تبصرہ کتب شاعروں اور ادیبوں کے چونکا دینے والے اسکینڈلز

Rashid Ashraf

محفلین
اس مرتبہ کراچی کے اتوار بازار میں پرانی کتابوں کی کھوج کرتے کرتے ایک چونکا دینے والی کتاب پر نظر پڑی، کتب فروش کو رقم تھمائی اس نے بنا کسی بحث کے، بخوشی قبول کرلی، کتاب ہمارے حوالے کرنے کے بعد اس نے اپنے ہاتھوں پر اس انداز میں پھونک ماری جیسے ہم آپ کسی گرم شے کو ہاتھوں میں تھامنے اور یک لخت چھوڑنے کے بعد کرتے ہیں۔
کتاب کا عنوان ہی حدت اور جدت آمیز تھا
"شاعروں اور ادیبوں کے چونکا دینے والے اسکینڈلز" ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کتاب 2002 میں لاہور سے شائع ہوئی تھی۔۔ ناشر کا "عنوان" ہے: شام کے بعد
یہ ناشرین کی اس صنف سے تعلق رکھتے ہیں جس میں "نا" کا عنصر کم اور شر کا زیادہ ہے۔

کتاب کے مرتب زاہد گوگی، بلیک بیلٹ ہیں لہذا ہماری اطلاع کے مطابق تاحال کسی قسم کا ہتک عزت کا کوئی دعوی سامنے نہیں آیا۔ یوں بھی کتاب میں جن مشاہیر کے بارے میں سنسی خیز اور "راتوں کی نیند اڑا دینے والے" انکشافات درج ہیں، ان میں اکثر اب اس دنیا میں نہیں رہے، مثال کے طور پر احمد ندیم قاسمی، عدیم ہاشمی، انیس ناگی، منیر نیازی، مظفر وارثی، احمد راہی، احمد بشیر، جاوید شاہین، اقبال ساجد وغیرہ

کتاب مذکورہ کو پڑھ کر دنیا سے گزر جانے والے لوگوں کی تفصیل سے بھی ہم ناواقف ہیں!

کتاب کی شروعات ہی میں گوگی صاحب نے ساقی فاروقی کے چند "کھلے" خطوط بنام احمد ندیم قاسمی شامل کیے ہیں، غالبا انہی خطوط کی کتاب میں موجودگی کی بنا پر کتب فروش اپنے ہاتھوں کو ٹھنڈا کرتا رہا تھا۔

توبہ توبہ، الامان الحفیظ
لیکن صاحب یہاں شامل نہیں کرسکتا، ہرگز نہیں، ایسی کسی قبیح حرکت میں ملوث نہیں ہونا چاہتا، کسی کا اخلاق نہیں بگاڑنا چاہتا، میں باز آیا
ہاں! البتہ طلبگار کی فرمائش پر ای میل کرسکتا ہوں

گزشتہ دنوں ایک دوست نے آٹھ صفحات پر مشتمل ایک خط ساقی فاروقی بنام افتخار عارف ارسال کیا، اس کا عنوان تھا:
اس قدر اناڑی ہو
تم بھی افتخار عارف
بارھویں کھلاڑی ہو

خط کا بغور مطالعہ کرنے اور صرف ایک قابل اعتراض لفظ کی موجودگی کی بنا پر اسے کسی بھی فورم پر شامل کرنے میں ہچکچاہٹ تھی، "اسکینڈلز" میں شامل ساقی کے خطوط کو پڑھ کر پر ایسی گھبراہٹ طاری ہوئی کہ ہم نے خط بنام افتخار عارف کو حفظ ماتقدم کے طور پر کہیں بھی شامل کرنے کا ارادہ سرے ہی سے ترک ہی کردیا۔

