اسکین دستیاب سیر ظلمات

لاريب اخلاص

لائبریرین
173

لیکن اب پلٹنے کا وقت نہ رہا تھا اور یہ سوچ کر وہ بول اٹھا
ہر چہ بادا باد ما کشتی در آب انداختیم




انیسواں باب

منزل مقصود

ایک گھنٹہ کے بعد وہ اس قدرتی دیوار پر جو ان کے سد راہ تھی چڑھنے لگے۔ اس عمود دار پہاڑ پر جانے کا کوئی راستہ نظر نہیں نہ آتا تھا۔ کوئی پگڈنڈی ایسی نہ تھی جسے انسان کے قدموں نے بنایا ہو کیوں کہ جو لوگ پہاڑ کے دوسری طرف رہتے تھے وہ کبھی اس طرف کو نہ آئے تھے سوا البتہ ایک دفعہ یہاں سے گزری تھی مگر اسے بھی سالہا سال کی مدت گزر چکی تھی۔ چڑھائی میں انھیں سخت دقت پیش آئی وہ ہانپ ہانپ گئے جڑی بوٹیوں کو پکڑ پکڑ کر چڑھنے سے ان کے ہاتھ مجروح ہو گئے مگر آخر کار وہ بصد مشکل شام کے وقت پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گئے۔ وہیں شب باش ہوئے اور جو گوشت ان کے پاس بچا ہوا تھا اسی پر اکتفا کیا۔
رات نہایت بے مزگی سے کٹی۔ سردی اس قدر تھی کہ اس کی تاب لانا مشکل تھا خصوصاً نو آبادی کے لوگ اور فرانسسکو تو مارے جاڑا کے کانپ رہے تھے۔ خدا خدا کر کے صبح ہوئی دھند اور کہر نے ایک سماں باندھ رکھا تھا۔۔۔(غیر واضح لفظ) ادھر ادھر سے سر کنڈے جمع کر کے آگ سلگائی اور ماحضر پر اکتفا کر کے لگے انتظار کرنے کہ مطلع کب صاف ہوگا۔ مگر یہاں کی آب و ہوا ایسی نہ تھی کہ مطلع کے جلد صاف ہونے کی توقع ہو سکے۔
آخر کار وہ سوا کی رہنمائی سے جوں توں کر کے پہاڑ کے دوسری طرف نیچے اترے۔ زمین اب انہیں ہموار ملی۔ کہیں کہیں سنگ مرمر کی چٹانیں نظر آ جاتی تھیں باقی ہر طرف سبزہ زار تھا۔
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
174

تمام دن سفر کرتے رہے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جنگل میں غول جا رہے ہیں دور سے دریا کی روانی کی سریلی آواز آتی تھی۔ رستہ میں انہیں کچھ بڑے بڑے سفید بیلوں کے گلے ملے جن کے تمام جسم پر لمبے لمبے بال تھے۔ غروب آفتاب کے وقت لیونارڈ نے اپنی رائفل سے ایک بیل کا شکار کیا جس کا قد سترہ ہاتھ اور دیکھنے میں نہایت خوبصورت تھا۔
مگر جب وہ اس بیل کی کھال کھینچنے میں مصروف تھے تو جوانا کی نگاہ اتفاقاً مغرب کی طرف پڑی ہر طرف دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا۔ تاہم ڈوبتے دن کی سرخ روشنی میں آفتاب کے قرص کے مقابل اس نے بآسانی دیکھ لیا کہ ایک دراز قامت اور جیم شکل تیر کمان ہاتھ میں لیے ان کی طرف بڑھی چلی آ رہی ہے اس نے فوراً انگلی سے اس شکل کی طرف اشارہ کر کے لیونارڈ کو بتایا اور لیونارڈ جھٹ اپنی رائفل لے کر اس کی طرف بڑھا مگر ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ وہ شکل غائب ہو گئی۔ لیونارڈ واپس لوٹ کر آیا اور جوانا سے ہنس کر کہنے لگا ”یہ سب ہمارا قصور ہے ہم جنات اور بھوتوں کی اس قدر باتیں سنتے اور کرتے رہے ہیں کہ ہماری قوت متخیلہ موجودات ذہنی کو خارجی لباس پہنا کر ڈراؤنی۔۔۔(غیر واضح لفظ) ہمارے سامنے کھڑا کر دیتی ہے۔“ لیکن لیونارڈ یہ بات ختم کرنے نہ پایا تھا کہ کوئی چیز سائیں سائیں کرتی ہوئی ان کے درمیان میں سے ہو کر دوسری طرف کو نکل گئی۔ جب اس طرف نگاہ کی تو دیکھا کہ ایک تیر زمین میں گڑا ہوا ہے۔ جوانا اس تیر کو دیکھ کر بولی ”اگر موجودات ذہنی ایسی ہی ہوتے ہیں اور حواس خمسہ و باصرہ انہیں اسی طرح پر محسوس کر سکتی ہیں تو ہماری خیر نہیں“ لیونارڈ نے اس ظرافت آمیز جملہ کا کچھ جواب نہ دیا بلکہ اس سمت میں جہاں سے تیر آیا تھا اٹکل سے بندوق چھوڑی مگر اس سے کوئی نتیجہ نہ پیدا ہوا۔ رات بھر ان کی آنکھوں میں کٹی اور کہر اور شبنم میں وہ ادھر ادھر احتیاطاً دیکھتے رہے کہ کہیں وہ شکل پھر نمودار نہ ہو مگر خیر گزری۔ آخر کار صبح ہوئی اور ایک طرف سے سورج نکل آیا اور کوچ کی تیاریاں ہونے لگیں۔
رات بھر کی سردی نے انھیں نہایت خستہ حال اور ماندہ کر دیا تھا اس پر غنیم کا خوف تھا۔ نو آبادی کے بعض آدمی رونے لگے اور یوں کہنے لگے کہ ”ہائے افسوس ہم فرمانبرداری اور شرم میں رہے اور واپس نہ لوٹ گئے۔ اب اکیلے دُکیلے لوٹنا بھی مشکل ہے“ اس پر لیونارڈ نے ان کو یہ دھمکی دی تھی کہ جو شخص میری عدول حکمی کرے گا اس کو میں اپنے گروہ سے علیحدہ کر دوں گا اس لیے”قہر درویش برجان درویش“ ان کو لیونارڈ کے ساتھ بے چوں و چرا جانا پڑا۔
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
175

تمام دن وہ سفر کرتے رہے جب شام ہوئی تو ایک اچھی جگہ دیکھ کر فروکش ہوئے۔ دن بھر کی تکان نے انہیں چور کر دیا تھا۔ جاڑے اور کہر سے ان کے بدن ٹھٹھرے جاتے تھے لیونارڈ نے دل میں سوچا کہ اگر ہماری یہی حالت رہی تو ہم بہت دن تک زندہ نہیں رہ سکیں گے۔ اور اس نے سوا سے پوچھا ”سوا تم کہتی تھیں کہ اہل ظلمات کے ملک میں ایک شہر آباد ہے۔“
سوا ”ہاں نجات دہندہ! شہر تو ہے مگر سوال یہ ہے کہ آیا تم صحیح سلامت اس شہر میں داخل بھی ہو سکتے ہو یا نہیں۔“
لیونارڈ۔ ”خیر اس سوال پر تو بعد میں غور کیا جائے گا۔ فی الحال یہ بتاؤ کہ وہ شہر یہاں سے کتنی دور ہے۔“
سوا۔ ”یہاں سے کوئی ایک دن کی مسافت پر ہوگا اگر کہر نہ ہوتی تو تم یہیں سے دیکھ سکتے تھے کیوں کہ یہ شہر اونچے پہاڑوں پر واقع ہے اگر کل مطلع صاف ہو گیا تو تمہیں میرا کہنا یاد آ جائے گا۔“
لیونارڈ۔ ”کیا یہاں کوئی ایسا مکان قریب نہیں کہ جس میں ہم بسیرا لے سکیں۔“
سوا۔ ”بھلا یہ میں کیسے بتا سکتی ہوں مجھے یہاں سے گزرے چالیس برس ہو گئے ہیں ممکن ہے یہاں سے قریب کوئی مکان ہو ممکن ہے میلوں تک کوئی مکان نہ ملے۔“
جب لیونارڈ نے سمجھا کہ مکان کا ملنا دشوار ہے تو وہ اور اس کے ہمراہی تر زمین پر اکٹھے ہو کر بیٹھ گئے۔ نیند انہیں کیسے آتی۔ خاموشی کے عالم میں گھنٹوں گزر گئے۔ نو آبادی کے آدمی مارے جاڑے کے ٹھٹھر رہے تھے۔ جوانا کا بھی یہی حال تھا مگر فرانسسکو اور لیونارڈ نے اس کو اپنے کمبل اوڑھا دیے اور اس کو ہوش آنے لگا۔ تمام گروہ میں یا تو سوا ایسی تھی جس کے چہرہ سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہے ( اس کی شاید یہ وجہ ہو کہ وہ اپنے ملک میں سفر کر رہی تھی اور آب و ہوا اس کی مزاج کے موافق تھی)
اور یا آٹر تھا جس کو گرمی سردی بھوک پیاس کی کچھ پرواہ نہ تھی نہایت اطمینان کے ساتھ اس نے لیونارڈ سے کہا ”میان جب تک میرے دل میں خون کی گرمی اور جوش باقی ہے مجھ کو سردی کی کچھ پرواہ نہیں۔“
لیونارڈ کا یہ حال تھا کہ نو آبادی کے لوگوں کے۔۔۔(غیر واضح لفظ) کو چپ چاپ بیٹھا ہوا سن رہا تھا اور دل میں کہتا تھا کہ اگر ہماری بے سرو سامانی اور فاقہ کشی کہ یہی کیفیت رہی تو ہم میں سے اکثر چوبیس گھنٹے کے اندر راہی عدم ہوں گے۔“
آخر کار دن نکلا اور مطلع صاف ہو گیا لیونارڈ نے اپنے آپ کو ایک ایسے ڈھلوان میدان پر کھڑا ہوا پایا جو بتدریج حد نگاہ تک پہنچ کر بلند برفیلی پہاڑوں کے دامن سے جا ملتا تھا۔ پہاڑوں کا سلسلہ افق کے
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
176

متوازی قوس قزح کی طرح محراب بناتا چلا گیا تھا۔ اس کے بیچ میں ایک عظیم الشان چوٹی تھی جو برف سے مستور دور آسمان سے باتیں کرتی معلوم ہوتی تھی۔ اس چوٹی کے دونوں طرف پہاڑوں کا سلسلہ موج دریا کی طرح خم کھاتا ہوا اتنی دور تک پھیلا ہوا تھا کہ نگاہ کام نہیں کر سکتی تھی میدانوں میں سردی کی شدت کے باعث روئیدگی کم تھی مگر قدرت نے سنگ مرمر کی چٹانیں جابجا چن دی تھیں اور جانور ان صحرائی کے گلوں کے گلے ادھر ادھر دوڑتے اور۔۔۔(غیر واضح لفظ) کرتے نظر آتے تھے۔ دامن کوہ کے نشیب میں گھنے درختوں کے جھنڈ تھے اور کہیں کہیں جگہ صاف نظر آتی تھی جو شاید کاشت کے لیے تیار کی گئی تھی۔ آٹر نے اس تمام نظارہ کو اپنی عقاب کی سی تیز آنکھوں سے دیکھ کر کہا ”میان سامنے آنکھ اٹھا کر دیکھیے بڑھیا کا کہنا سچ نکلا اور وہ دیکھیے اہل ظلمات کا شہر“ لیونارڈ نے آٹر کی انگلی کی سیدھ میں دیکھا واقعی بہت سے مکانات دامن کوہ میں تھے جن کی عمارت سنگ سرخ کی تھی اور جن کی چھتوں پر کائی جم رہی تھی۔ اگر آٹر نہ دیکھتا تو لیونارڈ کو کبھی معلوم نہ ہوتا کہ سامنے کوئی شہر بھی ہے یا نہیں کیوں کہ جو چٹانیں انھیں جابجا اٹھی ہوئی نظر آتی تھیں ان کی شکل بھی شہر کے مکانات کے بالکل مشابہ تھی۔
کچھ دیر تک سب خاموش کھڑے ہو کر شہر کی طرف دیکھتے رہے حیران تھے کہ ہم کیوں کر یہاں پہنچ گئے اور اب کیوں کر اس شہر میں داخل ہوں گے۔ واپس جانا اگر پہلے ممکن تھا تو اب ناممکن ہو گیا تھا۔ نو آبادی کا ایک آدمی بلند آواز سے چلا اٹھا ”اس کہر اور سردی کے۔۔۔(غیر واضح لفظ) کے عذاب سے تو بہتر ہے کہ ہم ان دیوتاؤں کے ہاتھوں جا کر مریں۔“
لیونارڈ۔ ”بس بس اتنا کیوں گھبرائے جاتے ہو۔ تم مرتے نہیں آفتاب نکل آیا ہے جو ایک نیک شگون ہے۔“
جب ان کے کپڑے جو شبنم سے تر ہو گئے تھے خشک ہو گئے تو انہوں نے ادھر ادھر سے لکڑیاں جمع کر کے آگ سلگا دی۔ آٹر نے صبح ہی صبح ایک ہرن مارا تھا۔ اس کا گوشت بھون کر سب نے تھوڑا تھوڑا کھایا اور پھر کسی قدر آرام کر کے انہوں نے اس جگہ سے کوچ کیا۔
بارہ بجے تک انہوں نے پندرہ میل کی مسافت طے کر لی اور اب شہر صاف نظر آنے لگا یہ شہر ایک پہاڑی کے پہلو پر واقع تھا اور اس لیے اس کے مکانات یکے بعد دیگرے نیچے اوپر بنے ہوئے تھے۔ اس کے گردا گرد پتھر کی فصیل کھچی ہوئی تھی اور چاروں طرف خندق تھی جس میں دریا کا پانی کا ٹکڑا ڈالا گیا تھا۔ مکانوں پر گھاس
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
177

