شامیں اداس میری ، صبحیں ملال تیرا----برائے اصلاح

الف عین
ظہیراحمدظہیر
محمّد احسن سمیع راحل
شاہد شاہنواز
------------
مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن
-----------
شامیں اداس میری ، صبحیں ملال تیرا
آ جا کہ مطربِ دل سُر میں ہو نغمہ پیرا
--------
اے کاش میں ہی ہوتا تیرے قریب یارا
ہوتا اگر نہ کوئی پرسانِ حال تیرا
--------------
تاریک یہ جہاں ہے تیرے بغیر آ جا
آ جا کہ زندگی ہے غم کا سیہ اندھیرا
-----------
تُو ہے تو ہیں مکمّل رنگیں حسیں نظارے
یہ باغ ، یہ بہاریں وہ ابر کا پھریرا
-----------
جب سوچتا ہوں کوسوں رہنا ہے دور تجھ سے
چھاتا ہے جیسے میری آنکھوں تلے اندھیرا
----------یا
جب سوچتا ہوں ایسا بیٹھے ہو دور مجھ سے
آتا ہے پھر تو میری آنکھوں تلے اندھیرا
------------
ہم تم ملیں گے جس دن وہ دن شمار ہو گا
معمورہِ جہاں میں اک ضو فشاں سویرا
--------------
بھولا نہیں ابھی تک وہ مشک فام زلفیں
جن سے مہک رہا ہے اب بھی دماغ میرا
-----------
ارشد ہے تیری رہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھا
اس کی تو موت بھی ہے اب انتظار تیرا
----------یا
ارشد کی زندگی اب تیری ہی منتظر ہے
اس کی ہے موت کو بھی اب انتظار تیرا
-------------
-----------
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ارشد بھائی ، اچھی کاوش ہے !
اگر آپ میری طرف سے کسی رہنمائی کے خواہش مند ہیں تو میں یہ مشورہ دوں گا کہ آپ لکھنے کے ساتھ ساتھ پڑھنا شروع کریں۔ بلکہ لکھنے لکھانے کو کچھ دن کے لئے موقوف کرکے کلاسیکی ادب ( نثر اور شعر) کے ساتھ ایک دو ماہ گزاریں ۔ آپ کی شاعری کو جتنا فائدہ مطالعے سے ہوگا اتنا کسی کے سمجھانے یا بتانے سے سے قطعی نہیں ہوگا ۔ آپ کی شاعری کو زبان کی باریکیاں اور رموز "سیکھنے" کی شدید ضرورت ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
تیرا میرا کے ساتھ پَیرا قافیہ نہیں ہو سکتا، اس میں واضح زبر ہے۔
اس غزل میں نسبتاً کم اغلاط ہیں اور ہم تم ملیں گے... والا شعر بطور خاص پسند آیا۔
فام physical appearance کی صورت میں استعمال کیا جاتا ہے، مشک فام اس لحاظ سے غلط ترکیب ہے۔
یارا کے معنی قابو، اہلیت، وغیرہ ہے، یہاں شاید آپ نے 'میرے یار' کے لیے استعمال کیا ہے جو شاید پنجابی میں چل جاتا ہو، اردو میں نہیں۔
ظہیر میاں کا مشورہ صائب ہے
غزل روائز کر کے پھر پیش کریں
 
الف عین
-----------
تینوںاشعار کے متبادل
-------------
شامیں اداس میری دل میں خیال تیرا
تجھ کو بلا رہا ہے اس رات کا سویرا
-----------
تجھ کو بلا رہا ہے دل یہ اداس میرا
--------------
اتنا مجھے بتا دو میرے حبیب آکر
ایسے کبھی ہوا ہے دل بھی اداس تیرا
--------------
بھولا نہیں کبھی بھی اب تک ہے یاد مجھ کو
سایہ تھا کس قدر تیری زلفوں کا گھنیرا
----------
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مطلع کے چاروں ٹکڑوں میں باہم ربط نہیں
دوسرے شعر میں شتر گربہ ہے
تیسرے شعر میں 'کبھی بھی' مجھے پسند نہیں آتا، دوسرا مصرع غلط مقام پر ٹوٹ رہا ہے
 
