سیکس ایجوکیشن

ہم لوگوں نے سیکس پر بھی مذہب اور معاشرے کے پہرے بٹھا رکھے ہیں جس کی وجہ سے سیکس کے بارے میں معلومات ہم لوگوں تک غلط طریقے و راستے سے پہنچتی ہیں میں اس گہرائی مین نہیں جاننا چاہتا ہے کہ کس طرح فاحشہ لڑکیاں بھولی بھالی لڑکیوں کو اپنے جال میں پھنسوا کر آگے استعمال کرواتی ہیں۔
میرے خیال سے سیکس کی چھٹی کلاس سے ہی ایک پیریڈ ہونا چاہیئے ہے کیونکہ اگر آپ مثبت انداز میں اپنے بچوں کو یہ تمام معلومات نہیں پہنچائیں گے تو جلد یا بدیر یہ معلومات غلط راستے اور طریقے سے پہنچیں گی اور اگر اس دوران آپ کا لخت جگر یا آپ کی گڑیا کسی غلط ہاتھوں میں چلی گئی تو پھر کیا ہوگا۔
اس کے علاوہ سیکس پر اور بھی بہت کچھ کھل کر لکھنے کو جی چاہتا ہے دیکھتا ہوں کہ اردو محفل جیسا لبرل فورم اس کو برداشت کرپاتا ہے یا کہ بنیاد پرستوں کے ہاتھوں گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔
ابن سعید نبیل ساجد
 

ساجد

محفلین
میں نہیں سمجھتا کہ جنسی معاملات میں لڑکپن کی عمر میں پہنچنے پر ایک ماں کو اپنی بیٹی یا باپ کو اپنے بیٹے سے بات کرنے میں کوئی مذہبی یا اخلاقی امر مانع ہے۔ ہمارا دین ہمیں کہتا ہے کہ سات سال کی عمر میں بچے کو نماز کی تلقین کرو اور دس برس کی عمر تک اسے نماز پڑھنے کی عادت ڈالو۔ ظاہر سی بات ہے کہ نماز قرآن کی تلاوت کے بغیر نا مکمل ہے اور قرآن میں بڑے مدلل انداز میں جنسی معاملات پر ہماری رہنمائی کی گئی جسے ہر مسلمان بچے اور بچی کو 10 برس کی عمر تک پڑھنا ضروری ہے۔
 
میں نہیں سمجھتا کہ جنسی معاملات میں لڑکپن کی عمر میں پہنچنے پر ایک ماں کو اپنی بیٹی یا باپ کو اپنے بیٹے سے بات کرنے میں کوئی مذہبی یا اخلاقی امر مانع ہے۔ ہمارا دین ہمیں کہتا ہے کہ سات سال کی عمر میں بچے کو نماز کی تلقین کرو اور دس برس کی عمر تک اسے نماز پڑھنے کی عادت ڈالو۔ ظاہر سی بات ہے کہ نماز قرآن کی تلاوت کے بغیر نا مکمل ہے اور قرآن میں بڑے مدلل انداز میں جنسی معاملات پر ہماری رہنمائی کی گئی جسے ہر مسلمان بچے اور بچی کو 10 برس کی عمر تک پڑھنا ضروری ہے۔
ساجد صاحب آپ اس معاملے میں دین اسلام کو بار بار کیوں لاتے ہیں کیا آپ کو پتہ نہیں ہے کہ مذہب کا علم ہمارے معاشرے میں کتنے فیصد ہے؟؟؟؟
جناب عالی یہ جنسیات کا یہ پہلو تو زیر بحث ہےابھی تو دوسرے پہلو پر روشنی ہی نہیں ڈالی ہے کہ کس طرح مرد عورت کو مطمئن نہیں کرپاتا ہے اور پھر عورت اگر آوارہ ہے تو وہ تو دوسرا راستہ تلاش کرلیتی ہے اور اگر شریف عورت ہے تو پھر نفسیاتی مریض بن جاتی ہے۔
اس دوران کوئی بھی پیر ، کوئی ڈاکٹر یا اس عورت کا کوئی بھی چالاک عاشق فائدہ اٹھا سکتا ہے میں نے گھروں کو اسی طرح اجڑتے دیکھا ہے اور اچھی بھلے شریف خاندانوں کی عزت کو اچھلتا دیکھا ہے
 

S. H. Naqvi

محفلین
اچھا سلسلہ ہے، فراغت پاتے ہی کچھ لکھوں گا، فی الحال پورا پڑھ تو لوں۔۔۔۔۔!:)
 

تعمیر

محفلین
انسان کی جسمانی بناوٹ سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی بقاء کے لیے اس کے جسم کی دو خاص ضرورتیں پوری کرنی پڑتی ہیں ۔ ایک تو یہ ضرورت ہے جس سے اس کے جسم کے پرورش ہو ، اس کے نشوونما ہو اور دوسری ضرورت وہ ہے جس جس سے نسل انسانی قائم رہے ۔ پہلے فعل میں خوراک کا ہضم کرنا ، تنفس اور فضلات کا اخراج وغیرہ شامل ہیں اور دوسرا فعل تولید ہے ، جس سے انسان اپنی نسل کو بڑھاتا ہے ۔ ان دونوں ضرورتوں کے لیے جو اعضاء درکار تھے قدرت نے ان سب کو جسم انسانی میں مناسب اور موزوں جگہ مکمل حالت میں مہیا کردئیے ہیں ۔