فیس بک پر ایک صاحب نے دریافت کیا: " مجھے یقین ہے میرا نام نہیں ہو گا ان میں"
"میں نے تسلی کرکے ہی آپ کو ٹیگ کیا ہے" میرا جواب تھا
اسکینڈلز کی فہرست مضامین میں بزم پر موجود احباب میں سے گمان ہے کہ کسی صاحب کا ذکر نہیں ہے اور اگر ہے تو بلیک بلیٹ یافتہ جناب گوگی اس کے ذمے دار ہیں۔ گوگی صاحب نے اس نسخے میں اگلے ایڈیشن کی اشاعت کا عندیہ دیا تھا، لیکن آج ناشر سے بات ہوئی، اگلے ایڈیشن کی نوبت نہیں آئی۔ ناشر صاحب سے علم ہوا کہ گوگی صاحب ان دنوں ایکسپریس اخبار سے وابستہ ہیں

"شاعروں اور ادیبوں کے چونکا دینے والے اسکینڈلز" میں منیر نیازی کا وہ انٹرویو شامل ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کراچی کے شاعر، سرے سے شاعر ہی نہیں ہیں اور اس انٹرویو اور بالخصوص فقرے کو بنیاد بنا ایک عدد کالم لکھا تھا۔ منیر نیازی نے اپنے انٹرویو میں مظفر وارثی پر دشنام طرازی کی اور انٹرویو کی شاعت کے بعد اس سے مکر گئے، ادھر اخبار والوں نے کچی گولیاں نہیں کھلی تھیں، انہوں نے وارثی صاحب کو ریکارڈ شدہ کیسٹ سنوا دی جسے سن کر مظفر وارثی دم بخود رہ گئے۔

عدیم ہاشمی نے اپنی شاعری کی دو کتابوں "فاصلے ایسے بھی ہوں گے" اور "ترکش" کے دیباچے کچھ اس ڈھنگ سے لکھے کہ دونوں کتابوں سے زیادہ دیباچے مقبول ہوگئے۔ "اسکینڈلز" میں شامل ان دیباچوں میں عدیم ہاشمی نے احمد ندیم قاسمی کے بارے میں اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے اور ان پر اپنی انہی دونوں کتابوں کی اشاعت میں تاخیر کا الزم لگایا ہے، الزامات کتاب سے شروع ہوئے اور منصورہ احمد پر ختم ہوئے

کیا عجب بات ہے کہ احمد ندیم قاسمی، عدیم ہاشمی اور منصورہ احمد، تینوں اب اس دنیا میں نہیں ہیں!

انیس ناگی کا وہ مشہور انٹرویو بھی کتاب میں شامل کیا گیا ہے جس کا ایک فقرہ بہت مشہور ہوا تھا

"ہمارے شاعر و ادیب کمینے ہیں"
یاد رہے کہ اس انٹرویو پر بھی خامہ بگوش کا کالم موجود ہے۔
کتاب میں نوشی گیلانی اور بہاولپور کی پراسرار ڈاکٹر دلآویز کے بارے میں مضامین شامل ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس وقت کے وزیر اعظم اسے فون کیا کرتے تھے۔ اسی طرح غزالہ خاکوانی کی کھلی باتوں پر مبنی انٹرویو بھی کتاب کا حصہ ہے۔

کتاب میں جاوید شاہین کی خودنوشت "میرے ماہ و سال" کے منتخب حصے بھی کتاب میں شامل ہیں۔ جاوید شاہین نے اپنی خودنوشت میں منیر نیازی کے بارے میں کچھ ایسا لکھ دیا تھا جسے پڑھ کر نیازی صاحب آگ بگولہ ہوگئے اور انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں جوابی حملوں کا طومار باندھ دیا، کتاب میں نیازی صاحب کا انٹرویو بھی شامل کیا گیا ہے۔

"ادیبوں اور شاعروں کے چونکا دینے والے اسکینڈلز" پر اس سے زیادہ "بچ بچا کر" تبصرہ ناممکن تھا!
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے
 

