سیاسی چٹکلے اور لطائف

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شاہد شاہ

محفلین
زیک یاز Occupational Hazard کا اردو ترجمہ کر دیں
3346_E3_E2-3_EFB-4560-_BD2_A-_CD377_BE04_C6_A.jpg
 

جاسمن

لائبریرین
ذومعنی الفاظ کا شہنشاہ...

سینٹ کا اجلاس ہو رہا تھا صدارت بلوچستان سے تعلق رکھنے والی نورجہان پانیزئی کررھی تھیں۔ (یہ ان دنوں کی بات ھے جب حکومت کی جانب سے پہلی بار بجلی کے بلوں پر سرچارج کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس پر اپوزیشن اور عوام کی جانب سے کافی سخت ردعمل آیاتھا ) حافظ حسین احمد اٹھے اور کہا وزیر خزانہ جناب سرچارج عزیز صاحب بتانا پسند فرمائیں گے ؟ابھی سوال نامکمل تھا کہ سرتاج عزیز اٹھے اور کہا ''جی !انہیں سمجھائیں، میرا نام درست لیں ۔''
حافظ صاحب سے درست نام لینے کو کہا گیا تو حافظ صاحب کہنے لگے:
''آج اخبار میں سرچار ج کا تذکرہ بہت پڑھا، ممکن ھے، وہی اٹک گیا ھو۔مگر وزیر صاحب اپنا درست نام بتادیں تاکہ انہیں اسی نام سے پکارا جائے ''
سرتاج عزیز اپنے سرخ چہرے کے ساتھ انتہائی غصے میں اٹھے اور کہنے لگے:'' میرا نام سرتاج ہے سرتاج!! !!!
یہ کہنے کی دیر تھی کہ حافظ حسین احمد نے کہا :
محترمہ چیئرپرسن صاحبہ! آپ انہیں سرتاج (شوہر مراد ہے)کہہ سکتی ھیں؟
ڈاکٹرنورجہاں پانیزی کے ہونٹوں پر چند لمحے قفل رہا …پھر بولیں:'' نہیں میں نہیں کہہ سکتی''
حافظ حسین احمد نے کھڑے کھڑے کہا:
جب آپ ان کا درست نام لینے سے گریز کرتی ھیں اور درست نام نہیں لے سکتیں تو ھم کیسے لے سکتے ہیں؟
 

جاسمن

لائبریرین
ذومعنی الفاظ کا شہنشاہ...

٭ …وسیم سجاد سینٹ کے اجلاس کی صدارت کررھے تھے اقبال حیدر(مرحوم) کی یہ عادت تھی کہ وہ اجلاس سے اٹھ کرھال کے ساتھ والے کمرے میں بیٹھ کر سگریٹ پیتے تھے ۔چیئرمین صاحب نے پوچھا :…اقبال حیدر کہاں ھیں؟
حافظ حسین احمد نے کہا'' پینے گئے ھیں''
پورے ھال میں قہقہے برسنا شروع ھوئے تو اقبال حیدر فوراً داخل ھوئے ،کہنے لگے :''جناب چیئرمین !انہو ں نے مجھ پر بہتان لگایا ھے''
اقبال حیدر غصے سے لال پیلے ھو چکے تھے ،حافظ حسین احمد اٹھے اور کہنے لگے:'' جناب چیئرمین! آپ ان سے پوچھیں یہ سگریٹ پی کر نہیں آئے ؟میں نے بھی تو یہی کہا تھا کہ پینے گئے ھیں''۔
 

جاسمن

لائبریرین
ذومعنی الفاظ کا شہنشاہ...

٭ …ڈاکٹر اشرف عباسی قومی اسمبلی کی ڈپٹی سپیکر تھیں، سپیکر معراج خالد بیرونی دورے پر چلے گئے۔ اب قائم مقام سپیکر کی حیثیت سے اجلاس کی صدارت اشرف عباسی ھی کو کرنا تھی ۔مسئلہ صرف حافظ حسین احمد کا تھا کہ کسی طرح انہیں کنٹرول کیا جائے۔ ڈاکٹر اشرف عباسی نے سوچ وبچار کے بعد فیصلہ کیا کہ حافظ حسین احمد سے میٹنگ کرلی جائے ۔وہ یہ سوچ کر رات ساڑھے دس بجے ایم این اے ھوسٹل چلی آئیں ۔کمرے میں کراچی کے ایک عالم دین سے کہنے لگیں کہ ''حافظ صاحب بہت تنگ کرتے ھیں، انہیں سمجھائیں، اجلاس کو پر سکون رھنے دیا کریں۔ تیسرے فریق کی موجودگی میں حافظ حسین احمد اور ڈاکٹر اشرف عباسی کا معاھدہ ہوگیا کہ حافظ حسین احمد تنگ نہیں کریں گے ۔اگلے دن اجلاس شروع ھوا تو حافظ حسین احمد اٹھے اور بولنا چاھا تو ڈاکٹر اشرف عباسی نے موصوف کو غصے سے کہا بیٹھ جاؤ۔ چند منٹوں کے توقف کے بعد وہ پھر اٹھے تو ڈاکٹر صاحبہ نے اپنا پہلے والا جملہ دھرادیا۔ ایک مرتبہ پھر ایسا ھوا ۔جب چوتھی مرتبہ حافظ حسین احمد اٹھے تو ڈاکٹر اشرف عباسی نے جھاڑ پلادی ۔حافظ صاحب نے کہا:
'' میں رات والے معاھدے کو توڑنے کا اعلان کرتا ہوں۔''
یہ کہنے کی دیر تھی کہ ڈاکٹر اشرف عباسی نے سپیکر کی کرسی سے مخاطب ھوتے ھوئے کہنا شروع کردیا :نہیں، نہیں حافظ صاحب! معاہدہ برقرار رھے گا۔
تمام ممبران رات والے معاھدے پر حیرت زدہ تھے ،یہ معاھدہ ممبران کیلئے معمہ بن کے رہ گیا تھا
 

جاسمن

لائبریرین
ذومعنی الفاظ کا شہنشاہ...

