شاعروں اور ادیبوں کے چونکا دینے والے اسکینڈلز

راشد اشرف

محفلین
چند معروضات
راقم الحروف نے اس کتاب کو بہت غور سے پڑھا ہے، یقین کیجیے کہ اس کتاب میں کسی شاعر یا ادیب کا کوئی اسکینڈل نہیں ہے، یہ محض ادبی چپقلش کی روداد ہیں اور زیادہ تر ایسے انٹرویوز پر مشتمل ہے جو زیادہ تر لاہور کے مختلف اخبارات اور رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس کتاب میں بہت کچھ ایسا ہے جو پڑھنے والے کے لیے ادبی معلومات کے اعتبار سے نہ صرف نیا ہے بلکہ معلوماتی بھی ہے۔
ایک اہم بات البتہ یہ ہے کہ کتاب کے مرتب نے اس کی فروخت کو یقینی بنانے کے لیے عنوان ہی کچھ ایسا منتخب کیا ہے اور جو کمی رہ گئی تھی اسے کتاب کے معنی خیز سرورق سے پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔
زیر نظر کتاب میں سبھی کچھ ہے سوائے اسکینڈلزکے۔ چند مقامات پر کچھ بھرتی کی چیزیں بھی ہیں مثلاً جاوید شاہین کی خودنوشت میں بیان کردہ کچھ منتخب واقعات جن کو دوہرانے کی ضرورت نہیں تھی۔اگر اسی فارمولے کو اپنایا جائے تو جوش کی ”یادوں کی برات “، آغا اشرف کی ”ایک دل ہزار داستان“اور ساقی فاروقی کی ”پاپ بیتی “ سے لے کر دیگر کئی خودنوشتوں سے اسی قسم کے ٹکڑے بھی شامل کیے جانے چاہیے تھے۔ کتاب میں اقبال ساجد کے بارے میں ایک طویل مضمون شامل ہے جو کتاب عنوان یعنی شاعروں اور ادیبوں کے اسکینڈلز سے بالکل میل نہیں کھاتا، اقبال ساجد کی زندگی کم و بیش اسی ڈگر پر رہی جن راہوں پر ساغر صدیقی چل نکلے تھے، مضمون خاصا معلوماتی ہے۔
اس بات کا تذکرہ بھی اہم ہے کہ اس کتاب میں شامل بعض انٹرویو ادیبوں اور شاعروں نے یقنی طور پر خود اپنی مرضی سے دیے تھے، گویا کہ انہوں نے اپنے اور دوسروں کے بارے میں بے لاگ تبصرے کرکے تنازعات کو خود دعوت دی۔ ملتان کی شاعرہ (؟ ) ڈاکٹر غزالہ خاکوانی جب چٹ پٹی خبریں شائع کرنے والے ایک اخبار نویس (ادیب جاودانی) کو دوران انٹرویو اپنے منہ سے کہہ رہی ہوں کہ " مجھے
میرے عاشقوں نے بہت نقصان پہنچایا ہے" تو اس رویے کو ہم کیا کہیں گے۔
جن احباب نے مظفر وارثی کی خو¿دنوشت "گئے دنوں کا سراغ" پڑھی ہے وہ یہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ اس کتاب میں وارثی صاحب نے اپنے اور دوسروں کے بارے میں کیسے کیسے انکشافات کیے ہیں۔
صاحبو! کہنا یہ چاہتا ہوں کہ بیشتر ادیبوں اور شاعروں نے ادبی چپقلشوں اور تنازعات کا بہ رضا و رغبت حصہ بن کر جتنا نقصان خود اپنے آپ کو پہنچایا ہے، اتنا ان کے نقادوں نے نہیں پہنچایا ہوگا۔
اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ”اسکینڈلز “ میں سب کچھ ہے سوائے ”اسکینڈلز “ کے۔
راقم کی جانب سے چند ماہ پیشتر ایک ادبی فورم پر اس کتاب کا تعارف پیش کرنے سے بحث کا طومار بندھ گیا تھا۔ ایک ادبی پرچے کے مدیر علی ساحل کا تبصرہ اور راقم کا جواب ملاحظہ کیجیے:
پہلے ہی بہت عرصے سے شاعروں اور ادیبوں کو مسخرہ بنا کر پیش کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں اس پر گوگی صاحب کی کتاب اور راشد صاحب پر اس کتاب کا اثر انداز ہونا جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے، افسوس ناک بات یہ ہے کہ شاعر اور ادیب کہلانے والے حضرات بڑھ چڑھ کر اس کتاب اور تعارف میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں جس سے شاید ان کے اندر کے مہم جو کو توتسکین مل جائے لیکن ان حضرات کے اندر موجود ادیب کا دم ضرور گھٹنے لگے گا ، آپ جو کرنا چاہتے ہیں شوق سے کریں لیکن اس حد تک مت چلے جائیے گا کہ ادب اور ادیب دونوں کی پامالی کا باعث بن جائیں۔
خیر اندیش۔ علی ساحل
٭٭٭
علی ساحل صاحب، آداب
کیا خوب کہا آپ نے کہ۔”پہلے ہی بہت عرصے سے شاعروں اور ادیبوں کو مسخرہ بنا کر پیش کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں“ صاحب، ہم نے آپ کے اس فقرے کو الٹ کر پڑھا اور محظوظ ہوئے! حضور، کبھی اس بات پر بھی غور فرمائیے کہ بہت عرصے سے یہ جو مسخروں کو شاعر اور ادیب بنا کر پیش کرنے کی سازش ہورہی ہے، اس کا سدباب بھی تو ہونا چاہیے۔
رہا سوال اس بات کا کہ " شاعر اور ادیب کہلانے والے حضرات بڑھ چڑھ کر اس کتاب اور تعارف میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں جس سے شاید ان کے اندر کے مہم جو کو تو تسکین مل جائے لیکن ان حضرات کے اندر موجود ادیب کا دم ضرور گھٹنے لگے گا۔
خاکسار سے جن بے شمار احباب نے یہ کتاب طلب کی ہے ان میں کوئی شاعر یا ادیب بھی ہیں، اس بات پر تو کبھی غور ہی نہیں کیا کہ یہ لوگ کون ہیں، شاعر یا ادیب ہیں یا نہیں،بزم قلم (متذکرہ ادبی فورم ) ایک فیملی ہے اور کچھ فیملی ممبرز نے ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے ہم سے ایک کتاب کا تقاضہ کیا، ان کی ضرورت کو اپنے وسائل میں رہتے ہوئے پورا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ان تمام احباب سے جنہوں نے ہم سے یہ کتاب طلب کی ہے، مودبانہ درخواست ہے کہ کتاب کے حصول کے علاوہ کوئی کسی ایسی حد تک مت چلے جائیے گا کہ ادب اور ادیب دونوں کی پامالی کا باعث بن جائیں۔ لیکن ساتھ ہی اس بات کا اطمینان بھی رکھیں کہ کم از کم "شاعروں اور ادیبوں کے چونکا دینے والے اسکینڈلز" کے مصنف اپنی پامالی ہرگز نہیں ہونے دیں گے، آخر کو بلیک بیلٹ جو ہیں۔

