہیں ہوئے، یا پھر مضمون اتنا سستا اور معمولی کہ بچہ پو چھتا ہے، بات کیا بنی؟یہ اسی وجہ سے کہ کتاب مرتب کرنے والے کو غزل کا شعور نہیں۔خیر، غزل کی تو چھوڑ دیجیے۔ نظم کو دیکھئے کہ اتنے کم زور شعر... جوش صاحب کی نظم ’’کسان‘‘ جس میں ایک مصرع بھی اس قابل نہیں کہ آدمی اس کو یاد رکھے یا دل لگا کر پڑھے پڑھائے۔ پچاس شعر کی نظم پڑھائی جا رہی ہے۔ میں بھی مجبوراً بیٹی کو پڑھا رہا ہوں کہ کورس میں ہے۔ وہ اسکول میں جا کے بتاتی ہے کہ ہمارے نانا کہتے ہیں کہ یہ نظم بہت خراب ہے تو اس کی اور جو ساتھی لڑکیاں ہیں ،ناراض ہوتی ہیں۔ تو جو نسل ’’کسان‘‘ کو اچھی نظم سمجھتے ہوئے جوان ہوئی ہے وہ کیا پڑھائے گی؟ اس سے تم یہ کہو کہ جا ؤ ’’ ذوق و شوق‘‘ پڑھا دو، یا’’ مناجات بیوہ ‘‘پڑھا دو۔قصیدہ اور مرثیہ تو دور رہا، شبلی کی’’ عدل جہانگیر ی ‘‘ ہی پڑھا دو۔ تو وہ یہ بھی نہیں کرسکتے ۔کچھ ہے ہی نہیں ان کے پاس ۔ یہ بڑا مسئلہ ہے۔ اب وہ نسل ہی نہیں رہ گئی ہے جو اردو پڑھانا جانتی ہو۔ کیوں کہ جو اقدار تھے ہماری شاعری کے ،ان اقدار کو آہستہ آہستہ ہم لوگوں نے بھلا دیا اور یہ بڑی ایک کمی ہے۔ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا کہ اختر انصاری صاحب مرحوم بہت لائق آدمی تھے ۔اچھے شاعر تھے ،اچھے افسانہ نگار تھے، اچھے استاد بھی رہے ہوں گے۔ کتاب ان کی بے انتہا مقبول ہوئی ہے۔ اس میں کہیں ذکر نہیں ہے کہ غزل یا کسی شعر کے معنی کیسے بتائیں گے؟
اسد ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سروپا ہیں
کہ ہے سرپنجۂ مژگانِ آہو پشت خار اپنا
اس شعر کے کیا معنی ہیں اور وہ کس طرح بیان کئے جائیں گے، اس کا اس کتاب میں کوئی ذکر نہیں۔ گیان چند نے کہا کہ اس کو انگریزی میں ترجمہ کر دیا جائے تو یہ شعر مہمل ا ور معنی سے معرا ٹھہرے گا۔ یقیناً ہو جائے گا بھئی۔انگریزی میں شعر لکھنے اور شعر کو بامعنی بنانے کے قاعدے کچھ اور ہیں، یہاں کچھ اور ہیں۔ بچہ اگر آپ سے پوچھتا ہے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ معشوق نے قتل کر دیا اور عاشق قتل ہو گیا؟یہ کیسے ہو رہا ہے ،یہ کیا ہو رہا ہے؟ان سوالوں کا جواب آپ کے پاس نہیں۔ آپ یہی کہہ دیتے ہیں کہ اردو میں اس طرح کی’’بکواس‘‘ بہت ہے۔
کیا تم نے قتل جہاں اک نظر میں
کسی نے نہ دیکھا تماشا کسی کا
یہ شعر مومن کا ہے۔ لڑکے لڑکیاں کہہ رہے ہیں کہ یہ کیا لغو بات ہے؟ بات یہ ہے کہ تم کو کسی نے بتایا ہی نہیں کہ اس طرح کے شعر کے پیچھے رسومیات کیا ہیں؟استعارہ کیسے بنتا ہے، لفظ کو استعارے میں کیسے تبدیل کرتے ہیں؟ مضمون سے کیا مراد ہے، مضمون کی نوعیت کیا ہے؟جب میں انھیںسمجھاتا ہوں تو حیرت کرتے ہیں کہ ہاں صاحب یوں بھی ہوسکتا ہے!
