صفحہ 80
کر گھر روانہ کرائیں۔ اور پھر مختلف مقامات کی سیر کرنے چلے گئے۔ چراغ جلے کے بعد اسٹیشن پر بہت دیر میں واپس آئے۔ اورہمیں یہاں آ کر معلوم ہوا کہ ہوٹل کے نوکروں نے کھانا کھا کھا خوب تھوکا۔ اور علاوہ اس کے کئی مسافروں سے کڑوی چائے پلانے کی وجہ سے یہ قصہ طول پا گیا۔ حتٰی کہ ایک انگریز نے ہوٹل کے بیرے کو مارتے مارتے چھوڑا۔ ہم چپ تھے اور ہم نے خفا ہو کر چاندنی سے کہا۔
" معلوم ہوتا ہے کہ تیری قطعی شامت آئی ہے اور تو خود مار کھائے گی اور شاید ہمیں بھی پکڑوائے گی۔ وہ بھی محض اپنے موذی پن کی بدولت نہ خود کھائے اور نہ کسی کو کھانے دے۔ آخر اس سے کیا فائدہ۔"
ہمارے اس لیکچر کا اثر الٹا ہوا اور وہ کہنے لگی کہ " تمہاری بلا سے ہم مارے جائیں تو تم ہم کو نہ بچانا۔" ہم تو ایک جگہ بیٹھ گئے اور وہ ترشرو ہو کر پلیٹ فارم پر سیدھی ٹہلنے چلی گئی۔ سب سے پیشتر اس نے یہ موذی پن کیا کہ مسلمانوں کی پانی والہ گھڑونچی کا معائنہ کر کے سارا پانی کڑوا کیا۔ اس کے بعد تو اور بھی غضب ہو گیا اور وہ یہ کہ ریلوے افسروں کے کمرہ کے آگے ایک صراحی رکھی تھی، اس کو بھی کڑوا کیا۔
وہاں سے وہ سیدھی ہندوؤں کے پینے کے پانی کے پاس گئی۔ مگر وہاں سخت پہرہ تھا۔ وہ وہاں گھوم ہی رہی تھی کہ ہم بھی پہنچے اور چونکہ شرارت اس کے چہرے سے عیاں تھی لٰہذا ہم سمجھ گئے اور اس کو پکڑ لائے اور کہا کہ کمبخت تجھ کو یہ آج ہو کیا گیا ہے۔ کیوں مار کھانے کی باتیں کر رہی ہے۔