شبنم رومانی (مرحوم) کی شاعری: ایک تاثر ۔۔۔۔ ستیہ پال آنند

نوید صادق

محفلین
شبنم رومانی (مرحوم) کی شاعری: ایک تاثر
ستیہ پال آنند
ورجینیا
March 3, 2009



Shabnam Romani
شبنم رومانی جو گذشتہ ہفتے کراچی میں انتقال کر گئے، اردو شعرا کی اس نسل سے تعلق رکھتے تھے، جسے کلاسیکی،نیم کلاسکی، ترقی پسند اور جدیدیت کے ما بین ایک عبوری دور کی نسل کہا جا سکتا ہے۔ اس میں جہاں کلاسیکی اور نیم کلاسیکی غزل کہنے والے شعرا بھی تھے، وہاں ترقی پسند قدروں سے مملو اور عالمی اشتراکی نظام کا خواب دیکھنے والی ایک یا دو پوری نسلیں بھی تھیں، لیکن ابھی ترقی پسند تحریک کے قافلے نے پوری طرح کوچ نہیں کیا تھا کہ جدیدیت نے اسی مقام پر اپنے خیمے گاڑ دیے۔

شبنم رومانی اس قافلے کے فرد بھی تھے اور اس سے کچھ دوری پر رہ کر ابھی کلاسیکی یا نیم کلاسیکی اقدار سے بھی اپنا تعلق بنائے ہوئے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ احمد ندیم قاسمی صاحب کے ساتھ بے حد قریبی تعلقات کے باوجود وہ ترقی پسند تحریک کے رواں دواں قافلے میں ایک سرگرم رکن کے طور پر شامل نہیں ہوئے، لیکن اپنی شاعری میں ترقی پسند اقدار سے انحراف بھی نہیں کیا۔

مغرب میں ڈیوڈ ایف مارکس، جیمز ڈی راتھ، اختر احسن اور دیگر جدیدنقّادوں نے شاعری میں امیجری کے سسٹم کے پیچھے تین طریقے کارفرما دیکھے ہیں۔

الف:
ٹھوس، حقیقی، ہم عصری امیج کا اسی قبیل اور قماش کے امیج سے مقابلہ، موازنہ یا بہم دگر ہم آہنگ ہوجانے کی کیفیّت۔ اس قبیل کے ذیل میں ٹی ایس ایلیٹ کی شہرہ آفاق نظم Love Song of Alfred J Prufrock کی پہلی سطریں آتی ہیں۔

Let's go then you and I
when th' evening is spread out against the sky
like a patient etherised upon a table
ظاہر ہے کہ شام کا ڈھلتے ہوئے دن کے ساتھ مغربی افق پر اپنے پورے بدن کے ساتھ لیٹے ہونا اور کسی مریض کا سرجری سے پہلے اسپتال میں بے ہوشی کی دوا کے بعد بے ہوش اسٹریچر پر پڑے ہونا دونوں جانے پہچانے امیج ہیں۔ شاعر کا کمال صرف ان کے بہم دگر کیفیاتی امتزاج (بیماری، بے ہوشی، بے حسی، جسم اور ذہن کے ماؤف ہونے) کی حالت میں مضمر ہے۔
ب:
دوسری قسم ان امیجز کی ہے، جن میں ایک حقیقی، ٹھوس، ہم عصری امیج کا مقابلہ یا موازنہ ایک غیر مرئی، فرضی یا غیر تصویری، تصور سے کیا جائے۔ اس کی مثال بھی ایلیٹ کی اسی نظم میں موجود ہے، جہاں شہر کی تنگ، پیچ دار، گھومتی ہوئی گلیوں کو ایسے اوٹ پٹانگ، بحث ومباحثے کے مدّ مقابل رکھا گیا ہے جن کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوسکے۔

