شادی اور ہم جنس پرست

مغزل

محفلین
کسی بھی بات کے دو رخ ہوتے ہیں۔۔ آپ اسے منفی لیں یا مثبت
میرا نہیں خیال کے اس موضوع پر کسی نے بھی اس قبیح فعل کے
ارتکاب کی حامی بھری ہے اور نہ اسے روا سمجھا ہے ۔۔ یہ معاملات
صحیح اور غلط کی نشاندہی کیلئے ہیں نہ کہ ترغیب دینے کیلئے۔
آپ نے منٹو کے افسانے پڑھے ہیں ۔۔ یونیورسٹی جب ڈاکٹر شاداب
احسانی منٹو کے افسانوں پر بحث کر رہے تھے تو ایک طالبہ دو پٹہ
ہاتھوں میں لئے مسل رہیں تھی ۔۔ ڈاکڑ صاحب نے انہیں فوراََ کمرے
سے باہر جانے کو کہا کہ بیٹا پہلے ذہن صاف کرکے آؤ پھر کلاس لینا
۔۔۔ یعنی معاملہ آپ کے ذہن کا ہے ۔۔۔ ڈاکڑ خواتین و حضرات کے سامنے
انسانی اجسام پڑے ہوتے ہیں تو وہاں خواتین بھی ہوتی ہیں اور مرد بھی
مگر انہیں صرف انسان کی بہتری کیلئے عدم ستر پوشی کا سہارا لینا پڑتا
ہے ۔۔۔ اس پر آپ کیا فرماتے ہیں۔
بجائے اس کے کہ آپ بحث کو بھٹکا دیں گریز برتیں۔
فقط واللہ و اعلم و بصواب
 

گرو جی

محفلین
کسی بھی بات کے دو رخ ہوتے ہیں۔۔ آپ اسے منفی لیں یا مثبت
میرا نہیں خیال کے اس موضوع پر کسی نے بھی اس قبیح فعل کے
ارتکاب کی حامی بھری ہے اور نہ اسے روا سمجھا ہے ۔۔ یہ معاملات
صحیح اور غلط کی نشاندہی کیلئے ہیں نہ کہ ترغیب دینے کیلئے۔
آپ نے منٹو کے افسانے پڑھے ہیں ۔۔ یونیورسٹی جب ڈاکٹر شاداب
احسانی منٹو کے افسانوں پر بحث کر رہے تھے تو ایک طالبہ دو پٹہ
ہاتھوں میں لئے مسل رہیں تھی ۔۔ ڈاکڑ صاحب نے انہیں فوراََ کمرے
سے باہر جانے کو کہا کہ بیٹا پہلے ذہن صاف کرکے آؤ پھر کلاس لینا
۔۔۔ یعنی معاملہ آپ کے ذہن کا ہے ۔۔۔ ڈاکڑ خواتین و حضرات کے سامنے
انسانی اجسام پڑے ہوتے ہیں تو وہاں خواتین بھی ہوتی ہیں اور مرد بھی
مگر انہیں صرف انسان کی بہتری کیلئے عدم ستر پوشی کا سہارا لینا پڑتا
ہے ۔۔۔ اس پر آپ کیا فرماتے ہیں۔
بجائے اس کے کہ آپ بحث کو بھٹکا دیں گریز برتیں۔
فقط واللہ و اعلم و بصواب


تو حضرت یہاں میڈیکل وجوہات بیاں نہیں کی جا رہی ہیں
اور میرے بات کرنے کا مطلب کسی بھی قسم کی برائی کی طرف مائل نہیں کرنا تھا
 

نبیل

تکنیکی معاون
اگر کسی کا خیال ہے اس موضوع کی وجہ سے ہم جنس پرستی کو فروغ مل رہا ہے یا یہ کہ اس پر گفتگو فحاشی پھیلانے کے مترادف ہے تو یہ غلط سوچ ہے۔ جن دوستوں کو یہ موضوع ناپسند ہے وہ اسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے بھی فورم میں سہولت موجود ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میں عرض کر چکا ہوں کہ جو دوست اس موضوع پر آنا پسند نہیں کرتے، وہ اسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔ اب اس تھریڈ پر غیر متعلقہ پیغامات حذف کر دیے جائیں گے۔
 

arifkarim

معطل
درست نبیل بھائی، اس موضوع پر ڈسکشن تو ختم ہو چکی تھی، یہ ناجانے نئے سرے سے کیسی باتیں ہو رہی ہیں۔
 