جم رہی تھی اور ان کی ترتیب سے معلوم ہوتا تھا کہ شہر میں گلی کوچوں کا چھا انتظام ہے۔ دو مکان بناوٹ کے لحاظ سے اوروں میں ممتاز تھے ان میں سے ایک عمارت دوسرے کی نسبت ذرا بلندی پر واقع تھی ان کے اس طرف ذرا اور بلند ترشے ہوئے پتھر کا ایک ستون نما سیاہ تودہ کھڑا تھا۔ لیونارڈ نے اس کی طرف انگلی اٹھا کر سوا سے پوچھا ”سوا یہ کالی کالی چیز کیا ہے؟“
سوا۔ ”گورے آدمی نیچے والی عمارت تو بادشاہ کا محل ہے اور جو عمارت اس کے اوپر نظر آ رہی ہے وہ ساگر مندر ہے یہاں ایک نہایت وسیع و عمیق چشمہ۔۔۔(غیر واضح لفظ) کوہ میں سے ابل کر نکلتا ہے جس کا پانی دریا میں جاملتا ہے۔“
لیونارڈ۔ ”مگر مندر سے آگے وہ کالا پتھر کیا ہے؟“
سوا۔ ”گورے آدمی وہ دیوتا ہے جو اونچی جگہ سے تمام شہر کو دیکھتا اور اس کی حفاظت کرتا ہے۔“
یہاں دو گھنٹے آرام کر کے وہ پھر آگے چلے۔ اب وہ ایک پگڈنڈی پر جا رہے تھے راستے میں کہیں کہیں آدمی ملتے تھے جن کے کپڑے کھال کے تھے اور ہر یک شخص برچھے اور تیر و کمان سے مسلح تھا جب کبھی لیونارڈ اور اس کے ہمراہی پانچ چھ سو گز کے فاصلہ پر آ جاتے تو وہ اپنا تیر ان پر چلاتے۔۔۔(غیر واضح لفظ) بجا کر بھاگ جاتے۔ ہر ایک تیر کا۔۔۔(غیر واضح لفظ) لوہے کا تھا اور اس کے پیچھے سرخ پر لگے ہوئے تھے یہ دیکھ کر لیونارڈ بہت گھبرایا مگر جو مصیبت عنقریب نازل ہونے والی تھی وہ اس سے بدرجہا زیادہ ہولناک تھی کیوں کہ جب وہ شہر کے بالکل قریب پہنچ گئے تو انہوں نے دیکھا کہ خندق میں بہت سے مسلح آدمی کشتیوں پر سوار ہیں اور خندق کو عبور کر کے اس پار آ کر جمع ہوتے جاتے ہیں۔ آخر کار سب آدمی جن کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز ہو گی کشتیوں سے اتر کر ایک مربع شکل میں کھڑے ہو گئے اور پھر ڈبل مارچ کرتے ان کی طرف بڑھے۔ اب وہ نازک وقت آن پہنچا جس کا انہیں خطرہ تھا۔

 

لاريب اخلاص

لائبریرین
178

بیسواں باب

ایکا دیبی کا اوتار

لیونارڈ نے ہراساں ہو کر اپنے ہمراہیوں پر نظر ڈالی اور بولا ”اب کیا ہوگا۔“
جوانا۔ ”ہو گا کیا! سوا نے مجھے اور آٹر کو جو پٹی پڑھائی ہے اس پر ہم دونوں عمل کریں گے اگر قسمت نے۔۔۔(غیر واضح لفظ) کی اور ہمارا منصوبہ چل گیا تو فبہا ورنہ خدا حافظ۔ مسٹر اوٹرم آپ وہ لعل مجھے دیجیے جو آپ کے پاس ہے کیونکہ اس کی اب ضرورت ہے۔“
لیونارڈ نے۔۔۔(غیر واضح لفظ) میں سے لعل نکال کر بے کچھ کہے اس نے جوانا کے حوالے کر دیا اور وہ سوا کو لے کر اپنے بقچہ سمیت ایک چٹان کے پیچھے چلی گئی تھوڑی دیر میں وہ چٹان کی آڑ سے نمودار ہوئی لیکن دوسری ہیت میں اس کی وضع بالکل بدلی ہوئی تھی ایک ڈھیلا سفید عربی تراش۔۔۔(غیر واضح لفظ) جو شانوں پر سے کٹا ہوا تھا پہنے تھی۔ اس کے گیسو جو اس قدر لمبے تھے کہ گھٹنوں تک پہنچتے تھے اس نے چھوڑ دیے تھے اور اس کی پیشانی پر لیونارڈ کا لعل بصد آب و تاب چمک رہا تھا جسے سوا نے ایک ترکیب سے پٹی کے ذریعہ باندھ دیا تھا۔ قریب آ کر وہ تمسخر کی راہ سے کہنے لگی ”اب میں وہی ہوں تم پر میری پرستش فرض ہے“ پھر اس نے آٹر سے کہا کہ ”اب تو بھی تیار ہو جا۔ سوا نے جو کچھ تجھے سیکھا رکھا ہے اسے یاد رکھنا زبان سے ایک لفظ مت نکالنا میرے ساتھ ساتھ چلنا اور جو کچھ مجھے کرتے دیکھنا وہی کرنا۔“
آٹر ”بہت خوب“ کہہ کر تیار ہونے لگا۔ تیاری کیا تھی صرف اس نے کوٹ اور ایک پرانا پتلون جو لیونارڈ نے اسے دے دیا تھا اتار ڈالا۔ اور سوائے ایک چمڑے کی لنگوٹی لیے باقی بالکل ننگا ہو گیا۔
پیٹر نے جو اپنے ہمراہیوں سمیت فرط خوف سے کھڑا کانپ رہا تھا اس وقت پوچھا ”یہ کیا معاملہ ہے“
جوانا نے اسے جواب دیا کہ ”اس کے یہ معنی ہیں کہ آٹر نے اور میں نے ان لوگوں کے دیوتا اور دیبی کی شکل اختیار کی ہے اگر انہوں نے ہمیں اپنا دیوتا اور دیبی مان لیا تو بہتر ورنہ اجل آ پہنچی اگر وہ ہم پر ایمان لے آئے
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
179

تو اس صورت میں تمہیں نہایت احتیاط سے کام لینا ہو گا ایسا نہ ہو کہ تو کوئی نادانی کر کے سب کا بھانڈا پھوڑ دو۔ میں وقتاً فوقتاً تمہیں ہدایت کرتی جاؤں گی کہ تمہیں کیا کرنا چاہیے۔“
یہ باتیں سن کر پیٹر حیران رہ گیا۔ ادھر لیونارڈ اور فرانسسکو اہل ظلمات کی فوج کی طرف جو اب زیادہ دور نہ تھی محو و از خود رفتہ ہو کر دیکھنے لگے۔
سپاہی خاموشی کے عالم میں بڑھتے چلے آ رہے تھے لیکن ان کے قدموں کی دھمک سے زمین ہلی جاتی تھی۔ آخر کار وہ اس چٹان سے جس پر سیاحوں کی چھوٹی سی جماعت کھڑی تھی ڈیڑھ سو گز کے فاصلہ پر ٹھہر گئے جہاں تک لیونارڈ کی نگاہ نے کام کیا ان سپاہیوں میں ایک بھی ایسا نہ تھا جس کا قد چھ فٹ سے کم ہو اور ان کی جسامت اور تنو مندی کی نسبت بھی اسی لحاظ سے تھی شکل و صورت کے اعتبار سے انھیں نہ خوبصورت کہا جا سکتا تھا نہ بدصورت، بلکہ ان کے چہروں پر سنجیدگی اور متانت کے آثار پائے جاتے تھے آنکھیں ان کی بڑی بڑی تھیں۔ بال گھنے اور لپٹے ہوئے تھے جن کا رنگ بھورا تھا اور ایک بات جو ان کی خصوصیات مخصوصہ میں ممتاز تھی وہ یہ تھی کہ ان کے چہرے اس طرح بے حس و حرکت نظر آتے تھے جیسے پتھر کی مورت قواعد میں وہ منجھے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ ہر ایک کمپنی ایک کپتان کے زیر کمان تھی جو ہتھیاروں کے علاوہ جنگلی سانڈ کے سینگ کا۔۔۔(غیر واضح لفظ) لیے ہوئے آگے آگے چلتا تھا۔
سپاہیوں کی یہ رجمنٹ چپ چاپ کھڑی ہو کر اجنبیوں کو دیکھنے لگی۔ رجمنٹ کے قلب میں نو عمر جنگجوؤں کا ایک دستہ تھا جن میں ایک وجیہ اور نوجوان شخص سر پر کلغی لگی ہونے کے باعث اوروں میں ممتاز نظر آتا تھا۔ لیونارڈ نے قیاس کیا کہ یہ شخص ان کا بادشاہ ہے۔ اس کے آگے تین چار معمر اور۔۔۔(غیر واضح لفظ) آدمی مقطع صورت کے جن کی نگاہوں میں بے رحمی اور خونخواری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی کھڑے تھے۔ یہ لوگ کھال کی تہمد کے سوا جو کمر سے گھٹنوں تک پہنچتا تھا اور کچھ نہ پہنے تھے اور ایک چھرے کے علاوہ اور کوئی ہتھیار ان کے پاس نہ تھا۔ ان کے سینے پر نیلے رنگ میں ایک بہت بڑے سانپ کے سر کا نقش گودا ہوا تھا اور صاف ظاہر تھا کہ یا تو یہ دربار ظلمات کے طبیب ہیں یا کاہن۔
کچھ دیر وہ کھڑے ہوئے اجنبیوں کو دیکھتے رہے اور پھر ان کے سر کردوں نے آپس میں کچھ مشورہ کیا۔
جوانا بولی کہ اب مجھے جا کر ان سے خطاب کرنا چاہیے ورنہ تیروں کی ایک بوچھاڑ میں وہ ہمیں چھلنی کر دیں گے۔
جوانا کا یہ قیاس صحیح بھی تھا کیونکہ انہوں نے کمانوں کو زہ کیا اور تیروں کو چلہ پر چڑھایا اور سینکڑوں تیروں
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
180

کے فولادی پر وار۔۔۔(غیر واضح لفظ) سورج کی شعاعوں میں چمکتے نظر آئے۔ اس وقت جوانا پھرتی سے آگے بڑھی اور چٹان کے بلند ترین مقام پر جا کر فوج کے سامنے کھڑی ہو گئی جہاں کہ سورج کی پوری روشنی اس پر پڑی تھی۔
جوانا کا ظاہر ہونا تھا کہ ایک ندائے تعجب فوج سے بلند ہوئی اور دفعتًہ ایک کمان کی آواز پر تمام تیروں کے۔۔۔(غیر واضح لفظ) نیچے کی طرف جھک گئے اس وقت آٹر جو سوائے ایک لنگوٹی کے اور بالکل ننگا تھا پیچھے سے اچھل کر جوانا کے برابر ا کھڑا ہوا۔ لیکن اسے دیکھتے ہی سپاہ ظلمات کی ندائے تعجب مبدل بہ صدائے خوف و دہشت ہو گئی اور مارے ڈر کے وہ گڑگڑا اٹھے۔ لیکن یہ بات سمجھ میں نہ آئی تھی کہ جنگجو سورماؤں کی یہ تعداد کثیر ایک گورے رنگ کی خوبصورت عورت اور ایک کالے بونے کو دیکھ کر کیوں ایسی خوفزدہ ہو گئی۔
ایک لمحہ بھر کے لیے یہ غیر موزوں جوڑا چٹان کے اوپر ٹھہرا رہا۔ پھر جوانا آٹر کو ساتھ ساتھ لیے نیچے اتری اور پچیس تیس گز تک چپ چاپ چلی گئی۔ تب اہل ظلمات کو دفعتًہ مخاطب کر کے وہ ان کی اس قدیم زبان میں جو سوا نے اسے بچپن میں سکھائی تھی یوں کہنے لگی۔

کئی صدیاں سوتے گزریں مجھے، مجھے رو رو تم نے یاد کیا
میں نیند میں اب تک بے خود تھی، کس نے دیا آخر مجھ کو جگا
بچو یہ تمہاری محبت تھی، دکھلائی مجھے جس نے دنیا
مجھ کو نہ مری ہوئی سمجھو تم، ممکن نہیں میرا کبھی مرنا
پھر آتی ہوں تم لوگوں میں، میں روپ۔۔۔(غیر واضح لفظ) ہوئے کہنا
معصوموں کی بھولی صورت میں، کیا تم نے نہ دیکھا میرا مکھڑا
بچوں کی بجلی آوازوں میں، کیا تم نے نہ میرا راگ سنا
اب دیکھو مجھے میں جاگی ہوں، کہلاتی ہوں۔۔
(غیر واضح لفظ) کا میں تڑکا
اب دیکھو مجھے میں آئی ہوں، لائی ہوں تمہارے دکھ کی دوا
کرتے نہیں کیوں ڈنڈوت مجھے، کیا تم نے مجھے نہیں پہچانا
جو وعدہ میں تم سے کر گئی تھی، کیا بیٹھے ہو بچو اس کو بھلا
میں۔۔۔(غیر واضح لفظ) کے ملک سے آئی ہوں، سب درد تمہارے دوں گی مٹا
کیا اب بھی تم اس کے منکر ہو، کہلاتی ہے سانپ کی جو ماتا

 

لاريب اخلاص

لائبریرین
181

یہ گیت سن کر سپاہی ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے جوانا نے دیکھا کہ یہ سب میری باتوں کو سمجھ گئے ہیں اور ان پر خوف چھا گیا ہے کچھ دیر تک خاموشی کا عالم طاری رہا پھر دفعتًہ تین کاہن یا طبیب جو اکٹھے کھڑے تھے اپنے سردار کے ساتھ آگے بڑھے اور جوانا کے سامنے جا کر کھڑے ہو گئے ان میں سے ایک کاہن نے جس کی عمر بہت بڑی معلوم ہوتی تھی اس سے یہ سوال کیا۔ ”کیا تو انسان ہے یا دیبی؟“
جوانا۔ ”میں انسان بھی ہوں اور دیبی بھی۔“
کاہن۔ (آٹر کی طرف کانپتے ہوئے اشارہ کر کے) ”اور تیرے ساتھ وہ جسے۔۔۔(غیر واضح لفظ) جانتے ہیں کہا وہ انسان ہے یا دیوتا؟“
جوانا۔ ”وہ دیوتا بھی ہے اور انسان بھی۔“
کاہن۔ ”اور یہ باقی کون ہیں؟“
جوانا۔ ”یہ ہمارے پجاری اور خادم ہیں جو دوسری دنیا سے یہاں آتے ہوئے ہمیں رستہ میں ملے۔ یہ دیوتا نہیں بلکہ انسان ہیں“ اس پر کاہنوں نے آپس میں پھر کچھ مشورہ کیا اور جو ان کا سردار تھا وہ حیرت زدہ ہو کر جوانا کے حسن و جمال کی دیکھنے لگا وہی عمر رسیدہ کاہن جو پہلے بولا تھا۔ اب جوانا سے پھر یوں مخاطب ہوا۔
”اے خوبصورت ہستی تو نے ہمیں وہ باتیں بتائی ہیں جو سالہا سال سے ہم لوگوں میں روایتاً چلی آتی تھیں مگر جن کا ظہور اب تک نہیں ہوا تھا۔ اگر تو انسان ہے اور کہیں سے ان باتوں کو سن سنا کر ہمیں دھوکے میں لانا چاہتی ہے تو تو اور یہ تمام تیرے ہمراہی سانپ کے پیٹ میں جائیں گے اور اگر تو دیبی ہے اور یہ جو تیرے برابر کھڑا ہے دیوتا ہے تو ہم لوگ تم دونوں کی پرستش کریں گے اور تم کو اپنا معبود اور رزاق سمجھیں گے۔ اب تو ہم کو اپنا اور اس بونے کا جو تیرے ساتھ کھڑا ہے نام بتا۔“
جوانا۔ ”میرے بچو! انسانوں میں مجھے راعیہ فلک اور اس بونے کو آٹر دریاباش کہتے ہیں۔
کسی زمانہ میں اس کے سکوت قہر اور ظلمت تین نام تھے اور مجھ کو نور شفق اور مہر نیمروز کہتے تھے۔ اس سے بھی پہلے ہمارے اور نام تھے۔ اے سانپ کے پجاریو یہ نام تم کو معلوم ہی ہوں گے۔“
عمر رسیدہ کاہن۔ ”اے راعیہ فلک اے نور، اے شفق اے مہر نیمروز اور اے دریاباش
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
182

