شعر لکھیں اور اس کی مزاحیہ تشریح لکھیں

سیما علی

لائبریرین
رنجش ہی سہی‘ دل ہی دُکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ ..
’یہ شعر نہیں بلکہ گانا ہے اور اس میں “مہندی حسن” نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اے میرے محبوب تم میرا دل دُکھانے کے لیے آ جاؤ۔۔۔کیونکہ اسوقت میرا دل چاہ رہا ہے کہ مجھے کوئی برُا بھلا کہے۔۔
لیکن جلدی جلدی مجھے چھوڑ کے چلے جانا کیونکہ مجھے ایک فنکشن میں جانا ہے اور میں لیٹ ہو رہا ہوں۔۔خواہ مخواہ میرا قیمتی وقت برباد نہ کرنا ۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
میں شام کے منظر میں ہوں تحلیل شدہ اور
تم دور کسی گاؤں کی مغرب کی اذاں ہو

یہ بے صبر روز دار ہے ہاتھ میں کھجور ہے اور روح افزاکا گلاس سامنے رکھے بیٹھا ہے عصر کھ نماز کے بعد ہی مغرب کی اذان کا انتظار کر رہا ہے اور دل سے دعائیں کر رہاہے کہ جلدی سے اذان ہو اور افطار پہ ٹوٹ پڑے۔
 

شمشاد

لائبریرین
بعد شعر و شاعری کھانے کا رکھیے انتظام
یہ غلط دستور ہے پہلے طعام اور پھر کلام
دلاور فگار

دلاور فگار ضعف معدہ کے مریض ہیں اور کھانے سے پرہیز ہی رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں مشاعرے کے بعد ہی کھانے وانے کا انتظام کیا کرو تاکہ میں اپنی غزل سنا کر کھائے بغیر ہی کھسک سکوں۔ تم نے یہ غلط دستور بنا رکھا کہ پہلے کھاؤ پیؤ اور پھر کلام سُنا جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
خدشہ ہے کہ اس شوخ کا بڑھ جائے نہ بی پی
شاہدؔ ترے اشعار جو نمکین بہت ہیں
سرفراز شاہد

شاعر غالباً نشے میں محلول کے ساتھ ساتھ نمکین کھا کر غزل کہتا ہے اور آپ کو تو علم ہے کہ فشار خون کے مریض کے لیے نمک خطرناک ہوتا ہے۔ اور اسکی محبوبہ مشار خون کی مریضہ ہے۔
اس لیے وہ کہہ رہا ہے میرے اشعار میں نمک بہت ہے تو جب وہ پڑھے گی تو کہیں اس فشار خون نہ بڑھ جائے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
تشریح :
اس شعر میں شاعر مشرق مشکل الفاظ میں کہہ رہے ہیں کہ ۔ گڈ مارننگ ۔
 

شمشاد

لائبریرین
بیوی سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ شادی اپنی فطرت میں نہ خوبی ہے نہ خامی ہے

یہ شعر تو بذات خود ہی تشریح ہے۔ اس کی مزید کیا تشریح ہو سکتی ہے۔
 
وہ جو ہم میں تم میں قرار تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
وہی یعنی وعدہ نباہ کا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
تشریح:
شاعر نے بدقسمتی سے ایک ایسی لڑکی سے پیار کیا جس کی یاداشت بہت کمزور تھی۔ اسے بھولنے کی بیماری تھی۔ وہ رات کو چھت پر ملنے کا وعدہ کر کے بھول گئی۔ شاعر جب پہنچا تو لڑکی کے بھائیوں نے چور سمجھ کر اتنا مارا، اتنا پِیٹا، کہ ہڈی پسلی ایک کر دی۔ بس اسی حادثے پر یہ غزل کہی اور مشہور ہو گئے۔
اب شاعر کا یہ معمول ہے کہ محبوب کو دس دس منٹ کے وقفے سے ہر ضروری بات یاد کراتے رہتے ہیں۔
 
Top