شاہ بابا اور میں

سیما علی

لائبریرین
میں بھی پیاسی در در بھٹکتی اس جہانِ حیرت میں ڈوبتی اُبھرتی رہتی۔ اندر پارے کی مانند چھلکورے لیتی اک بے قراری تھی جو وقتاََ فوقتاََ لکھنے پر مجبوری کرتی رہتی اور میں قلم کے ذریعے اس درد کو اس رابطوں کی دنیا میں اسکرینوں پر پھیلا دیتی۔ لوگ واہ واہ کرتے سر دھُنتے مگر۔۔ اپنی یہ حالت تھی
" کیا حال سناواں دل دا
کوئی محرم راز نہ مِلدا"

اک روز مل ہی گیا۔۔
یونہی چلتے چلتے
ہاں چلتے چلتے یونہی کوئی مل گیا تھا۔۔ یونہی کوئی۔۔
پھر ایسا مِلا کبھی نہ جُدا ہونے کے لیے
اس نے تھام لیا ہمیشہ کے لیے
چلتی راہیں تھم گئیں
گردشِ دوراں کے نئے باب کھُلنے لگے۔۔ وہ تھا ہی ایسا 'نایاب''

ظالم نے دل کی دُنیا ہی لُوٹ لی۔ اب کہیں خاک کی چادر اوڑھے لیٹا ہے مگر ہر دھڑکن کے ساتھ میرے اندر بھی دھڑکتا ہے۔ واقعی 'فقیر' کو ٹھہراؤ نہیں اس کی ڈیوٹی چلتی ہی رہتی ہے۔ اللہ نے کچھ نفوس صرف اپنے لیے بنائے ہیں شاید وہ انہیں میں سے ایک میرے لیے "آبِ حیات" بن کر آیا اور "رموزِ حیات" سکھا کر پڑھا کر میرے اندر انڈیل کر بے نیازی سے آگے چل دیا۔

وہ نام کا ہی نہیں کردار کا بھی نایاب تھا۔ 'رب' نے اسے واقعی نایاب ہی بنایا تھا۔
ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں
وہ میرے لیے بھی 'نایاب' ثابت ہوا۔ وہ ایسا پارس پتھر تھا جس نے چھُو کر مُجھے کندن کردیا اور خود کو وہی پتھر کا پتھر کہتا رہا۔ نہیں میں پتھر ہوں تم کُندن ہو۔ مگر یہ کُندن تو اسی کے لمس کا مرہونِ منت ہے۔
مگر فقیر کہاں مانتا ہے۔
کورا کاغذ تھا یہ من میرا
لکھ دیا نام اس پہ تیرا

: نایاب۔۔ 'سید نایاب حسین نقوی' نام تھا ان کا
نام اور کردار کے سید۔۔ سید یعنی سردار، بادشاہ، سائیں۔۔ میرا روحانی سِر کا سائیں۔۔
میرے ماں باپ نے مجھے جنما اور عرش سے فرش پر لے آئے،،
اس نے مجھے پھر سے جنما اور فرش سے عرش کی راہ دِکھلا دی۔
میں تھا کیا مجھے کیا بنا دیا
مُجھے عشقِ احمدﷺعطا کیا
ہو بھلا حضورﷺکی آل کا
مُجھے جینا مرنا سِکھا دیا
کیا 'فقیر' ایسے بھی ہوتے ہیں؟
بالکل ایسے ہوتے ہیں فقیر جسے چاہیں ایسی انمول دولت دے کر اپنی راہ لیتے ہیں اور بندہ حیران پریشان کھڑا رہتا ہے ۔۔۔۔۔
 

نور وجدان

لائبریرین
شاہ بابا اور میں
چھٹی نشست!

اپنی ذات سے عشق سچا، باقی سب افسانے

یہ وہ نغمہ ہے، جو ہر ساز پر نہیں گایا جاتا


شاہ بابا سے ملاقات کی یہ پانچویں نشست تھی اور میرے اندر سکون کی سرمدی لہریں دم ہمہ دم ہلکورے لینے لگیں.میں خود بخود ان کی جانب کھنچنے لگی، ان سے بن دیکھے کی محبت ہونے لگی. عشق بن دیکھے کا سودا تو ہوتا ہے. مجھے احساس تو نہیں تھا کہ وہ میرا آئنہ ہیں مگر ان کے سامنے بیٹھے اپنے سارے گند مند، اپنے دکھ اور زخم اور آٹے میں نمک برابر اچھائیاں دکھنے لگیں. درویش کبھی آپ کو یہ نہیں کہے گا کہ تم میں برائی ہے، وہ آپ کو ہمیشہ یہی کہتا دکھے گا آپ مکمل ہو، اچھے و پیارے ہو. میرے بابا جان نے بھی میرے ساتھ ایسا معاملہ کیا. میرے گندے مندے، گناہوں سے لتھڑے وجود کو سینے سے لگا کے اتنا پیار دِیا کہ گنہگاری کا زیاں جاتا رہا اور سرشاری کا نشہ بڑھتا رہا. اسی احساس محبت میں بلک بلک کے رونے والی نور کو سینے سے لگالیا اور کہنے لگے

