شعر لکھیں اور اس کی مزاحیہ تشریح لکھیں

دیکھئے، لگ گئی نا، رونق! ۔۔۔۔۔۔۔۔


انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکتے ہو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

اپنا تو کچھ کچھ تجربہ ہو گیا ہے پتھروں پر چلنے کا۔ عمر کا آدھا حصہ تو پتھروں کے اِس شہر میں رہتے گزر گیا۔ ویسے آپس کی بات ہے، یہ کہکشاں جسے کہتے ہیں ماہرین تو اِن کو بھی پتھر ہی گردانتے ہیں۔ شاعر کے پیشِ نظر یقیناً یہ کہکشانی پتھر نہیں رہے ہوں گے یا پھر آنے والا کسی طور بھی ’’وہ‘‘ کے زمرے میں نہیں آتا ہو گا (قطع نظر از تذکیر و تانیث)۔ اور بات ڈال دی آنے والے پر، کہکشاں کا کیا ہے! کسی چکنے پتھر سے پاؤں رپٹا اور سر کسی اور پتھر پہ پڑا ۔۔ تو ایک آدھ کہکشاں نہیں پورے کا پورا کلسٹر عین آنکھوں کے سامنے رقص کرنے لگتا ہے۔ شاعرانہ زبان میں ’’چشمِ وے روشن‘‘ کہہ لیجئے۔

اصل قصہ یہ ہے، کہ جنابِ شاعر نے مرگلہ کی پہاڑیوں پر کرش مشین لگا رکھی ہے، ایک طرف بلاسٹنگ ہو رہی ہے تو دوسری طرف مشین پر پتھر توڑے جا رہے ہیں۔ کام کی زیادتی کہ وجہ سے وہیں ایک عارضی سی رہائش بھی بنا لی۔ موصوف کی ’’وہ‘‘ اپنے ناٹے سے ’’سروقد‘‘ میں کچھ انچ جمع کر کے یعنی ہائی ہیل زیبِ پائے احمریں کئے شوقِ دیدار کے ہاتھوں پہاڑی کے دامن تک تو آ گئیں آگے گرتے ٹوٹتے پتھروں میں جانے کو جو حوصلہ درکار ہے وہ اُن کی نازک بدنی کی حدود سے کہیں آگے ہے۔ موصوفہ کی مترنم آواز ’’میں آ گئی!!!‘‘ بھی دھماکوں اور گڑگڑاہٹ میں دب گئی۔ بھلا ہو اُس مزدور کا جس نے دیکھ کر صاحب کو بتا دیا ’’اک زنانہ اے جی، پہاڑی نے تلاں، ماہنھ لگنا اے تساں نی بہنو آئی اے‘‘ (پہاڑی کے دامن میں ایک عورت ہے جی، میرا خیال ہے آپ کی بہن آئی ہیں)۔ اس بے چارے پر تو جو بیتی سو بیتی، جنابِ شاعر نے پہاڑی سے نیچے جھانکا اور یہ شعر ہانکا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

عدیل منا

محفلین
استاد امام دین ناسخ کا یہ قطعہ ۔۔۔
حقہ جو ہے حضورِ معلیٰ کے ہاتھ میں​
گویا کہ کہکشاں ہے ثریا کے ہاتھ میں​
ناسخ یہ سب بجا ہے ولیکن تو عرض کر​
بے جان بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں​

کیا فرماتے ہیں علمائے مزاح بیچ اِس گڑگڑاہٹ کے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
استاد امام دین ناسخ کا یہ قطعہ ۔۔۔
حقہ جو ہے حضورِ معلیٰ کے ہاتھ میں​
گویا کہ کہکشاں ہے ثریا کے ہاتھ میں​
ناسخ یہ سب بجا ہے ولیکن تو عرض کر​
بے جان بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں​

کیا فرماتے ہیں علمائے مزاح بیچ اِس گڑگڑاہٹ کے؟
محترم فرماتے ہیں کہ عورت بیچ بازار حقہ (شیشہ) پیتے اچھی نہیں لگتی۔ پر خود کہنے کی ہمت نہیں ہو رہی
 

