سیاسی چٹکلے اور لطائف

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
سیاستدانوں کی تعریف اور بلیک میلنگ سے کمائی جانے والی انڈسٹری کو چلانے کی ذمہ داری حکومت پر نہیں ہے۔

51162340_10155941329061766_5434431791895150592_n.jpg

جیو نیوز میں ہڑتال۔ 6 ماہ سے تنخواہیں نہیں ملی۔ حکومتی لفافے کیا بند ہوئے چینل اپنے آپ بند ہو گیا۔

مجھے تعریفوں یا بلیک میلنگ سے سروکار نہیں۔ حکومت کی پالیسی سے ریاست کے باشندے بیروزگار ہوئے ہیں، اس کے لیے کیا سوچا ہے نصب شدہ حکومت نے؟
 

جاسم محمد

محفلین
۔ حکومت کی پالیسی سے ریاست کے باشندے بیروزگار ہوئے ہیں، اس کے لیے کیا سوچا ہے نصب شدہ حکومت نے؟
سابقہ حکومت نے قومی خزانے سے اشتہارات کی بھرمار کر کر کے ان ٹی وی چینلز کی صنعت کو مصنوعی بڑھاوا دیا ہوا تھا۔ جیسے اسحاق ڈار نے قومی خزانے سے ڈالر خرید خرید کر مارکیٹ میں پھینکنے سے4 سال مصنوعی طور پر روپے کی قیمت گرنے نہیں دی۔ یہ اسی قسم کا کرپٹ کھیل چل رہا تھا جسے نئی حکومت نے آکر بند کر دیا۔ اب یہ مارکیٹ کی مانگ سے زائد صحافی، اینکرز اور ملازمین جو قوم کے ٹیکس کے پیسوں پر پل رہے تھے فارغ کئے جا رہے ہیں تو میڈیا اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دے رہا ہے۔
او بھئی یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ پچھلی حکومت قومی خزانے سے اپوزیشن کے خلاف اشتہارات چلا چلا کر قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اور عوام اس دوران سوشل میڈیا پر مفت میں اصل حقائق سے فیض یاب ہوتی رہی۔ جب حکومت نے بالآخر الیکشن سے قبل سوشل میڈیا پر قدم جمائے تو تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ پورے سوشل میڈیا اور جی ایچ کیو میں تبدیلی کا شور تھا۔ نتیجتاً الیکشن کے بعد زمینی حقائق تبدیل ہو گئے۔
آج بھی قوم کی اکثریت الیکٹرونک میڈیا کی بجائے سوشل میڈیا پر اپنا زیادہ وقت گزارتی ہے۔ جہاں آزاد ماحول میں دونوں اطراف سے ہمہ وقت گولہ باری ہوتی ہے۔ اور عوام خود فیصلہ کر سکتی ہے کہ حکومت کا موقف درست جا رہا ہے یا اپوزیشن کا۔ اب کسی الیکٹرونک میڈیا کو قائم رکھنے کیلئے قومی خزانے سے خرچہ کرنے ضرورت نہیں ہے۔ اکا دکا نیوز چینلز جو اپنی معیشت خود چلا سکتے ہیں وہ قائم رہیں گے۔ باقی اپنا بوریا بستر گول کریں اور کوئی اور کام ڈھونڈیں۔
 
سابقہ حکومت نے قومی خزانے سے اشتہارات کی بھرمار کر کر کے ان ٹی وی چینلز کی صنعت کو مصنوعی بڑھاوا دیا ہوا تھا۔ جیسے اسحاق ڈار نے قومی خزانے سے ڈالر خرید خرید کر مارکیٹ میں پھینکنے سے4 سال مصنوعی طور پر روپے کی قیمت گرنے نہیں دی۔ یہ اسی قسم کا کرپٹ کھیل چل رہا تھا جسے نئی حکومت نے آکر بند کر دیا۔ اب یہ مارکیٹ کی مانگ سے زائد صحافی، اینکرز اور ملازمین جو قوم کے ٹیکس کے پیسوں پر پل رہے تھے فارغ کئے جا رہے ہیں تو میڈیا اسے آزادی صحافت پر حملہ قرار دے رہا ہے۔
او بھئی یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ پچھلی حکومت قومی خزانے سے اپوزیشن کے خلاف اشتہارات چلا چلا کر قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اور عوام اس دوران سوشل میڈیا پر مفت میں اصل حقائق سے فیض یاب ہوتی رہی۔ جب حکومت نے بالآخر الیکشن سے قبل سوشل میڈیا پر قدم جمائے تو تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ پورے سوشل میڈیا اور جی ایچ کیو میں تبدیلی کا شور تھا۔ نتیجتاً الیکشن کے بعد زمینی حقائق تبدیل ہو گئے۔
آج بھی قوم کی اکثریت الیکٹرونک میڈیا کی بجائے سوشل میڈیا پر اپنا زیادہ وقت گزارتی ہے۔ جہاں آزاد ماحول میں دونوں اطراف سے ہمہ وقت گولہ باری ہوتی ہے۔ اور عوام خود فیصلہ کر سکتی ہے کہ حکومت کا موقف درست جا رہا ہے یا اپوزیشن کا۔ اب کسی الیکٹرونک میڈیا کو قائم رکھنے کیلئے قومی خزانے سے خرچہ کرنے ضرورت نہیں ہے۔ اکا دکا نیوز چینلز جو اپنی معیشت خود چلا سکتے ہیں وہ قائم رہیں گے۔ باقی اپنا بوریا بستر گول کریں اور کوئی اور کام ڈھونڈیں۔
ہٹلر نے بھی ہٹلر بننے کا عمل اسی طرح شروع کیا تھا۔
 