محمد وارث

لائبریرین
اس مرتبہ کراچی کے اتوار بازار میں پرانی کتابوں کی کھوج کرتے کرتے ایک چونکا دینے والی کتاب پر نظر پڑی، کتب فروش کو رقم تھمائی اس نے بنا کسی بحث کے، بخوشی قبول کرلی، کتاب ہمارے حوالے کرنے کے بعد اس نے اپنے ہاتھوں پر اس انداز میں پھونک ماری جیسے ہم آپ کسی گرم شے کو ہاتھوں میں تھامنے اور یک لخت چھوڑنے کے بعد کرتے ہیں۔
کتاب کا عنوان ہی حدت اور جدت آمیز تھا
"شاعروں اور ادیبوں کے چونکا دینے والے اسکینڈلز" ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
کتاب 2002 میں لاہور سے شائع ہوئی تھی۔۔ ناشر کا "عنوان" ہے: شام کے بعد
یہ ناشرین کی اس صنف سے تعلق رکھتے ہیں جس میں "نا" کا عنصر کم اور شر کا زیادہ ہے۔

کتاب کے مرتب زاہد گوگی، بلیک بیلٹ ہیں لہذا ہماری اطلاع کے مطابق تاحال کسی قسم کا ہتک عزت کا کوئی دعوی سامنے نہیں آیا۔ یوں بھی کتاب میں جن مشاہیر کے بارے میں سنسی خیز اور "راتوں کی نیند اڑا دینے والے" انکشافات درج ہیں، ان میں اکثر اب اس دنیا میں نہیں رہے، مثال کے طور پر احمد ندیم قاسمی، عدیم ہاشمی، انیس ناگی، منیر نیازی، مظفر وارثی، احمد راہی، احمد بشیر، جاوید شاہین، اقبال ساجد وغیرہ

کتاب مذکورہ کو پڑھ کر دنیا سے گزر جانے والے لوگوں کی تفصیل سے بھی ہم ناواقف ہیں!

کتاب کی شروعات ہی میں گوگی صاحب نے ساقی فاروقی کے چند "کھلے" خطوط بنام احمد ندیم قاسمی شامل کیے ہیں، غالبا انہی خطوط کی کتاب میں موجودگی کی بنا پر کتب فروش اپنے ہاتھوں کو ٹھنڈا کرتا رہا تھا۔

توبہ توبہ، الامان الحفیظ
لیکن صاحب یہاں شامل نہیں کرسکتا، ہرگز نہیں، ایسی کسی قبیح حرکت میں ملوث نہیں ہونا چاہتا، کسی کا اخلاق نہیں بگاڑنا چاہتا، میں باز آیا
ہاں! البتہ طلبگار کی فرمائش پر ای میل کرسکتا ہوں

گزشتہ دنوں ایک دوست نے آٹھ صفحات پر مشتمل ایک خط ساقی فاروقی بنام افتخار عارف ارسال کیا، اس کا عنوان تھا:
اس قدر اناڑی ہو
تم بھی افتخار عارف
بارھویں کھلاڑی ہو

خط کا بغور مطالعہ کرنے اور صرف ایک قابل اعتراض لفظ کی موجودگی کی بنا پر اسے کسی بھی فورم پر شامل کرنے میں ہچکچاہٹ تھی، "اسکینڈلز" میں شامل ساقی کے خطوط کو پڑھ کر پر ایسی گھبراہٹ طاری ہوئی کہ ہم نے خط بنام افتخار عارف کو حفظ ماتقدم کے طور پر کہیں بھی شامل کرنے کا ارادہ سرے ہی سے ترک ہی کردیا۔

فیس بک پر ایک صاحب نے دریافت کیا: " مجھے یقین ہے میرا نام نہیں ہو گا ان میں"
"میں نے تسلی کرکے ہی آپ کو ٹیگ کیا ہے" میرا جواب تھا
اسکینڈلز کی فہرست مضامین میں بزم پر موجود احباب میں سے گمان ہے کہ کسی صاحب کا ذکر نہیں ہے اور اگر ہے تو بلیک بلیٹ یافتہ جناب گوگی اس کے ذمے دار ہیں۔ گوگی صاحب نے اس نسخے میں اگلے ایڈیشن کی اشاعت کا عندیہ دیا تھا، لیکن آج ناشر سے بات ہوئی، اگلے ایڈیشن کی نوبت نہیں آئی۔ ناشر صاحب سے علم ہوا کہ گوگی صاحب ان دنوں ایکسپریس اخبار سے وابستہ ہیں

