شمار کا خمار۔۔۔ محسن حجازی

ساجد

محفلین
میں بحث برائے بحث کے حق میں نہیں ہوں۔ میرے کہنے یا سوال کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر امریکہ،عراق میں، نجات دہندہ بن کر آیا ہے تو عراقیوں کو چاہئیے تھا کہ امریکیوں کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالتے لیکن ہو رہا ہے اس کے برعکس۔ ایسا کیوں ہے؟ عراق کے جس آدمی کو آپ عوام کا منتخب شدہ کہہ رہے ہیں اس قسم کے نمائندے بنا دینا استحصالی قوتوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔
میں نے کبھی صدام کو اچھا آدمی نہیں کہا اور نہ ہی میں آمریت یا بادشاہت کے حق میں ہوں لیکن ایک آمر کو معزول کرنے کے لئیے امریکہ جس حد تک گیا وہ بھی کسی سے اوجھل نہیں۔ اور اس آمر کے جانے کے بعد نام نہاد جمہوریت کی دیوی نے جتنے انسانوں کا خون پیا اس کے آگے تو صدام دور کی عراقی عوام پر سختیاں عشرِ عشیر کا درجہ بھی نہیں رکھتیں۔ اگر جمہوریت اسی چیز کا نام ہے تو خود امریکہ کے اندر ایسی ، انسانی خون کی پیاسی ، جمہوریت کیوں نہیں ہے؟ کیا عراق تک آتے آتے جمہوریت کو عوامی طاقت کی بجائے امریکی تباہ کن ہتھیاروں اور دور مار میزائلوں کی ضرورت پیش آ گئی تھی۔ میرے خیال عراق میں جمہوریت کے لئیے کوشش کرنا عراقی عوام کا کام تھا نا کہ انسانی جسموں اور جذبوں کو چیر پھاڑ کر رکھ دینے والے امریکی ہتھیاروں کا کہ جو صدام کے کبھی نہ ملنے والے افسانوی "ڈبلیو ایم ڈی ز" سے ہزاروں گنا زیادہ مہلک ہیں۔ اگر صدام ان ہتھیاروں کے عدم وجود کے باوجود دنیا کے امن لئیے خطرہ تھا تو ایسے ہتھیاروں کے وجود اور تباہ کن استعمال کے ساتھ امریکہ کو کون سی فہرست میں رکھا جانا چاہئیے؟؟؟
امریکہ کے پاس عراق کی سالمیت اور آزادی سلب کرنے اور لاکھوں بے گناہوں کا خون بہانے کا نہ تو کوئی جواز تھا اور نہ ہی اقوام متحدہ کے منشور میں اس کی اجازت۔
آپ نے میرے سوالوں کا مکمل جواب نہیں دیا ۔ بلکہ اپنے خیالات اور امریکی مؤقف کا دفاع کرنے پر زیادہ زور دیا ہے محسوس ہو رہا ہے کہ حسبِ روایت آپ نے ان سوالوں کو گول کر دیا ہے جس کا جواب حاصل کرنے کے لئیے میں ہی نہیں ایک عالم منتظر ہے؟ اور یہ وہی سوالات ہیں جو امریکی پالیسیوں کے مبنی بر منافقت کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔
جب تک آپ امریکی مؤقف دہراتے رہیں گے ،میں نہیں سمجھتا ،کہ ہم ایک بامقصد مکالمہ کر سکیں گے۔
پاکستانی میڈیا اور حکومت پر تنقید اس دھاگے کا عنوان نہیں لہذا اس پر پھر کبھی بات ہو گی۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

امريکہ سياسی، معاشی اور سفارتی سطح پر ايسے بہت سے ممالک سے باہمی دلچسپی کے امور پر تعلقات استوار رکھتا ہے جس کی قيادت سے امريکی حکومت کے نظرياتی اختلافات ہوتے ہيں۔ امريکہ اپنے سسٹم اور اقدار کو زبردستی دوسرے ممالک پر مسلط کرنے ميں کوئ دلچسپی نہيں رکھتا۔