٭٭٭
علی ساحل تو خاموش ہوئے البتہ ادھر اقتباسات کے حصول کے لیے احباب کی فرمائشوں کا انبار لگ گیا۔ ہند سے رشید انصاری صاحب یوں رقم طراز ہوئے:
بڑی ندامت اور شرمندگی کے ساتھ معذرت خواہ ہوتے ہوئے عرض خدمت ہے کہ کچھ تھوڑی سی نظر کرم اس ستر سال کے بوڑھے اور بدنام صحافی اور ادب کے لیے تشنگی اور طلب رکھنے والے بندے پر بہ سلسلہ "ادیبوں اور شاعروں کے چونکا دینے والوں اسکینڈلز" ضرور فرمائیں۔ فورا نہ سہی، اپنی سہولت سے لیکن جتنا بھی زیادہ ممکن ہو، پیشگی شکریہ اور جزاک اللہ۔
٭٭٭
ادبی فورم پر احباب کی جانب سے اس گفتگو میں حصہ لینے کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا اور ایک موقع پر راقم الحروف نے درج ذیل جواب دے کر معاملے کو یوں سمیٹنے کی کوشش کی تھی :
آج صبح راقم کا میل باکس ان پیغامات سے پ±ر تھا جن میں مذکورہ کتاب سے متعلق وضاحت پیش کیے جانے کے بعد اس میں سے کچھ انتخاب بھیجنے جانے کی بات کہی گئی ہے۔ اسی بنا پر منیر نیازی کے انٹرویو کے بعد علی الصبح میں نے عدیم ہاشمی کی شاعری کی کتاب کا دیباچہ بھی اسکین کرکے محفوظ کرلیا تھا اور احباب کی دلچسپ دیکھ کر اب سوچ رہا ہوں کہ مکمل کتاب ہی کسی سے اسکین کروالی جائے۔
میں بار بار یہ کہنے کی کوشش کررہا ہوں کہ اسے محض ایک کتاب کا تعارف اور تبصرہ ہی سمجھا جائے۔ ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ بزم قلم کے بارہ ہزار ممبران میں سے اگر کسی ایک کو بھی کسی مواد پر اعتراض ہے تو اس کی بات کا نہ صرف احترام لازم ہوجاتا ہے بلکہ مستقبل میں اس کے دوہرائے نہ جانے کی ضمانت بھی فرض ہوجاتی ہے۔۔۔۔ حضرت انسان کی سرشت میں تجسس کا عنصر ہمیشہ سے شامل رہا ہے اور تا قیامت رہے گا۔ شاید ابن صفی صاحب نے کہیں لکھا تھا کہ اگر آپ جوش پر کتاب لکھیں اور اس کا روایتی سا عنوان رکھیں تو لوگ متوجہ ہوں گے لیکن اگر کتاب کا عنوان "جوش اور پاپوش" رکھیں تو پڑھنے والوں کی دلچسپی یک دم بڑھ جائے گی۔ زاہد گوگی نے بھی یہی حربہ اپنایا اور نتیجہ یہ نکلا کہ دیکھتے ہی دیکھتے کتاب بازار میں ناپید ہوگئی۔۔۔۔ آگے بڑھنے سے پیشتر یہاں جناب تنویر اعجاز صاحب کا مکتوب بھی ملاحظہ ہو: ” کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ ایک خلقت اس کتاب یا اس کے چند اقتباسات (بھاگتے بھوت کی لنگوٹ بھلی) حاصل کرنے کو بے قرار نظر آتی ہے ؟ اس سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کی چٹخارے دار باتیں ( خاص کر اوروں کے بارے میں ) کافی مقبول ہوتی ہیں۔“
خیر اندیش۔ راشد اشرف
-------------------------------------