"شاعروں اور ادیبوں کے چونکا دینے والے اسکینڈلز" میں منیر نیازی کا وہ انٹرویو شامل ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ کراچی کے شاعر، سرے سے شاعر ہی نہیں ہیں اور اس انٹرویو اور بالخصوص فقرے کو بنیاد بنا ایک عدد کالم لکھا تھا۔ منیر نیازی نے اپنے انٹرویو میں مظفر وارثی پر دشنام طرازی کی اور انٹرویو کی شاعت کے بعد اس سے مکر گئے، ادھر اخبار والوں نے کچی گولیاں نہیں کھلی تھیں، انہوں نے وارثی صاحب کو ریکارڈ شدہ کیسٹ سنوا دی جسے سن کر مظفر وارثی دم بخود رہ گئے۔

عدیم ہاشمی نے اپنی شاعری کی دو کتابوں "فاصلے ایسے بھی ہوں گے" اور "ترکش" کے دیباچے کچھ اس ڈھنگ سے لکھے کہ دونوں کتابوں سے زیادہ دیباچے مقبول ہوگئے۔ "اسکینڈلز" میں شامل ان دیباچوں میں عدیم ہاشمی نے احمد ندیم قاسمی کے بارے میں اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے اور ان پر اپنی انہی دونوں کتابوں کی اشاعت میں تاخیر کا الزم لگایا ہے، الزامات کتاب سے شروع ہوئے اور منصورہ احمد پر ختم ہوئے

کیا عجب بات ہے کہ احمد ندیم قاسمی، عدیم ہاشمی اور منصورہ احمد، تینوں اب اس دنیا میں نہیں ہیں!

انیس ناگی کا وہ مشہور انٹرویو بھی کتاب میں شامل کیا گیا ہے جس کا ایک فقرہ بہت مشہور ہوا تھا

"ہمارے شاعر و ادیب کمینے ہیں"
یاد رہے کہ اس انٹرویو پر بھی خامہ بگوش کا کالم موجود ہے۔
کتاب میں نوشی گیلانی اور بہاولپور کی پراسرار ڈاکٹر دلآویز کے بارے میں مضامین شامل ہیں جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس وقت کے وزیر اعظم اسے فون کیا کرتے تھے۔ اسی طرح غزالہ خاکوانی کی کھلی باتوں پر مبنی انٹرویو بھی کتاب کا حصہ ہے۔

کتاب میں جاوید شاہین کی خودنوشت "میرے ماہ و سال" کے منتخب حصے بھی کتاب میں شامل ہیں۔ جاوید شاہین نے اپنی خودنوشت میں منیر نیازی کے بارے میں کچھ ایسا لکھ دیا تھا جسے پڑھ کر نیازی صاحب آگ بگولہ ہوگئے اور انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں جوابی حملوں کا طومار باندھ دیا، کتاب میں نیازی صاحب کا انٹرویو بھی شامل کیا گیا ہے۔

"ادیبوں اور شاعروں کے چونکا دینے والے اسکینڈلز" پر اس سے زیادہ "بچ بچا کر" تبصرہ ناممکن تھا!
خیر اندیش
راشد اشرف
کراچی سے

واہ صاحب کیا لکھا آپ نے اور کیسی کتاب کا تعارف کروا دیا، لیکن یہ تو بتائیے کہ کیا ہمیں بے قرار کرنے میں آپ کو کوئی خاص لطف آتا ہے، ایسی ایسی کتابوں کا ذکر کرتے ہیں کہ کیا بتاؤں دل کا کیا حال ہوتا ہے :)
 

Rashid Ashraf

محفلین
واہ صاحب کیا لکھا آپ نے اور کیسی کتاب کا تعارف کروا دیا، لیکن یہ تو بتائیے کہ کیا ہمیں بے قرار کرنے میں آپ کو کوئی خاص لطف آتا ہے، ایسی ایسی کتابوں کا ذکر کرتے ہیں کہ کیا بتاؤں دل کا کیا حال ہوتا ہے :)