يہ ايک غير منطقی مفروضہ ہے کہ امريکہ دنيا کے کسی بھی ملک سے روابط قائم کرنے کے ليے پہلے وہاں کا حکومتی اور سياسی نظام تبديل کرے يا ايسا حکمران نامزد کرے جو عوامی مقبوليت نہ رکھتا ہو۔ يہ ذمہ داری اس ملک کے سياسی قائدين اور عوام کی ہوتی ہے اور کوئ بيرونی طاقت اس ضمن ميں فيصلہ کن کردار نہيں ادا کر سکتی۔

جہاں تک عراق ميں فوجی کاروائ کی وجوہات کا تعلق ہے تو اس کا بنيادی مقصد عراق ميں جمہوريت يا کوئ اور نظام حکومت زبردستی نافذ کرنا نہيں تھا۔ يہ درست ہے کہ امريکہ نے عراق ميں جمہوری اقدار کی بحالی کی حوصلہ افزائ اور حمايت کی ہے ليکن اس ضمن ميں حتمی اور فيصلہ کن کردار بحرحال عراقی عوام نے خود ادا کرنا ہے۔ اسی خطے ميں ايسے بہت سے ممالک بھی ہيں جہاں جمہوری نظام حکومت نہيں ہے۔ جہاں تک عراق کا سوال ہے تو امريکہ اور عالمی برادری کو صدام حکومت کی جانب سے اس خطے اور عالمی امن کو درپيش خطرات کے حوالے سے شديد تشويش تھی۔ اس ضمن ميں عراق کی جانب سے کويت پر قبضہ، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد ميں ناکامی اور عالمی برادری کے خدشات کو نظرانداز کرنا ايسے عوامل تھے جو عراق کے خلاف فوجی کاروائ کا سبب بنے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

میں بحث برائے بحث کے حق میں نہیں ہوں۔ میرے کہنے یا سوال کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر امریکہ،عراق میں، نجات دہندہ بن کر آیا ہے تو عراقیوں کو چاہئیے تھا کہ امریکیوں کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالتے لیکن ہو رہا ہے اس کے برعکس۔ ایسا کیوں ہے؟

بعض اوقات حقيقت اور عمومی تاثر ميں فرق زيادہ واضح نہيں ہوتا۔ صدر بش پر جوتا پھينکنے کے واقعے کو عراقيوں کی امريکيوں کے خلاف عمومی نفرت کے ضمن ميں ايک دليل کے طور پر پيش کيا جاتا ہے ۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ اس واقعے کو ميڈيا پر بار بار دکھايا گيا ہے۔ ليکن اس واقعے کے ساتھ اگر يہ تصاوير بھی دکھائ جائيں تو دوسرے فريق کے موقف اور نقطہ نظر کو غير جانب دار زاويے سے جانچنے ميں مدد ملے گی۔

http://edenboy99.persianblog.ir/post/32/

جہاں تک صدر بش پر جوتا پھينکنے کے واقعے کا تعلق ہے تو آپ کے خيال ميں کيا يہی واقعہ صدام حسين کے دور حکومت ميں ممکن ہوتا؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

شکیل احمد

محفلین
بعض اوقات حقيقت اور عمومی تاثر ميں فرق زيادہ واضح نہيں ہوتا۔ صدر بش پر جوتا پھينکنے کے واقعے کو عراقيوں کی امريکيوں کے خلاف عمومی نفرت کے ضمن ميں ايک دليل کے طور پر پيش کيا جاتا ہے ۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ اس واقعے کو ميڈيا پر بار بار دکھايا گيا ہے۔ ليکن اس واقعے کے ساتھ اگر يہ تصاوير بھی دکھائ جائيں تو دوسرے فريق کے موقف اور نقطہ نظر کو غير جانب دار زاويے سے جانچنے ميں مدد ملے گی۔

http://edenboy99.persianblog.ir/post/32/

جہاں تک صدر بش پر جوتا پھينکنے کے واقعے کا تعلق ہے تو آپ کے خيال ميں کيا يہی واقعہ صدام حسين کے دور حکومت ميں ممکن ہوتا؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
سبحان اللہ۔ آزادی ہو تو ایسی
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے امريکہ کی پاليسی بہت سے ٹی وی پروگرامز، فورمز اور اخباری کالمز ميں زير بحث رہی ہے۔ اس ضمن ميں لاتعداد افواہيں، بے بنياد سازشی داستانيں اور خطے ميں امريکہ کے اصل اہداف کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گيا ہے۔