آج کی زبان کو تم دیکھو۔ ہندی اتنی بھری چلی جا رہی ہے ،انگریزی کتنی بھری چلی جا رہی ہے۔پاکستان تک میں، جہاں ہندی نہیں ہے یہاں کی دیکھا دیکھی وہاں والے بھی ہندی کے الفاظ استعمال کر رہے ہیں ۔اب تو لوگ زبان ہی کی اصلاح نہیں، عقیدے کی بھی اصلاح کو زبان کے روزمرہ سے متعلق کرنے لگے ہیں۔الفاظ ہندی کے لکھ رہے ہیں اور اردو میں’’ اللہ حافظ‘‘ کہہ رہے ہیں ۔ارے بھائی ’’خدا حافظ‘‘ کہو اللہ کے بندے۔ اردو کے محافظ ہیں اور ’’ اللہ حافظ، اللہ حافظ ‘‘کہہ رہے ہیں۔ یہاں والے بھی پاکستان کی دیکھا دیکھی ’’اللہ حافظ‘‘ کہہ رہے ہیں ۔کہہ رہے ہیں ،قرآن میں’’ خدا‘‘ نہیں ،’’اللہ‘‘ ہے۔ تو ہم کہتے ہیں کہ قرآن میں’’ روزہ‘‘ بھی نہیں، ’’نماز‘‘ بھی نہیں ، ’’صوم‘‘ اور’’ صلوٰۃ ‘‘لکھا ہوا ہے۔ اس کے کیا معنی ہیں کہ زبان کے تئیں تمھارا رویہ اتنا خراب ہو چکا ہے کہ تم اچھی زبان پہچانتے نہیں ہو؟ اگر تم سے کہا جائے کہ شبلی کا ایک پیراگراف پڑھ کے دکھادو تو چکر میں آ جاؤ گے کہ زبان ایسی لکھی جاتی ہے۔ اتنی دل نشین ،اتنی سادہ اور اتنی خوبصورت ۔اگر واقعات کا بیان ہے تو اس میں بہاؤ دیکھ لو۔ اگر ڈرامائی صورت حال ہے تو ڈراما دیکھ لو۔ جیسے کہ نبی اکرمؐ داخل ہوتے ہیں مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ میں حج الوداع کے دن ،تو اس کا منظر دیکھ لو۔ حضرت عمر کے سفر یروشلم کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک شخص اونٹ پر سوار چلا جا رہا ہے اور صرف ایک آدمی اس کی محافظت میں ہے، لیکن سارے عالم میں غلغلہ ہے کہ مرکز عالم جنبش میں آگیا ہے ۔تو اس طرح کے لکھنے والے ہیں۔ ان کی قدر ہی اب نہیں ہو رہی ہے ۔ اب نثر کے نام پر رشید احمد صدیقی کا مضمون ’’چارپائی‘‘ پڑھایا جا رہا ہے، حالانکہ اب وہ سیاسی اور سماجی حوالے ہی نہیں رہ گئے جن سے وہ مضمون بھرا پڑا ہے۔ لہٰذا اب اس مضمون کے ظریفانہ اور مزاحیہ پہلو تقریباً معدوم ہیں۔اکثر بچوں نے تو وہ منظر بھی نہیں دیکھا جس پر اس مضمون کا دارو مدار ہے ،کہ ایک چارپائی پر سارا خاندان پھسڑا ہوا ہے اور زچگی سے لے کر موت تک سب واقعے اسی چارپائی پر پیش آتے ہیں۔ ایسے مضامین پڑھ کر اچھی نثر لکھنا کون طالب علم سیکھ سکتا ہے؟رشید صاحب کی ایک سے ایک تحریریں موجود ہیں، لیکن کتاب بنانے والے استاد کو خبر ہی نہیں۔ اور انھیں یہ بھی خبر نہیں کہ ’’چارپائی‘‘ جیسی تحریریں آج پڑھا کر وہ بچوں کے ذوق نثر کو بگاڑ رہے ہیں۔