بھائی وارث، بھائی ابن سعید، بھائی تلمیذ، بھائی محمد امین اور بھائی حماد کا شکریہ
وارث بھائی!
کتاب مذکورہ کا تعارف ایک ادبی فورم پر شامل کیا تو دنیا بھر سے طلبگاروں کی صف بچھ گئی، اس سے قبل صف ماتم کا سنا تھا، صف طلبگاران (اگر یہ کوئی لفظ ہے) کا نقشہ پہلی مرتبہ آنکھوں کے سامنے آیا
اب معاملہ یہ ہے کہ کتاب کو 90 فیصد اسکین کرچکا ہوں، آج شام اسے پی ڈی ایف میں ڈھالنے کی کوشش کروں گا، ای میل (ای میل محذوف) کرکے "اپنی کاپی محفوظ کروالیجیے"
اب سنیے بلکہ کچھ دیر میں پڑھیے دو عدد تازہ خودنشت سوانح عمریوں کا احوال، ایک تو ہے جناب انتظار حسین کی اور دوسری جناب رضا علی عابدی کی، دونوں کل صبح کراچی پہنچی ہیں!
 

مغزل

محفلین
مجھے بھی درکار ہے قبلہ۔۔ آپ کے برقی پیغامات موصول ہوتے رہتے ہیں ۔۔ جزاک اللہ
 

Rashid Ashraf

محفلین
محمد بلال اعظم صاحب
آپ مجھے ذاتی پیغام میں اپنا ای میل پتہ بھیج دیں، کتاب آپ کو ای میل کردوں گا
عین عین صاحب: کتاب آپ کو ای میل کردی ہے
دنیا بھر سے کتاب مذکورہ کے سلسلے میں آرڈرز موصول ہورہے ہیں، طلب پوری کرنا مشکل ہورہا ہے، اکیلا ہوں کوئی نائب ہوتا تو کام آسان ہوجاتا، بہرکیف "اوور ٹائم" لگا کر طلب پوری کرنے کی کوشش کررہا ہوں
 

مغزل

محفلین
راشد صاحب میری فرمائش ایک بار پھر شامل کیجے ، شاید مجھے میل نہیں ملی یا مجھ سے ڈیلیٹ ہوگئی ہے۔۔
 

مغزل

محفلین
جزاک اللہ پیارے صاحب ۔۔ دونوں حصے موصول شد، رسید حاضر ہے ، انشا اللہ طے کرکے ملاقات بھی نصیب ہوجائے گی۔ بہت بہت شکریہ قبلہ
ویسے حکم کیجے تو ہم بھی احباب کی طلب پر تقسیم کرسکتے ہیں یہ کتاب ؟ کچھ بوجھ کم ہوجائے گا آپ پر۔۔ حکم کا منتظر ؟؟؟
 

موجو

لائبریرین
السلام علیکم
زبردست لکھتے ہیں جناب آپ
راشد صاحب مجھے بھی کتاب بھیجئے میں ذاتی پیغام بھیج رہاہوں
 

Rashid Ashraf

محفلین
بھائی مغل! یہ کتاب آپ جسے چاہیں بھیجیں، اخلاق احمد دہلوی کی اور پھر بیاں اپنا (1957) اور کیا خوب آدمی تھا (1941)، دونوں اتوار بازار سے ملی ہیں، کوشش کررہا ہوں کہ انہیں بھی اسکین کرلوں
بھائی موجو!
آپ کا بہت شکریہ -آپ کو بھی کتاب ای میل کردی ہے، آج محفل میں دو مضامین شامل کیے ہیں:

نیشنل بک فاونڈیشن کی ایک تقریب۔25 فروری 2012
کتابوں کا اتوار بازار،بذلہ سنجان کراچی اور پائے
 

الف عین

لائبریرین
عزیزم راشد ایک جملہ یہ بھی لکھ دیا کرو کہ کراچی کے اتوار بازار میں کون سی کتاب کے لئے کتنی قیمت ادا کی؟
 

