سیاسی منظر نامہ

جان

محفلین
۔۔
جب مشرف نے نواز شریف کا تختہ اُلٹا اس وقت اس کے پاس شریفوں کی کرپشن کے تمام کیسز شواہد کے ساتھ موجود تھے۔ بجائے یہ کہ ان چوروں کو سزائیں دلواتا، اس نے ان کے ساتھ جدہ ڈیل کر کے ملک سے باہر بھجوا دیا۔
دوسری طرح آصف زرداری جس کے بیرون ملک اثاثوں کا کیس آخری مراحل میں پہنچ گیا تھا اور ان کی ریکوری ہونے والی تھی کہ اسے این آر او کی نظر کر کے عام معافی دے دی گئی۔
عمران خان نے مشرف کی ان تاریخی غلطیوں سے سبق سیکھ کر ہی ان دونوں جماعتوں کو کسی قسم کے این آر او ، ڈیل یا ڈھیل دینے سے مکمل انکار کیا ہے۔ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ان کے ساتھ مفاہمت، مصالحت کا مطلب اپنی ہی موت ہے۔
BeFunky-collage-2.jpg
یہ تو آپ کے دعوے کے برعکس ہے کہ نظامِ حکومت میں مسئلہ ہے!
کہیں 'این آر او' اپوزیشن کو بدنام کرنے کا پروپیگنڈہ تو نہیں کیونکہ 'این آر او' کی رٹ صرف حکومت لگا رہی ہے جبکہ اپوزیشن نے تو اس پہ کوئی بات نہیں کی؟ :rolleyes:
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
کہیں 'این آر او' اپوزیشن کو بدنام کرنے کا پروپیگنڈہ تو نہیں کیونکہ 'این آر او' کی رٹ صرف حکومت لگا رہی ہے جبکہ اپوزیشن نے تو اس پہ کوئی بات نہیں کی؟
دونوں جماعتوں کے سینئر لیڈران کا نیب کے کرپشن کیسز میں کئی کئی ماہ ضمانت قبل از گرفتاری کے پیچھے چھپنا۔ اپنے پسندیدہ ترین جج جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف حکومتی ریفرنس پر اپوزیشن کا احتجاج کی دھمکیاں دینا۔ دونوں سیاسی خاندانوں کے غیر سیاسی افراد کا عمران خان سے ملنا اور نرمی برتنے کی گزارشات کرنا۔ اسٹیبلشمنٹ کا کرپشن کیسز پر کچھ لچک دکھانا لیکن عمران خان کا مزید ڈٹ کر ’’بُڑ بُڑ‘‘ کرنا صاف بتا رہا ہے کہ این آر او کسے چاہئے۔ اور کون اس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
 

جان

محفلین
دونوں جماعتوں کے سینئر لیڈران کا نیب کے کرپشن کیسز میں کئی کئی ماہ ضمانت قبل از گرفتاری کے پیچھے چھپنا۔ اپنے پسندیدہ ترین جج جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف حکومتی ریفرنس پر اپوزیشن کا احتجاج کی دھمکیاں دینا۔ دونوں سیاسی خاندانوں کے غیر سیاسی افراد کا عمران خان سے ملنا اور نرمی برتنے کی گزارشات کرنا۔ اسٹیبلشمنٹ کا کرپشن کیسز پر کچھ لچک دکھانا لیکن عمران خان کا مزید ڈٹ کر ’’بُڑ بُڑ‘‘ کرنا صاف بتا رہا ہے کہ این آر او کسے چاہئے۔ اور کون اس کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
پس ثابت ہوتا ہے کہ حکومتی الزامات کی بنیاد مفروضوں اور بدنیتی پر ہے، اور یہ دعویٰ کہ نیب کے پیچھے حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں جھوٹ پر مبنی ہے!
 