جس کے دوسرے نام سکوت، قہر اور ظلمت ہیں ہم تمہارے نام سن چکے ہیں اگرچہ یہ نام صرف اسی وقت زبان پر لائے جاتے ہیں جب پاس کوئی نہ ہو اور چاروں طرف تاریکی چھائی ہوئی ہو اور اس لیے بہت کم لوگ ان ناموں سے واقف ہیں مگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ نام پہلے تم ہم کو بتاؤ تاکہ تمہارا جھوٹ سچ ہم پر ثابت ہو جائے اے خوبصورت ہستی اگرچہ جو کچھ تو کہہ رہی ہے جھوٹ ہے تو تو اور تیرے ہمراہی سانپ کے پیٹ میں جائیں گے۔“
جوانا۔ ”گو زمانہ گزشتہ میں ان ناموں کا روشنی میں لینا ممنوع تھا مگر اب ایک نیا زمانہ شروع ہوا ہے میں پھر آ گئی ہوں۔ اب دن کی روشنی میں علانیہ ان ناموں کا پکارنا جائز ہے سنو شروع میں ہمارے یہ نام تھے میں سانپ کی ماتا ہوں اور میرا نام ایکا تھا اور یہ میرا بیٹا سانپ ہے جس کو جال کے نام سے پکارا جاتا تھا۔“
جب جوانا کے منہ سے یہ الفاظ نکلے تو ہر شخص کے چہرے پر خوف طاری ہو گیا اور عمر رسیدہ کاہن بآواز بلند پکار اٹھا ”اے سانپ کے پجاریو! گر پڑو سجدے میں۔ اے ظلمات کے رہنے والو! عبادت کرو ایکا کی جو تمہاری دیبی ہے وہ پھر مبعوث ہوئی ہے اور ہمیشہ ہم میں رہے گی۔ جال دیوتا انسان کا اوتار لے کر آیا ہے۔ اے آلفن! اپنی بادشاہت اس کو دے ڈال۔ اے کاہنو! تم اپنے مندروں کو ان کے حوالے کر دو کیوں کہ یہ ماتا ہماری دیبی ہے اور اس دیوتا کی تعظیم ہم پر واجب ہے۔“
یہ سن کر تمام آدمی سجدے میں گر پڑے اور ہر ایک شخص نے بآواز بلند کہا ”زندہ کرنے والی ایکا آ گئی اور موت کا دیوتا جال انسانی قالب میں پھر آسمان سے اتر آیا۔ دیبی کی جے! دیوتا کی جے!“ البتہ آلفن ایک ایسا تھا جس نے سردار کاہن کے حکم کی تعمیل نہ کی اور اپنی مشیخت اور تکبر میں تنا ہوا کھڑا رہا۔
تاج و تخت کے یکا یک چھن جانے کا خیال ایسا نہ تھا کہ وہ۔۔۔(غیر واضح لفظ) گو وہ دیوتا ہی کیوں نہ ہوں غاصب نہ سمجھتا۔ آٹر نے اشارہ سے جوانا کو اپنی طرف متوجہ کر کے آلفن کی طرف اپنی انگلی اٹھائی جس سے اس کی یہ مراد تھی کہ دیکھو اور تو سب سجدے میں ہیں لیکن یہ ابھی تک کھڑا ہے مگر آلفن اس کے دوسرے ہی معنی سمجھا اسے خیال ہوا کہ دیوتا میرے فعل کو سرکشی سے تعبیر کر کے مجھ پر اپنا قہر نازل کرنا چاہتا ہے چنانچہ اس کی اوہام پرستی اس کے کبر و نخوت پر غالب آ گئی اور وہ فوراً سر نگوں ہو کر سجدے میں گر پڑا۔
جب ہجوم کے نعروں کی آواز کم ہوئی تو جوانا نے کہا ”اے میرے بچے اٹھ (یہ بچہ وہی عمر رسیدہ کاہن تھا جس کو اگر جوانا کا پردادا کہا جائے تو بجا ہو گا) اور اے سانپ کے پجاریو کھڑے ہو جاؤ اور جو کچھ
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
183

میں کہتی ہوں سنو۔ اب تم مجھے پہچانتے ہو اور میرے مقدس نام سے واقف ہو گئے ہو۔ یہ سرخ پتھر جو میری پیشانی پر چمک رہا ہے اس مقام سے نکلا ہے جہاں پہلے زمانے میں میرے بیٹے نے میرا خون بہایا تھا۔ میرے خون سے اس قسم کے پتھر بن گئے جنہیں اس وقت تم میرے بیٹے پر چڑھاتے ہو۔ خبردار زمانہ گیا۔ آیندہ ایسا ہرگز نہ کرنا گو اب بھی میرا بیٹا تمہارا دیوتا ہے مگر اب وہ اپنے گناہ سے تائب ہو گیا ہے اور اس کو میری عزت اور فرمانبرداری منظور ہے۔
بس میں تم سے یہی چاہتی تھی جو وعدہ میں نے تم سے کیا تھا وہ آج میں نے پورا کر دیا۔ اب تم شہر کی طرف جاؤ اور مندر کے نزدیک ہمارے رہنے کے لیے کوئی جگہ منتخب کرو اور میرے ان نوکروں اور خادموں کے لیے کھانے کا انتظام کرو۔ شہر کے پھاٹکوں پر ہمارے خیر مقدم کے لیے آدمی ضرور کھڑے ہوں دیکھو کوئی شخص ہم پر جاسوسی نہ کرے مبادا تم سب پر تباہی آئے۔ خبردار کوئی ہماری عدول حکمی نہ کرے ورنہ میں پھر موت اور سپنے کے عالم میں چلی جاؤں گی۔ جاؤ! میرے احکام کی تعمیل میں کوتاہی نہ کرنا اے میرے بچو جاؤ۔“
یہ کہہ کر جوانا آٹر کا ہاتھ اپنے ہاتھ لیے ہوئے پیچھے کی طرف آہستہ آہستہ ہٹی اور گیت گاتی ہوئی چٹانوں میں غائب ہو گئی۔
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
184

اکیسواں باب

آٹر کی حماقت

جب جوانا اور آٹر اپنے ہمراہیوں میں جا ملے تو لیونارڈ اشتیاق کے ساتھ آگے بڑھا اور کہنے لگا کہ کیا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ تمہارا منتر چل گیا۔ جوانا نے اس کو تمام سرگزشت سنائی اور جب وہ سنا رہی تھی تو اہل ظلمات کی رجمنٹ ان کے پاس سے گزرنی شروع ہوئی۔ ہر ایک کمپنی اپنے بھالے ہوا میں بطور سلام کے بلند کرتی اور ”جے ماتا کی! جے سانپ کی“ پکارتی ہوئی شہر کی طرف چلی جاتی تھی۔
آخر کار جوانا کا قصہ تمام ہوا اور رجمنٹ بھی چلی گئی۔ لیونارڈ بولا
”رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گزشت“

جوانا تمہارے جیسی بہادر اور عقلمند عورت دنیا بھر میں کوئی نہ ہو گی اور کوئی عورت ہوتی تو اس نازک موقع پر آ کر سب کچھ بھول جاتی اور ڈر کے مارے چیخیں مارنے لگتی۔“
جوانا۔ ”اس میں میری بہادری اور عقلمندی کون سی تھی جو کچھ سوا نے مجھے طوطے کی طرح پڑھا دیا تھا اسے میں نے لفظ بہ لفظ دہرا دیا اگر شکریہ کی مستحق ہے تو سوا ہے۔“
لیونارڈ۔”واقعی میں سوا کا میں مشکور ہوں۔ سوا تم نے جو کچھ کہا تھا وہ سب سچ نکلا اور تم نے اس معاملہ کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام کو پہنچایا۔ میں تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں۔“
سوا۔ ”تو کیا تم مجھے جھوٹی سمجھتے تھے۔ نجات دہندہ میں نے جب یہ کہا تھا کہ میری قوم راعیہ کو اور اس تمہارے کتے کو اپنا معبود تسلیم کر لے گی اس کا ایک ایک لفظ سچ تھا لیکن کیا میں نے تم سے یہ بھی نہیں کہا تھا کہ ان دونوں کو چھوڑ کر جو باقی ہیں انہیں موت کا سامنا ہو گا۔ اگر میں نے یہ بات نہیں کہی تھی تو اب کہتی ہوں۔ نجات دہندہ تم دیوتا نہیں تسلیم کیے گئے اور نہ یہ گنجے سر والا پادری اور تمہارا یہی کالا کتا اپنی حماقت سے راز اِفشا کر دے گا۔ نجات دہندہ سانپ کے پیٹ میں جا کر تم کو یاد آئے گا کہ جو کچھ
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
185

سوا نے کہا تھا وہ سب تھا اور جن لعلوں کی جستجو میں تم یہاں آئے ہو وہ شاید تمہیں اسی کے پیٹ میں ملیں گے۔“
جوانا۔ (غصہ ہو کر) ”چپ رہ یہ کیا ٹر ٹر لگائی ہے۔“
جوانا کے ان عتاب آمیز کلمات نے سوا کی زبان کو فوراً بند کر دیا اور اس نے کتے کی طرح جو اپنے آقا کے چابک کھا کر پیچھے کو دبک جاتا ہے اپنا سر جھکا لیا۔
لیونارڈ (کانپ کر) ”یہ قطامہ کیسی سیاہ دل ہے۔“
جوانا۔ ”معلوم نہیں سوا کو کیا ہو گیا ہے اپنے ملک میں آ کر بڑی چڑچڑی اور کینہ ور ہو گئی ہے۔“
لیونارڈ۔ ”ابھی تک تو قسمت نے ہمارا ساتھ دیا ہے۔“
'عاقبت کی خبر خدا جانے،

آٹر۔ ”سنو اب تم اس ملک کے لوگوں کے دیوتا ہو۔“
آٹر۔ ”میں دیوتا ہوں میان دیوتا کس جانور کا نام ہے؟“
لیونارڈ۔ ”کیا۔۔۔(غیر واضح لفظ) اجی میں تمہیں بتا نہیں چکا کہ تم آدمی نہیں رہے بلکہ خدا ہو گئے ہو۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ گزشتہ زمانہ میں تم اس ملک کے فرمانروا تھے اور اب تم پھر اس ملک پر حکومت کرو گے
راعیہ اور تم دونوں معبود ہو وہ تمہاری ماں ہے اور تم اس کے بیٹے ہو۔ راعیہ کے سوا ہم سب تمہارے نوکر ہیں۔ جب تم ہم سے بات کرو تو اس طرح سے بولو جیسے کوئی بڑا سردار اپنے کمترین نوکروں سے کلام کرتا ہے اور ہمیں کتا اور غلام کہہ کر پکارو اگر تم نے لوگوں میں مجھے میان کہا تو جب پاس کوئی نہ ہوگا میں تمہیں خوب پیٹوں گا۔“

آٹر۔ ”بہت اچھا میان اگر آپ کہتے ہیں کہ میں دیوتا ہوں تو آپ کی مرضی اپ غالباً دیوتاؤں سے خوب واقف ہیں اور ان کے رسم و رواج کو خوب جانتے ہیں لیکن یہ عجیب بات ہے کہ مجھ سے پہلے کسی نے نہیں کہا کہ تم دیوتا ہو۔ یہ دیوتا بھی بڑے ہی بدصورت ہوتے ہوں گے۔ لیکن جب نو آبادی کے لوگوں نے سنا کہ میں دیوتا ہوں تو وہ کیا کہیں گے۔ غالباً وہ یہ کہیں گے کیا دیوتا ایک انسان کی خدمت کیا کرتا ہے اور اس کو میان کہا کرتا ہے کیا ایک دیوتا کسی انسان کی بندوقیں صاف کیا کرتا ہے اور اس کا کھانا پکایا کرتا ہے؟ اسی قسم کی وہ اور بھی باتیں کریں گے اور اہل ظلمات ان کو سن کر تاڑ جائیں گے کہ میں دیوتا نہیں
 

محمد عمر

لائبریرین
Page 186

ہوں، جھوٹا ہوں اور پھر وہ ہم سب کو مار ڈالیں گے۔“

لیونارڈ : ”یہ بات تو تم نے ٹھیک کہی۔“

اس کے بعد اس نے پیٹر اور نوآبادی کے لوگوں کو تمام ماجرے سے آگاہ کیا اور کہا کہ ”ہمارا منصوبہ گیا اور ساکنانِ ظلمات نے راعیہ اور آٹر کو اپنا معبود تسلیم کر لیا لیکن اگر تم ہماری اور اپنی جانوں کی خیر منانا چاہتے ہو اور تمہاری آرزو ہے کہ اس ملک سے بچ کر واپس نکلیں تو ہرگز ہرگز ایسا کوئی لفظ اپنی زبان پر نہ لاؤ اور نہ تمہاری حرکات و سکنات ایسی ہونی چاہیں جس سے ان لوگوں پر ہماری حقیقت کھُل جائے ورنہ یہ لوگ ہمیں جھوٹا سمجھ کر جان سے مار ڈالیں گے۔“

نو آبادی کے آدمی سمجھدار تھے۔ اس کیفیت کو انہوں نے تعجّب کے ساتھ سنا اور جب ان کا تعجب کم ہوا تو انہوں نے لیونارڈ سے کہا۔ ”ہم بخوشی آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے اور آپ کی ہدایت پر کاربند ہوں گے۔“

اس کے بعد وہ شہر کی طرف جو پہاڑی پر واقع تھا روانہ ہوئے۔ آگے آگے لیونارڈ اور فرانسسکو تھے۔ ان کے بعد جوانا اور آٹر، ان کے بعد سوا اور سب کے بعد نوآبادی کے لوگ۔ ایک گھنٹہ میں وہ دریا کے کنارے پہنچے جو شہر کے قریباً چاروں طرف بہہ رہا تھا۔ یہاں کشتیاں تیار تھیں تا کہ انہیں اس جزیرے پر یا یوں کہئے کہ جزیرہ نما پر جس میں کہ شہر واقع تھا جا اُتاریں۔ کشتیوں پر سوار ہو کر جب وہ دریا کے پار اترے تو انہوں نے دیکھا کہ کاہن دو پالکیاں لیے ہوئے ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ پالکیاں جوانا اور آٹر کے لیے تیار کی گئی تھیں،۔ ہزاروں آدمی دریا کے کنارے پر کھڑے ہوئے تھے اور جب دیوی اور دیوتا نے اپنا قدم ساحل پر رکھا تو مرد عورت اور بچے، ”جے ماتا کی،!جے سانپ کی“ پکارتے ہوئے سجدے میں گر پڑے۔