آج صدر اوبامہ نے اپنے خطاب ميں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ضمن ميں ايک واضح حکمت عملی اور امريکی مقاصد بيان کرديے ہيں۔

بہت سے لوگ اس خطے ميں امريکہ کے اصل مقصد کے حوالے سے سوالات اٹھاتے ہيں۔ صدر اوبامہ نے اس حوالے سے اپنی پاليسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ

"ہمارا مقصد بالکل واضح ہے۔ افغانستان اور پاکستان ميں القائدہ کی کاروائيوں کو روکنا اور انھيں شکست دينا تا کہ وہ ان دونوں ممالک ميں مستقبل ميں اپنا اثرورسوخ نہ بڑھا سکيں۔ ہميں اس مقصد ميں ہر صورت ميں کاميابی حاصل کرنا ہے۔"

صدر اوبامہ نے اپنی تقرير ميں يہ بھی واضح کر ديا کہ خطے ميں پائيدار امن کے قيام اور دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں کاميابی کے لیے پاکستان کا دفاع اور استحکام کليدی حيثيت کا حامل ہے۔ اس ضمن ميں انھوں نے افغانستان، پاکستان اور امريکہ کے مابين مسلسل سہ فريقی مذاکرات کی اہميت پر زور ديا۔

صدر اوبامہ نے اپنے خطاب ميں پاکستان کے عوام اور ان کی تاريخ کو بھی خراج تحسين پيش کيا اور اس عزم کا اعادہ کيا کہ امريکہ ان دہشت گردوں کے خلاف جنگ ميں پاکستان کی ہر ممکن مدد کرے گا جن کی مسلسل کاروائيوں نے پاکستانی معاشرے کو غير مستحکم کيا ہے۔ انھی کاروائيوں ميں محترمہ بے نظير بھٹو کا قتل بھی شامل ہے۔ اس ضمن ميں انھوں نے بائيڈن لوگر بل کا بھی ذکر کيا۔ اس بل کے ذريعے پاکستان کو اگلے پانچ سالوں ميں مجموعی طور پر 5۔7 بلين ڈالرز کی امداد دی جائے گی جو کہ فوجی امداد کے علاوہ ہے۔ اس ضمن ميں سالانہ 5۔1 بلين کی امداد پاکستان کو ملے گی۔ اس کے بعد مزيد 5 سالوں کے ليے بھی 5۔7 بلين ڈالرز کی امداد بھی اس بل کا حصہ ہے۔

صدر اوبامہ نے اس نقطہ نظر کو بھی رد کر ديا جس کے مطابق امريکہ افغانستان سے واپسی کے لیے کسی حکمت عملی پر کام نہيں کر رہا۔

"ہم افغانستان ميں اپنے مشن کا محور افغان سيکورٹی اہلکاروں کی تعداد اور ان کی تربيت ميں اضافے کی جانب کريں گے تا کہ وہ خود اپنے ملک کو مستحکم کرنے کا بيڑہ اٹھا سکيں۔ اس طرح ہم افغانستان کے دفاع کی ذمہ داری ان کے حوالے کر کے اپنے فوجيوں کو واپس لا سکيں گے۔ ہم 134000 افراد پر مشتمل افغان آرمی اور 82000 نفوس پر مشتمل پوليس فورس کی تشکيل کے ضمن ميں اپنی کوششيں تيز کريں گے تاکہ سال 2011 تک ہم اپنے اہداف حاصل کر سکيں"۔

افغانستان کے حوالے سے صدر اوبامہ نے اس بات کی اہميت کو بھی تسليم کيا کہ لوگوں کو سيکورٹی مہيا کرنے کے عمل کو مقامی سطح پر فعال حکومت سازی، معاشی ترقی، تعمير وترقی، کرپشن کے خاتمے اور دہشت گردی کی روک تھام کے ليے متبادل معاشی متبادل کی فراہمی سے منسلک کرنا ضروری ہے۔