ظفری

لائبریرین
استاد امام دین ناسخ کا یہ قطعہ ۔۔۔
حقہ جو ہے حضورِ معلیٰ کے ہاتھ میں​
گویا کہ کہکشاں ہے ثریا کے ہاتھ میں​
ناسخ یہ سب بجا ہے ولیکن تو عرض کر​
بے جان بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں​

کیا فرماتے ہیں علمائے مزاح بیچ اِس گڑگڑاہٹ کے؟

انکل ناسخ کی طبعیت ناساز تھی ۔ کئی دنوں سے وہ گھر پر صحن میں اپنی ٹوٹی ہوئی چارپائی پر پڑے ہوئے تھے۔ مگر اس عالم میں بھی انہوں نے حقہ اتنا پیا کہ اس کا بھی حقہ بند کردیا ۔ لہذا وہ حقہ کی فضلیت سے مذید مستفید نہیں ہو رہے تھے ۔ اور اشعار پر وارد نہیں ہورہے تھے ۔ چنانچہ انہوں نے اپنی بڑی بیٹی ثریا کو حقے کی چلمن دیکر باقی حقہ اپنے ہاتھ میں رکھ کر کہا کہ " بیٹی ! بازار جا کر تارا مسیح کی دوکان سے ذرا تمباکو تو چلمن میں بھرلے آنا ۔ ثریا جب گھر سے نکلنے گی تو اس کی چھوٹی بہن کہکشاں بھی اس کے ساتھ ہوگئی ۔ اور یوں کہکشاں ثریا کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے تارا مسیح کی دوکان پر پہنچی ۔ جب یہ دونوں وہاں پہنچی تو تارا مسیح کے ساتھ عسکری بیٹھے ہوئے تھے ۔ عسکری نے تارا مسیح کے پرمٹ سے فائدہ اٹھا کر حسبِ معمول تھوڑا سا شغل فرمایا لیا تھا ۔ بچیوں کے ہاتھ میں حقے کی چلمن دیکھ کر عسکری نے ترنگ میں فرمایا " لگتا ہے انکل ناسخ پرانے فارمولے پر جی رہے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے تارا مسیح کے ہاتھ میں دبا ہوا جام یہ کہہ کر حقے کی چلمن میں انڈیل دیا کہ " یہ بے جان بولتا ہے بیکار میں ترے ہاتھ میں تارا مسیح ، تھوڑا ناسخ کو بھی جینے کا مزا لینے دے ۔ " :heehee:
 

ظفری

لائبریرین
اگلا شعر

وہ جن کی خاطر ہم نے تمام سرحدیں توڑیں
آج انہی نے کہا ہے کہ اپنی حد میں رہو !
 

شمشاد

لائبریرین
ایک ہندی حسینہ دلربا کے عشق میں بیقرار ہو کر ہندوستان جانے کا قصد کیا۔ سفارتخانے گئے تو انہوں نے شکل دیکھ کر ویزہ دینے سے انکار کر دیا۔
ویڈیو چیٹنگ کے ذریعے اچھی خاصی واقفیت ہو گئی تھی اور عشق کی گُڈی کی ڈور کا پِنا ختم کو تھا۔ ادھر دل بیقرار کو چین نہیں تھا۔ اس لیے غیرقانونی طور پر جانے کا قصد کیا۔
رات کے اندھیرے میں سردار جی کا بھیس بدلا اور اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک پنجاب سے دوسرے پنجاب میں منتقل ہونے کا قصد کیا۔
پہلے گھر کی سرحد توڑی، پھر محلے کی سرحد توڑی، پھر شہر کی سرحد توڑی پھر صوبے کی سرحد توڑی، آخر میں ملک کی سرحد توڑی۔ یہ ساری سرحدیں توڑ کر جب دلربا کے محلے میں پہنچے تو وہ پتی کے ساتھ گنڈا گولا کھانے میں مصروف تھی۔