ج:
تیسری قسم ان امیجز کی ہے جو Surrealistic ہیں، لیکن قاری کے لاشعور میں موجود کسی مذہبی، نسلی یا لوک کہانی یا قصّہ یا ایپک نظم سے ماخوذ کردار یا واقعے سے متعلق یاد کو جھنجھوڑ کر جگادیتے ہیں اور قاری ترسیل کی سطح پر خود تک پہنچنے والے معانی تاّثر میں ڈھال کر اپنے معانی خود اخذ کرتا ہے۔ کربلا کا واقعہ اور ہندوستان میں رامچندرجی کا چودہ برسوں کا بن باس اس کی دو مثالیں ہیں لیکن کسی بھی زبان کا ادب ایسی ہزاروں مثالوں سے بھرا ہوا ملے گا۔

شبنم رومانی کے یہاں ہمیں تینوں قسم کے امیجز اپنی مختلف ذیلی اشکال میں ملتے ہیں۔ ان میں سے کچھ سریلٹسک surrealisticہیں، لیکن نافہم ہونے کی سرحد کو نہیں چھوتے۔ ”جہاں پناہ“ بظاہر ایک ایسی نظم ہے جسے اردو کا قاری سلاطینِ دہلی یا مغلیہ خاندان (سلطنت) میں تاج وتخت کے لیے سازشوں کو پس منظر میں رکھ کر پڑھنے پر ُمصر ہوگا لیکن یہ نظم دراصل شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی زندگی اور تخت سے اتارے جانے کے بارے میں ہے۔ رضا شاہ دنیا کا آخری شہنشاہ کہا جاتا تھا۔ اُس کے جسم کے اندرپہلوی خاندا ن کی دیرینہ خاندانی بیماری سرطان نے پاؤں پھیلا رکھے تھے۔

ا
اندر بڑا سا کن کھجورا
رت جگوں میں
خون سے خالی رگوں میں
پاؤں پیرائے ہوئے

یہ تو رہی اندر کی بات۔باہر ایران کی لگ بھگ ساری آبادی ان کے محافظ امریکی فوجیوں کے اور ان کے خاندان کے لوگوں کے خون کی پیاسی تھی:

ب
اندر دکھن باہر دھواں
کچھ اجنبی قدموں کی چاپ
اور کچھ دبی سرگوشیاں
دزدانہ دم سادھے ہوئے
کچھ سنسناتی گولیاں
ج
چیخیں؟
جو دفنا دی گئی تھیں
اپنی قبروں سے نکل آئی ہیں پھر
خنجر چھپائے زہر کے
اپنے کفن کے چاک میں
د
تاج سریروسلطنت
عنوان اس مضمون کے
اندر بھی دشمن خون کا
باہر بھی پیاسے خون کے

مجھے محسوس ہوتا ہے کہ شبنم رومانی جو تاثّر دینا چاہتے ہیں وہ باہر اور اندر کے دشمنوں کا ہے، چاہے وہ امریکی ہوں یا ایرانی خمینیوں کی قطار۔ کینسر (سرطان) کو میڈیکل سائنس میں ہمیشہ کن کھجوروں کی طرح دکھایا گیا ہے اور اس نظم میں ہمیں اوپر بیان کی گئی تینوں اقسام کے Images اپنی مختلف اشکال میں ملتے ہیں۔

یہ نظم شروع اور اختتام پذیر ایک پنچ لائن پر ہوتی ہے جو ایک ایسی ترکیب ہے جس پر شبنم رومانی کو بے پناہ قدرت حاصل ہے۔ یہ پنچ لائن ہے :

دو دشمنوں کے درمیاں
اک نیم جاں!!