اس مرتبہ مکمل کتاب پیش خدمت ہے:


تلمیذ نیرنگ خیال زبیر فلک شیر
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ڈاؤنلوڈ کر کے زاہد گوگی صاحب کی تمہید بھی پڑھ لی ہے۔۔۔ ساقی صاحب کا خط بنام قاسمی پڑھ رہا ہوں۔۔۔ خوب معاصرانہ چشمک رہتی ہے ان ادیبوں میں بھی۔۔۔۔ چونی والی بات خوب ہے۔۔۔۔ :)
 

تلمیذ

لائبریرین
ٹیگ کرنے کا شکریہ، جناب۔
میں یہ کتاب پڑھ چکا ہوں کیونکہ آپ نےاز راہ کرم یہ کتاب بہت پہلے مجھے ارسال کر دی تھی۔ البتہ اس پوسٹ میں آپ کے اپنے مخصوص انداز کے تبصرے نے خوب لطف دیا ہے۔ جزاک اللہ!

فلک شیر, صاحب کے ساتھ اس موضوع پر (جوش ملیح آبادی کے خطوط کے حوالے سے) میری سیر حاصل گفتگو ہو ئی تھی جن کا خیال ہے کہ ادبی مشاہیر کی شخصیتوں کے دو پرت ہوتے ہیں۔ ایک وہ جسے وہ اپنی ادبی فتوحات کے حوالے سے عوام الناس کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ایک ان کی ذاتی شخصیت ، جس میں ہمیں وہ ہم میں سے بہت لوگوں کی طرح ہی یعنی تما م بشری معائب کے حامل نظر آتے ہیں۔
چیمہ صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اس بارے میں محفل پر بھی کچھ تحریر کریں تاکہ دیگر احباب بھی مستفید ہوں۔
حسان خان,
 

راشد اشرف

محفلین
ٹیگ کرنے کا شکریہ، جناب۔
میں یہ کتاب پڑھ چکا ہوں کیونکہ آپ نےاز راہ کرم یہ کتاب بہت پہلے مجھے ارسال کر دی تھی۔ البتہ اس پوسٹ میں آپ کے اپنے مخصوص انداز کے تبصرے نے خوب لطف دیا ہے۔ جزاک اللہ!

فلک شیر, صاحب کے ساتھ اس موضوع پر (جوش ملیح آبادی کے خطوط کے حوالے سے) میری سیر حاصل گفتگو ہو ئی تھی جن کا خیال ہے کہ ادبی مشاہیر کی شخصیتوں کے دو پرت ہوتے ہیں۔ ایک وہ جسے وہ اپنی ادبی فتوحات کے حوالے سے عوام الناس کے سامنے پیش کرتے ہیں اور ایک ان کی ذاتی شخصیت ، جس میں ہمیں وہ ہم میں سے بہت لوگوں کی طرح ہی یعنی تما م بشری معائب کے حامل نظر آتے ہیں۔
چیمہ صاحب سے گزارش ہے کہ وہ اس بارے میں محفل پر بھی کچھ تحریر کریں تاکہ دیگر احباب بھی مستفید ہوں۔
حسان خان,