حکومت نے پٹرول کی قیمت میں 59 پیسے کمی کر دی ہے۔

اگر آپکی بائیک روزانہ ایک لیٹر پٹرول پیتی ہے تو 59 پیسے کے حساب سے آپ ماہانہ (30 دن) 17 روپے اور 70 پیسے کی بچت کر سکتے ہیں۔اگر آپ ایک سال اسی طرح پیسے بچاتے رہیں تو کہ ٹھیک ایک سال بعد آپ ڈیڑھ درجن اچھی نسل کے انڈے خرید سکتے ہیں۔

اس بچت مہم کے دوران آپ اپنے کسی ایسے پڑوسی سے تعلقات مزید خوشگوار کر لیجیے جن کے پاس مرغی ہو، اور انھی اچھے تعلقات کو بنیاد بنا کر آپ ان کی مرغی تھلے یہ انڈے رکھوا دیں تو ٹھیک 19، 20 یا 21 دن بعد آپ کے پاس پورے 18 چوزے ہونگے ۔ یعنی دو ماہ بعد آپ 18 مرغیوں کے مالک ہونگے۔

اب ان 18 مرغیوں نے روزانہ ایک انڈہ بھی دیا تو آپ ایک ماہ میں 540 انڈوں کے مالک ہونگے ۔

ایک انڈہ 12 روپےکا ہو تو آپ 6480 روپے کے مالک بن جائیں گے اب سوچئے کہ یہ تو ہو گئی صرف ایک ماہ کی کمائی۔

اب سال کی کمائی لگا لیں تو تو 77760 روپے کما لیں گے اب اسکو 5 سال سے ضرب دیں تو 388800 ہو گئے۔

لہذا موجودہ حکومت نے آپکو 59 پیسے فی لیٹر نہیں بلکہ اگلے پنج سالے کے بعد پورے 388800 روپے کا مالک بننے کا سنہری موقع دیا ہے۔

اتنے پیسوں کی 40 لیٹر روزانہ کا دودھ دینے والی 3 گائے آ سکتی ہے۔ اس وقت فی کلو ’خالص‘ دودھ کی قیمت 110 سے 120 روپے ہے اب آپ ایک ماہ اور پھر ایک سال کی دودھ کی کمائی کا حساب لگا لیں تو آپ اگلے پانچ سال بعد کروڑ پتی ہونگے۔

لیکن اگر آپ ان 59 پیسوں کو دیگر ضروریات زندگی کے لیے استعمال کر لیتے ہیں تو پھر آپ کی خراب قسمت کی حکومت تو جواب دار نہیں ہے۔
۔۔۔
واٹس ایپ سے موصول
 

جاسم محمد

محفلین
فریضہ حج کے نام پر سیاست پاکستان جیسے اسلامی ملک میں ہونا تمام پاکستانیوں کے لئے شرم کا مقام ہے۔ حج قرون اولیٰ سے ہر صاحب استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہ کبھی تھی، ہے نہ ہوگی۔ اس کے باوجود اپوزیشن حج پر حکومتی سبسڈی ختم ہو جانے پر بلاوجہ کا واویلا کر رہی ہے۔
 