پنچ لائن، والی نظموں میں ان کی نظم ”خیریت نامہ“ بھی ہے، جس میں Surrealistic امیجری کا استعمال بقدرِ ضرورت تو ہے، لیکن انتشار وافشار کی حد تک بڑھنے سے روک دیا گیا ہے۔ وجہ شاید صراحت اور ابہام کے مابین وہ کھچاؤ ہے جو ہر اس شاعر کو سہنا پڑتا ہے، جو کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معانی بہم پہنچانے میں کوشاں رہتا ہے۔ جہاں پناہ کی طرح ہی ”خیریت نامہ“ میں بھی نظم کی ابتدا ”پنچ لائن“ سے ہوئی ہے اور اسی پر اس کا اختتام بھی ہوا ہے:

میں ایک لمبے سفر سے
زندہ، صحیح وسالم
جو واپس آیا
تو کوئی پہچان ہی نہ پایا

سفر کا استعارہ یقینا اردو شاعری کا ایک آزمودہ فارمولا ہے لیکن شبنم نے اس استعارے کو صرف گراؤنڈ ورک یا فاؤنڈیشن کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس نظم میں اب سریلیسٹک surrealistic پیکر تراشی اور تلازمہ بندی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ”جبیں پر آنکھوں کا اگ آنا“،شانوں سے چار بازوؤں کا لٹکنا۔شیشہ تاب آنکھوں میں بالوں کا کھٹکنا‘ کچھ تصویریں ہیں، جو مل جل کر شاعر کو یہ کہنے پر مجبور کرتی ہیں:

کہ جیسے میر ا وجو د مشکوک ہو خدایا
کہ جیسے میں ہوں
کسی کھنڈر کی اکیلی بیری کا کوئی سایہ!

”دقت“ جی ا لانا کی ایک انگریزی نظم کا منظوم اردو ترجمہ ہے جس میں استعارہ وقت کے ایک پرندہ ہونے کا ہے۔ غیبی انگلیاں، اس پر پھڑپھڑاتے ہوئے وقت، کو ”اجنبی زنبیل“ کی مدد سے تخیل سے آزاد کرتی ہیں۔ تب وقت پر تولتا ہے، پر کھولتا ہے اور سایہ فگن ہوتا ہے۔

نظم کی دوسری موومنٹ میں شاعر خود کو وقت کے ”تشخّص“ کے طور پر پہچان لیتا ہے، اور اس مناسبت سے اپنے ”وجود“ اور ”لاوجود“ ہونے کی حالت کو ”تعمیر“ اور ”تخریب“ سے تعبیر کرتا ہے۔ اور جب ان دو Mutually Antagonistic حالتوں کا تجزیہ کرنے میں ناکام رہتا ہے، تو جیسے چیں بجیں ہوکر پوچھتا ہے:

اے وقت! آخر تو ہے کیا
ماں ہے، کہ خونی اژدہا؟

”تاریخ“اسی سلسلے کی ایک اور نظم ہے جس میں تاریخ کو ان لگاتار مرتّب ہوئے سلسلہ وار واقعات کا مرقع بناکر پیش کیا گیا ہے جس میں طاقتور ہمیشہ کمزور کونوالہ بنالیتا ہے اور پھر خود سے زیادہ طاقتور کا نوالہ بن جاتا ہے۔


اک چھپکلی
آہستگی سے رینگ کر
یک لخت جھپٹی
اور اک مکھّی کو نوشِ جاں کیا
تب ایک بلی ّ نے اچھل کر
چھپکلی کو جالیا
اور لقمہٴ تر جان کر
اس کو مزے سے کھالیا