پتر! زخم کو ناسور بننے سے پہلے سینے سے نکال دو .... ان سے پس، پیپ بہنے لگے تو ڈپریشن، انگزائٹی جیسے مرض روح میں ٹروجنز بھر دیتے ہیں...

میں نے بلکتے، سسکتے وجود کے ساتھ آنکھیں کھول کے ان کو دیکھا اور وہ مجھے پیار سے دیکھ کے کہنے لگے

"سوچ کے پرندوں کو آزاد کردو ...، خیال کو قفس کی قید سے نکال دو، اپنی روح کو ہماہمی کی بندش سے نکال دو .... "

بابا، میں بُہت دُکھی ہوں
سماج ظالم ہے
احساس کی کچلن سے زخمی ہوں
روح بہت بوجھ سے بھاری ہے
دکھاں تو ہاری آں

بابا: آج دکھوں کو بہہ جانے دو
خالی دل تو خُدا کا گھر ہوتا ہے


میں نے محبت کا ذائقہ چکھا. یہ آبِ موت میرے لعاب دہن سے گزرتا سرطان زدہ کرتا مجھ پر طاری ہونے لگا. میں شجرِ سایہ دار مگر مرجھانے لگا.جس سے محبت ہوئی، وہ پہلی نظر کی محبت تھی اور عشق کی بیل نے من مندر اجاڑ دیا. عشقہ کی بوٹی نے مجھے دنیا سے الگ تھلگ کرکے خود میں گُم کردیا

بابا: بٹیا جی، محبت تو مکمل کرتی، فنا کرتی ہے اور خدا کی جانب دھکیل دیتی ہے ... وہ بلاتا ہے "نفس مطمئمہ لوٹ آ، میری طرف، میری جانب

میں: فنا تو میں نہ جانے کتنی مرتبہ ہوئی
کتنی تمناؤں کے سینہ چاک کیا اور کچھ نہ نکلا ...
شاہ بابا: چاک تمنا کو رفو کر چلے
سکھوں کی چھاؤں جینے چلے

بٹیا جی! تمنا اک بچے کی طرح پلتی ہے ماں کی کوکھ میں. ماں مامتا سے بھرپور اس کے ناز نخرے اُٹھاتی ہے. جب یہ بچے سے جوان صورت ہوتی ہے تو سر اُٹھا کھڑی ہو جاتی ہے... تو "ماں " سے بغاوت کرتی ہے اس لیے تو خدا نے سورہ الفجر میں فرمایا ہے


يٰۤاَيَّتُهَا النَّفۡسُ الۡمُطۡمَئِنَّةُ ۞
ارۡجِعِىۡۤ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرۡضِيَّةً‌ ۞



محبت تو تمنا کے فنا ہونے کے نام ہے. فنائیت کے بعد طمانیت ہے. اللہ جل شانہ نے فنا ہونے والی روح کو شدت و وارفتگی سے پُکارا ہے اس آیت میں ... وہ جو فنا ہوتے ہیں ان کو تو علم نہیں ہوتا کہ جل جل دھواں کس سمت جانا ہے تو پھر وہ فرماتا ہے


"اس کے چراغ کی لو نہ شرقی ہے نہ غربی ہے "

پھر کہتا ہے

" ہر جانب میرا چہرہ ہے اور ہر سمت میں ہوں "


جو بندہ، بندگی میں اس اسرار کو پالیتا ہے اس کے لیے محبت "جلن " نَہیں بلکہ طمانیت بن جاتی ہے ....یہی ذات سے عشق ہے

اگر اپنی ذات سے عشق سچا ہوگا جب ہی کسی دوسری ذات کے بارے سوچا جا سکے گا! جسے ٹھنڈے پانی کا ذائقہ پتا ہوگا وہی کسی دوسرے کو ٹھنڈا پانی پلائے گا.
 
Top