اس نے جو ایکدم عاشق بامراد کو اپنے سامنے دیکھا تو جھٹ سے بولی اپنی اوقات، میرا مطلب ہے "اپنی حد میں رہو۔"


اگلا شعر

اک عمر چاہیے کہ گوارا ہو نیش عشق
رکھی ہے آج ہی لذت زخم جگر کہاں
 
لیجئے صاحبان و صاحبات!
اپنا ایک فی البدیہہ شعر پیش کرتا ہوں۔
تیرا ایک پَل جو ہزار سال کا ہو گیا
تو پھر انتظار کا ایک دن! کوئی کیا کرے
پس منظر :۔
فیس بک پر ایک ’’خبر‘‘ دیکھی، کہ قیامت جو ۲۲ دسمبر ۲۰۱۲ کو آنی تھی، بعض ٹیکنیکی وجوہات کی بناء پر دسمبر ۳۰۱۲ تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ اس پر یہ شعر ’’سرزد‘‘ ہوا۔ آپس کی بات ہے کہ ’’سرزد‘‘ اور ’’سرزنش‘‘ کی اصل ایک ہے۔
۔۔۔۔۔
 
یہ شعر وینا ملک کیلئے کہا گیا ہے۔ اس کی تشریح کیلئے اخلاق اجازت نہیں دیتا۔
آپ سمجھے نہیں منا بھائی۔۔۔اس شعر کے پیچھے چھپی کہانی اور ہے۔۔دراصل شاعر ایک خودکش بمبار ہے اور اپنے تئیں جنت کی طرف روانگی سے ایک لمحہ پیشتر اپنی خودکش جیکٹ کا بٹن دباتے ہوئے اسے الوداع کہہ رہا ہے اور اسکے بارے میں اپنی دلی کیفیت کا ان الفاظ میں اظہار کر رہا ہے کہ:
فنکار نہ تھی ، پر مرے فن کی شریک تھی​
وہ روح کے سفر میں بدن کی شریک تھی​
 

محمداحمد

لائبریرین
لیجئے صاحبان و صاحبات!
اپنا ایک فی البدیہہ شعر پیش کرتا ہوں۔
تیرا ایک پَل جو ہزار سال کا ہو گیا
تو پھر انتظار کا ایک دن! کوئی کیا کرے
پس منظر :۔
فیس بک پر ایک ’’خبر‘‘ دیکھی، کہ قیامت جو ۲۲ دسمبر ۲۰۱۲ کو آنی تھی، بعض ٹیکنیکی وجوہات کی بناء پر دسمبر ۳۰۱۲ تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ اس پر یہ شعر ’’سرزد‘‘ ہوا۔ آپس کی بات ہے کہ ’’سرزد‘‘ اور ’’سرزنش‘‘ کی اصل ایک ہے۔
۔۔۔ ۔۔


بہت خوب۔۔۔!

؎ کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
:)
 

وسیبی

محفلین
صرف محنت کیا ہے انور کامیابی کے لیئے
کوئی اوپر سے بھی ٹیلیفون ہونا چاہیئے
----------------------
یہ بہت دکھی شعر ہے ، اس میں شاعر کے ساتھ جو بیتی ہے اس کا ذکر ہوا ہے۔ شاعر کا جب دسویں کلاس کا نتیجہ نکلا تو وہ فیل ہوگیا۔ اس نےاساتذہ کی بہت منت سماجت کی بورڈ والوں کی مٹھائی کا بھی خیال رکھا مگر تین دفعہ مسلسل فیل ہوتا رہا۔ آخر میں وہ اپنے علاقے کے کونسلر کے پاس گیا اور اس کو اپنی رام کہانی سنائی۔ اس کونسلر کی کوشش سے اوپر سے فون کرایا گیا ، جس کے نتیجےمیں شاعر موصوف پاس ہوئے۔ اس ساری محنت کو اس شعر میں بیان کیا گیا ہے۔​
 