جانور اپنے اعضائے تولید ، قانون قدرت کے تابع رہ کر خاص خاص وقت پر استعمال کرتے ہیں لیکن حضرت انسان جس وقت چاہے اپنی جنسی کواہش پوری کرنےکے لیے طبعی قوانین کی پرواکئے بغیر مشغول کار ہوسکتا ہے ۔ اس لیے ہر سمجھدار جوڑے کو ایک دوسرے کے آلات ِ تناسل کے افعال کے بارے میں با خبر رہنا ضروری ہے ، ورنہ بعض صورتوں میں لاعلمی مضحکہ خیز اور شرمندگی کا باعث ہوسکتی ہے ۔ عورت سے زیادہ مرد کے لیےیہ ضروری ہے کہ وہ عورت کے جنسی اعضاء اور ان کے افعال کے بارے میں صحیح معلومات حاصل کرے ، کیونکہ جنسی ملاپ میں وہ فاعل ہے اورعورت مفعول ۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ شادی کے ابتدائی زمانہ میں مرد ہی کو پہل کرنی پڑتی ہے اور ان دنوں بیوی سے اس بات کی توقع کرنا کہ وہ اس بارے میں شوہر کی رہنمائی کرے گی ، عورت کی فطری شرم کو چیلنج کرنا ہے ۔
سارے حیوانات میں حضرت انسان اور میاں بندر ہی ایسے خوش قسمت ہیں جن کے اعضائے تولید بیرونی حصے ہی میں ہوتے ہیں ۔ ان کے سوا ء ۔۔۔ سارے جانوروں کے آلات تناسل اندر چھپے ہوئے رہتے ہیں اور وقت ضرورت تھیلی سے باہر آتے ہیں ۔ مرد کے اعضائے تناسل ناف سے نیچے کی طرف دونوں رانوں کے بیچ میں ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔

جنس کا جغرافیہ - قسط:15
 
اصل مسئلہ قرآن و حدیث کو بیان نہیں کیا جاتا۔۔۔۔اگربیان کیا جاتا ہے تو اس پر عمل نہیں کیا جاتا ہے
دوسرا بڑا مسئلہ ہمارے معاشرے میں شادی کا آسان نہ ہونا ہے۔۔۔۔سٹینڈرڈ کے چکر میں ہم سب کچھ گنوا دیتے ہیں
 

تعمیر

محفلین
ازدواجی زندگی کو خوشحال بنانے کی ضرورت اس قدر شدت سے کبھی محسوس نہیں کی گئی تھی جتنی آج کل سمجھی جا رہی ہے۔ بیشتر لوگ جو حصول مسرت کی توقع میں شادی کرتے ہیں اکثر سخت مایوسی سے دوچار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں دوبارہ آزادی حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

شادی شدہ زندگی کو دلچسپ ، دلفریب اور پائیدار بنانا کوئی آسان کام نہیں ۔ اصل میں یہ ایک ایسا مستقل کارنامہ ہوتا ہے، جو ایک خود غرض ، پست ہمت اور بزدل شخص کی طاقت سے باہر ہے ۔ ازدواجی زندگی کے مسئلے بے حد پیچیدہ ہوتے ہیں اور انہیں حل کرنے کے لئے صبر، استقلال اور ہمدردی کی سخت ضرورت ہے ۔
بعض لوگ جنسی تربیت کی حد تک یہ کہتے ہیں کہ کیا اس کے لئے فطرت کافی نہیں ہے؟ کیا فطرت جنس کے بارے میں انسان کی بہترین استاد نہیں ہے؟ اس کا بس یہی ایک جواب ہے کہ نہیں !
فطرت قطعاً کافی نہیں ہے ۔ ہر انسانی فعل کے تعلق سے یہ تسلیم کیاجاچکا ہے کہ تربیت کا حصول لازمی ہے۔ ایک بلی جانتی ہے کہ اپنے نوزائیدہ بچوں کی پرورش کیونکر کرے اور انہیں تربیت کیونکر دے لیکن اشرف المخلوقات کی ماں کو جب تک تعلیم اور تربیت نہ دی جائے وہ نہیں جانتی کہ بچوں کو کیونکر سنبھالے اور تربیت دے ۔ یہ تعلیم و تربیت وہ یا تو کسی سے راست حاصل کرتی ہے یا دوسری ماؤں کو دیکھ کر اپنی قوت مشاہدہ کے ذریعہ حاصل کرتی ہے ۔ بلی اپنے سارے فرائض طبعاً یا فطرتاً پورے کرتی ہے، لیکن انسان کی ماں کو پیچیدہ فرائض کی تکمیل کے لئے تعلیم و تربیت حاصل کرنا ضروری ہے۔