شبنم رومانی کی کچھ مختلف قسم کی نظمیں وہ ہیں، جنہیں میں اپنی اصطلاح میں ”پکچر پوسٹ کارڈ نظمیں کہتا ہوں۔ یہ تصاویر ذاتی تجربے یا مشاہدے پر مبنی ان واقعات، یا حادثات یا اشخاص کی ہیں جنہیں شاعر نے ایک ”تصویر“کی طرح اپنے کیمرے کے لینز میں بند کرلیا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ کیمرہ قلم کا ہے ”جیٹ لیگ“، ”لاہور کی ایک شام“، ”منارہٴ نور“ (جو نذرِ احمد ندیم قاسمی ہے) اس قبیل کی نظمیں ہیں، لیکن ان نظموں میں جو دراصل صراحت سے مملو ہونی چاہئیں، شاعر اپنی تخلیقی بصیرت کی کارکردگی کا مظاہرہ ان سطروں سے کرتا ہے، جو پکچر پوسٹ کارڈ کے بنیادی بلیک اینڈ وہائٹ رنگ میں دیگر رنگوں کی آمیزش سے بنتی ہیں اور اس طرح یہ پوسٹ کارڈ زیادہ Graphic تفصیلات کے حامل ہوجاتے ہیں:

جو تم گزرے ہوئے روز و شبِ غربت کا اک تھیلا لیے
گم صم کھڑے ہو
اپنی پرچھائیں سے بھی کیا تم بڑے ہو؟
یا کسی انجان خواہش سے لڑے ہو؟
یا کسی مورت کی صورت، بیچ رستے میں گڑے ہو؟
(جیٹ لیگ)

یہ ظاہر ہے کہ ان سطروں میں خود سے مکالماتی انداز میں جو تصاویر ہیں، ان سے الگ، لیکن ان کا احاطہ کیے ہوئے کچھ دیگر سطریں بھی ہیں، جو تصاویر نہیں پیش کرتیں، جذبات کی عکاسی کرتی ہیں، لیکن ان کا پکچر پوسٹ کارڈ میں مدغم ہونا رنگوں کو زیادہ پر معنی اور پرکشش بناتا ہے اسی طرح ”لاہور کی ایک شام“ ہے، جو مختصر ترین سطروں یعنی ڈرائنگ کی اصطلاح میں ایک ایک یا دو دو برش سٹروکوں سے مل کر بنی ہیں۔ اس پکچر پوسٹ کارڈ میں امیج، تلازمہ، موومنٹ، ایکشن دست وگریباں ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ا
محبّت
گرم جوشی
لفظ کی معنیٰ فروشی
ڈائیلاگ

ب
نیاز ِبے نیازی
دل نوازی
لہجہ، لہجہ
پیار کا دھیما سا راگ

ج
مرغ
بریانی
دہی
پالک کا ساگ

د
حبیبی
یا حبیبی
گر قبول افتد
زہے عزّوشرف
سر پردہٴ امّ الخبائث
مہرِ تاریخِ سلف
بوتل کا کاگ

یہ نظم ایک ایسی سرّیلسٹک تصویر کے طور پر دیکھی جاسکتی ہے، جس میں ادبا، شعرا اپنی تمام تر نفاستوں اور خباثتو ں کے ساتھ موجود ہیں۔ شعر وشاعری ہے۔ بات چیت ہے، نئے پرانے اسکینڈل ہیں، لذیذ ترین کھانے ہیں، بوتلوں کے کاگ اڑ رہے ہیں اور کراچی سے لاہور گیا ہوا ایک حساس طبع شاعر اس ضیافت کی کہانی ایک ہلکے طنز آمیز لہجے میں بیان کرتا ہے۔

پکچر پوسٹ کارڈ نظموں کے سلسلے میں بہترین نظم ”منارہٴ نور“ ہے، جو احمد ندیم قاسمی کے نام معنون کی گئی ہے، اس نظم میں ”چہرہ“، اور ”آنکھیں“دو فوکل پوائنٹس ہیں،جن پر شاعر کیمرے کا لینز مرکوز کرتا ہے۔ کبھی اسے ان میں ”وفا کی شمعیں“ نظر آتی ہیں، کبھی ”زندگی کا جمالِ نادیدہ“ دکھائی پڑتا ہے، کبھی عصرِ نو کا شعور اور کبھی اس ایک چہرے اور ان دو آنکھوں سے ہزاروں آنکھوں اور ہزاروں چہروں سے رنگ وآہنگ ونور، جھانکتا ہوا نظر آتا ہے۔