جوانا اور آٹر نے لوگوں کے اس اظہارِ عبودیت کی طر ف کچھ التفات نہ کی اور نہایت متانت اور وقار کے ساتھ وہ پالکیوں میں سوار ہوئے اور کھال کے پردے جو ان پر پڑے ہوئے تھے گرا دئیے گئے اور پالکی بردار انہیں نہایت سرعت کے ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ لیونارڈ، فرانسسکو اور ان کے باقی ہمراہی ان کے پیچھے پیچھے تھے اور سب سے پیچھے شہر کے لوگ خاموشی کے ساتھ جا رہے تھے۔

غروبِ آفتاب کا وقت قریب تھا لیکن ابھی تک اتنی روشنی باقی تھی کہ اس ملک اور اس ملک کے رہنے والوں کی حیرت انگیز حالت ان پر ظاہر ہو۔ شہر کے مکانات کھردرے اور ان گھڑ پتھروں کے بنے

Page187

ہوئے تھے اور گلی کوچوں میں پتھر کی سڑکیں تھیں۔ تمام عمارات ایک دوسرے سے کس قدر فاصلہ پر تھیں اور ہر ایک عمارت کے گرد ایک چھوٹا سا باغیچہ تھا۔ پھاٹک لکڑی کے تھے اور اس قسم کی زنجیروں سے بندھے ہوئے تھے جنہیں زمانہ قدیم کے لوگ استعمال کرتے تھے۔ جا بجا شراب کی دکانیں تھیں اور ایک بڑا بازار تھا جہاں ان لوگوں کی تجارت ہوتی تھی۔ روپیہ تو ان لوگوں کے پاس تھا نہیں اس لیے تجارتی کاروبار کو دوسرے وحشی اقوام کی طرح وہ تبادلہ کے اصول کے طور پر چلاتے تھے۔

لیونارڈ نے ان تمام باتوں کو ایک نظر میں دیکھ لیا اور ان سے یہ نتیجہ نکالا کہ اس شہر کے باشندے کسی قدیم تمدّن کے انحطاط پذیرفتہ آژارہیں جسے امتدا زار منہ نے صفحہ ہستی تہذیب پر سے محو کر دیا ہے۔ یہ نتیجہ ان کی مستحکم فصلوں، سنگین عمارتوں، شراب کی دکانوں اور بازاروں سے مستبظ ہوتا تھا۔ ان ے نظامِ الہیات سے جو نور اور ظلمات یعنی حیات و ممات کے ایسے معبودوں پر مشتمل تھا کو ایک دوسرے کا ماخذ و مصدر تھے اور ایک ابدی اور غیر منتہی کشمکش میں مصروف تھے۔ اسی استدلال کی طرف اشارہ ہوتا تھا۔ غالباً یہ مسلک دنیا کے عہدِ عتیق کی قدرت پرستی کے صنادید معقدہ کا ایک ویران کھنڈر تھا۔

بازار سے گزر کر وہ اس عمارت کے پھاٹک تک جا پہنچے جو انہوں نے میدان سے بلند ترین مقام پر بنی ہوئی دیکھی تھی۔ جب پھاٹک کے اندر داخل ہوئے تو انہوں نے کاہنوں کو جن کے سینوں پر سانپ کا سر نقش گودا ہوا تھا، شمع ہاتھ میں لیے کھڑے پایا۔ کاہن انہیں ایک بڑے مکان کے اندر لے گئے جس کے صحن میں ایک چشمہ اُبل رہا تھا۔ اس مکان کے برآمدے میں انہوں نے ایک تخت بچھا دیکھا جو ابنوس اور عاج کا تھا۔ اور جس کے پائے انسان کی شکل کے تھے۔ بود میں انہیں معلوم ہوا کہ یہ آلفن کا محل تھا جسے کاہنوں نے نئے دیوتا ؤں کے لیے اس سے خالی کرا لیا تھا۔ اس عجیب مکان میں کاہنوں نے ان سب کو اُتارا۔ مکان کے وسط میں دو بڑے بڑے کمرے جوانا اور آٹر کو علیحدہ علیحدہ دئیے گئے ۔ نو آبادی کے لوگوں کو بازع کی تین کوٹھڑیاں اور لیونارڈ فرانسسکو اور سوا کو دوسرے بازو کی ایک کوٹھڑی دے دی گئی۔ تھوڑی دیر میں کچھ عورتیں اُبلی ہوئی گھنگنیاں، دودھ اور بہت سا بھنا ہوا گوشت لے کر آئیں جسے لیونارڈ اور فرانسسکو نے نہایت رغبت اور شوق سے کھایا۔

سونے نے قبل لیونارڈ نے اٹھ کر صحن کی طرف نگاہ ڈالی لیکن نہایت تشویش سے اس نے دیکھا کہ ہر ایک دروازے پر ایک سنتری پہرہ سے رہا ہے اور جوانا اور آٹر کے دروازے پر کاہن شمعیں لیے

Page 188

کھڑے ہیں۔ جب اس نے جوانا کے کمرے میں جانے کا قصد کیا تو سنتری نے اپنا برچھا اُٹھا کر اسے رد کر دیا اور وہ نہایت متردد ہو کر اپنے کمرے میں واپس چلا آیا۔ سوا سے اس نے پوچھا کہ ”کاہن راعیہ کے دروازے پر شمعیں لیے کیوں کھڑے ہیں۔“ سوا نے جواب دیا کہ۔ ”وہ دیوتاؤں کے مسکن کی حفاظت کر رہے ہیں۔ جب تک دیوتاؤں کی مرضی نہ ہو اس وقت تک کوئی ان کے پاس نہیں جا سکتا۔“

دوسرے دن علی الصبح لیونارڈ اٹھا اور فرانسسکو کے ہمراہ صحن کی طرف گیا۔ اس مرتبہ سنتریوں نے انہیں روکا نہیں کاہن ابھی تک جوانا کے دروازے کے سامنے کھڑے تھے اور جب انہوں نے جا کر اشارہ کیا کہ ہم رانی ماتا کہ پرستش کرنا چاہتے ہیں تو انہوں نے سختی سے انہیں اندر جانے سے روک دیا ۔ سوا سے لیونارڈ نے جب پوچھا کہ یہ کاہن کیا کہتے ہیں تو اس نے جواب دیا کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ”ماتا ان اپنے گھر آ گئی ہے اور سانپ بھی اپنے گھر آ گیا ہے۔ اس لیے عوام کو اپنی ناپاک نگاہوں سے ان کی طرف دیکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔“

جب منت سماجت سے کچھ کام نہ چلا تو لیونارڈ نے چاہا کہ زبردستی چلا جائے لیکن ایک پہرے والے نے اپنے زبردست برچھے کی انی اس کے گلے پر رکھ دی۔ اس کا نتیجہ لیونارڈ کے حق میں معلوم نہیں کیا ہوتا اگر اس نازک وقت پر جوانا خود اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر نکل نہ آتی۔ اسے دیکھتے ہی کاہن اور سپاہی سجدے میں گر پڑے اور لیونارڈ کے اوسان خطا نہ ہوئے تھے کہ وہ فراسسکو کو اپنے ساتھ گھسیٹ کر ان کی تقلید نہ کرتا۔

جوانا نے پہرے والوں سے ان ہی کی زبان میں پوچھا۔ ”یہ دنگا کیسا ہے۔“ لیونارڈ نے جو زمین سے اپنا سر رگڑ رہا تھا انگریزی میں جھٹ اس سے یوں کہا۔ ”جوانا میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تم ان بدمعاشوں کو سمجھاؤ گی نہیں تو تمہیں ہم سے ملنے نہیں دیں گے اور ہمارا کسی اور طرح صفایا کر ڈالیں گے۔“

جوانا کاہن کی طرف پلٹی اور غصہ سے بولی۔ ”کون ایسا گستاخ ہے جس نے میرے نوکروں کو میرے سامنے آنے اور میری عبادت کرنے سے منع کیا؟ میں اپنی مرضی کی مالک ہوں اور جو کوئی میری مکالفت کرے گا میں اس پر عذاب نازل کر دوں گی۔ سنو، میری مرضی ہے کہ یہ گورے آدمی اور وہ کالی عورت جب چاہیں میرے پاس آئیں۔“

کاہنوں نے نہایت عاجزی سے جواب دیا۔ ”اے بیبی، جو تیری مرضی ہے

Page 189

وہی میری مرضی ہے تیرا حکم سر آنکھوں پر۔“

اس پر لیونارڈ فرانسسکو اور سوا اندر چلے گئے اور دروازہ پر پردہ پڑ گیا۔

جوانا ”شکر ہے کہ تم آ گئے۔ ساری رات میں نے اس کمرہ میں کیونکر کاٹی۔ تنہائی کے عالم میں ان کاہنوں کا خیال جو باہر دروازے پر کھڑے تھے اور بھی ستاتا ہے۔ جو عورتیں میرے لئے کل شام کھانا لائیں وہ ہاتھ پاؤں کے بل اِدھر اُدھر رینگتی تھیں۔ کیا ڈراؤنا منظر تھا۔“

لیونارڈ ”افسوس ہے کہ تم اکیلی رہیں مگر اب یہ انتظام کرنا چاہیے کہ کم از کم سوا تو تمہارے پاس سوئے۔ آٹر کہاں چلا گیا ہے۔ چلو اس کے پاس چلیں۔ دیکھیں کہ وہ دیوتا کیا کر رہا ہے۔“

جوانا نے دروازہ میں جا کر کاہنوں سے کہا کہ میں اپنے خادموں سمیت سانپ کے پاس جانا چاہتی ہوں۔ یہ درخواست سن کر کاہن پہلے تو کچھ بڑبڑائے مگر پھر راضی ہو گئے اور چاروں کو ایک کمرے میں لے گئے جہاں انہوں نے عجیب نظّارہ دیکھا۔ ایک بڑی سی کرسی پر جو ایک مسند پر بچھی ہوئی تھی آٹر نہایت بے چینی کی حالت میں غضب آلود نگاہوں سے بیٹھا تھا اور اس کے سامنے زمین پر چار پجاری اوندھے پڑے ہوئے تھے اور لگاتار منتر جپ رہے تھے۔ لیونارڈ اور جوانا کو دیکھ کر اس نے خوشی کا نعرہ مارا اور بولا ”میاں شکر ہے کہ تم آ گئے۔ میں سخت گھبرا گیا تھا۔“

لیونارڈ (گھٹنے ٹیک کر نہایت عاجزی کی آواز سے ڈچ زبان میں ) ” ابے الّو۔ اگر تو بھول گیا کہ تو دیوتا ہے تو ان لوگوں کے جاتے ہی میں تجھے سمجھ لوں گا۔ انہیں حکم دے کہ چلے جائیں۔ راعیہ تیرے حکم کا ترجمہ کر کے انہیں سنا دے گی۔“

آٹر (اشارہ پا کر) ”ارے کتو۔چلے جاؤ یہاں سے۔ جاؤ اور میرے لیے کھانا لاؤ۔ میں اپنے نوکر جس کا نام سیان ہے اور اپنی ماں کے ساتھ بات کرنا چاہتا ہوں۔“

جوانا نے ان الفاظ کا ترجمہ کر کے کاہنوں کو سنا دیا اور بولی کہ۔ ” سانپ نے مقدس زبان میں تمہیں حکم دیا ہے۔“ یہ سنتے ہی چاروں کاہن اٹھ کھڑے ہوئے اور سر جھکائے الٹے پاؤں کمرے سے باہر چلے گئے۔ ان کے نکلتے ہی آٹر اپنی کرسی پر سے جھلّاتا ہوا کودا اور اس کی حالت ایسی مضحکہ انگیز ہو رہی تھی کہ سب قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔ اس پر آٹر نے کہا۔

”ہنس لو میاں ہنس لو۔ آپ کو کبھی دیوتا بننے کا اتفاق نہیں ہوا۔ اگر آپ دیوتا بنائے جاتے

Page 190

اور پھر ہنستے تو تب میں جانتا۔ رات بھر مجھے اس بڑی چوکی پر بیٹھا رہنا پڑا اور یہ کتے ملعون میری ناک میں سڑی ہوئی چیزوں کی دھونی دیتے رہے اور کیا جانے کیا بکتے رہے۔ اگر ایک گھنٹہ میری یہی حالت اور رہتی تو میں انہیں مار ڈالتا کیونکہ مجھے کھانے کو کچھ نہیں ملا اور بھوک کی میں تاب نہیں لا سکتا۔“

لیونارڈ ”آٹر خاموش۔ قدموں کی آواز آ رہی ہے۔ جا جلد اپنے تخت پر ہو بیٹھ۔ جوانا تم اس کے برابر کھڑی ہو جاؤ۔ ہم سجدہ کرتے ہیں۔“

انہوں نے اس حکم کی تعمیل کی ہی تھی کہ اتنے میں پردہ اٹھا کر ایک کاہن داخل ہوا جس کے ہاتھ میں ایک چوبی خوان تھا جس پر ایک کپڑا پڑا ہوا تھا۔ وہ آٹر کے تخت کی طرف آہستہ آہستہ سر جھکائے ہوئے آیا اور پھر ایک دفعہ ست اٹھا کر اس نے خوان کو بڑھایا اور باآواز بلند چلایا۔ ”اے سانپ یہ تیرے لیے کھانا ہے۔ اس کو کھا اور پرسن ہو۔“

آٹر نے جو بھوک کے مارے بے قرار ہو رہا تھا قاب کو اس کے ہاتھ سے لے لیا اور کپڑا اٹھایا اور جو کچھ اس میں رکھا ہوا تھا اسے اس نے نہایت بے اطمینانی کی نگاہ سے دیکھا اور اسے دوسروں کو دکھانے کی غرض سے خوان کو نیچے جھکا کر اپنی زبان میں یوں پکارا ”ابے کتے کے پلّے۔ کیا آدمیوں کو ایسا ہی کھانا دیا کرتے ہیں۔ کیا تو نے مجھے مچھلی مقرر کیا ہے کہ میرے لیے کائی اور سرخ کنکر کھانے کو لایا ہے۔“

خوان میں واقعی سادہ چیزیں تھیں جو مختلف قسم کی سبزیوں پر مشتمل تھیں اور سب کی سب کچّی تھیں۔ اس ساگ پات کے دبیز کے وسط میں ایک نہایت خوبصورت لعل رکھا ہوا تھا۔ اتنا بڑا تو نہیں تھا جو سوا نے لیونارڈ کو دیا تھا مگر پھر بھی بڑا اور قیمتی تھا۔ لیونارڈ نے سرعت کے ساتھ اس پر نگاہ ڈالی مگر بونا جس کی آنتڑیاں قل ہو اللہ پڑھ رہی تھیں اپنی بھوک کی شدّت میں اس بات کو بھول گیا کہ اس کے آقا نے اسی قسم کے جواہرات کی جستجو میں ایسا صعب اور دور دراز سفر اختیار کیا تھا۔ بھوک کی بے تابی میں غضب آلودہ ہو کر وہ تخت پر کھڑا ہو گیا اور لعل کو پکڑ کر اس نے کاہن کے منہ پر کھینچ مارا۔ کاہن بےچارے نے دیوتا کے اس غیظ و غضب سے خوفزدہ ہو کر لعل کو جو اس کے خیال میں دیوتا کے غصہ کا باعث تھا اٹھا لیا اور بے تحاشا پچھلے پاؤں ایسا بھاگا کہ مڑ کر نہ دیکھا۔