بہت سے موضوع پختہ ذہنوں پر مختلف اور ناپختہ ذہنوں پر مختلف اثر ڈالتے ہیں۔ یہ ایک پختہ موضوع ہے، اور ضروری ہے کہ اس پر بات کی جائے۔ اخلاقی، قانونی اور مذہبی نکتہ نظر پیش کیا جائے اور اس کو سماجی ضرورتوں کے مطابق سمجھا جائے۔ اگر ہم ضروری باتوں سے آنکیں چرائیں گے تو کبھی بھی ان مسائیل پر ایک رائے عامہ نہیں بنا سکیں گے۔

ہماری ذاتی سوچوں کا ارتقاء بہت تیزی سے ہوتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ معاشری کی سوچوں کا ارتقاء بھی اسی رفتار سے ہو۔ معاشرہ کی سوچوں کے ارتقاء کے لئے ضروری ہے کہ ہر موضوع پر صحت مندانہ اور مناب بحث کی جائے تاکہ سارا معاشرہ ایک نکتہ نظر کی طرف مائل ہو۔

معذرت کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس موضوع کو مزے لینے کا تاثر دینا ذہنی کم عمری کی نشانی ہے، یہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ وقت اور مناسب مطالعہ اس ذہنی کم عمری کا بہترین علاج ہے۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
شادی کے صرف ایک ظاہری مقصد کے علاوہ بہت سے مقاصد ہیں جو کہ صرف صنف مخالف سے ہی شادی کرنے پر پورے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ ظاہری مقصد درحقیقت مقصد حقیقی حاصل کرنے کیلئے ایک ذریعہ ہے اور ایک امتحان بھی۔ اور یہ تمام حیوانوں‌ میں مشترک ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ ہے نسل کی بقا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر دنیا میں صرف ہم جنس پرستی ہی رہ جائے تو دنیا کتنے عرصہ تک رہے گی ؟

ہا ہا اگر جانور بھی ہم جنس پرستی پر تل جائیں تو پھر کھا لیا ہم نے گوشت ؟ پودے بھی ہم جنس پر ستی پر تل جائیں تو پھر کھا لیا ہم نے اناج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وائے قسمت مگر وہ بے چارے اس امتحان سے بری ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کا ایک ہی مقصد ہے بقائے نسل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تاکہ ہم انسان اشرف المخلوقات کی نسل بچائے جا سکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر اب کیا کیا جائے کہ حضرت انسان خود ہی اپنی نسل کے درپے ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔
 

مغزل

محفلین
یہ لڑی کتنے عرصے بعد دستیاب ہوئی ، میں تو ڈھونڈ ڈھونڈ تھک گیا تھا، ( حیرت ہے مقفل بھی نہیں )
 
غیرقانونی
سہیل حلیم
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
آخری وقت اشاعت: بدھ 11 دسمبر 2013 ,‭ 06:05 GMT 11:05 PS
120130091626_gay_304x171_afp.jpg

بھارت میں کئی برسوں سے ہم جنس پرستی متنازع اور بحث طلب مسئہ رہا ہے
بھارت کی سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ تعزیرات ہند کے تحت ملک میں ہم جنس پرستوں کے درمیان جنسی تعلق غیر قانونی ہے اور دہلی ہائی کورٹ نے اسے جرم کے زمرے سے نکال کر غلطی کی تھی۔
اسی بارے میں
عدالت نے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کو ’قانونی طور پر غلط‘ قرار دیتے ہوئے مرکزی حکومت کو اس پر غور کرنے کو کہا ہے۔