٭… ملک معراج خالد قومی اسمبلی کے سپیکر تھے، اعتزاز احسن وزیر پارلیمانی امور تھے، انہیں جواب دینا تھے۔ مگر اعتزاز احسن نے ایک دن آتے ھی سپیکر سے کہا کہ: آج مجھے جلدی ھے، حافظ حسین احمد صاحب سے کہیں کہ وہ سوال پوچھ لیں۔
حافظ حسین احمد نے کہا کہ: وزیر صاحب بتانا پسند کریں گے کہ کس بات کی جلدی ہے؟
اعتزازاحسن: محترمہ بے نظیر بھٹو (وزیر اعظم ) مری جارہی ہیں۔
حافظ حسین احمد:کس پر؟
بس یہ کہنے کی دیر تھی کہ شور شرابہ شروع ہوگیا ۔حکومتی پارٹی کے اراکین کہنے لگے کہ یہ جملے قابل اعتراض ہیں، ھم واک آؤٹ کریں گے ،نہیں تو حافظ صاحب اپنے الفاظ واپس لیں۔
حافظ حسین احمد: کونسے الفاظ قابل اعتراض ہیں، میں نے بڑی لمبی تقریر کی ھے ،مجھے کیا پتہ کہ کونسے قابل اعتراض بن گئے ھیں۔
معراج خالد : وہ جو قابل اعتراض ھیں ۔
حافظ حسین احمد:مجھے کیسے پتہ چلے گا؟
اعتزاز احسن :وہ جو انہوں نے کہا کہ کس پر…؟
حافظ حسین احمد:جناب سپیکر !میرا کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر محترمہ ھیلی کاپٹر پر جارھی ھیں تو پھر تویہ جائیں اور اگر وہ بائی روڈ جارھی ھیں تو وزیر صاحب بعد میں اپنی گاڑی پر جاسکتے ھیں۔ میں نے یہ پوچھا کہ :وہ کس پر مری جارھی ھیں؟ گاڑی پر یا ہیلی کاپٹر پر؟''
پیپلز پارٹی کے اراکین پھر کھڑے ھوگئے کہنے لگے:'' نہیں! حافظ صاحب کی نیت ٹھیک نہیں ھے۔'' بڑھ چڑھ کر بولنے والوں میں جہانگیر بدر بھی تھے۔
حافظ حسین احمد:جناب سپیکر !مجھے اپنی نیت کا پتہ ھے ،انہیں میری نیت کا کیسے پتہ چل گیا؟یہ پکوڑے بیچنے والے جس عظیم خاتون کے توسط سے ممبر بن کے آئے ھیں ان کی اپنی لیڈر کے بارے میں کیسی سوچ ھے؟
 
یعنی افواہ پر مبنی خبر؟ ویسے میرا خیال ہے کہ آگے کیا ہو نے والا ہے اس کی کوئی پیش گوئی آسانی سے نہیں کرسکتا، معاملات بہت پیچیدہ ہیں بس ایک بات کنفرم ہے اب نواز کا کوئی بہتر سیاسی مستقبل نہیں ہے۔

ہونا بھی نہیں چاہیئے

بظاہر یہی لگ رہا کہ اسبار اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ نے تحریک انصاف کی سُن لی۔ پی پی پی اور نون لیگ دونوں کا مستقبل خطرے میں ہے۔

تحریک انصاف کی سنے جانے کا ایک فیصد بھی امکان نہیں ہے
 
ہونا بھی نہیں چاہیئے
تحریک انصاف کی سنے جانے کا ایک فیصد بھی امکان نہیں ہے
ہلا جی.... خوورے مینوں کیوں لگدا جے بوہتی عوام نے وی تحریک انصاف دی نہیں سننی۔
بہرحال عوام 2018 کے انتخابات کے بعد جاہل، ذہنی غلام، بیوقوف وغیرہ وغیرہ سننے کے لیے ایک بار پهر اپنی سماعتوں کو تیار رکهیں۔ :cool:
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
بہرحال عوام 2018 کے انتخابات کے بعد جاہل, ذہنی غلام, بیوقوف وغیرہ وغیرہ سننے کے لیے ایک بار پهر اپنی سماعتوں کو تیار رکهیں
الیکشن رزلٹ کے بعد فیصلہ ہوتا ہے کہ اس حلقے کے عوام کو تاریخی طور پر کو ذہنی غلام، کھوتے کھانے والے، جاہل وغیرہ کہنا ہے یا حمیت پرست، روشن خیال وغیرہ
 

شاہد شاہ

محفلین
الیکشن رزلٹ کے بعد فیصلہ ہوتا ہے کہ اس حلقے کے عوام کو تاریخی طور پر کو ذہنی غلام، کھوتے کھانے والے، جاہل وغیرہ کہنا ہے یا حمیت پرست، روشن خیال وغیرہ
جیت اور ہار میں ۱۹، ۲۰ کا فرق ہو تو اخلاقی فتح یا ہار ڈکلیئر ہو جاتی ہے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top