جوانا، فرانسسکو یہ دیکھ کر بے اختیار قہقہہ مار کر ہنسے اور سوا کے چہرہ پر بھی تبسّم ظاہر ہوا لیکن لیونارڈ بالکل نہیں ہنسا بلکہ نہایت تلخی کے لہجے میں بونے سے اس نے یوں کہا۔
 

سیما علی

لائبریرین
326
قبہ پر جسکا زاویہ سمت الراس ساٹھ درجہ کا ہو۔
بونا جواد پر کھڑا ہوا ہانپ رہا تھا اب پھر ہمت بندھانیوالی آواز میں بولا “میاں ذرا سستا لیجئے
پھر برچھے کی نوک سے برف کو ذرا سا کھود کر میں آپکو اوپرکو کھینچوں گا اپنا پاؤں اسمیں اڑا دیجیے گا ہو سکے
لیونارڈ نے بے کچھ کہے سنے اُسکے کہنے کے مطابق عمل کیا۔۔۔ تھوڑی دیر کے بعد بونے نے روہان میاں اب چلو کہہ کر زور سے اسے اوپر کھینچا اور لیونارڈ ہاتھ پیر مارکردو فیٹ بلند ہوگیا۔ اس عمل کو بونے نے دوبارہ دہرایا اور ہمارا اور اب کی بار اسکا بایاں ہاتھ اُسکے نیچے کے دوسرے قدم پر پڑا
جو آٹر نے چھرے سے کھودا تھا ۔ذرا سی دیر کے لئے اُِنھوں نےدم لیا اور پھر تیسری
کوشش میں سب سے زیادہ سخت تھی بونے نے اپنا تمام زور لگا یا اور لیونارڈ اپنی تمام تر
طاقت کے بل پرپہاڑی کانپنا پٹ پڑا نظرآیا۔
آخرکار لیونارڈو نے ایک دہیمی آواز میں کہا کہ کیا وہ شراب کا کدو گم ہوگیا ؟ *
آٹر نے کہا نہیں میان میرے پاس موجود ہے
لیونارڈ نے کہا “شکر ہے آٹر اگر اسے ہوسکے تو میرے منہ سے لگا دو”
آٹرشراب کا تانبا کانپتے ہوئے ہاتھوں سے لیونارڈ کے ہونٹوں تک لے گیا جس نے آب آتشین
کے تین چاربڑے بڑے گھونٹ حلق سے نیچے اُتارے ۔ شراب پینے سے اسکے جسم میں حرارت پہنچی
اور وہ بولا اب مجہ میں کسی قدر سکت آگئی ہے ۔ آٹر تم بھی تہوڑی سی پی لو۔
نہیں میان مین نے قسم کھالی ہے اب شراب ہرگزنہیں پیونگا یہ پہلے ہی مجھے انسان سے حیوان
بنا چکی ہے، اس کے علاوہ راعیہ کو اور آپ کو اس کی زیادہ ضرورت ہے۔ میرے پاس کچھ کھانا ہے میں اسی پر اکتفا
کروں گا”
یہ کہہ کر آٹر رینگتا ہوا جوانا کے پاس پہنچا جو اپنے لبادہ میں لپٹی ہوئی برف پر پڑی ہوئی تھی۔ اور تھوڑی سی ہوا
شراب تونبے سے اس کے حلق میں ڈالی اور لیونارڈ اسکی ہتھیلیاں سہلانے لگا۔ یہ علاج موثر ثابت ہوا میرا اور تھوڑی دیر مین جوانا چونک کر اُٹھ بیٹھی اور اپنے چاروں طرف برف دیکھ کر چلا اُٹھی ۔مجھے یہاں سے لے چلو میں پل کے پار نہیں جاسکتی لیونارڈ یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا۔۔۔
لیونارڈ پیاری گھبراؤ مت تم نے اس کڑی منزل کو طے کرلیا ہے۔
اور ہم پل کے پار ہوگئے۔
326
 

محمد عمر

لائبریرین
191

ابے گردے کے بچے! ابے الّو کے پٹھے! ابے عقل کے اندھے یہ تو نہ کیا حماقت کی کہ لعل اسی کاہن کے سر پر کھینچ مارا جو اسے لایا تھا اور اب وہ کوئی لعل نہیں لائے گا۔ اگر تو نے یہ حماقت نہ کی ہوتی تو ہر ایک کھانے کے ساتھ تیرے پاس اسی طرح کے لعل لائے جاتے اور تجھے خواہ کھانے کو گھاس ہی ملتی مگر ہم تو امیر ہو جاتے۔“

آٹر (رو کر) ”میاں مجھے معاف کیجیے۔ مجھ سے قصور ہوا ہے لیکن میرے غصّے نے میری عقل کو اندھا کر دیا ۔“

کچھ دیر گزری تھی کہ باہر کچھ آہٹ ہوئی اور پھر کچھ کاہن اندر داخل ہوئے اور اس دفعہ وہ عمر رسیدہ شخص جس نے جوانا سے اس روز سوال پوچھے تھے جب کہ وہ دیبی کی شکل میں ظاہر ہوئی تھی اُن سب ک ے آگے آگے تھا۔ بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ اس کا نام نام تھا۔

اب اتفاق ایسا ہوا کہ لیونارڈ سوا کے پاس کھڑا ہوا تھا اور جب کاہن کمرے میں داخل ہوا اور سوا نے پہلی مرتبہ اسے اپنے مقابل کھڑا پایا تو لیونارڈ نے دیکھا کہ وہ چونکی اور پھر ذرا کانپی اور اس کے بعد تخت کے پیچھے جا کر کھڑی ہو گئی۔

لیونارڈ (دل میں ) ”اس کی جوانی کے دنوں کا کوئی آشنا ہو گا۔ کہیں اسے پہچان نہ لے۔“

نام نے دیبی اور دیوتا کے سامنے سجدہ کیا اور پھر بولا۔ ”مجھے بڑا رنج ہے کہ سانپ دیوتا کی ایسی بے ادبی کی گئی کہ کھانے کے ہمراہ اس کے سامنے پتھر جو کہ ایکا کا خون تھا لایا گیا۔ کچھ شک نہیں جب ماتا اور سانپ میں صلح ہو گئی ہے تو جال کے سامنے ایسی شے کا چڑھاوا چڑھانا جس سے اسے گزرے ہوئے زمانہ کا گناہ یاد آئے ایسا جرم ہے کس سے ملک میں قہر و عذاب نازل ہونے کا احتمال ہے۔ لیکن جس آدمی سے یہ حرکت سرزد ہوئی تھی اس پر موت کا فتویٰ لگایا گیا ہے۔ امید ہے کہ سانپ کا غضب اس سے فرو ہو جائے گا۔ اس غلام نے یہ حکم بھی دیا ہے کہ اس قسم کے تمام پتھروں کو مخفی مقام میں وہ شخص جو جرم کا مرتکب ہوا تھا چھپا آئے اور اگر وہ اس مقام سے زندہ نکلے تو وہ مار ڈالا جائے۔ لیکن وہ وہاں سے زندہ نہیں واپس آئے گا کیونکہ وہاں جانا یقینی طور پر مرنا ہے۔ علاوہ اس کے یہ حکم بھی جاری کیا گیا ہے کہ ایسے پتھروں کا جو کوئی نام بھی لے گا وہ جان سے مار ڈالا جائے گا اور اب ملک میں صرف ایک ایسا پتھر باقی رہ گیا ہے اور وہ ہے جو ماتا زمانہ گزشتہ کی یاد میں پہنے ہے۔“

192

لیونارڈ (دبی آواز میں ) ”اچھا آٹر میں نے تجھ سے نہ ۔۔۔ تو میرا نام ٹرم نہیں۔“

نامر نے پھر اپنا سلسلہ تقریر یوں شروع کیا ”لیکن میں ایک ضروری کام کے لیے بھی آیا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آج کی رات چاند نکلنے سے ایک گھنٹہ پہلے تمام اہلِ ظلمات بڑے مندر میں جمع ہوں گے تا کہ ماتا اور سانپ قوم کے سامنے عنانِ حکومت اپنے ہاتھ میں لیں۔ وقت مقررہ پر ہم غلام دیوی اور دیوتا اور ان کے نوکروں کو وہاں لے چلنے کے لیے آئیں گے۔ کیا ماتا اور سانپ کو یہ بات پسند ہے؟“

جوانا نے سر کے اشارہ سے اپنی رضامندی ظاہر کی اور کاہن آداب اور کورنش بجا لاتا ہوا رخصت ہون۔

لیونارڈ: ”ما درچہ خیالم و فلک درچہ خیال“

اس گدھے آٹر نے سب کیا کرایا غارت کر دیا۔ ہم بات کہ بات میں کروڈ پتی ہو جاتے۔ خدا جانے اب ہمیں ایک لعل یا نیلم دیکھنا بھی نصیب ہوتا ہے یا نہیں۔“

اس بات کا کسی نے کچھ جواب نہ دیا۔ سب کے سب اس واقعہ کے بربادی بخش اثرات سے متاثر ہو کر نہایت ملول اور مشوش ہو رہے تھے۔ لیکن آٹر جس پر اپنی حماقت کی حقیقت اب ظاہر ہوئی، مارے رنج کے رو پڑا اور کہنے لگا۔ ”میاں مجھے کیا خبر تھی کہ میری حماقت کی وجہ سے سب کام تباہ ہو جائے گا۔ افسوس مجھ سے کیسی نادانی ہوئی۔“

لیونارڈ (نونے کے دلی رنج کے اظہار پر رحم کھا کر) ”آٹر کچھ پروا نہ کرو۔ اگر تمہاری وجہ سے لعل ضائع ہو گئے ہیں تو کسی نہ کسی ترکیب سے ہم ہی کو پھر حاصل کرنے ہوں گے۔ ہاں سوا جب وہ بڈھا کاہن اندر آیا تھا تو تم ایسی چونکی کیوں تھیں۔“

سوا: ”اس واسطے کہ وہ میرا باپ ہے۔“

لیونارڈ ”یہ ایک اور دقت آن پڑی۔ نامر نے اگر اسے پہچان لیا تو پھر کیا ہو گا؟“

”مشکل اندر مشکل اندر مشکل اندر مشکل است“

193



بائیسواں باب

جال کا مندر

نہایت اضطراب اور تشویش کے عالم میں لیونارڈ جوانا کو خدا حافظ کہہ کر نوآبادی کے لوگوں کو دیکھنے گیا جن سے وہ گذشتہ شام سے نہ ملا تھا۔ ان لوگوں کی حالت اس نے نہایت بری پائی۔ سب کے سب سہمے ہوئے تھے اور ان کی وضع سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا انہیں کسی آنے والی مصیبت کا خوف ہے۔ لیونارڈ نے حتیٰ المقدور انہیں تسلّی اور تشفی دی اور کہا کہ جن تک ظلمات والوں کو آٹر اور راعیہ کی الوہیت کا یقین ہے اس وقت تک تمہاری جانیں سلامت ہیں۔

لیونارڈ مکان کے اندر بیٹھے بیٹھے اکتا گیا تھا۔ اس نے چاہا کہ باہر جا کر شہر کی سیر کرے اور جو کچھ دیکھ سکے دیکھے۔ جوانا نے اسے اس قصد سے روکا مگر اس نے نہ مانا اور اکیلا اپنے کمرے سے نکل کر صحن میں سے ہوتا ہوا محل کر بڑے پھاٹک تک پہنچا۔ لیکن یہ پھاٹک جس میں سلاخیں لگی تھیں بند تھا اور جب اس نے باہر جانا چاہا تو پہرہ والا سنتری مزاحم ہوا اور لیونارڈ کو مجبوراً وہیں کھڑا رہ کر سلاخوں ہی میں سے جھانکنے پر اکتفا کرنا پڑا۔ مطلع کسی قدر صاف ہو گیا تھا اور اس نے دیکھا کہ سو قدم کے فاصلے پر مندر کا دروازہ ہے جس کے دونوں طرف عظیم الشّان دیواریں جو پچاس فٹ بلکہ اس سے بھی زیادہ اونچی ہوں گی کھڑی ہیں۔ یہاں کسی بڑی رسم کی ادائی کے لیے تیاریاں ہو رہی تھیں۔ کیونکہ لوگوں کا ایک جم غفیر مندر کے دروازے کے قریب جمع تھا اور وقتاً فوقتاً کاہنوں اور مسلح آدمیوں کی جماعتیں اس میں سے گزرتی تھیں۔ آفتاب غروب ہوتے وقت تک وہ کھڑا ہوا تماشا دیکھتا رہا اور جب گہری شام ہو گئی تو واپس چلا آیا اور جو کچھ دیکھا تھا اس نے اپنے ساتھیوں کو سامنے بیان کیا۔

ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد دفعتاً پردے اٹھے اور کاہنوں کی ایک جماعت جن کے آگے آگے ان کا سردار نام تھا، ہاتھ میں مشعلیں لیے داخل ہوئے اور جوانا اور آٹر کے سامنے سجدہ میں گر پڑے۔

194

کچھ دیر تک خاموشی کا عالم طاری رہا آخر کار جوانا بولی۔

”کہو کیا کہتے ہو؟“

نام۔ ”اے دیوی اور اے سانپ، ہم اس لیے آئے ہیں کہ تم دونوں کو مندر میں لے چلیں تا کہ لوگ اپنے دیوتاؤں کا دیدار کر سکیں۔“

جوانا۔ “چلو ہم تیار ہیں لیکن ہمارے سبھی نوکر بھی سوائے اس عورت کے جو یہاں بیٹھی ہوئی ہے ہمارے ساتھ آئیں گے۔“

نام: ”دیوتاؤں کا حکم سر آنکھوں پر۔ سب کچھ تیار ہے فقط تمہارے وہاں پہنچنے کی دیر ہے۔“

صحن میں دو پالکیاں رکھی ہوئی تھیں۔ آٹر اور جوانا ان میں سوار ہوئے اور ان کے پیچھے پیچھے یونارڈ اور فرانسسکو نو آبادی کے لوگوں کو لیے ہوئے روانہ ہوئے۔ لیونارڈ اور فرانسسکو کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں اور پستول ان کی پٹیوں میں لگی ہوئی تھیں۔ چونکہ اہلِ ظلمات ان کے استعمال سے ناواقف تھے اس لیے کسی نے انہیں چھینا نہیں۔ محل کے صحن میں سے ہوتے ہوئے وہ مندر کے دروازہ پر پہنچے جو دیوی اور دیوتا کے لیے کھولا گیا۔