اردو زبان کا مسئلہ یہ ہے کہ اردو پڑھانے والے نہیں ہیں۔ میرے آپ کے جاننے والوں میں کتنے ہی لوگ ایسے ہیں کہ غیر ہندی تہذیب کے پیدا شدہ ہیں، جنھوں نے ایسے برہمن گھروں میں یا غیر مسلم گھروں میں آنکھ کھولی ہے جہاں اردو بالکل نہیں ہے۔لیکن یہ لوگ اردو شاعر ی کے شوق میں اردو پڑھتے ہیں۔ یا شاعری کے شوق میں اردو پڑھتے ہیں، شعر کہتے ہیں۔ ہمارا جینت پرمار تو گجراتی بولنے والا ہے، لیکن اردو کا کتنا اچھا شاعر ہے ؟تم خود بھی دیکھ رہے ہو، اس جیسے لوگ ہر طرف موجود ہیں۔بہت سے تو ہمارے الٰہ آباد جیسے شبستان تیرہ روز میں بھی ہیں جہاں جے پرکاش غافل جیسا ریاضی داں اور قانون داں ہے جسے اردو سے کچھ ملنا نہیں لیکن اردو شاعری کی محبت میں اردو سیکھتا ہے اور آج اعلیٰ درجے کی غزل اردو میں کہتا ہے۔ کمی اس کی ہے کہ ان کو اردو پڑھائے کون؟
انگریزی ذریعۂ تعلیم پہلے بھی تھا، اور اردو پڑھنے والے بھی تھے۔ آج جہاں جہاں اردو پہلے سے کم پڑھی جا رہی ہے اس کی وجہ انگریزی ذریعۂ تعلیم نہیں، والدین کی عدم دلچسپی ہے۔حکومت کے سامنے منھ کھولے کھڑے رہنے کی ادا نے بھی اردو کو بہت نقصان پہنچا یا ہے۔زبان ہماری ہے، کیا یہ ہمارا فرض نہیں کہ ہم اس سے محبت کریں اور اس کی بقا اور ترویج کے لئے کوشاں ہوں؟
راہی فدائی :آپ نے ماشاء اللہ بہت اچھی گفتگو کی۔ بہت سی باتیں واضح ہو گئی۔ جزاکم اللہ۔
ش ف :شکریہ۔ آپ دوستوں کی کرم ارزانی ہے۔ اب اجازت چاہتا ہوں۔ شام کو بھی بولنے کی مصروفیت ہے، آپ جانتے ہی ہیں۔

***
تشکر: سہ ماہی ’اذکار‘ بنگلور، اور ’منصف‘ حیدر آباد
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ اعجاز صاحب شیئر کرنے کیلیے!

ویسے یہ انٹرویو 'بزمِ سخن' میں بھی پوسٹ ہو سکتا تھا اور یہ کہ آپ کی کئی مراسلے دو دو بار پوسٹ ہوئے ہیں (آپ نے لائبریری کا انتخاب کیا سو یہاں میرے پر جلتے ہیں کہ کچھ کرسکوں) :)
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ وارث توجہ دلانے کا۔ حذف کر دئے ہیں ڈپلیکیٹ مراسلے۔
یہ اصل میں سہ ماہی ’اذکار‘ میں شائع ہوا تھا، جو کرناٹک اردو اکادمی کا جریدہ ہے۔ وہاں سے ’منصف‘ کے ادبی سپلی مینٹ میں تین اقساط میں شامل کیا گیا۔ اور "منصف" اور "اذکار‘ کے تشکر کے ساتھ ’سمت‘ کے اگلے شمارے میں بھی شامل ہو گا۔ یہاں اس کا ’پری ویو‘ ہے۔
 
Top