جاسم محمد

محفلین
تو پھر آپ مان گئے ہیں کہ 'تحریکِ انصاف' فاشسٹ پارٹی ہے!
آپ کو معلوم ہی نہیں کہ ہٹلر کی نازی فیشٹ پارٹی نے اقتدار سنبھالتے کیا کیا تھا۔ سب سے پہلے جرمن پارلیمان میں جعلی آگ لگوا کر سارا الزام یہودیوں پر ڈال کر ان کے خلاف نفرت پر مبنی قوانین پاس کروائے تھے۔ پھر ایمر جنسی لگا کر سیاسی مخالفین کو ملک کی سالمیت کیلئے خطرہ قرار دے کر جیلیں بھر دی تھیں۔ اور تو اور پوری جرمن فوج کی کمان نازی پارٹی یا اس کے حامی جرنیلوں کے ہاتھ میں تھما دی تھی۔ نازی سرمایہ دار طبقے کی خوشنودی کی خاطر یہودی سرمایہ کاروں کی املاک قبضہ میں لے کر بندر بانٹ کر دی گئی تھیں۔ اور سب سے اہم جرمن میڈیا کو مکمل طور پر نازی پارٹی کا ترجمان بنا دیا تھا۔
جب عمران خان اور تحریک انصاف بھی ایسی ہی حرکتیں کرنے لگے تو اس پر فیشسٹ پارٹی ہونے کا الزام شوق سے لگائیے گا۔
فی الحال تو اس فیشسٹ پارٹی کا یہ حال ہے کہ آئے روز اسے پارلیمان میں اکثریت کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج پر اجلاسات ملتوی کرنے پڑتے ہیں۔
میڈیا پر اس فیشسٹ پارٹی کا یہ کنٹرول ہے کہ جب سے حکومت ملی ہے مسلسل اس کے خلاف منفی پراپگنڈہ شائع ہو رہا ہے۔
فوج کو یہ فیشسٹ پارٹی بس اتنا کنٹرول کر پائی کہ اپنی اہم ترین وزارتیں تک فوج کی رضا مندی کے بغیر رکھ نہیں سکتی۔
سرمایہ کاروں پر اس فیشسٹ پارٹی کا اتنا زیادہ کنٹرول ہے کہ ان سے بار بار ٹیکس دینے کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔
جبکہ پوری اپوزیشن کو جیلوں میں کیا ڈالنا۔ جو ایک دو لیڈران 9 ماہ بعد اتنی مشکلوں سے پکڑے ہیں۔ وہ بھی چند دنوں میں عدالتوں سے ضمانتیں کروا کر باہر آجاتے ہیں۔
 