آٹر اور جوانا یہاں اپنی پالکیوں سے اترے اور تمام مشعلیں بجھا دی گئیں جس سے چاروں طرف اندھیرا ہو گیا۔ لیونارڈ کو اب معلوم ہوا کہ کسی شخص نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ہے اور اسے نہیں معلوم کہاں لیے جاتا ہے کیونکہ تاریکی اس بلا کی تھی کہ کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ ایک یا دو مرتبہ اس نے نو آبادی کے لوگوں میں اسے ایک آدمی کی آواز سنی جو خوف اور شکایت کے لہجے میں کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اس آواز کے ساتھ ہی ایک زور کے گھونسے کی آواز آئی جو بلاشبہ کسی کاہن یا سپاہی نے جو اسے لیے جاتا تھا اسے خاموش رہنے کے لیے لگایا تھا۔ اس سے ظاہر تھا کہ سب لوگوں کو یہاں خاموش رہنا چاہیے۔ کچھ دیر کے بعد لیونارڈ کو محسوس ہوا کہ اب کھلی جگہ پیچھے رہ گئی ہے کیونکہ ہوا گھٹی ہوئی تھی اور ان کے پاؤں کی آہٹ پتھریلے فرش پر اس طرح سے گونجتی تھے جیسے کسی غار میں۔ فرانسسکو نے دبی آواز میں کہا۔ ”معلوم ہوتا ہے کہ ہم کسی سرنگ میں جس رہے ہیں۔“ لیکن ایک کاہن نے فوراً دانت پیس کر اس کے کام میں کہا۔ ”خاموش! ملعون خاموش! یہ جگہ پاک ہے۔“ ان لفظوں کے معنی تو اس کی سمجھ میں نہیں آئے مگر جس لہجہ میں اور جس انداز سے کاہن نے انہیں ادا کیا تھا اس سے ان کا مفہوم ظاہر تھا۔ اس

195

سرنگ یا غار میں وہ کوئی ڈیڑھ سو قدم کے قریب گئے ہوں گے کہ انہوں نے ایک زینہ پر چڑھنا شروع کیا۔ اس زینہ میں اکسٹھ سیڑھیاں تھیں۔ کیونکہ لیونارڈ برابر انہیں گنتا گیا۔ ہر ایک سیڑھی کی اونچائی دس انچ ہو گی۔ جب وہ اس زینہ کو طے کر چکے تو پھر انہیں ایک سرنگ سے جو بارہ گز لمبی تھی اور اس قدر پست تھے کہ پھر رات کی سرد ہوا ان کے رخساروں پر مروجہ جنبانی کرنے لگی۔ اندھیرا اس غضب کا تھا کہ لیونارڈ کو کچھ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کہاں کھڑا ہے لیکن بہت دور نیچے سے جوش کھاتے ہوئے پانی کی آواز آ رہی تھی اور ساتھ ہی بہت سی دھیمی آوازیں مل کر اس کے کانوں تک پہنچتی تھیں گویا کہ ہزار ہا آدمی آپس میں سرگوشیاں کر رہے ہیں۔

ایک ان دیکھی ندی کے جوش کھانے کی آواز اور ایک نظر نہ آنے والے ہجوم کے گنگنانے کی صدا آپس میں مل کر اس وقت اور اس موقعہ کو نہایت دہشت ناک بنا رہی تھیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ گویا بے شمار روحیں جمع ہو رہی ہیں جو بغیر زبان کے باتیں کر رہی ہیں اور بغیر ہاتھوں کے چھو رہی ہیں۔ لیونارڈ اگرچہ عام طور پر نہایت قوی دل اور بہادر تھا لیکن اس غیر معمولی حالت نے اس کے نظامِ اعصاب پر وہ اثر پیدا کیا کہ اس نے بے اختیار چاہا کہ چلّا اٹھے۔ لیکن اس نے اپنی قوتِ ارادی پر ایک سخت کوشش سے قابو پا لیا اور بمشکل ضبط کیا۔ آخر کار اس فوق العادت سنسانی اور وحشت کو ایک آواز نے توڑا۔ یہ آواز سردار کاہن نام کی تھی جس نے کہا۔

”اے سانپ کے پجاریو! اے ظلمات کے رہنے والو! میں جو سانپ کے کاہنوں کا سردار نام ہوں، تم سے کہنا چاہتا ہوں کہ پشت ہو پشت سے ہم میں یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ دیوی ماتا جس کی ہم قدیم الایّام سے پرستش کرتے آئے ہیں، آسمان سے اتری ہے اور اس کے ساتھ اس کا بیٹا جال بھی تھا۔ اس کے زمانے میں ایک گناہِ کبیرہ جس کا خمیازہ ہمارے ملک کو کھینچنا پڑا وقوع میں آیا۔ وہ جرم عظیم یہ تھا کہ ظلمت نے نور کو قتل کر ڈالا اور بدیاں نیکیوں پر چھا گئیں۔ اس کے بعد ہماری دیوی نامعلوم طور پر ہم میں سے اُٹھ گئی اور خبر نہیں کہاں چلی گئی۔ اس قوت سے لے کر آج تک ہمارا ملک ظلمت کدہ بنا رہا ہے اور دھند اور کہر ہر قوت اس پر طاری رہا ہے اور اسی لیے ہم اہلِ ظلمات کے نام سے پکارے جاتے ہیں۔ اور ایسا ہونا لازمی تھا کیونکہ جس ہستی کا اس زمانہ میں دور دورہ تھا وہ ظلمت اور سکوت کے دہشت ناک القاب سے ملقب تھی اور موت
 

محمد عمر

لائبریرین
صفحہ 206
”اے اہلِ ظلمات میری دھمکیوں کو تم دل لگی مت سمجھو۔ کہاں ہیں وہ فرمانبردار اور سرکش بندے جو ابھی ابھی ڈینگیں مار رہے تھے؟ کیا آگ کے شعلوں نے اپنی زبانیں دراز کر کت ان کو چاٹ نہیں لیا۔ یہ خوب جان لو کہ اگر تم میرا حکم نہ مانو گے تو جو حال ان کا ہوا ہے وہی تمہارا ہو گا۔ تم جانتے ہو کہ ہم تمہارے دیوتا ہیں اور تم نے ہم کو اپنا بادشاہ بنایا ہے۔ لیکن اگرچہ ہم قادر مطلق ہیں۔ پھر بھی ڈرو مت کیونکہ جو بغاوت اور سرکشی کا جھنڈا بلند کرے گا اسی پرہمارا قہر نازل ہو گا۔ اے نام بول آیا تجھ کو ہمارے احکام منظور ہیں یا مرنا پسند ہے؟“
نام نے گھری ہوئی لومڑی کی طرح چاروں طرف نگاہ دوڑائی مگر اُسے کہیں آسرا نہ ملا۔ لوگوں کو اس سے زیادہ ہمدردی نہ تھی۔ وہ مدت سے اس کے ظلم و بیداد کا تختہ مشق بن رہے تھے اور جب کہ ان کو ایک قوی تر آقا ملا جو صلح و امن کی نعمت ان کے لیے لایا تھا تو انہوں نے نام کی سفاکی کا جوابہ اشتیاق تمام کاندھے سے اتار دیا۔ کاہنوں کے دل دہل گئے تھے اور مارے خوف کے ان کے حواس بجا نہ تھے۔ اب اس مایوسی کے عالم میں سوائے اس کے کہ وہ جال دیوتا سے جو خونریزی اور بدی کا دیوتا تھا امداد چاہتے اور کوئی امید اسے نہ رہی اور اس لئے وہ جال یعنی آٹر کی طرف مخاطب ہو کر چلّایا۔
”دیبی نے اپنا حکم سنا دیا مگر دیبی جال نہیں ہے۔ اے جال تیرا فرمان کیا ہے؟“
آٹر نے کچھ جواب نہ دیا کیونکہ وہ نام کی بات کو کچھ نہ سمجھا تھا لیکن جوان جلدی سے بول اٹھی۔
”تمہارے اور جال کے درمیاں میں واسطہ ہوں۔ جال کی طرف سے بات کرنے والی میں ہوں۔ اس کا اور میرا حکم مان ورنہ اے نافرمابردار بندے موت کا عذاب چکھ۔“
یہ پہلا موقع تھا کہ نام کو شکست ہوئی۔ اپنے سے برتر اور اعلیٰ تر اس نے عمر بھر کسی کو خیال نہیں کیا تھا مگر یہ بھی۔
اتفاقات ہیں زمانے کے
کہ مغلوب بھی ہوا تو ان سے جن کو اس نے خود ڈھونڈ کر دیوتا بنایا تھا۔
آخر کار زہر کا گھونٹ پی کر وہ بولا۔ ”اے ایکا اور اے جال جیسی تمہاری مرضی ہو ویسا ہی سہی۔ میں نے اس قدر محنتِ شاقہ اپنے اوپر اسی لیے گوارا کی تھی کہ تمہارا بول بالا ہو۔ میں نے اپنی کوششوں میں اس قدر سرگرمی اسی لیے ظاہر کی کہ تمہاری قربان گاہوں پر چڑھاوا چڑھے۔ اب تمہی مجھے موت کی دھمکی دیتی ہو۔ خیر میری
صفحہ 207
قسمت میں ایسا ہی لکھا تھا اے کاہنوں! اس شخص کی جو بادشاہ تھا مشکیں کھول دو۔ لوگو اپنی اپنی مرضی کے مطابق جیسا چاہتے ہو کرو۔ مجھے جو کہنا تھا کہہ چکا۔“
جلادوں نے اب شاہ آلفن کی مشکیں کھول دیں اور وہ پتھر پر سے جو اس کا تختۃ مرگ ہونے کو تھا اٹھا۔
جوانا ”اے آلفن۔ ہم نے زمام سلطنت تجھ سے لے لی۔ اب ہم تجھ کو رہا کرکے از شرِ نو زندگی بخشتے ہیں۔ دیکھ اس عنایت کے صلے میں اگر تیری طرف سے ناشکرگزاری ظاہر ہوئی تو پھر تجھے اسی پتھر کا منہ دیکھنا پڑے گا جس سے تو ابھی اٹھا ہے۔ کیا تجھ کو ہماری اطاعت منظور ہے۔“
آلفن ”اے دیپی، میں تیرے سر کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں ہمیشہ تیرا مطیع اور فرمانبردار رہوں گا۔“
جوانا۔ ”یہ تم نے اچھا کیا۔ اب ہم پھر تم کو حاکمِ افواج بناتے ہیں۔ اپنے کپتانوں اور سپاہیوں کو بلو لو۔ جو شخص ہمیں یہاں لائے تھے ان کو کہو کہ ہم کو پھر اسی جگہ لے چلیں جہاں سے ہم آئے تھے۔ اے میری رعایا اب تم اپنے اپنے گھروں میں جا کر آرام کرو اور ہمارے ظل عاطفت میں پھلو اور پھولو۔ اور امن سے رہو۔“

