شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے ۔۔۔ازہر درانی

مرا نصیب ہوئیں تلخیاں زمانے کی​
کسی نے خوب سزا دی ہے مسکرانے کی​
مرے خدا مجھے طارق کا حوصلہ ہو عطا​
ضرورت آن پڑی کشتیاں جلانے کی​
میں دیکھتا ہوں ہر اک سمت پنچھیوں کا ہجوم​
الٰہی خیر ہو صیاد کے گھرانے کی​
قدم قدم پہ صلیبوں کے جال پھیلا دو​
کہ سرکشی کو تو عادت ہے سر اُٹھانے کی​
شریکِ جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے
ہمیں خبر ہے لٹیروں کے ہر ٹھکانے کی
ہزار ہاتھ گریباں تک آ گئے ازہر​
ابھی تو بات چلی بھی نہ تھی زمانے کی​
اسی مشاعرے میں ایک اور شعر بہت پسند کیا گیا جو جناب انور سلیم صاحب کا تھا اور جو کچھ یوں تھا​
سلیم ہم بھی خدا پر یقین رکھتے ہیں​
مگر وہ بات کہاں کشتیاں جلانے کی​
واہ کیا غزل ہے یار:love:
ہر شعر کو "ذبردست" کی ریٹنگ(y)
 
Top