۔۔۔۔ شوہر کی اگر پہلی شادی نہیں ہے تو وہ اس معاملہ خاص میں اپنی معلومات ضرور رکھتا ہے جو ایک دوشیزہ سے زیادہ ہوتی ہے ۔ اس کے علاوہ مرد بے باک، دست دراز اور اپنے کو دبانے کی طرف سے قدرتاً بے پروا ہوتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ اپنے گھر میں ہے اور جانتا ہے کہ مذہب، قانون اور سوسائٹی نے اسے اجازت دے رکھی ہے کہ وہ آج کی رات جس طرح چاہے بسر کرے اور اپنی مرضٰ کے مطابق لطف اندوز ہو اور اپنی بیوی سے جو چاہے سلوک کرے۔
دوسری طرف نو عمر عورت ہے جس کی عمر کا بیش تر حصہ چار دیواری میں عورتوں کے ساتھ بسر ہوا ہے۔ اس نے کسی اجنبی مرد سے بات چیت نہیں کی۔ وہ شرم و حجاب کے لحاظ سے پہلے دن کی نئی دلہن ہے ۔ ماں باپ کا گھر ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر آئی ہے ۔ بالکل اجنبی جگہ آئی ہے ، ان ساری باتوں سے بڑھ کر وہ اپنی دوشیزگی کے چھن جانے کے تعلق سے ضرورت سے کچھ زیادہ ہی خائف ہے ۔ اب ان حالات کے پیش نظر یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ دلہا کو دلہن کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہئے ۔

۔۔۔۔اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ شادی کے بعد عورت اور مرد ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے لئے ایسے محرم ہوتے ہیں جس کے مثال دنیا کے کسی رشتے میں نہیں ملتی ۔ لیکن یہ ضروری نہیں کہ شوہر اور بیوی کے جو تعلقات برسوں کی یکجائی کے بعد پیدا ہوتے ہیں وہ پہلی رات کے پہلے ہی گھنٹے سے فرض کرلئے جائیں ۔ ان تعلقات کی ابتداء تو بڑی متانت، بڑی تہذیب اور شائستگی سے ہونی چاہئے ۔
شوہر کو چاہئے کہ پہلے بیوی سے گفتگو کرے ۔ گفتگو میں موانست پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے میکے کا ذکر ہو ۔ بھائیوں، بہنوں اور دوسرے رشتے داروں کے تعلق سے بات چیت کی جائے۔ پھر اس کی تعلیم و تربیت کے بارے میں معلومات لی جائے۔ اس کی عادات کا ذکر ہو، پسند، ناپسند کا پتہ چلایاجائے اس کے محبوب مشاغل کی دریافت کی جائے ۔ اس کی مرغوب اشیاء کی تحقیق کی جائے۔ شوہر اور بیوی کے تعلقات پر تبصرے ہوں ۔ اگر سلیقے سے گفتگو کی جائے گی تو جانبین میں بہت جلد بے تکلفی پیدا ہوجائے گی۔ پھر اگر بتدریج جذبات کو عیاں کیاجائے گا تو چنداں مضائقہ نہیں اور فریق ثانی کے لئے بے لطفی کا باعث نہیں ہوگا ۔

۔۔۔۔۔ بہر حال یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ بیوی صرف شباب کے عارضی ولولوں کی آماجگاہ ہی نہیں ہے بلکہ وہ ایک رفیق ہے جو زندگی کے رنج وراحت ، نشیب و فراز اور سرد و گرم میں ساتھ دینے کے لئے حاصل کی گئی ہے ۔ پس پہلی رات صرف جذبات پروری میں بسر کرنے کے لئے نہیں ہے ۔ بلکہ اس رات باہم ایسی گفتگو ہونی چاہئے جس سے جانبین ایک دسرے کے ہمدرد اور غمگسار بنیں ۔ ایک دوسرے کے تعلق سے حسن ظن پیدا ہو۔ بیوی شوہر کو پا کر یہ نہ محسوس کرے کہ اگر اس نے ماں باپ ، بھائی بہن اور اس گھر کو خیرآباد کہا جس میں وہ پل کر جوان ہوئی تو اس کا بدل اس کو کچھ نہیں ملا اور اگرا س نے بہت کچھ کھویا ہے تو بہت کچھ پایا بھی ہے ۔
اور شوہر کے دل میں یہ خیال جاگزیں ہو کہ اس نے جس ہستی کو اپنا شریک زندگی بنایا ہے اور تمام عمر جس کا بار اٹھانے کی ذمہ داری لی ہے ، وہ ہر طرح اس کی اہل ہے ۔ اور اس سودے میں اسے کسی طرح خسارہ کا احتمال نہیں ہے ۔ اگر پہلی رات ان خوشگوار توقعات کی بنیاد پر بسر کی جائے گی تو یقیناًیہ اک دوسرے کی دلکشی اور دل آویزی کا باعث ہوگی ۔ اور پھر تمام عمر عیش و آرام اور دائمی مسرتوں کے ساتھ گزرے گی ۔

جنس کا جغرافیہ - قسط:19 -- یادگار - فیصلہ کن رات
 
Top