صفحہ 208
چوبیسواں باب
آلفن جوہرات کا پتہ بتاتا ہے
اپنی تحکمانہ تقریر ختم کرنے کے بعد جوانا ٹھی اور خوفزدہ کاہنوں کی مدد سے سرنگ کو طے کر کے آٹر کو ساتھ لئے ہوئے محل کی طرف جو ان کو رہنے کے لیے دیا گیا تھا روانہ ہوئی۔ رستہ میں اُسے لیونارڈ اور فراسسکو ملے جن کے پیچھے پیچھے نوآبادی کے لوگ یاس اور سکوت کے عالم میں اپنے اس ہمراہی کی لاش کو اٹھائے چلے آتے تھے جسے کاہنوں نے قتل کر ڈالا تھا۔ جب وہ محل کے پھاٹک پر پہنچے تو انہوں نے آلفن کو اپنے سپاہیوں اور کپتانوں کے ساتھ وہاں کھڑے پاہا۔ الفن اور اس کے سپاہیوں نے انہیں دیکھتے ہی اپنے نیزوں کو جھُکایا اور انہیں سلامی دی۔
جوانا: ”آلفن سنو۔ کسی کاہن کو محل کے اندر مت گھسنے دو۔ ہر دروازے پر پہرہ مقرر کرو۔ اب ہم جاتے ہیں۔ کل صبح کے کھانے کے بعد تم سے گفتگو ہو گی۔“
یہ کہہ کر جوانا وہاں سے روانہ ہوئی اور نو آبادی کے لوگوں کو ان کے کمرہ میں چھوڑ کر آٹر لیونارڈ اور فراسسکو سمیت اپنے کمرےہ مین داخل ہوئی یہاں سوا کو انہوں نے خاموش بیٹھے ہوئے پایا۔ لیونارڈ اور فراسسکو کے دیکھتے ہی اس کے چہرہ پر تعجب اور تحیر کے آثار ظاہر ہوئے اور وہ بولی۔
”میں نے تو سمجھا تھا کہ اب تمہارا بچ کر واپس آنا ناممکن ہے۔“
لیونارڈ : ”شاید تم اسی ڈر کے مارے ہمارے ساتھ نہیں گئیں۔“
سوا: ”ٹھیک تو ہے۔ کون کہتا ہے کہ آ بلا گلے لگ۔ سانپ کی خوفناک شکل جس نے ایک دفعہ بھی دیکھی ہو وہ دوبارہ اس پر نظر ڈالنے کا متمنی نہیں ہوتا۔ بہت سال ہوئے کہ میں سانپ کی زوجہ بننے کے لیے منتخب کی گئی تھی اور اگر میں بھاگ نہ جاتی تو میرا انجام بھی وہی ہوتا جو اس عورت کو ہوا ہے جو آج رات قصر عمیق میں دھکیلی گئی۔“
صفحہ 209
لیونارڈ: ”تم نے اچھا کیا کہ اس ملک سے نکل گئیں۔“
آٹر: ”افسوس میاں۔ آپ نے اس بڈھے خبیث کو کیوں نہ مار ڈالا۔“
”اس وقت اس کا کام تمام کرنا آسان تھا اور وہ جلے پھپھولے کی طرح پھوٹ پڑتا مگر اب اس پر قابو پانا مشکل ہے۔ اگر وہ انتقام پر آیا تو ہم سب پر ہاتھ صاف کرے گا۔“
لیونارڈ: ”ہاں اچھا ہوتا اگر میں اس کا وہیں کام تمام کر دیتا مگر تم جانتے ہو کہ میرے آٹھ ہاتھ پاؤں نہیں ہیں۔ (سوا کی طرف مخاطب ہو کر جس کی وضع سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ کوئی بات کرنا چاہتی ہے) سوا کہو کیا بات ہے؟“
سوا: ”کچھ نہیں۔ مجھے اس کالے کتے کے کہنے پر جو تمہارے ساتھ بیٹھا ہوا ہے اور دیوتا بنا پھرتا ہے خیال آیا۔ میں شکر کرتی ہوں کہ تم نے میرے باپ نام کو مار نہیں ڈالا۔“
آٹر : ”اری چڑیل۔ دیوتا تو میں جانتا نہیں کیا بلا ہوتے ہیں، ہاں اتنا مجھ کو معلوم ہے کہ ان گدھوں کے مجمع میں جس میں سے کسی کو تو اپنا باپ اور کسی کو کچھ اور بناتی ہے میں دعویٰ سے کہلانے کا مستحق ہوں۔ اور کتا جو تو نے مجھے کہا ہے تو یاد رکھ کہ کتا کاٹا کرتے ہیں۔“
سوا ”اور چڑیلیں کلیجہ نکال لیا کرتی ہیں۔“
لیونارڈ : (دل میں ) ”مجھے معلوم ہوتا ہے کہ ایک دن یہ عورت اپنے باپ سے مل کر ہمیں دام مصیبت میں پھنسائے گی۔ خیر جہاں صد ہا مصیبتیں جھیلی ہیں یہ بھی سہی۔“
جوانا: ”ان میں تو آرام کرتی ہوں۔ میرا سر چکر کھا رہا ہے اور اب تک میرے دل پر خوف چھایا ہوا ہے۔ جتنی بلندی پر میں آج گئی ہوں شاید ہی کوئی گیا ہو گا۔“
لیونارڈ : ”تم سی عاقلہ و زیرکہ اور معاملہ فہم عورت میں نے آج تک نہیں دیکھی۔، ہماری جانیں تمہاری ہی وجہ سے بچی ہیں۔ جس استقلال، ثابت قدمی اور دلیری سے تم نے کام لیا وہ تمہارا ہی حصّہ ہے۔ مرد بھی ایسی کم ہوں گے جو ان صفات سے متصف ہوں۔“
جوانا" ”خیر یہ تمہارا حسنِ ظن ہے۔ اب میں سوتی ہوں۔ خدا حافظ۔“
لیونارڈ اور فراسسکو کو آج اتنے دنوں بعد اطمینان کی نہند نصیب ہوئی۔ صبح نو بجے جب وہ سوتے رہے اس کے بعد بسترِ استراحت سے اُٹھ کر اور ہاتھ منہ دھو کر جوانا کے کمرہ میں گئے۔ وہاں
صفحہ210
آٹر بھی موجود تھا۔ ان کا کمرہ کے اندر قدم رکھنا تھا کہ آٹر بول اٹھا۔ ”میاں میاں!“
لیونارڈ : ”کیا ہے؟“
آٹر: ”وہ آئی ہوئی ہیں اور میں ان سے کہتا ہوں تو وہ جاتی نہیں۔“
لیونارڈ : ”کون؟“
آٹر: ”میاں وہ عورت جو میری دلہن بنی ہے اور اور بہت سی عورتیں بھی جمع ہیں۔ کوئی بیس کے قریب ہوں گی۔ بڑی جسیم اور قد آور ہیں۔ میاں میں یہاں آپ کے ساتھ لعلوں کو ڈھونڈنے میں آپ کو مدد دینے کے لئے آیا تھا نہ کہ عورتوں سے اٹھکلیاں کرنے کے لیے۔ جس عورت کو میری جورو بنایا گیا ہے اس کا قد اتنا بڑا ہے کہ میں تو اس کی کمر تک بھی نہیں پہنچتا۔“
لیونارڈ : ”اگر تم دیوتا بنے ہو تو تمہیں اس عورت کے ساتھ رہنا پڑے گا۔ آٹر اس بات کا خیال رکھنا کہ تمہارا نام سکوت ہے اس لیے تم اپنی زبان پر قفل لگائے رکھو ورنہ خطرہ ہے کہ یہ عورت تمہارا اور ہمارا راز افشا کرے گی۔“
آٹر: ”میاں میں سب کچھ سنبھال لوں گا۔ آپ بے فکر رہیے لیکن آگر آپ کی خواہش اس عورت سے نکاح کرنے کی ہو تو میں ایسا تنگ دل نہیں ہوں کہ آپ سے مجھ کوعذر ہو۔“
لیونارڈ: (ہنس کر) ”کیا مسخرا ہے۔ تیری جورو تجھی کو مبارک ہو۔ مجھے ایسی باتوں سے سروکار نہیں۔“
اتنے میں جوانا اپنے کمرہ سے باہر نکلی اور سب نے مل کر کھانا کھایا۔ جب کھانے سے فارغ ہوئے تو سوا نے خبر دی کہ آلفن باہر کھڑا انتظار کر رہا ہے۔
جوانا: ”اندر آنے دو۔“
جب آلفن اندر داخل ہوا تو جوانا نے پوچھا۔ کہو کیا خبر لائے ہو؟“
آلفن: ” اور تو سب ٹھیک ہے مگر نام اور اس کے تین چیلوں نے جو اس کا دم پھرتے ہیں، آج علی الصبح سامنے کی عمارت میں جہاں کاہنوں ک بود و باش ہے ایک جلسہ کیا تھا۔ دیکھیے کیا ہوتا ہے۔ وہ تو اپنی طرف سے بہت جوش و خروش ظاہر کر رہے ہیں۔ مگر شہر بھر کے لوگ مطمئن اور مسرور ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پرانے معبودوں نے آسمان سے آ کر صلح و امن کا علم بلند دیا ہے۔“
جوانا: ”یہ تو فرخندہ فانی کی علامت ہے۔“
صفحہ 211
یہ کہہ کر اس نے آلفن سے مختلف سوالات کیے جس سے ان کو اہلِ ظلمات کے ملکی اور تمدنی حالات کے متعلق مزید واقفیت حاصل ہوئی۔ آلفن جو جوابدہ تھا، جوانا اس کا ترجمہ کر کے لیونارڈ کو سناتی جاتی تھی۔ پھر لیونارڈ نے جو گفتگو بغور سن رہا تھا جوانا کی وساطت سے آلفن سے مخاطب ہو کرکہا کہ نام اور اس کے ساتھی جو پہلے سے خودمختار تھے کیونکر جال اور ایکا کے مبعوث ہونے پر اپنا سر عبودیت جھکا دینے پر رضامند ہو گئے حالانکہ کوئی شخص اطاعت کو حکومت پر ترجیح نہیں دیتا۔“
آلفن: ”جناب اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ دیوتا معبود ہیں اور ان کی تعظیم اور پرستش سب پر فرض ہے۔ دوسرے یہ کہ نام کو ایک عرصہ سے اپنے اختیارات کے چھن جانے کا خطرہ تھا۔ جتنے سردار کاہن اس ملک میں گزرے ہیں اس سب میں یہ نام نہاہت بے رحم اور ظالم ہے۔ تین سال کے عرصہ میں اس نے قربانیوں کی تعداد کو المضاعف کر دیا۔ اور اگر لوگوں کر خون کے فوارے چھوٹتے ہوئے دیکھنے میں مزا آتا ہے مگر پھر بھی وہ شاکی ہیں کیونکہ ہر شخص کو ہر وقت یہی خدشہ لگا رہتا ہے کہ شمشیر مرگِ مفاجات اس کے گلے پر اب پھری کہ پھری۔ اس لیے جب دیوتا آ گئے تو اس نے بخوشی ان کی الوہیت کا اقرار کیا کیونکہ وہ خوب جانتا تھا کہ اگر کوئی طریقہ ایسا ہے جس سے وہ اپنے اقتدارات کے قریب الانفصام رشتہ کو ٹوٹنے سے بچا سکتا ہے تو وہ یہی ہےکہ دیوتاؤں کے آستانہ پر ناصیہ عبودیت کو خم کرے۔ اب یہ دیوتا صلح و امن قائم کرنا چاہتے ہیں جس کے دوسرے لفظوں میں یہ معنی ہوئے کہ سردار کاہن کا عدم وجود برابر ہو جائے۔ اسی لئے جب دیبی نے انسان کی قربانی کے مسدود کئے جانے کا حکم دیا تو اس نے مخالفت کی۔“
اس وقت آٹر نے پہلی بار جوانا کی وساطت سے (جو ترجمان کا کام دے رہی تھی) آلفن سے کہا ”ہم نام کو بتا دیں گے کہ دیوتاؤں کی عدول حکمی کے کیا معنی ہوتے ہیں۔ وہ جو دوسروں کی قربانیاں کرتا ہے خود کیوں نہیں قربانی چڑھتا۔ اچھا میں ان اپنے ہاتھوں سے اس کو قتل کروں گا۔“
لیونارڈ : ”اچھا آلفن یہ تو بتاؤ ہ وہ بڑا بت جس پر ہم گزشتہ رات بیٹھے تھے کس نے چٹان میں تراشا اور وہ کیا جانور ہے جو ہم نے عورت کے دھکیلے جانے کے وقت چشمہ میں دیکھا تھا؟“
آلفن: (آٹر کی طرف اشارہ کر کے) ”اس دریا باشوں کے بادشاہ سانپوں کے سردار پست قامت دیوتا سے پوچھئے۔ بھلا میں انسان ہیچدان ان باتوں کا کیا جواب دے سکتا ہوں۔ مجھ کو صرف یہی
صفحہ 212
علم ہے کہ یہ بت کسی زمانے ماضیہ میں تراشا گیا تھا جبکہ ہم (جو اپنے اسلاف کی ناخلف یادگار رہ گئے ہیں) ایک دیو ہیکل قوم تھے اور سانپ کی نسبت جو آپ نے استفسار فرمایا ہے اس کے متعلق میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ وہ ہمیشہ سے اسے مقدس چشمے میں سکونت پذیر ہے ہمارے بزرگوں کے وقت سے وہ اسی جگہ موجود ہے۔ اس کی شکل میں کسی قسم کا تغیّر واقع نہیں ہوا۔“
لیونارڈ : ”تاریخ فطرت میں یہ ایک بڑا ہی عجیب واقعہ ہے۔ کاش مجھ میں اتنی قدرت ہوتی کہ میں اس سانپ کو لندن کے عجائب خانہ میں لے جا سکتا۔“
پھر وہ آلفن سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا۔ ”اچھا آلفن مجھے اب یہ بتاؤ کہ وہ سُرخ پتھے کہاں گئے جو کل چشمہ میں ڈالے گئے تھے اور اس شخص کا کیا حال ہوا جو جال دیوتا کے سامنے ایکا کا خون لانے کے جرم کا مرتکب ہوا تھا۔“
آلفن: ”بس اب وہ ہمیشہ کے لئے گئے۔ ان پتھروں کو ایک چمڑے کی تھیلی میں ڈال کر اس مجرم کے گلے میں جس جا حال دریافت کر رہے ہیں لٹکا دیا گیا تھا۔“
لیونارڈ کے منہ میں پانی پھر آیا اور اس نے پھر اشتیاق سے پوچھا۔ ”اچھا اس شخص کا کیا حال ہوگا۔“
آلفن: ”یہ میں نہیں جانتا۔ صرف اتنا جانتا مجھ کو معلوم ہے کہ اس کو رسّیوں سے باندھ کرسانپ کی مقدس جگہ میں لٹکا دیا گیا تھا۔کہ اگر وہ ان سرخ پتھروں کو سانپ سے ڈرا کر اس کےآگے آگے بھاگتا پھرا۔ اس کے ساتھ یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اگروہ ان سرخ پتھروں کو سانپ کی مقدس جگہ میں رکھ آئے گا تو اس کے سب گناہ معاف ہو جائیں گے اور اگر سانپ نے اس کی جان بخشی کی تو اس کو اوپر کھینچ لیا جائے گا۔ مگر نام اپنے قول پر قائم نہ رہا۔ کیونکہ جب یہ شخص قعر کی تہہ میں پہنچا تو نام نے کاہنوں کو حکم دیا کہ رسّیاں چھوڑ دو اور وہ بے چارہ وہیں رہ گیا۔ میں نہیں جانتا کہ آگے اس کے ساتھ کیا گزری مگر غالب یہ ہے کہ سانپ نے اس کو کھا لیا ہو گا۔ کیونکہ آج تک جو شخص اس کی بیت مقدس میں گیا ہے پھر واپس نہیں آیا۔“
لیونارڈ (جوانا نے مخاطر ہو کر): ”کہیں سانپ لعلوں کو بھی نہ نگل گیا ہو۔ گو مجھ کو ان کے حصول کی چنداں توقع نہیں ہو سکتی۔“
اس کے بعد آلفن اٹھ کر چلا گیا اور وہ پھر کسی وقت واپس آیا۔
جوانا: ”اب سناؤ کیا حال ہے؟“
صفحہ 213
آلفن : ”اے ملکہ سردار کاہن نام اور اس کے دو چیلے باہر دروازے پر کھڑے ہیں اور کچھ کہنے کے لئے آئے ہیں۔“
جوانا : ”اچھا ان کو اندر لے آؤ۔“
نام اور اس کے ساتھ دانوں کاہن اندر آئے۔ گو ان کے بشروں سے عجز و انکسار ٹپک رہا تھا مگر لیونارڈ کو شک تھا کہ اس میں بناوٹ ہے اور وہ کوئی چال چلنے آئے ہیں۔ نام نے جوانا اور آٹر سے جو پاس پاس کرسیوں پر بیٹھے تھے مخاطب ہو کر کہا۔ ”اے دیوتاؤ! میں تم سے کچھ عرض کرنے آیا ہوں اور وہ یہ ہے کہ تم نے ایک ایسا قانون جاری کیا ہے جو ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ پرسوں کے روز جال دیوتا کا تیوہار ہے اور میں نے پچاس عورتوں کو اس پر چڑھاؤ چڑھائے جانے کے لئے تیار کیا ہے تا کہ جال دیوتا کے قہر و غضب کی آگ بجھے اور ملک میں آسائش و فراخی نظر آئے۔ پشت ہا پشت سے یہ تیوہار سال بسال چلا آتا ہے اور جب کبھی اس کو ٹھیک طور پر منایا نہیں گیا اور اس کے انعقاد میں ردنگ و تاخیر واقع ہوئی تو یہ دیکھا گیا کہ نہ تو آفتاب نکلتا ہے نہ اناج پیدا ہوتا ہے اور نہ مویشیوں اور جانوروں کی نسل ترقی کرتی ہے۔ اب میں تم سے یہ پوچھنے آیا ہوں کہ تمہیں کیا قربانی دی جائے جو تمہارے مرغوب اور پسندِ خاطر ہو۔“
جوانا: ”میرے اور میرے بیٹے کا یہ حکم ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کے لئے ایک بیل اور ایک بکری ذبح کرو۔ یہ بیل اور بکریاں بعد میں سانپ کی مقدس مکان میں ڈال دی جائیں گی۔ اور نیز بیل اور بکریاں دوپہر کے وقت ذبح کی جائیں گی نہ کہ رات کے وقت۔“
نام: (زہر کا گھونٹ پی کراور سر جھکا کر) ”ہر ایک کے لئے ایک بیل اور ایک بکری؟ اے دیوتاو، جیسی تمہاری مرضی ویسے ہی سہی اور بیل اور بکریاں دوپہر کو ذبح کی جائیں گی نہ کہ رات کے وقت؟ اے دیوتاؤ جیسی تمہاری مرضی مجھے کچھ عذر نہیں۔ اے ایکا اور اے جال تمہارے منہ کے الفاظ ہمارے لئے قانون کا حکم رکھتے ہیں۔“
یہ کہہ کر نام سلام کر کے چلا گیا۔
آٹر: ”ہائے افسوس میاں جن وہ تم سے باتیں کر رہا تھا تو تم نے اس کو گولی سے کیوں نہیں مار ڈالا۔ اب وہ یقیناً ہم کو سانپ کے آگے پھنکوا کر چھوڑے گا۔“
صفحہ 214
جب یہ الفاظ سوا نے جو باپ سے چھپ کر آٹر کے پیچھے کھڑی ہوئی تھی سنے تو اس نے ایک غضب آلود نگاہ آٹر پر ڈالی اور کہا۔ ”اے سیاہ رو کتے! تو تو نے جھوٹ موٹ اپنے آپ کو دیوتا مشتہر کیا ہے اور پھر تو اتنا نہیں سمجھتا کہ ایک ایسے شخص کی جان لینی جس کے ہاتھوں سے حکومت پہلے ہی نکل چکی ہے اور اب عاجز ہو کر تیرے سامنے اپنی فروتنی کا اظہار اور اعتراف کر رہا ہے کس قدر بزدلی اور سفلہ پن کی بات ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اصلی دیوتا کے انتقام کا وقت قریب آتا جا رہا ہے۔ اور اسی شخص کے ہاتھوں جس کو تو گولی سے مروا ڈالنے کی بار بار خواہش ظاہر کر رہا ہے تیرے جیسے افرا پردازوں کی زبان گدی سے میں نے نہ کھنچوا ڈالی تو جبھی کہنا۔ کمینہ، بزدل، پاجی!“ یہ کہہ کر وہ کمرہ سے آٹر کی طرف کینہ سے دیکھتی ہوئی باہر نکل گئی۔
لیونارڈ : (جوانا سے مخاطب ہو کر) ”مجھ کو خطرہ ہے کہ یہ تمہاری خادمہ ہم پر ضرور کوئی نہ کوئی بلا لائے گی۔“
جوانا: ”معلوم نہیں کی یہاں آ کر اس کی فطرت اس قدر کیوں بدل گئی ہے؟“
لیونارڈ : ”پہلے بھی تم نے یہی جواب دیا تھا مگر میرے خیال میں اس کی فطرت بدلی نہیں۔ اپنے والد بزرگوار کے دیدار سے اس کی مخفی خصلتیں صرف جلی ہو گئی ہیں۔“
صفحہ 215
پچیسواں باب
نئے طریقے کہ قربانی
تین دن گزر گئے اور وہ دن آیا جب کہ اس طریقہ کے مطابق قربانی دی جانے والی تھی جسے نئے دیوتاؤں نے مقرر کیا تھا۔ اس اثنا میں کوئی واقعہ ایسا پیش نہ آیا جس کا ذکر خصوصیت سے کیا جائے۔ لیونارڈ اور فراسسکو البتہ چند بار شہر میں پھرنے گئے اور نو آبادی کے لوگوں کو بھی لیتے گئے لیکن آٹر اور جوانا کے لئےدیوتا ہونے کے باعث اس قسم کا سیر و تماشا ممنوع تھا۔ ان کی الوہیت اس امر کی متقاضی تھی کہ وہ طرزِ زندگی ایسا اختیار کئے رہیں جو ان کی شان ربانی کے مناسب ہوا۔ ایک دن تو آٹر نے اس شان کو قائم رکھا لیکن دوسرے دن باوجود لیونارڈ کی نصیحت کے اس نے اپنی جورو ساگا کی صحبت میں اپنا غم غلط کرنا شروع کیا۔ لیونارڈ نے اس خطرہ کو دیکھا اور اس نے بونے کو بہت سمجھایا کہ اس عورت سے بے تکلفی کرنا تمہارے اور ہم سب کے حق میں مہلک ہو گا۔ لیکن دل میں وہ کیتا تھا کہ ”آٹر بے چارہ کرے تو کیا کرے۔ ایسی حالت میں جب کہ اسے کوئی کام نہیں اور بت کی طرح اسے دن رات ساکن و ساکت ایک مکان میں بیٹھا رہنا پڑتا ہے، اگر وہ موقع پا کر اپنی تکلیف و انداہ ایک عورت کو کی صحبت میں کم کرتا ہے تو اس کے لئے وہ موردِ ملامت نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔“
دوپہت کے وقت کچھ کان اور سپاہی جوانا اور آٹر کو لینے آئے۔ جوانا کے حکم کے مطابق قربانی کی رسم رات کے بجائے دن کے وقت ادا کی جانے والی تھی۔ جب وہ مندر میں پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ہزار ہا مرد و عورت دنگل کی نشست گاہوں پر درجہ وار بیٹھے ہوئے ہیں۔ جوانا اور آٹر نے اپنے اونچے تختوں پر بیٹھنے سے انکار کر دیا تھا اور اب وہ بت کے پاؤں کے قریب کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ نام ان کے سامنے کھڑا تھا اور لیونارڈ فراسسکو اور نوآبادی کے لوگ دونوں طرف صف باندھے ہوئے تھے۔ مطلع نہایت تاریک تھا۔ سردی شدت کی تھی اور برف کے بڑے بڑے گالے آسمان پر سے گر رہے تھے۔ تھوڑی
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ نمبر 226