وسیبی

محفلین
گلگشت میں دامن منہ پہ نہ لو، نرگس سے حیا کیا ہے تم کو
اُس آنکھ سے پردہ کرتےہو، جس آنکھ میں پردہ کوئی نہیں
------------------
شاعر صاحب گلگشت کالونی کے شاپنگ سنٹر پر اپنے لیے نیا سوٹ خریدنے گئے۔ وہاں پر ان کا اپنی نرگس نامی محبوبہ کے ساتھ آمنا سامنا ہوجاتا ہے۔ جب شاعر صاحب کی نرگس پر نظر پڑی تو وہ اپنا منہ چھپانےلگے کہ کہیں اُدھر سے کوئی سوٹ ووٹ کی فرمائش نہ ہو جائے اور بیٹھے بٹھائے چار پانچ ہزار کا ٹیکہ لگ جائے۔ شاعر صاحب کو منہ چھپاتا دیکھ کر دوکاندار تاڑ گیا۔۔ اور منہ چھپانے کی وجہ پوچھی۔ شاعر صاحب نے یہ کہ کر جان چھڑانے کی کوشش کی کہ انہیں حیا آرہی ہے۔ دوکاندار بھی بڑا کائیاں تھا اور شاعر موصوف کو کہا کہ یہ نرگس جو بھرے بازار میں بے حیائی کے ساتھ بے پردہ پھرتی ہے اس کے سامنے پردہ اور حیا کرنے کا کیا فائدہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
سرسری ذکر کیا تھا عشق میں مر جانے کا
اب اُسے ضد ہے کہ تم مر کے دکھاؤ ہمیں

شاعر نے اپنی معشوقہ کے سامنے شیخی بگھاری تھی کہ میں تو تمہارے عشق میں مر بھی سکتا ہوں۔ ادھر وہ بھی اس سے تنگ آئی بیٹھی تھی کہ کسی طرح اس سے جان چھوٹے تو کوئی دوسرا مرغا دیکھوں۔ پس اس نے ضد کرنا شروع کر دی کہ تم نے مرنے کا ذکر کیا تھا لہذا اب مر کر دکھاؤ۔ چونکہ اس شعر میں شاعر نے ضرورت سے زیادہ ہی لمبی پھینکی تھی (اور اب پھنس گیا ہے۔ اب دوسروں سے پوچھتا پھرتا ہے کہ کیا کروں اور کیا نہ کروں۔)
 
میں جیسے ہی کبھی غلطی سے اوپر دیکھ لیتا ہوں
تو لگتا ہے ستاروں میں شعائیں اب نہیں باقی
شاعر کو ان کی شرارتوں کی وجہ سے کچھ دن کے لئے جیل میں بند کر دیا گیا تھا ۔انھیں جیل میں آسمان دیکھنے کو ملتا تو تھا نہیں اب باہر نکلے اور انھیں چھت دیکھنا نصیب ہوا تو فلک پر چمکتی ہوئی تا حد نکاہ ستارے انھیں بے نور نظر آئےتو انھوں نے یہ شعر کہا ----------


مہدی نقوی حجازصاحب جلدی سے ادھر تشریف لائیں
 
میں جیسے ہی کبھی غلطی سے اوپر دیکھ لیتا ہوں
تو لگتا ہے ستاروں میں شعائیں اب نہیں باقی
شاعر کو کچھ دن کے لئے جیل میں بند کر دیا گیا تھا ۔انھیں جیل میں آسمان دیکھنے کو ملتا تو تھا نہیں اب باہر نکلے اور انھیں چھت دیکھنا نصیب ہوا تو فلک پر چمکتی ہوئی تا حد نکاہ ستارے انھیں بے نور نظر آئےتو انھوں نے یہ شعر کہا ----------


مہدی نقوی حجازصاحب جلدی سے ادھر تشریف لائیں
لاحول۔ ہمارے اتنے پرانے شعر کو بھی نہ بخشا گیا۔ یہ تو اب ہمیں بھی فراموش ہو چلا تھا۔ ویسے ہمیں "سابقہ دار" بنا دیا آپ نے بڑی چابکی سے۔ داد۔
 
Top