Rashid Ashraf

محفلین
جناب اعجاز صآحب
انٹرنیٹ پر ایک فورم میں اتوار بازار کا احوال کوئی ایک برس سے شامل کررہا ہوں، بہت لوگ اسے پڑھتے ہیں اور تبصرے بھی کرتے ہیں، ستیہ پال آنند صاحب نے ایک مرتبہ کہا تھا کتاب کے صفحات کی تعداد بھی ضرور لکھا کیجیے لیکن آپ نے قیمت کی بات کہی، اس جانب آُ سے پہلے کسی نے توجہ نہیں دلائی تھی۔ کراچی کا یہ اتوار بازار کئی دہائیوں سے سجتا آرہا ہے، قیمتیں ہر کتاب کی الگ الگ ہوتی ہیں، 50 روپے سے 250 تک عموما اور اس کے بعد خاص کتابوں کی 250 سے 500 تک۔ لیکن سچ پوچھیں تو اس بازار کے احوال کو لکھنے کے بعد کئی لوگ مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ آپ نے کتب فروشوں کا دماغ آسمان تک پہنچا دیا ہے، اس بارے میں بھی تفصیلی لکھ چکا ہوں کہ دو برس میں قیمیت کے تعلق سے کیا کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔ ابن صفی کا سدا بہار کردارکیپٹن حمید اپنے بکرے (برخوردار بغرا خان) کو بہترین قیمتی ٹائی اور مہنگا ترین فیلٹ ہیٹ پہنا کر گھوما کرتا تھا، ایک ناول میں اس بارے میں اس قسم کا ایک جملہ ابن صفی صاحب نے لکھا ہے کہ " شہر کے معززین اٹھتے بیٹھتے کیپٹن حمید کو صلواتیں سنایا کرتے تھے جس کے بکرے کی وجہ وہ اب ٹائی اور فیلٹ ہیٹ بھی پہننے سے گئے"
بس یہی حال میرا بھی ہے، بہت لوگ ناراض بھی ہوئے ہیں جنہیں کم قیمت پر کتاب مل جایا کرتی تھی لیکن ایک برس سے تو یہ حال ہے کتب فروشوں نے قیمتیں دوگنی کردی ہیں
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جناب اعجاز صآحب
انٹرنیٹ پر ایک فورم میں اتوار بازار کا احوال کوئی ایک برس سے شامل کررہا ہوں، بہت لوگ اسے پڑھتے ہیں اور تبصرے بھی کرتے ہیں، ستیہ پال آنند صاحب نے ایک مرتبہ کہا تھا کتاب کے صفحات کی تعداد بھی ضرور لکھا کیجیے لیکن آپ نے قیمت کی بات کہی، یہ بات کسی اور نے تاحال نہیں کہی۔ کراچی کا یہ اتوار بازار کئی دہائیوں سے سجتا آرہا ہے، قیمتیں ہر کتاب کی الگ الگ ہوتی ہیں، 50 روپے سے 250 تک عموما اور اس کے بعد خاص کتابوں کی 250 سے 500 تک۔ لیکن سچ پوچھیں تو اس بازار کے احوال کو لکھنے کے بعد کئی لوگ مجھ سے یہ کہتے ہیں کہ آپ نے کتب فروشوں کا دماغ آسمان تک پہنچا دیا ہے، اس بارے میں بھی تفصیلی لکھ چکا ہوں کہ دو برس میں قیمیت کے تعلق سے کیا کیا تبدیلیاں آئی ہیں۔ ابن صفی کا سدا بہار کردارکیپٹن حمید اپنے بکرے (برخوردار بغرا خان) کو بہترین قیمتی ٹائی اور مہنگا ترین فیلٹ ہیٹ پہنا کر گھوما کرتا تھا، ایک ناول میں اس بارے میں اس قسم کا ایک جملہ ابن صفی صاحب نے لکھا ہے کہ " شہر کے معززین اٹھتے بیٹھتے کیپٹن حمید کو صلواتیں سنایا کرتے تھے جس کے بکرے کی وجہ وہ اب ٹائی اور فیلٹ ہیٹ بھی پہننے سے گئے"
بس یہی حال میرا بھی ہے، بہت لوگ ناراض بھی ہوئے ہیں جنہیں کم قیمت پر کتاب مل جایا کرتی تھی لیکن ایک برس سے تو یہ حال ہے کتب فروشوں نے قیمتیں دوگنی کردی ہیں


اس فورم کا کوئی ایڈریس ہی بتا دیں۔
 
Top