اس کے بعد انہوں نے سؔوا کے ہاتھ پاؤں رسے سے جکڑ دئیے اور اُسے ایک کونے میں ڈالدیا اور دن بھر لیونارڈ اور فرانسسکو باری باری پہرہ دیتے رہے اور وہ خاموش پڑی رہی۔
دن میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہ آیا جسکا ذکر خصوصیت کے ساتھ کیا جائے۔ آلؔفن حسب معمول ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ شہر میں لوگوں کا جوش ساعت بہ ساعت بڑھ رہا ہے۔ مطلع کے غیر معمولی تکدر اور سردی کی شدت سے لوگ مشتعل اور برانگیختہ ہو رہے ہیں او ر عجب نہیں یہ جوش و برانگیختی عنقریب منجر بہ فساد و بغاوت ہو جائے۔ کاہن بھی اس فساد کی آگ کو مشتعل کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کر رہے لیکن اس فساد کی آگ کو بھڑکنے کے لیے پھر بھی کچھ مدت چاہیے فوری خطرہ ابھی تک نظر نہیں آتا۔ غروب آفتاب کے وقت لیونارڈ اور فرانسسکو مطلع کی حالت دیکھنے گئے۔ آسمان پر وہی تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ برف بار ہوائیں اُسی تندی اور تیزی کے ساتھ چل رہی تھیں اور ستاروں کی دھندلی روشنی کہر کے کثیف غبار کے پرلی طرف اس طرح ٹمٹماتی ہوئی نظر آتی تھی جیسے کئی کوس سے ایک بجھے ہوئے چراغ کی غیر مسلسل جھلملاہٹ لیونارڈ نے ایک آہ سرد بھر کر کہا" کیا یہ مطلع کبھی صاف نہیں ہو گا "۔ اس کے بعد وہ فرانسسکو کے ساتھ واپس محل میں چلا آیا اور دونوں نے آٹر کو بہ احتیاط تمام متنبہ کر کے سوا پر طلا یہ مقرر کیا۔ پھر دونوں کمل اوڑھ کر سو گئے۔ ابھی صبح کاذب ہی تھی کہ ایک بلند آواز سن کر لیونارڈ کی آنکھ کھلی۔ آٹر نہایت سراسیمگی اور پریشانی میں پکار رہا تھا۔ "میاں یہاں آئیے جلد آئیے"۔
لیونارڈ کا ماتھا ٹھنکا اور وہ بدحواس ہو کر بھاگا۔ جا کر دیکھا کہ بونا بہبوت کھڑا ہوا اُس دیوار کی طرف آنکھ پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا ہے جس کے سہارے سوا بیٹھی ہوئی تھی۔ سوا غائب تھی مگر جن رسوں سے وہ بندھی تھی وہ فرش پر پڑے ہوئے تھے۔
لیونارڈ نے جھپٹ کر آٹر کی گردن پکڑ لی اور اُسے خوب جھنجھوڑا اور پھر یاس کے لہجہ میں پکارا۔" ارے کمبخت یہ کیا غضب تو نے کیا تو سوتا رہا اور وہ فرار ہو گئی۔ اب ہم پر تباہی آئی"۔
آٹر "میاں میں واقعی سوتا رہا اگر آپ چاہیں تو مجھے مار ڈالیے کیونکہ میں اس کا سزاوار ہوں لیکن میں آپ سے سچ کہتا ہوں کہ اس وقت تک جبکہ ساگا نے آ کر مجھے پانی نہیں پلایا میں بالکل ہشیار تھا۔ میں پہرہ پر کبھی سونے کا عادی نہیں"۔

صفحہ نمبر 227
لیونارڈ "کیا ساگا تمہارے لیے پانی لائی تھی ؟"
آٹر "ہاں میاں ۔ آدھی رات کا وقت تھا اور پیاس کے مارے میرا حلق سوکھ رہا تھا اس لیے میں نے ساگا سے کہا کہ میرے لیے پانی لا چنانچہ وہ ایک برتن میں پانی لائی اور اس کے پینے کے بعد مجھے ہوش نہ رہا"۔
لیونارڈ۔" آٹر تمہاری جورو نے تمہیں بے ہوشی کی دوا پلا دی"۔
آٹر۔ "کیا عجب! ایسا ہی ہوگا۔ اب وہ قحبہ سوا تو چلی گئی میاں آپ جانتے ہیں وہ کہاں گئی؟"
لیونارڈ۔ "اپنے باپ نا م کے پاس"۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ نمبر 228

ستائیسواں باب
باپ بیٹی
اُدھر لیونارڈ اور آٹر سراسیمگی کے عالم میں یہ باتیں کر رہے تھے ادھر ان سے تین سو گز کے فاصلہ پر ایک مکان میں جو مندر کے عقب میں واقع تھا ایک اور ہی سین کھنچ رہاتھا۔
نام سحرخیز تھا اور جس صبح کا ہم ذکر کر تے ہیں اُس صبح کو وہ معمول سے زیادہ سویرے کا جاگ رہا تھا۔ نئے دیوتاؤں نے عنان فرمانروائی اپنے ہاتھ میں لیتے ہی پہلا کام جو کیا وہ یہ تھا کہ سردار کاہن کے اقتدارات سلب کر دیے اور یہ ایک ایسا واقعہ تھا کہ نام کو جس کی مطلق العنان طاقت کے آگے نصف صدی کے اثناء میں جب سے کہ وہ سردار کاہن ہوا تھا آلفن اور اس کے معتقدین بھی کانپتے تھے کانٹوں کے بستر پر سلانے کو بس تھا۔ وہ اسی فکر میں غلطاں پیچاں تھا کہ آیا یہ دیوتا سچے ہیں یا نہیں اور گھنٹوں ان کی طرف سے اس کے دل میں وہ خیالات آتے رہے جن کا ذکر پچھلے باب میں کیا گیا ہے۔
وہ اسی فکر میں ڈوبا ہوا تھا کہ اتنے میں کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ بولا "کون ہے؟ اندر چلے آؤ"۔
ایک کاہن اور دو عورتیں اندر داخل ہوئیں جن میں سے ایک ساگا تھی اور دوسری سوا۔
نام( سوا کی طرف اشارہ کر کے) "یہ کون ہے؟"
کاہن۔ "جناب یہ عورت ایکا کی خادمہ ہے"۔
نام۔ "یہاں اسے کیوں لائے؟"
کاہن۔" جناب یہ عورت اپنی مرضی سے میرے ساتھ آئی ہے اور کچھ آپ سے عرض کرنا چاہتی ہے"۔
نام۔ "بڑے احمق ہو یہ عورت تو ہماری زبان جانتی نہیں پھر ہم سے بولے گی کیونکر؟ اچھا اسکو
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
صفحہ نمبر 229

فی الحال ایک طرف لے جا کر اپنی حراست میں رکھو۔ کہو ساگا کیا خبر ہے۔ پہلے یہ بتاؤ کہ مطلع کا کیا حال ہے“۔
ساگا۔” چچا جان کہر کا وہ عالم ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ نہیں نظر آتا۔ ہر طرف دھواں ہی دھواں دکھائی دیتا ہے“۔
نام” اگر کچھ دن اور یہی حالت رہی تو۔۔۔اچھا یہ بتاؤ کہ تمہارا شوہر جال کیسا ہے“۔
ساگا۔ ”جال بدستور نشہ میں چور رہتا ہے اور عورتوں کی صحبت کادن رات لطف اڑایا کرتا ہے۔ ہماری زبان بھی ٹوٹی پھوٹی بولنی سیکھ گیا ہے۔ نشہ کی ترنگ میں ایکدن اس نے ایک گیت گایا جس کو میں پورا نہیں سمجھ سکی معلوم ہوتا ہے کہ ایکا دیوی کسی جگہ قید تھی اور وہاں سے اسنے اور ایک اور شخص نے جس کا نام نجات دہندہ تھا اس کو رہا کیا“۔
نام ”شاید تم نے سمجھنے میں غلطی کی۔ ہاں یہ تو بتاؤ کہ اس دیوتا کی پرستش اب بھی تم پہلے کی طرح کرتی ہو یا نہیں“۔
ساگا (تیوری چڑھا کر)” مجھے اس سے سخت نفرت ہے اور اگر دیوتا بھی فانی ہوتے ہیں تو وہ دن میرے لیے خوشی کا ہو گا جب کہ وہ جان سے مارا جائیگا“۔
نام۔” یہ کیوں تم نے تو مجھ سے کہا تھا کہ اس دیوتا سا دوسرا خاوند تمہیں اور کوئی نہیں مل سکتا اور تمہاری پرستش عشق کے درجہ کو پہنچگئی ہے۔ اب کیا ہوا کہ تمہارا عشق دفعتہً مبدل بہ تنفر ہو گیا“۔
ساگا۔” واقع میں اول اول مجھے اس سے محبت تھی لیکن جب کچھ دنوں بعد اس کی طبعیت میری طرف سے اچاٹ ہو گئی اور وہ میری بیس باندیوں کے ساتھ جو جہیز میں مجھے ملی تھیں رنگ رلیاں منانے لگا تو مجھے اس سے نفرت ہو گئی اب میں اس کے خون کی پیاسی ہوں “۔
نام (مسکرا کر) ”اخاہ یہاں بھی سوکنوں کے حسد کامعاملہ ہے۔ اچھا بھتیجی کیا عجب ہے کہ تمہاری آرزو کسی دن پوری ہو۔ ہاں یہ تو بتاؤ کہ یہ عورت جو تمہارے ساتھ آئی ہے کون ہے؟“
ساگا۔” چچا جان اس عورت کی مشکیں ایکا نے کسوا دی تھیں اور جال کو اس کی نگہبانی کے لیے مقرر کیا تھا۔ میں نے جال کو دوائے بیہوشی پلا دی اور جب وہ بے ہوش ہو گیا تو میں نے اس عورت کی مشکیں کھول دیں اور اس کو مخفی رستہ سے یہاں لے آئی آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہے“۔
نام ”مگر وہ ہماری زبان کیونکر سمجھ سکے گی“۔
 
Top