شعر لکھیں اور اس کی مزاحیہ تشریح لکھیں

شمشاد

لائبریرین
کچھ روز اور کر لو گوارا دوستو
ہم جیسے پھر کہاں دنیا میں آئیں گے

شاعر اپنے قرض خواہوں سے معذرت کر رہا ہے کہ وہ ان کا قرض واپس نہیں کر سکتا پھر بھی ان سب کو اسے برداشت کرنا پڑے گا۔ شاعر اپنے ان قرض خواہوں سے یہ بھی کہہ رہا ہے تم لوگ فکر نہ کرو۔ ہم جیسے ڈھیٹ اور کمینے صفت لوگ دنیا میں پھر کہاں آئیں گے لہٰذا پہلی دفعہ معاف کر دو اور مجھ کنگال سے اپنا قرض واپس مت مانگو۔
 

شمشاد

لائبریرین
بالکل نہیں چل سکتا۔ یہاں صرف اور صرف دھاگے کے عنوان کی مناسبت سے ہی کام چل سکتا ہے۔ گزشتہ صفحات سے نقل مارنے کی پوری پوری اجازت ہے لیکن نقل کرنے کی اجازت بالکل نہیں۔
 
(۱)ہوکر اسیر دابتے ہیں راہزن کے پاؤں

(۲) ہزار رہزنِ امیدوار راہ میں ہے

مشکل الفاظ کے معنی:
راہزن۔ زنِ بازاری

(۱) اس مصرع میں شاعر کہتا ہے کہ جب ہم غلاموں کی طرح زنِ بازاری کے پاؤں دباتے ہیں تو ہمیں بڑا لطف آتا ہے۔

(۲) اس مصرع میں شاعر اطلاع دے رہا ہے کہ اس راہ میں ایک ریڈ لائٹ ایریا پڑتا ہے جہاں۔۔۔۔۔

نوٹ: راہزن کے معنی مشتاق احمد یوسفی کی کتاب خاکم بدہن سے لیے گئے ہیں۔
• یادش بخیر ! راہزن کے لغوی معنی مرزا نے اسی زمانے میں زنِ بازاری بتائے تھے! اور سچ تو یہ ہے کہ جب سے اس کے صحیح معنی معلوم ہوئے ہیں، غالب اور آتش کے مصرعوں ’ ہوکر اسیر دابتے ہیں راہزن کے پاؤں‘ اور ’ ہزار رہ زنِ امیدوار راہ میں ہے‘ کا سارا لطف ہی جاتا رہا۔ اب کہاں سے لاؤں وہ ناواقفیت کے مزے۔
ماخوذ از دستِ زلیخا( دیباچہ) خاکم بدہن از مشتاق احمد یوسفی۔
 

شمشاد

لائبریرین
حساب عمر کا اتنا سا گوشوارہ ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے

یہ شعر دو امجدوں کے درمیان پھنسے ہوئے اسلام نے لکھا تھا۔ وہ پرچون کی دکان کیا کرتے تھے اور ان کا ایک ہمسایہ جس کا نام عمر تھا، ان سے ادھار سودا لیا کرتا تھا۔ ایک دن انہوں نے عمر کے ادھار کا گوشوارہ دیکھا تو کہنے لگے کہ عمر کے ادھار کا اتنا سا حساب کہ اگر اسے دکان سے نکال دوں تو بہت خسارے کا سودا ہے۔ اور دکانداری ٹھپ ہو جائےگی۔ اگر تو عمر نے ادھار ادا کر دیا تو دکانداری چلتی رہے گی۔ مزید یہ کہ اگر ابا کو پتہ چل گیا تو بہت مار پڑے گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
دیکھتا ہوں سب شکلیں سن رہا ہوں سب باتیں
سب حساب ان کا میں ایک دن چکا دوں گا
(منیر نیازی)