دلی ہائی کورٹ نے 2009 اس انتہائی حساس موضوع پر ایک تاریخ ساز فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 377 سے مساوات کے اصول کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اس دفعہ سے انفرادی آزادی مجروح ہوتی ہے جو کہ ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔

بھارتی تعزیرات کی دفعہ 377 کے تحت ایک ہی جنس سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان جسمانی تعلقات کو جرم قرار دیا گیا ہے اور اس فعل کے لیے انہیں دس سال کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

تعزیراتِ ہند کی دفعہ 377
دفعہ 377 تقریباً ڈیڑھ سو برس پرانا ایک قانون ہے جس کے تحت صرف مرد اور عورت کے درمیان روایتی اور مروجہ جنسی تعلق کو ہی جائز جنسی فعل مانا گیا ہے۔ جبکہ دوسر ے تمام طریقوں کو نہ صرف غیر فطری قرار دیا گیا ہے بلکہ انہیں غیرقانونی اور قابل سزا عمل کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔

لیکن ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو ہندو، عیسائی اور مسلم مذہبی تنظیموں نے چیلینج کیا تھا۔ ان کا موقف ہے کہ ہم جنس پرستی غیر فطری عمل ہے اور اس جرم کے زمرے میں ہی شامل رہنا چاہیے۔

سپریم کورٹ نے گزشتہ برس مارچ میں ایک مہینے کی لگاتار سماعت کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو بدھ کی صبح سنایا گیا۔

اس قانون کے خلاف آواز اٹھانے والوں میں سماجی کارکن اور غیر سرکاری تنظیمیں بھی شامل تھیں۔ ہائی کورٹ کورٹ کا فیصلہ ہم جنس پرستوں کے حقوق اور ایڈز کی روک تھام کے لیے کام کرنے والے ادارے ناز فاؤنڈیشن کے ایک پٹیشن پر سنایا گیا تھا۔

ناز فاؤنڈیشن اور تحریک سے وابستہ دیگر تنظیموں نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

اس کیس سے وابستہ ایک وکیل اروند نارائن نے کہا کہ ’یہ ایک سیاہ دن ہے، سپرپم کورٹ مساوات کے وعدے سے پیچھے ہٹ گئی ہے جس کا وعدہ دستور ہند میں کیا گیا ہے، یہ عدالت کے سب سے برے فیصلوں میں سےایک ہے۔‘

"یہ ایک سیاہ دن ہے، سپرپم کورٹ مساوات کے وعدے سے پیچھے ہٹ گئی ہے جس کا وعدہ دستور ہند میں کیا گیا ہے، یہ عدالت کے سب سے برے فیصلوں میں سےایک ہے۔"

اروند نرائن

ہائی کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والوں میں مسلم پرسنل لا بورڈ بھی شامل تھا جس کے اعلی عہدیدار ظفریاب جیلانی نے کہا کہ عدالت نے سماجی اقدار کا تحفظ کیا ہے اور فیصلے کی مخالفت کرنے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔

لیکن ہم جنس پرست گروپ اور ان کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی قانونی جنگ جاری رکھیں گے۔

بھارت میں کئی برسوں سے ہم جنس پرستی متنازع اور بحث طلب مسئلہ رہا ہے۔ کئی سیاسی اور مذہبی شخصیات نے دلی ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد سے ہم جنس پرستی کے خلاف مہم تیز کر دی تھی۔

اس کی قیادت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رہنما بی پی سنگھل کر رہے ہیں جنہوں نے ہم جنس پرستی کو غیر اخلاقی، غیر قانوی، بھارتی تہذیب و ثقافت کے خلاف اور غیر فطری عمل بتایا تھا۔

ادھر ہم جنس پرست اور حقوق انسانی کی تنظیمیں ایک عرصے سے حکومت سے یہ مطالبہ کر رہی تھیں کہ وہ دفعہ 377 کو ختم کر دے۔ ان کی دلیل تھی کہ ہم جنس پرستی سماج کی ایک حقیقت ہے اور اسے بدلتے ہوئے حالات میں قانونی طور پر قبول
 
Top