بہت بہتر
ویسے جو کچھ اس وقت آپ کو ارسال کیا تھا، وہ اس کتاب کے مختلف حصے تھے جنہیں 5 پی ڈی ایف فائلز کی شکل میں علاحدہ علاحدہ تیار کیا تھا۔ مجموعی طور پر کتاب کا 70 فیصد حصہ بھیجا گیا تھا، جبکہ اس مرتبہ مکمل کتاب پیش کی ہے۔
 

فلک شیر

محفلین
راشد صاحب کی رائے سے میں بالکل متفق ہوں۔ سکنڈل نام کی تو کئی چیز نہیں ، البتہ انٹرویوز وغیرہ ضرور ہیں۔ اور ادبی حلقوں کی باہم چپقلشیں، اور خاص طور پہ جب تجارتی امور ان کی وجہ ہوں،تو بہت سے معاملات اس طرح کے سامنے آتے ہیں، پھر ان میں سے کچھ حضرات جب دوسروں کے بارے میں اپنی "علمی رائے"کا اظہار فرماتے ہیں ، تو خاصا عدم توازن کا مظاہرہ فرماتے ہیں۔ پھر دھڑوں کی صورت میں ایک دوسرے پہ باقاعدہ کیچڑ اچھالنے کا ٹورنامنٹ سالوں تک چلتا ہے۔ بعض شاعرات اور متشاعر حضرات اپنا اپنا "سامان"بیچنے کے لیے موجود و میسر تمام ہتھکنڈے استعمال کرتے ہین۔
اوپر تلمیذ سر نے ہماری اس ضمن میں ایک بات چیت کا تذکرہ فرمایا ہے۔ تو اس سلسلہ میں بہت سے ادیبوں شاعروں سے بات ہوتی تہی ہے، ان کا یہی کہنا تھا کہ آپ ادیب اور شاعر کے فن اور ادب کاتجزیہ .......فنی محاسن و معائب پہ تبصرہ......اُس کی ذات سے بالا تر ہو کے کریں......کیوں کہ تنقید کا وہ دبستان رستے کی دھول ہوا.....جو شخصی حالات کو اس سلسلہ میں بنیادی اہمیت دیتا ہے۔لیکن یہ بات سو فی صد درست معلوم نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس بہت سی دلیلیں قائم کی جا سکتی ہیں۔
لیکن "شاعر"اور "انسان".........دونوں ایک ہی قالب میں بند ضرور ہوتے ہیں..........اور شاعر سے اعلیٰ اخلاقی اقدار کا ظہور یا اس کے بالکل الٹ .......شاید ان دونوں کا باری باری اظہار ہے۔
 

یونس

محفلین
ٹیگ کرنے کا شکریہ۔
عوام کی نظر میں ادیبوں شاعروں کا ایک افسانوی سا مقام ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ وہ اسی معاشرے کے افراد ہوتے ہیں ‘ ان میں وہی خوبیاں خامیاں پائی جاتی ہیں جو ہم میں ہیں۔ لیکن ان حضرات کو اپنی ذاتی نفرتوں کی اپنی کتابوں‘ رسائل‘ انٹرویوز میں تشہیر کرنے سے بہرحال گریز کرنا چاہیئے۔ ورنہ عام لوگوں کی نظر میں اس کی وقعت تو کم ہوتی ہی ہے۔ جس کے خلاف نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے‘ بلکہ خود نفرت کرنے والا اس افسانوی مقام سے کہیں نیچے تنزلی کی پستیوں میں گرا دکھائی دیتا ہے۔
 

فلک شیر

محفلین
متفق، فلک شیر, صاحب، اگرچہ آپ نے 'شاعروں' کے بارے میں ہی بات کی ہے ۔ نثر نگار بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔
محمد یعقوب آسی, صاحب
یونس صاحب نیرنگ خیال, قیصرانی,
جی درست فرمایا آپ نے۔ لیکن پتا نہیں کیوں ، میں نے یہ دیکھا ہے کہ کلامِ منظوم لکھنے والے زیادہ اس کیٹیگری میں آتے ہیں اور کلامِ غیر منظوم لکھنے والے نسبتاََ کم ۔۔ :)
 
اللہ رحم کرے یارو !
ہمیں کیا لینا ہے سکینڈلوں سے یا چپقلش سے! اللہ کریم ہم جیسوں کی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو چھپا لیتا ہے، اس کا خاص کرم ہے۔
وہ جیسا ظفر نے کہا:
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر، رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر، تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

اللہ کریم سب دے پردے کَجّی رکھے! آمین!
 
Top