شاعر نے بہت سے لوگوں سے ادھار لے رکھا ہے۔ اور لوٹانے کی نوبت نہیں آ رہی۔ اب وہ تقاضا کر رہے ہیں اور عجیب عجیب شکلیں بنا رہے ہیں اور باتیں بھی بنا رہے ہیں۔ ان کے تقاضوں کی وجہ سے شاعر کہہ رہ ہے کہ میں ان سب کی شکلیں بھی دیکھ رہا ہوں اور ان کی باتیں بھی سُن رہا ہوں۔ ان سب کا حساب میں ایک چکا ہی دوں گا، یعنی کہ قرض لوٹا دوں گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
عجب اصول ہیں اس کاروبارِ دنیا کے
کسی کا قرض کسی اور نے اُتارا ہے

یہ شعر بھی دو امجدوں کے درمیان پھنسے ہوئے اسلام نے لکھا تھا۔ وہ پرچون کی دکان کیا کرتے تھے اور ان کا ایک ہمسایہ جس کا نام عمر تھا، ان سے ادھار سودا لیا کرتا تھا۔ اسی کے متعلق کہہ رہے ہیں کہ دکانداری کی دنیا کے عجیب ہی اصول ہیں۔ اصل میں عمر کے سسُر ان دنوں وہاں آئے ہوئے تھے، جب انہیں معلوم ہوا کہ عمر فلاں دکان سے ادھار سودا لے لے کر مقروض ہو چکا ہے اور قرضہ چکانے کے قابل نہیں تو انہوں نے ازراہ شفقتِ داماد کے وہ قرض ادا کر دیا۔ اسی پر شاعر نے کہا کہ کسی کا قرض کسی اور نے اتارا ہے۔ یعنی کہ عمر کا قرض عمر کے سسُر نے اتارا ہے۔ شاعر کی دکانداری چلتی رہی اور اس کو ابا سے مار پڑنے کا خطرہ بھی ٹل گیا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جھانکتے تھے ہم ان کو جس روزن دیوار سے
وائے قسمت ہو اسی روزن میں گھر زنبور کا

وڈے شاہ جی یعنی عطاء الحق قاسمی صاحب بتا رہے ہیں کہ جب انہوں نے شریف صاحب کو روزنامہ جنگ کے روزن دیوار سے والے کالم کے ذریعے دیکھنے کی کوشش کی تو ان پر بہت تنقید ہوئی کہ شریف برادران میں ایسا کیا اچھا ہے کہ اتنا اچھا خاصا بندہ مفت میں شریف برادران کا گاما ماجھا بنا ہوا ہے

پس نوشت: وڈے شاہ جی یعنی عطاء الحق قاسمی صاحب ہمارے چھوٹے شاہ جی یعنی یاسر پیرزادہ کے والد ماجد ہیں :۔)
 

ظفری

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ کوئی شعر دے پھر اس کی مزاحیہ تشریح کوئی اور کرے ۔ جو مزاحیہ تشریح کرے وہ ایک اور شعر آگے بڑھا دے ۔ کیوں ۔۔۔ :waiting:
 

شمشاد

لائبریرین
مشورہ تو آپ کا اچھا ہے۔ لیکن اس میں یار لوگ مشکل مشکل اشعار دے کر دوسروں کا امتحان لینا شروع کر دیں گے۔
 
جناب ظفری کا مشورہ بہت مناسب ہے۔
انہی کے دستخط میں منیر نیازی کا یہ شعر ہے:

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
منیر نیازی مرحوم سے معذرت کے ساتھ، اس پر خامہ فرسائی کیجئے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین

عدیل منا

محفلین
عجب اصول ہیں اس کاروبارِ دنیا کے
کسی کا قرض کسی اور نے اُتارا ہے
ایک ہوٹل میں لکھا تھا "کھانا آپ کھائیں، بل آپکا پوتا ادا کرے گا۔ ایک صاحب نے یہ پڑھ کر خوب ڈٹ کر کھانا کھایا۔ جب رخصت ہونے لگے تو ویٹر نے بل کا تقاضا کردیا۔ تب ان صاحب نے اس تحریر کی طرف توجہ دلائی تو ویٹر نے کہا کہ آپ نے جو کھایا اس کا بل تو ہم آپ کے پوتے سے لیں گے۔ ہم تو اس کھانے کا بل مانگ رہے ہیں جو آپ کے دادا کھا کر گئے تھے۔ تب ان صاحب نے ہوٹل سے باہر آکر ایک ٹھنڈی سانس بھری اور یہ شعر کہا۔
 