آخری تدوین:
آپ کو معلوم ہی نہیں کہ ہٹلر کی نازی فیشٹ پارٹی نے اقتدار سنبھالتے کیا کیا تھا۔ سب سے پہلے جرمن پارلیمان میں جعلی آگ لگوا کر سارا الزام یہودیوں پر ڈال کر ان کے خلاف نفرت پر مبنی قوانین پاس کروائے تھے۔ پھر ایمر جنسی لگا کر سیاسی مخالفین کو ملک کی سالمیت کیلئے خطرہ قرار دے کر جیلیں بھر دی تھیں۔ اور تو اور پوری جرمن فوج کی کمان نازی پارٹی یا اس کے حامی جرنیلوں کے ہاتھ میں تھما دی تھی۔ نازی سرمایہ دار طبقے کی خوشنودی کی خاطر یہودی سرمایہ کاروں کی املاک قبضہ میں لے کر بندر بانٹ کر دی گئی تھیں۔ اور سب سے اہم جرمن میڈیا کو مکمل طور پر نازی پارٹی کا ترجمان بنا دیا تھا۔
جب عمران خان اور تحریک انصاف بھی ایسی ہی حرکتیں کرنے لگے تو اس پر فیشسٹ پارٹی ہونے کا الزام شوق سے لگائیے گا۔
فی الحال تو اس فیشسٹ پارٹی کا یہ حال ہے کہ آئے روز اسے پارلیمان میں اکثریت کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج پر اجلاسات ملتوی کرنے پڑتے ہیں۔
میڈیا پر اس فیشسٹ پارٹی کا یہ کنٹرول ہے کہ جب سے حکومت ملی ہے مسلسل اس کے خلاف منفی پراپگنڈہ شائع ہو رہا ہے۔
فوج کو یہ فیشسٹ پارٹی بس اتنا کنٹرول کر پائی کہ اپنی اہم ترین وزارتیں تک فوج کی کمان کی رضا مندی کے بغیر رکھ نہیں سکتی۔
سرمایہ کاروں پر اتنا زیادہ کنٹرول ہے کہ ان سے بار بار ٹیکس دینے کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔
جبکہ پوری اپوزیشن کو جیلوں میں کیا ڈالنا۔ جو ایک دو لیڈران 9 ماہ بعد اتنی مشکلوں سے پکڑے ہیں۔ وہ بھی چند دنوں میں عدالتوں سے ضمانتیں کروا کر باہر آجاتے ہیں۔
ہائے رے بے بسی! مجھے تو ترس آ رہا۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
پس ثابت ہوتا ہے کہ حکومتی الزامات کی بنیاد مفروضوں اور بدنیتی پر ہے، اور یہ دعویٰ کہ نیب کے پیچھے حکومت کا کوئی ہاتھ نہیں جھوٹ پر مبنی ہے!
وہ تو ان کیسز کا عدالت سے حتمی فیصلہ آنے کے بعد ہی پتا چلے گا کہ ان میں کوئی دم خم تھا یا محض سیاسی انتقام کیلئے بنائے گئے تھے۔
ویسےزرداری اور شہباز شریف دونوں کے خلاف منی لانڈرنگ کی تحقیقات پچھلی حکومت کے دور میں ہی شروع ہو گئی تھیں۔
نئی حکومت نے کوئی نیا ریفرنس بنا کر نہیں بھیجا سوائے جسٹس فائز عیسیٰ کیس کے۔
 