یہ نظم پکچر پوسٹ کارڈ ہوتے ہوئے بھی امیجری کی سطح پر اس قبیل سے تعلق رکھتی ہے، جس میں ٹھوس، حقیقی اور طبیعاتی پیکر کا تعلق، موازنہ، مقابلہ یا ہم آہنگی کسی غیر مرئی کے ”غیر تصویری“Concept سے کی جاتی ہے۔ پنچ لائن ”نہ وہ پیمبر نہ وہ فرشتہ‘ ‘ اس تعلق کو مضبوطی عطا کرتی ہے کیونکہ:

وہ ایک انساں
وہ ایک رشتہ
کہ جس کے بارے میں
یہ نوشتہ ہی معتبر ہے

آخری سطور میں احمد ندیم قاسمی کو داستانوں کا مردِ کامل لکھ کر شاعر نے دو نکتے پیدا کیے ہیں۔ پہلا نکتہ تو سیدھا سادہ ہے۔ یعنی احمد ندیم قاسمی کو داستانوں کا مردِ کامل کہہ کر شاعر نے قاسمی صاحب کا رشتہ قرونِ وسطیٰ کے داستان گو حکما سے جوڑا ہے، جو داستانوں کی شکل میں فہم وفراست کے پیغامات اپنے سننے والوں تک پہنچاتے تھے۔ دوسرا نکتہ زیادہ اہم ہے۔ حقیقی زندگی کے ہیروز سے کہیں زیادہ داستانوں کے وہ کردار ہیں، جنہیں ہم نسل کے اجتماعی لاشعور میں موجود پاتے ہیں اور ہر نئے عہد میں ان کے کردار واطوار کی نئی تعبیریں کی جاتی ہیں۔ مزید ازاں کہ شاعر قاری کے ذہن میں اقبال کے فلسفے کے ایک نکتے کو بھی لاشعوری طور پر اجاگر کرگیا ہے چونکہ یہ اس کا شعوری مقصد نہیں تھا، لیکن نظم ایک دعائیہ سطر پر ختم ہوتی ہے، اور شاعر کی موصوف سے عقیدت کی مظہر ہے:

گھنا رہے اس شجر کا سایہ
عظیم انسان ہے خدایا

ایف آئی آر محکمہٴ پولیس کی اصطلاح میں وہ اطلاع نامہ ہے، جو تھانے کے روزنامچے میں کسی حادثے یا جرم کی ”پہلی اطلاع“ کے طور پر درج کیا جاتا ہے۔ تخلیقی قوت کی کارکردگی کس طرح عمل میں آتی ہے، اس کے ظہور پذیر ہونے کا پروسس کیا ہے، یہ پابند نظم اس موضوع کا احاطہ کرتی ہے۔ پہلا شعر شاعر کے مقصد کو پیش کرتا ہے:

شعر کہے اور ایمان اپنا تازہ کیا
ہم نے اپنی قوّت کا اندازہ کیا

اس کے بعد صرف تین اشعار میں صنعت ِحسنِ تقابل Beauty of Comparison and Contrast کے حوالے سے اس ذ ہنی کیفیت کا تجزیہ کیا گیا ہے، جو شاعر پر شعر کہتے ہوئے طاری ہوتی ہے:

پہلے تو اپنی شیرازہ بندی کی
پھر خود ہی برہم اپنا شیرازہ کیا
پہلے دل کے سارے دریچے بند کیے
پھر گھبرا کر واگھر کا دروازہ کیا
اپنی ہی عظمت کی خاطر قتل ہوئے
اور بلند اپنے ہی خلاف آوازہ کیا

