شبِ وصل آئی ملی شادمانی---برائے اصلاح

الف عین
محمّد خلیل الر حمن
شاہد شاہنواز
--------------
فعولن فعولن فعولن فعولن
----------
مرا بن کے آیا مری بات مانی
شبِ وصل آئی ملی شادمانی
------
حفاظت کروں گا میں خود سے بھی بڑھ کر
مرے پاس تیری ہے جو بھی نشانی
--------
تجھے پیار دوں گا وفاؤں کے بدلے
مجھے دی محبّت تری مہربانی
-----------
مجھے غیر ہو کر بھی اپنا بنایا
مرے دل کو بھائی تری قدردانی
------------
بھروسہ نہ ٹوٹے کبھی مجھ پہ تیرا
کبھی دل میں لانا نہ تم بد گمانی
-------------
کبھی تم سے میری وفا کم نہ ہو گی
کروں گا محبّت کی میں پاسبانی
------------
کبھی لوگ دیں گے ہماری مثالیں
محبّت ہماری رہے جاودانی
------------
محبّت ہو سچی تو رب ساتھ دے گا
فرشتے بھی کرتے ہیں پھر میزبانی
--------------
محبّت پہ تیری یوں ارشد ہوا خوش
اسے یوں لگا لوٹ آئی جوانی
-----------------
 

الف عین

لائبریرین
مرا بن کے آیا مری بات مانی
شبِ وصل آئی ملی شادمانی
------ دو لختی کی کیفیت ہے

حفاظت کروں گا میں خود سے بھی بڑھ کر
مرے پاس تیری ہے جو بھی نشانی
-------- 'اس کی' کے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی

تجھے پیار دوں گا وفاؤں کے بدلے
مجھے دی محبّت تری مہربانی
----------- کس نے محبت دی؟ اس کا ذکر نہیں! فاعل کی وضاحت نہیں

مجھے غیر ہو کر بھی اپنا بنایا
مرے دل کو بھائی تری قدردانی
------------ فاعل؟ ویسے بات سمجھ میں آ تو جاتی ہے لیکن بیانیی کو کمزور کہا جائے گا

بھروسہ نہ ٹوٹے کبھی مجھ پہ تیرا
کبھی دل میں لانا نہ تم بد گمانی
------------- شتر گربہ

کبھی تم سے میری وفا کم نہ ہو گی
کروں گا محبّت کی میں پاسبانی
------------ درست

کبھی لوگ دیں گے ہماری مثالیں
محبّت ہماری رہے جاودانی
------------ دوسرا مصرع دعائیہ ہے؟ شاید مضمون یہ ہے کہ مستقبل میں ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ ہمارے پیار کی مثالیں دیا کریں گے (کبھی سے یہ بات واضح نہیں ہوتی) اور یہ کہ ہماری محبت جاودانی رہے 'گی' ('گی' بھی ضروری ہے)

محبّت ہو سچی تو رب ساتھ دے گا
فرشتے بھی کرتے ہیں پھر میزبانی
-------------- کس کی میزبانی؟

محبّت پہ تیری یوں ارشد ہوا خوش
اسے یوں لگا لوٹ آئی جوانی
---------------- یہاں بھی عجز بیان ہے، 'اس کی جوانی' ہونی تھی
 
الف عین
------------
مرے یار نے یہ مری بات مانی
مرا بن کے آیا ملی شادمانی
------
حفاظت کروں گا میں خود سے بھی بڑھ کر
مرے پاس اس کی ہے جو بھی نشانی
--------
ترا پیار پایا مری خوش نصیبی
مجھے دی محبّت تری مہربانی
-----------
میں اک غیر تھا مجھ کو اپنا بنایا
مرے دل کو بھائی تری قدردانی
------------
بھروسہ نہ ٹوٹے کبھی مجھ پہ تیرا
کبھی دل میں تیرے نہ ہو بد گمانی
-------------
کبھی تم سے میری وفا کم نہ ہو گی
کروں گا محبّت کی میں پاسبانی
------------
ہماری محبّت مثالی بنے گی
سنائے گی دنیا ہماری کہانی
------------
محبّت ہو سچی تو رب ساتھ دے گا
مدد ساتھ ہو گی ترے آسمانی
------------
ہے ارشد کی عادت نبھاتا ہے وعدہ
روایت ہے اس کی یہی خاندانی
----------------
 

الف عین

لائبریرین
مرے یار نے یہ مری بات مانی
مرا بن کے آیا ملی شادمانی
------ شادمانی والا ٹکڑا قافیے کی وجہ سے گھسایا گیا ہے، ورنہ شعر میں تو 'یہ بات' کی وضاحت کی زیادہ ضرورت تھی، 'کہ وہ آیا بن کر مرا' بہتر ہوتا، شادمانی کے ہم وزن کوئی دوسرا لفظ/قافیہ ڈھونڈیں

حفاظت کروں گا میں خود سے بھی بڑھ کر
مرے پاس اس کی ہے جو بھی نشانی
-------- میری بات سمجھے نہیں، میں نے 'اس کی' کو پہلے مصرع میں اضافہ کا کہا تھا یعنی 'میں اس کی حفاظت خود سے بھی بڑھ کر کروں گا' کہنا تھا

ترا پیار پایا مری خوش نصیبی
مجھے دی محبّت تری مہربانی
----------- میں نے فاعل کی کمی کا کہا تھا جس پر عمل اب بھی نہیں ہوا۔
مجھے تو نے چاہا، تری مہربانی
سے سقم دور ہو سکتا ہے

میں اک غیر تھا مجھ کو اپنا بنایا
مرے دل کو بھائی تری قدردانی
------------ تو نے اپنا بنایا... سے فاعل درست ہو جاتا ہے لیکن یہ مضمون کتنی بار آئے گا! یہ شعر نکال دیجئے

بھروسہ نہ ٹوٹے کبھی مجھ پہ تیرا
کبھی دل میں تیرے نہ ہو بد گمانی
------------- درست

کبھی تم سے میری وفا کم نہ ہو گی
کروں گا محبّت کی میں پاسبانی
------------
ہماری محبّت مثالی بنے گی
سنائے گی دنیا ہماری کہانی
------------ دونوں درست اوپر کے اشعار

محبّت ہو سچی تو رب ساتھ دے گا
مدد ساتھ ہو گی ترے آسمانی
------------ اس کو نکال ہی دو

ہے ارشد کی عادت نبھاتا ہے وعدہ
روایت ہے اس کی یہی خاندانی
---------------- ٹھیک
 
الف عین
-------------
مرے یار نے یہ مری بات مانی
بھلائی ہے اس نے وہ رنجش پرانی
------
وہ سینے سے میرے لگا آ کے جیسے
مجھے یوں لگا لوٹ آئی جوانی
----------
میں اس کی حفاظت کروں گا ہمیشہ
مرے پاس اس کی ہے جو بھی نشانی
--------
ترا پیار پایا مری خوش نصیبی
مجھے تو نے چاہا، تری مہربانی
-------------
بھروسہ نہ ٹوٹے کبھی مجھ پہ تیرا
کبھی دل میں تیرے نہ ہو بد گمانی
-------------
ہماری محبّت کا دشمن زمانہ
مصیبت پڑی ہم پہ یہ ناگہانی
------------
کبھی تم سے میری وفا کم نہ ہو گی
کروں گا محبّت کی میں پاسبانی
------------
ہماری محبّت مثالی بنے گی
سنائے گی دنیا ہماری کہانی
------------
ہے ارشد کی عادت نبھاتا ہے وعدہ
روایت ہے اس کی یہی خاندانی
 
Top