جان

محفلین
آپ کو معلوم ہی نہیں کہ ہٹلر کی نازی فیشٹ پارٹی نے اقتدار سنبھالتے کیا کیا تھا۔
جب عمران خان اور تحریک انصاف بھی ایسی ہی حرکتیں کرنے لگے تو اس پر فیشسٹ پارٹی ہونے کا الزام شوق سے لگائیے گا۔
جی مجھے الحمدللہ معلوم ہے کہ ہٹلر نے کیا کیا تھا، آپ بھی کرنا تو وہی چاہتے ہیں اور موٹو بھی وہی 'بادشاہت' یا 'بادشاہت نما صدارتی نظام' کا ہے تو آپ میں اور اس میں تفریق کیا ہوئی؟ ملکی سلامتی کی آڑ میں میڈیا پہ پابندیاں، فوج کے ساتھ مل کر اور ان کے ہاتھ مضبوط کر کے ملک باسیوں اور سویلینز کے حقوق کا استحصال فاشزم ہی ہے!
فی الحال تو اس فیشسٹ پارٹی کا یہ حال ہے کہ آئے روز اسے پارلیمان میں اکثریت کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج پر اجلاسات ملتوی کرنے پڑتے ہیں۔
یہ آپ کی ناکام حکمتِ عملی کا نتیجہ ہے!
میڈیا پر اس فیشسٹ پارٹی کا یہ کنٹرول ہے کہ جب سے حکومت ملی ہے مسلسل اس کے خلاف منفی پراپگنڈہ شائع ہو رہا ہے۔
ہیں؟ :eek:
تحریکِ انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم تو خود پروپیگنڈہ ماسٹر ہے۔ پوری قوم تو 'مثبت رپورٹنگ' کر رہی ہے اور آپ کو پروپیگنڈہ لگ رہا ہے؟ شاید کہیں آئینہ ہی نہ دیکھ لیا ہو!
فوج کو یہ فیشسٹ پارٹی بس اتنا کنٹرول کر پائی کہ اپنی اہم ترین وزارتیں تک فوج کی کمان کی رضا مندی کے بغیر رکھ نہیں سکتی۔
اس سے سبق سیکھ کر اگلی بار عوام کی طاقت سے آئیے گا!
جبکہ پوری اپوزیشن کو جیلوں میں کیا ڈالنا۔ جو ایک دو لیڈران 9 ماہ بعد اتنی مشکلوں سے پکڑے ہیں۔ وہ بھی چند دنوں میں عدالتوں سے ضمانتیں کروا کر باہر آجاتے ہیں۔
تحریکِ انصاف کی نا اہلی یا ناکام حکمتِ عملی؟
لیڈران ہی پارٹی کی جان ہوتے ہیں اور لیڈران کے جاتے ہی پارٹی بکھر جاتی ہے۔ خان صاحب کو مائنس کریں تو پیچھے کیا بچتا ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
اگر سسٹم کمزور ہے تو اسے مضبوط کریں اور اگر نہیں کر سکتے تو پھر مان جائیں کہ آپ کی حکومت نااہل ہے۔
مضبوط کیسے کریں؟ ہر جگہ تو چور مافیا کا راج ہے۔ جس ادارہ و محکمہ کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو سسٹم کی جڑوں میں بیٹھے کرپٹ لوگ رکاوٹیں ڈالنے پہنچ جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر پرانی حکومتوں میں میڈیا کو اربوں کے سرکاری اشتہارات دے کر حکومت کے حق میں رپورٹنگ کروانے کا رواج تھا۔ نئی حکومت نے آتے ساتھ یہ سلسلہ بند کر دیا تو کئی نامور صحافی روڈ پر آگئے۔ اور شور مچا دیا کہ حکومت آزادی رائے سلب کر رہی ہے۔ یہ آزادی صحافت پر حملہ ہے۔
پھر سابقہ ادوار میں اپوزیشن شور مچاتی تھی کہ سب کا احتساب ہو رہا ہے ججوں کا کیوں نہیں۔ نئی حکومت نے ججوں کے آمدن سے زائد اثاثے ملنے پر ریفرنس دائر کر دیا۔ بجائے اس پر خوش ہوتے، اپوزیشن نے شور مچا دیا کہ ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے۔ حالانکہ متعلقہ ججوں کے اثاثے ایف بی آر نے ڈھونڈ کر بھجوائے تھے۔
اسی طرح کرپٹ سیاست دانوں، بیروکریٹس کو پکڑنے یا معطل کرنے پر روایتی شور شرابہ دیکھنے کو ملا۔ جو قوم خود تبدیل ہونا ہی نہیں چاہتی۔ اس ملک میں حکومت کیا خاک تبدیلی لا پائے گی۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس سے سبق سیکھ کر اگلی بار عوام کی طاقت سے آئیے گا!
آپ بہت اچھا مذاق کر لیتے ہیں۔ بھٹو اور نواز شریف دونوں کے پاس1971، 1977 اور 1997 کے ایوان میں دو تہائی اکثریت تھی۔ جب وہ اتنی بھرپور عوامی طاقت کے باوجود فوج کا بال بیکا نہ کر سکے۔ تو عمران خان ڈھیروں اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی حکومت کے ساتھ کیا تیر مار لیں گے؟
 

جان

محفلین
چھوڑیں سیاسی بحث کو، آپ جب پاکستان آئیں تو بتلائیے گا ملاقات طے کرتے ہیں۔ امید ہے تب تک تبدیلی آ گئی ہو گی! :)
 
آخری تدوین:

