سیلاب 1973 از انور مسعود

علی فاروقی

محفلین
یہ نظم جناب انور مسعود کے مجموعہ کلام"اک دریچہ اک چراغ" سے لی گئ ہے۔ پاکستان آج کل سیلاب کی جس تباہی کا سامناکر رہاہے۔ایسی ہی ایک آفت سے ہمیں پہلے بھی پالا پڑا تھا۔

کیا بیت گئی دیس پہ سیلاب کے ہاتھوں
کیسے کوئی اس کرب کو الفاظ میں ڈھالے
انسان بھی فصلیں بھی مویشی بھی مکاں بھی
ہر چیز ہے بپھرے ہوے پانی کے حوالے

سہمے ہوے لوگوں پہ مکانوں کی چھتوں پر
اِک تیغ نئے خوف کی سو بار گری ہے
کیا حشر بپا ہے کہ اندھیرے میں اچانک
ہمسائے پہ ہمسائے کی دیوار گری ہے

کیا بیت گئی اُن پہ جنہیں راس نہ آئیں
پانی سے اُکھڑتے ہو ئے پیڑوں کی پناہیں
کیاجانیے سیلاب کے طوفانِ بلا میں
کس وقت کہاں ڈوب گئیں کس کی کراہیں

نیچے جو ہے سیلاب تو اوپر ہیں گھٹائیں
بدلی ہے وہ دنیا کہ فلک ہے نہ زمیں ہے
جس سمت بھی دیکھو تو نظر آتاہے پانی
اور پیاس بجھانی ہو تو اِک بوند نہیں ہے

رفتار ہے سیلاب کی آندھی کی طرح تیز
دریا ہیں کہ دھرتی کی طرف دوڑ پڑے ہیں
آہستہ و کم کم ہے مگر وقت کی رفتار
راتیں بھی مصیبت کی بڑی ،دن بھی بڑے ہیں

آو کہ اب اُس ہستی بر تر کو پکاریں
وہ جس کہ سوا کوئی خداوند نہیں ہے
ہے جس کا یہ اعلان کہ دروازہ ءِ توبہ
توفیقِ ندامت کے لیے بند نہیں ہے
 
Top