میرے خیال میں دیوارِ گریہ یروشلم کے حوالے کے ساتھ یا یروشلم کے حوالے کے بغیر، تخلیقی قوت کی کارکردگی کے عمل کے موضوع کو لے کر لکھی ہوئی نظم ہے، جو سرّیلسٹک امیجری کا خاطر خواہ استعمال کرتی ہے۔ ماتھے پر نیلی ناگن کا لہرانا، آنکھوں کے زندانوں میں حیرت کی شمعیں جلنا، پہلے دو امیج ہیں۔ ماتھے اور آنکھوں کے دائرے میں یہ پہلا ایک سطری گولائی کا خاکہ ہے، جو ایک ہی برش اسٹروک سے تیار کیا گیا ہے۔ موئے قلم پھر چہرے سے نیچے کی طرف آتا ہے، اب اس کی گرفت میں سینے کی اڑتی مٹی کا چہرے پر ناموزوں مصرعے لکھنا، ایک ایسا امیج ہے جو دل کی ہلچل کا پتا دیتا ہے۔

اس کے بعد آنے والا امیج ”کسی کا دروازے پر دستک دینا“ پچھلے امیجز کے ساتھ مل کر وہ منظرنامہ تیار کرتا ہے، جو شعر گوئی سے پہلے کی ذہنی کیفیت کا آئینہ دار ہے۔ لیکن ”باہر کے سناّٹے“ کے بالمقابل”اندر کا شور“ ہے:

ایسا شور ہے، ایسا شور ہے
جیسے اب اک پیلی، آندھی
جلتی بجھتی آنکھوں کی یہ شمعیں لے کر
چہرے کی رنگت کی صورت
اڑ جائے گی

یعنی ”حیرت کی شمعیں“ جو نظم کی تیسری سطر میں ”آنکھوں کے زندانوں“ میں قید تھیں، اب اس آندھی کے ساتھ آزاد ہوکر جلتی بجھتی ہوئی اڑ جائیں گی۔ یہ ”پیلی آندھی“ کیا ہے؟ کیا یہ تخلیقی قوت کا وہ بے پناہ طوفان ہے، جس کے بغیر ”اندر کا شور“ اندر ہی رہ جاتا ہے۔ کیا یہ وہ ”لمحہٴ تخلیق“ ہے۔ جس کے بغیر سب کچھ ناموزوں، ادھورا رہ جاتا ہے؟ شاعر کا جواب اثبات میں ہے۔ کیونکہ نظم کی آخری تین سطریں اس پر دال ہیں کہ یہ پیلی آندھی :

صحراؤں میں گھوم گھوم کر
دریاؤں کے ہونٹ چوم کر
دیوارِ گریہ کی جانب مڑ جائے گی

تو کیا دیوارِ گریہ، صرف اس بات کا سمبل ہے کہ شعر کہنے کیلیے رونا یا رو سکنا ضروری ہے؟ اس سوال کا جواب بھی اثبات میں ہے۔

مجھے یہ کہنے میں بالکل عار نہیں ہے کہ شبنم رومانی جہاں اپنی نظموں میں اکثر وبیشتر سریلسٹک امیجری کا استعمال کرتے ہیں وہ اپنی غزلوں میں اس عادتِ ثانیہ سے صاف پہلو بچا جاتے ہیں۔ چونکہ کسی بھی شاعر کی شعری حسّیت ایک Unified اکائی ہے، اس لیے یہ کیسے ممکن ہے؟ اس سوال کا جواب میرے پاس سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہے کہ وہ غزل کے اس مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں، جس میں نصابی مضامین کلاسیکی بھی ہیں اور عصری بھی۔ وہ دونوں سے اس حد تک متاثر ہیں کہ وہ ان کا دامن ترک نہیں کرسکتے۔ اس لیے مجھے یہ کہنے میں بالکل تاّمل محسوس نہیں ہوتا کہ شبنم رومانی کی غزل گوئی اور نظم نویسی میں نہ صرف Stylistic Hiatus ہے، بلکہ امیج، اشارے، علامتیں، تمثالیں اور تلازمے دونوں اصنافِ سخن کے اسٹیجوں پر مختلف ڈرامائی کرداروں کی طرح اپنے اپنے ملبوسات پہن کر وارد ہوتے ہیں۔ ان کے پہلے مجموعوں ”جزیرہ“ اور ”تہمت“ کو پڑھنے کے بعد مجھے محمد علی صدیقی صاحب کی اس رائے سے اتفاق ہے:

