طارق شاہ
محفلین
"زمِیں کا قرض"
زمیں کا قرض ہے ہم سب کے دوش و گردن پر
عجیب قرض ہے یہ ،قرضِ بے طَلب کی طرح
ہَمِیں ہیں سبزۂ خود رَو ، ہَمِیں ہیں نقشِ قَدم
کہ زندگی ہے یہاں موت کے سَبب کی طرح
ہر ایک چیز نُمایاں ، ہر ایک شے پِنہاں
کہ نیم روز کا منظر ہے نیم شب کی طرح
تماشہ گاہِ جہاں عِبرَتِ نظارہ ہے
زِیاں بَدست رِفاقت کے کاروبار مِرے
اُترتی جاتی ہے بام و دَرِ حَیات سے دُھوپ
بچھڑتے جاتے ہیں ایک ایک کر کے یار مِرے
میں دفن ہوتا چلا ہُوں ہر ایک دوست کے ساتھ
کہ شہر شہر ہیں بِکھرے ہُوئے مزار مِرے
شاؔد تمکنت
مطبُوعہ
"اوراق" لاہور
"شاعر" ممبئی
'15 جون-1978'