شاید اک آخری ندا ہے اب - سلیم غوری

کاشفی

محفلین
غزل
(سلیم غوری)

شاید اک آخری ندا ہے اب
آزمائش ہے ابتلا ہے اب

جینا مشکل سے اور مشکل ہے
زندگی کیا ہے بس سزا ہے اب

دین و اقدار کھو گیا سب کچھ
غیر پر ملک بھی فدا ہے اب

شرم و اخلاق کا جنازہ ہے
کچھ نہ باقی رہی حیا ہے اب

اب عدو دیس میں گھسا بیٹھا
کیا کسی نے بھی کچھ کہا ہے اب؟

گرم لُو اور تپ رہی دھرتی
خون سے سرخ یہ سما ہے اب

خود کشی کا چلن بڑھا جائے
زندگی میں نہ کچھ وفا ہے اب

میری جانب سے پھر سے چاہت اک
دوسری طرف پھر جفا ہے اب

سفر جاری فنا کی جانب ہے
نام باقی فقط خدا ہے اب
 
Top