”ان کے یہاں روایت کے ساتھ بہت لطیف اور واقعیت پسندانہ سلوک ملتا ہے۔ وہ ماضی اور حال میں کسی ایک کے نہ ہوکر رہ جانے کے بجائے اپنی شاعری میں دونوں زمانوں اور حالتوں کے مابین ایک ایسے لمحہٴ خود آگہی کی جانب بڑھتے ہیں، جو بالآخر عصری حسّیت ہی کا حصہ بن جاتا ہے۔“ (”جزیرہ “ کا پیش لفظ)

یہ رائے ایک معتبر قلم سے نکلی ہے، میں صرف اس قدر ترمیم کرنے کی جسارت کروں گا کہ اس کا اطلاق ان کی غزلیات پر سو فیصد کی حد تک ممکن ہے، لیکن نظموں میں شاید اس حد تک ممکن نہ ہوسکے۔

بحث کو طول دینا ضروری نہیں ہے، پھر بھی چونکہ بات غزل کی لفظیات سے متعلق ہے، جس میں کلاسیکی اور عصری، دو مختلف شعبے ہیں، جن میں تضاد بھی ہے اور تصادم بھی اس لیے یہ کہنا اہم ہوجاتا ہے کہ اگر شبنم رومانی لفظیات کے استعمال میں روایت کا دامن نہیں چھوڑ سکتے، تو اس کی وجہ کیا صرف روایتی غزل کے مکتب ِفکر میں ان کی تربیت ہے؟

مجھے لگتا ہے کہ روایتی لفظیات کے استعمال کے باوجود وہ ”لفظ “ کو ”معنی“ پر فوقیت نہیں دیتے۔ ان کے اشعار میں معنی ہی شعر کو توانا، مستحکم اور پائیدار بناتے ہیں۔ معنی کی اثر انگریزی اور اس کے حاوی عناصر یقینا تلازمہ بندی کا سہارا لیتے ہیں، اور اس میں شبنم رومانی مشّاق ہیں۔ ساسیر نے بھی معنی کو لفظ پر فوقیت دی ہے۔ وہ اس باہمی کشمکش کو ”معنی نما“ اور ”تصور نما“ کہتے ہوئے یہ رائے دیتا ہے کہ اگر ”معنی“ اس جبریاتی زنداں سے باہر آجائے، جس میں اسے ”لفظ“ نے باندھ رکھا ہے، تو تخلیق کا معنیاتی نظام تبدیل ہوجاتا ہے۔ کچھ اشعار جو میں نے چنے ہیں، اس بات کی تائید کرتے ہیں:

آئینہ دشمنِ صورت کی طرح سامنے ہے
وہم اک زندہ حقیقت کی طرح سامنے ہے

نرگسیّت کہاں کہ میں نے ابھی
آئینے کو تو پیار بھی نہ کیا

آئینہ بے چارہ خود ہے زنگ آلود
بجھ جائے گا چہرے روشن کرنے میں

سنگِ چہرہ نما تو میں بھی ہوں
دیکھیے، آئینہ تو میں بھی ہوں

(چاروں اشعار ”آئینے“ کے روایتی استعارے کو استعمال کرتے ہیں، اور روایت کے مطابق آئینے کو محبوب کے حوالے سے دیکھنے کے متقاضی تھے، لیکن ان کا استعمال معنی کی لفظ پر فوقیت کے حوالے سے کس قدر تازہ اور شفاف ہے!)