ظفری

لائبریرین
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
منیر نیازی مرحوم سے معذرت کے ساتھ، اس پر خامہ فرسائی کیجئے۔
منیر نیازی صاحب اس شعر میں فرما رہے ہیں کہ ایک دفعہ میرے کچھ یار دوست دریا پار مجھ سے ملنے آئے ۔ ان کی مہمان نوازی کے بعد جب میں انکو رخصت کرنے گیا تو دریا میں طغیانی آئی ہوئی تھی ۔ بڑی مشکل سے ناؤ والوں کو پچاس روپوں میں قائل کیا کہ ان کو دریا کے اس پار اتار دے ۔ بہاؤ تیز تھا اور کشتی بھی بہت ڈول رہی تھی ۔ میں نے کشتی سنبھالنے میں ملاحوں کی مدد کی ۔ تیز بارش اور طوفانی ہواؤں کے باعث کچھ نظر نہیں آرہا تھا ۔ میں کشتی کے باہر کھڑا ڈولتی ہوئی کشتی کو سہارا دینے کی کوشش کر رہا تھا ۔ کافی دیر بعد کسی ملاح کی آواز آئی ۔ " منیر صاحب ! کنارہ آگیا ، تُسی اتر جاؤ " تو میں نے دیکھا کہ میں کشتی کے باہر نہیں بلکہ اندر کھڑا ہوا تھا ۔ اور ملاح جان جوکھوں میں ڈال کر کشتی کو دریا کے دوسرے کنارے لے آئے تھے ۔ اور جو مہمان اس پار آنے تھے وہ ابھی تک وہیں دریا کے اسُی کنارے کھڑے ہوئے تھے ۔ جہاں سے مجھے انہیں رخصت کرنا تھا ۔ سو میں اس دفعہ سو روپے ان کے ہاتھ میں رکھے اور پھر دریا کے پار ان کو جانے کو کہا ۔:heehee:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

اگلا شعر
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آسکتے ہو تو آؤ​
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے​
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
منیر نیازی صاحب اس شعر میں فرما رہے ہیں کہ ایک دفعہ میرے کچھ یار دوست دریا پار مجھ سے ملنے آئے ۔ ان کی مہمان نوازی کے بعد جب میں انکو رخصت کرنے گیا تو دریا میں طغیانی آئی ہوئی تھی ۔ بڑی مشکل سے ناؤ والوں کو پچاس روپوں میں قائل کیا کہ ان کو دریا کے اس پار اتار دے ۔ بہاؤ تیز تھا اور کشتی بھی بہت ڈول رہی تھی ۔ میں نے کشتی سنبھالنے میں ملاحوں کی مدد کی ۔ تیز بارش اور طوفانی ہواؤں کے باعث کچھ نظر نہیں آرہا تھا ۔ میں کشتی کے باہر کھڑا ڈولتی ہوئی کشتی کو سہارا دینے کی کوشش کر رہا تھا ۔ کافی دیر بعد کسی ملاح کی آواز آئی ۔ " منیر صاحب ! کنارہ آگیا ، تُسی اتر جاؤ " تو میں نے دیکھا کہ میں کشتی کے باہر نہیں بلکہ اندر کھڑا ہوا تھا ۔ اور ملاح جان جوکھوں میں ڈال کر کشتی کو دریا کے دوسرے کنارے لے آئے تھے ۔ اور جو مہمان اس پار آنے تھے وہ ابھی تک وہیں دریا کے اسُی کنارے کھڑے ہوئے تھے ۔ جہاں سے مجھے انہیں رخصت کرنا تھا ۔ سو میں اس دفعہ سو روپے ان کے ہاتھ میں رکھے اور پھر دریا کے پار ان کو جانے کو کہا ۔:heehee:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
منیر نیازی مشکل پسند تھے ۔۔۔ آپ کے بارے میں بھی یہی خیال ہے ہمارا ۔۔۔ :lol:
 
Top