فریضہ حج کے نام پر سیاست پاکستان جیسے اسلامی ملک میں ہونا تمام پاکستانیوں کے لئے شرم کا مقام ہے۔ حج قرون اولیٰ سے ہر صاحب استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہ کبھی تھی، ہے نہ ہوگی۔ اس کے باوجود اپوزیشن حج پر حکومتی سبسڈی ختم ہو جانے پر بلاوجہ کا واویلا کر رہی ہے۔
ٹیکس پئیر کے پیسے سے 900 سینماؤں کی تعمیر پر 11 ارب کا رعایتی پیکج عین اسلام کے مطابق ہے، اراکین اسمبلی کو لاکھوں کے یوٹیلیٹی بلز، کیفے ٹیریا میں سستے خوردونوش، ہوائی سفر پر مفت ٹکٹوں اور ناجانے کون کون سے ٹی اے ڈی عین اسلام کے مطابق ہیں، اسی ٹیکس پئیر کی رقم سے مدرسہ حقانیہ کو 57 کروڑ روپے دینا بھی عین اسلام ہے، لیکن 1 لاکھ 84 ہزار حجاج کو انھی کے جمع پیسے سے لیے ہوئے منافع سے سبسڈی دینا حرام قطعی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
لیکن 1 لاکھ 84 ہزار حجاج کو انھی کے جمع پیسے سے لیے ہوئے منافع سے سبسڈی دینا حرام قطعی ہے۔
حج کی قیمتوں میں اضافہ بنیادی طور پر اوپن مارکیٹ میں روپے کی قیمت گرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔ حکومت اگر سبسڈی جاری رکھتی تب بھی اپوزیشن نے شور مچانا تھا کہ دیکھیں ریاست مدینہ نےحج مہنگا کر دیا ہے۔ بہرحال حکومت نے سینیٹ کو اس فیصلہ پر نظر ثانی کا کہا ہے۔ ہو سکتا ہے یوٹرن لے لیں۔
 
اقلیتی گروہ میں سب سے کم یعنی 30 ہزار کی سکھ آبادی کے مذہبی مقام کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ تحریک انصاف کی ’ریاست ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘ اس کے فیز ون پر 2.5 ارب روپے لٹانے کو نا صرف تیار بیٹھی ہے، بلکہ قلیل عرصے میں 40فیصد کام مکمل بھی ہوچکا ہے۔ لیکن 21 کروڑ مسلمان شہریوں کے سب سے مقدس مقامات کے سفر اور شرعی فرض پر حکومت 4 ارب روپے کی سبسڈی دینے کو تیار نہیں۔
۔۔۔
منقول
 

جاسم محمد

محفلین
اقلیتی گروہ میں سب سے کم یعنی 30 ہزار کی سکھ آبادی کے مذہبی مقام کی اہمیت اتنی زیادہ ہے
کرتارپور راہداری کھولنے کاتعلق سکھ مذہب کی "اہمیت" سے نہیں بلکہ پاک بھارت تعلقات بہتر کرنے کیلئے حکومت کی نئی حکمت عملی سےہے۔ جسے بھارت کی سرکار نے سراہا ہے اور اگلے سا ل تک اسے مکمل کرنے کی یاددہانی کروائی ہے۔ اسی لئے بارڈر کے دونوں اطراف اس پر کام ہو رہا ہے۔
اگر حج سستا کر دینے سے پاک سعودی تعلقات بہتر ہوجاتے ہیں تو حکومت یہ کام بھی کر سکتی ہے۔
 

ربیع م

محفلین
فریضہ حج کے نام پر سیاست پاکستان جیسے اسلامی ملک میں ہونا تمام پاکستانیوں کے لئے شرم کا مقام ہے۔ حج قرون اولیٰ سے ہر صاحب استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہ کبھی تھی، ہے نہ ہوگی۔ اس کے باوجود اپوزیشن حج پر حکومتی سبسڈی ختم ہو جانے پر بلاوجہ کا واویلا کر رہی ہے۔
اصل مسئلہ ان برساتی انصافی مفتیوں کا ہے جو غلو میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ فتویٰ صادر فرما دیا کہ سبسڈی کے پیسوں سے حج جائز ہی نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اصل مسئلہ ان برساتی انصافی مفتیوں کا ہے جو غلو میں اس حد تک چلے گئے ہیں کہ فتویٰ صادر فرما دیا کہ سبسڈی کے پیسوں سے حج جائز ہی نہیں۔
متفق۔ سبسڈی یقینا جائز ہے اگر سرکاری خزانہ بھرا ہوا ہے۔ دودھ اور شہد کی ندیاں بہہ رہی ہیں۔ اقوام عالم پاکستان سے قرضے لے رہی ہیں۔ اگر یہ سب نہیں ہو رہا تو دینی فریضہ پورا کرنے کیلئے حکومت کو سبسڈی دینے کی کوئی توجیہہ نہیں بنتی۔
 
فتویٰ صادر فرما دیا کہ سبسڈی کے پیسوں سے حج جائز ہی نہیں۔

جو شخص حج کی استطاعت ہی نہیں رکھتا۔حکومت اس سے بھی ٹیکس وصول کرتی ہے۔ کیا اس سے وصول کئے گئے ٹیکس سے اُس شخص کو "سبسڈی" دی جاسکتی ہے؟ (یا دی جانی چاہیئے؟ )جو حج کی استطاعت رکھتا ہو۔ جب کہ اسی پیسہ کے اس سے زیادہ اہم اور ضروری مصرف موجود ہوں۔
 
آخری تدوین:
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top