اب سے کچھ سال پہلے تک يہ کہا جاتا تھا کہ دہشت گردی پاکستان کا مسلۂ نہيں ہے اور پاکستان محض امريکہ کی جنگ لڑ رہا ہے ليکن وقت گزرنے کے ساتھ يہ بات ثابت ہو گئ ہےکہ دہشت گردی کی لعنت نہ صرف پاکستان ميں موجود ہے بلکہ اس کی جڑيں اب قبائلی علاقوں سے نکل کر شہروں تک پہنچ چکی ہيں پچھلے چند ماہ ميں اس انتہاپسندی اور دہشت پسندی کے عذاب نے پاکستانی معاشرے کے ہر طبقے کو بغير کسی تفريق کے يکسر متاثر کيا ہے۔ دہشتگردوں کی بے رحم کاروائيوں سے کوئ تنظيم، ادارہ اور سياسی جماعت محفوظ نہيں۔ پاکستان کےعسکری اداروں، مذہبی تنظيموںاورسياسی جماعتوںکو ہونےوالے ناقابل تلافی جانی اورمالی نقصان سے يہ ثابت ہے کہ يہ لوگ کسی بھی صورت ميں پاکستان کے خير خواہ نہيں اور ہم سب کے مشترکہ دشمن ہيں۔

خيبر ايجنسی کی مسجد ميں دھماکہ اور اس کے نتيجے ميں 70 بےگناہ افراد کی شہادت اس مشترکہ خطرے کی غمازی کرتا ہے جس کے خاتمے کے ليے يہ ضروری ہے کہ افغانستان اور پاکستان ميں دہشت گردی کے اڈوں کا قلع قمع کيا جائے۔

دہشتگردی کا خطرہ پاکستان ميں ايک مسلمہ حقيقت ہے جس کا ہميں ہر سطح پر مقابلہ کرنا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
 

ساجد

محفلین
اوبامہ کی باتوں میں صرف الفاظ کی جادو گری کا کرشمہ جھلک رہا ہے۔ تسلسل وہی ہے یعنی بُش کی ناکام اور توسیع پسندانہ پالیسیوں پر عمل۔
امریکہ کے لئیے بہتر ہے کہ دنیا کی فکر کرنے کی بجائے اپنی عوام کی بات سنے کہ جو امریکی پالیسیوں سے شدید نالاں ہو کر بُش اینڈ کمپنی کا تیا پانچہ کر چکے ہین۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ امریکہ جب بھی اس علاقے میں جارحیت کرے گا منہ کی کھائے گا۔ دہشت گردی کے نام پہ جب بھی ڈرامہ کرے گا اپنے عوام کے لئیے مزید مشکلات پیدا کرے گا۔
اگر امریکہ امن قائم کرنے اور شدت پسندی ختم کرنے میں مخلص ہے تو اسے تمام فریقوں سے برابری کی سطح پہ بات کرنا ہو گی۔ طاقت کا بے دریغ استعمال بند کرنا ہو گا۔
بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے جس طرح سے امریکہ دیگر ممالک میں عدم استحکام پیدا کرتا ہے اسے روکنا ہو گا۔
اوبامہ کی پالیسی امریکی ہٹ دھرمی کا کھلا ثبوت ہے اور انصاف پسند لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔
 