میں نے پہنائی تھی ان ہاتھوں سے تجھ کو یہ قبا
یار! پھر تجھ کو حیا کیوں نہیں آتی مجھ سے؟

جولا کے چھوڑ گیا تجربوں کے جنگل میں
اک ایسے تجربہٴ خال وخد سے گزرا ہوں

اک طوفان اور ایک جزیرہ حائل ہے
ڈوبنے اور سمندر پار اترنے میں

چپ چاپ سرِدشِت غزل سوچ رہا ہوں
کیسے ہو یہ آہو مری آنکھوں میں نظر بند!

ان اشعار میں روایتی اور ٹکسالی سکہ بنداستعاروں ”قبا“ ”خال وخد“، ”طوفان“، ”دشت“، ”آہو“ وغیرہم کا استعمال انہیں کوڑی کا مال بنادیتا، اگر شبنم رومانی اپنے اس فن میں ماہر نہ ہوتے کہ معانی الفاظ کے احاطے سے باہر آکر استعارے کو Contiguity کی مختلف جہتیں بخشتے ہوئے قاری کو ایک ایسا تصویری مفہوم فراہم کرتے ہیں کہ وہ عش عش کر اٹھتا ہے۔

میں نے غزل کے بارے میں اپنے کئی مضامین میں یہ بات بار بار دہرائی ہے کہ استعارے کی Contiguity اردو غزل کا مزاج ہے۔ شاعر کی قدرت اس بات میں ہے کہ وہ اس کی کون سی جہتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے ”امیج پیٹرن“ میں رنگ بھرتا ہے۔ اردو کی قدیم شاعری کا دامن ان وصفوں سے بھرا ہوا ہے۔ استعارے اور تلمیحات، کنایہ، مجازاور تشبیہات، نہ صرف مل جل کر ایک نئی جمالیاتی فضا فراہم کرتے ہیں بلکہ نئے معنوی پھیلاؤ اور تخلیقی ہئیتوں کیلیے بھی راستہ ہموار کرتے ہیں۔ اگر امیج پیٹرن اپنے Contiguous پھیلاؤ میں ایسی دو چار جہتوں کا حامل ہوجائے تو اس سے نئی لسانی، تلمیحی، صنمیاتی اور کیفیاتی تصویر کشی ہوتی ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار دیگر صفات کے علاوہ اس وصف کے بھی حامل ہیں۔

دیوار چٹخ رہی ہے مجھ میں
صحرا کو مکان لکھ رہا ہوں

پتھّر ہیں تمام لفظ لیکن
میں پھول سمان لکھ رہا ہوں

ہر اک چہرے پہ ہیں دہری نقابیں
دھواں اس شہر کے اندر ہے کیسا؟

حسن کی سنگت، پھول کی رنگت سے مس ہوکر
شبنم کا آنسو آویزہ ہوجاتا ہے

میرا دشمن ہے دوسرا ہر شخص
اور وہ دوسرا تو میں بھی ہوں

پڑھتے چلو وہ اِسم کہ شہرِ طلسم ہے
گر خیر چاہتے ہو، پلٹ کر نہ دیکھنا

بقول احمد ندیم قاسمی شبنم رومانی کی شاعری ”سچی اور اچھّی“ شاعری بھی ہے، اور دیانت دارانہ شاعری بھی۔ میں اس میں صرف ایک جملے کا اضافہ کروں گاکہ: ”یہ ایک اچھے امیجسٹ شاعر کی شاعری ہے۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکریہ وائس آف امریکہ: اردو سروس
 

الف عین

لائبریرین
نوید۔۔ اس مضمون کا ماخذ۔۔۔؟
کیا اس کو نقل کیا جا سکتا ہے؟ کسی حوالے سے۔ ’سمت‘ کے گوشے کا پلان بن رہا ہے۔ فیصل عظیم ان کے صاحب زادے نے بھی مواد بھیجنے کا کہا ہے۔
 
Top