الف عین
-------
تینوں شعر ایک بار پھر
-------------
پہلا شعر
---
جیسی سیاہ راتیں ، دل میں وہی اندھیرا
سُونا پڑا ہے ایسے تجھ بِن گھر یہ میرا
-------یا
تیرے بغیر رہتا دل ہے اداس میرا
اس میں رچا بسا ہےایسے جو پیار تیرا
----------یا
ہوتا ہے جب اندھیرا کٹتا ہے دل یہ میرا
ویران ہو گیا ہے تجھ بن تو گھر یہ میرا
-----------
دوسرے شعر کے متبادل
--
تیرے لئے ہے جیسے دل یہ اداس میرا
ہوتا ہے اس طرح کیا دل بھی اداس تیرا
-------------یا
تیرے بغیر جیسے چھائی یہاں اداسی
ایسے کبھی ہوا ہے دل بھی اداس تیرا
----------------یا
تیرے بغیر میرا جینا ہوا ہے دوبھر
آیا خیال تجھ کو ایسے کبھی ہے میرا
----------
تیسرے شعر کے متبادل
-----------
مجھ کو عزیز تھا وہ کیسے میں بھول جاتا
زلفوں کا تیری سایہ وہ اس قدر گھنیرا
----------
اب تک ہیں یاد مجھ کو زلفیں تری معطّر
زلفوں کا تیری سایہ تھا کس قدر گھنیرا
------------------
میری خراب قسمت محروم ہو گیا ہوں
زلفوں کا تیری سایہ تھا کس قدر گھنیرا
----------
 

الف عین

لائبریرین
تین تین متبادل آپ نے موزوں کر دیے، مگر ان میں سے کون سا آپ کو پسند ہے اور کون سا اغلاط سے عاری ہے؟ آپ نے نثر کر کے دیکھا ہے ان اشعار کو؟ کیا ہر شعر کی نثر بات مکمل کرتی محسوس ہوتی ہے؟
جیسی سیاہ راتیں ، دل میں وہی اندھیرا
سُونا پڑا ہے ایسے تجھ بِن گھر یہ میرا
------ جیسی کے ساتھ وہی؟ ویسا ہی کا مقام ہے
دوسرا مصرع بحر سے خارج

تیرے بغیر رہتا دل ہے اداس میرا
اس میں رچا بسا ہےایسے جو پیار تیرا
--------- پہلا مصرع رواں نہیں، دوسرے میں 'ایسے' کی توجیہہ نہیں
ہوتا ہے جب اندھیرا کٹتا ہے دل یہ میرا
ویران ہو گیا ہے تجھ بن تو گھر یہ میرا
----------- دوسرے مصرعے میں 'تو' بھرتی کا لگ رہا ہے

دوسرے شعر کے متبادل
--
تیرے لئے ہے جیسے دل یہ اداس میرا
ہوتا ہے اس طرح کیا دل بھی اداس تیرا
-------------اداس تیرا، اداس میرا پسند نہیں

تیرے بغیر جیسے چھائی یہاں اداسی
ایسے کبھی ہوا ہے دل بھی اداس تیرا
---------------- صیغہ مختلف ہے، 'اداسی چھائی ہے' یا چھا گئی ہے ' ہونا تھا
یہ بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ ایک ہی لفظ دونوں مصرعوں میں دہرایا جانا اچھا نہیں لگتا

تیرے بغیر میرا جینا ہوا ہے دوبھر
آیا خیال تجھ کو ایسے کبھی ہے میرا
---------- دوسرے مصرعے کی روانی پر غور کریں

تیسرے شعر کے متبادل
-----------
مجھ کو عزیز تھا وہ کیسے میں بھول جاتا
زلفوں کا تیری سایہ وہ اس قدر گھنیرا
----------
اب تک ہیں یاد مجھ کو زلفیں تری معطّر
زلفوں کا تیری سایہ تھا کس قدر گھنیرا
------------------
میری خراب قسمت محروم ہو گیا ہوں
زلفوں کا تیری سایہ تھا کس قدر گھنیرا
----------
ان تینوں میں ایک ٹکڑا مشترک ہے، جو رواں نہیں، تیری زلفوں کا سایہ بہتر ہے یا زلفوں کا تیری سایہ؟ پھر زلفیں ہی دونوں مصرعوں میں لہرا رہی ہیں!
ان گیسوؤں کا سایہ تھا..... بہتر مصرع نہیں؟( وہ اس قدر گھنیرا.. تو بات ہی مکمل نہیں ہوتی)
کیسے میں بھول... کی بہ نسبت 'میں کیسے بھول' رواں نہیں؟
اولی' مصرعے ٢ میں تیری معطر زلفیں کی بجائے زلفیں تری معطر مجہول لگتا ہے
٣ میں بات مکمل نہیں
صرف اول ہی قبول کیا جا سکتا ہے' میں کیسے' ترمیم کے ساتھ
اب آپ ہی غور کریں کہ کیا مجوزہ مصرعے آپ کو نہیں سوجھ سکتے تھے؟ بلکہ ان غلطیوں کا خود احساس نہیں کر سکتے تھے؟
 
Top