ابن جمال

محفلین
مجھے یہاں ایک بات یہ عرض کرنی ہے کہ آپ اردواخبارات جرائد ورسائل جتنا پڑھ لیں سب میں یہی بات ملے گی کہ یہ امریکہ کی سازش ہے بھارت کی سازش ہے اسرائیل کی سازش ہے۔ یہ درحقیقت اپنی کمزوریوں کوچھپانے کا حکمرانوں کا ایک آزمودہ طریقہ کار ہے۔ اوراسی کے ساتھ ملک کے عوام کو پست حوصلہ بنانے کا۔ انگلش کے ایک مقولہ کے مطابق جب تک اپ کی پیٹھ جھکی ہوئی نہ ہو کوئی اس پر سوار نہیں ہوسکتاہے یعنی بات وہی ہے کہ کمزوری ہمارے اندر ہے۔ اس موقع پر یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اس فرق کو ملحوظ رکھیں کہ انقلاب ایران کے بعد بھی دنیا ایران کے خلاف ہوگئی تھی اورآج بھی ایک حد تک اس کے خلاف ہے مگر اس کا وجود اورطریقہ حکومت بھی باقی ہے جب کہ طالبان ختم ہوگئے اورروپوشی پر مجبور ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ تدریج کو شریعت کا ایک اہم جزو ہے اس کا طالبان نے خیال نہیں رکھا اورچاہا کہ مکمل شریعت ایک ہی دن میں نافذ کردیاجائے۔ دوسرے آپ دیکھ لیجئے طالبان کے اندر کوئی بھی ایک ایسا عالم نہیں ملے گا یا میں نے نہیں سنا ہے کہ دنیا بھر میں جس کی علمی اہمیت مسلم ہو۔ بس کچھ اوسط درجے کے علم رکھنے والے اورایک خاص پسند منطررکھنے والوں نے بعض حالات کے سبب ہتھیاراٹھایا اورجب اقتدار سے ہمکنار ہوئے تو آپے سے باہر ہوگئے اورحد پار کرگئے۔
 
اس تھریڈ میں عراق جنگ کے حوالوں سے کافی کچھ زیر بحث آچکا ہے اس لیے میں یہ تازہ خبر بھی یہیں شیئر کر رہا ہوں

’عراق پر حملہ جائز نہیں تھا‘

عراق پر حملے کی حمایت کرنے کے ہالینڈ کی حکومت کے فیصلے پر کی جانے والی ایک انکوائری میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق یہ حملہ جائز نہیں تھا۔

ڈچ انکوائری کمیٹی برائے عراق کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے جو قرار دادیں منظور کی تھیں ان سے دو ہزار تین میں کی جانے والی مداخلت کا جواز پیدا نہیں ہوتا۔

یہ انکوائری وزارتِ خارجہ کی ان یاداشتوں کے منکشف ہو جانے کے بعد شروع ہوئی تھی جن سے یہ شعبہ پیدا ہوتا تھا کہ عراق پر حملے کا کوئی قانونی جواز نہیں تھا۔

ہالینڈ نے دو ہزار تین میں عراق پر کیے جانے والے حملے کی صرف سیاسی حمایت کی تھا اور اس نے کوئی فوجی کردار ادا نہیں کیا تھا۔

بی بی سی کے نامہ نگار برائے یورپ جونی ڈائمنڈ کا کہنا ہے اس رپورٹ سے جنگ کی حمایت کرنے کےہالینڈ کی حکومت کا فیصلہ غلط ثابت ہوگیا ہے۔

مزید پڑھیئے بی بی سی اردو

علاوہ ازیں ٹونی بلیئر کا یہ بیان تو پہلے ہی شیئر کیا جا چکا ہے
 

arifkarim

معطل
کیا مصیبت ہے۔ اب حملہ ہو ہوا گیا۔ جو کر گزرنا تھا ہوگیا۔ اب مزید الجھنے کی کیا تک بنتی ہے؟
 
کیا مصیبت ہے۔ اب حملہ ہو ہوا گیا۔ جو کر گزرنا تھا ہوگیا۔ اب مزید الجھنے کی کیا تک بنتی ہے؟

ہاں ناروے کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاوں میں زندگی گزارنے والے کو عراق کی دوزخ کی کیا پروا۔ آئندہ بھی جب کبھی امریکا کہیں حملہ کرے تو ہم کو کچھ ماہ یا سالوں کے بعد یہی کہنا چاہیے "اب حملہ ہو ہوا گیا۔ جو کر گزرنا تھا ہوگیا۔ "

2۔ یہ مصیبت ہالینڈ کی حکومت کو پڑی ہے کہ وہ اب تک اس کی تحقیقات وغیرہ کروا رہی ہے یہ سوال آپ ہالینڈ کی حکومت سے ضرور پوچھیئے گا بلکہ کوئی اور شاندار مشورہ بھی ضرور دے دیجئے گا۔
3۔یہ ایک ویب سائٹ ہے کبھی فرصت ملے تو ذرا اس کا دورہ کیجئے گا امید ہے کہ مزاج نازک پر چھائی گراں باری قدرے معتدل ہو جائی گی۔
http://www.iraqbodycount.org/database/
 
Top