جان

محفلین
آپ بہت اچھا مذاق کر لیتے ہیں۔ بھٹو اور نواز شریف دونوں کے پاس1971، 1977 اور 1997 کے ایوان میں دو تہائی اکثریت تھی۔ جب وہ اتنی بھرپور عوامی طاقت کے باوجود فوج کا بال بیکا نہ کر سکے۔ تو عمران خان ڈھیروں اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی حکومت کے ساتھ کیا تیر مار لیں گے؟
ان الیکشنز کے 'ٹرن آؤٹ' اور طریقہِ واردات پہ نظر ڈالیں تو مسئلہ سمجھ آ جائے گا! میڈیا کی طاقت سے اب سیاسی شعور میں واضح پڑا ہے!
میں تو بالکل یہ سمجھتا ہوں کہ اگر عمران خان چور دروازے سے نہ آتا تو اچھا پرفارم کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
تحریکِ انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم تو خود پروپیگنڈہ ماسٹر ہے۔ پوری قوم تو 'مثبت رپورٹنگ' کر رہی ہے اور آپ کو پروپیگنڈہ لگ رہا ہے؟ شاید کہیں آئینہ ہی نہ دیکھ لیا ہو!
تحریک انصاف کا پراپگنڈہ سوشل میڈیا پر تو چل جاتا ہے۔ البتہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کو 9 ماہ میں حکومت سے متعلق ایک بھی مثبت خبر نہیں ملی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ملکی سلامتی کی آڑ میں میڈیا پہ پابندیاں
ایسی کسی پالیسی کا نفاذ نہیں ہوا ہے۔ ہاں میڈیا پر بیٹھ کر ملک کے ریاستی اداروں کے خلاف جن میں فوج اور عدلیہ شامل ہے کو گالیاں دینے، بغاوت کیلئے اکسانے اور اشتعال انگیزی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
 

جاسم محمد

محفلین
میں تو بالکل یہ سمجھتا ہوں کہ اگر عمران خان چور دروازے سے نہ آتا تو اچھا پرفارم کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔
محض خام خیالی ہے:
فوج نے 3 بار آئین معطل کیا ، کسی فوجی جرنیل کوسزا نہیں ملی۔
الیکشن کمیشن نے 1970 کو چھوڑ کر تمام الیکشن متنازعہ کروائے، کسی الیکشن کمیشنر کوسزا نہیں ملی۔
اسٹیٹ بینک کے ناک تلے قومی دولت لٹ لٹ کر بیرون ملک جاتی رہی، کسی بینک گورنر کوسزا نہیں ملی۔
رکن اسمبلی سے لے کر چھابڑی والے تک اکثریت ڈائرکٹ انکم ٹیکس نہیں دیتی، کسی ٹیکس چور کو سزا نہیں ملی۔
عدالت عظمیٰ نظریہ ضرورت کے تحت حکومتوں کو الٹنے اور آئین معطل کرنے کا جواز فراہم کرتی رہی ، کسی جج کو سزا نہیں ملی۔
میڈیا ملک کے خلاف جھوٹی اور من گھڑت خبریں لگا کر پاکستان کا تاثر اقوام عالم میں خراب کرتا رہا، کسی صحافی کو سزا نہیں ملی۔
ملک کا ہر ادارہ اور محکمہ تاریخی خساروں میں ڈوبتا رہا، کسی بیروکریٹ کو سزا نہیں ملی۔

یہ ہے اس ملک کا اصل المیہ۔ یہاں جزا سزا نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ جزا سزا ہوگی تو احتساب ہوگا۔ احتساب ہوگا تو انصاف ملے گا۔ اور جب انصاف ملے گا تو ملک ترقی کرے گا۔
ملک کو ٹھیک کرنا ایک حکمران کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ پوری عوام کی ذمہ داری ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
لیکن جب یہی نیب پچھلے 10 سالوں میں مکھیاں مارتا رہے تو کوئی سوال نہیں اٹھے گا۔ کیونکہ ہم صحافیوں نے لفافے پکڑے ہوئے تھے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ملک ریاض کا احتساب کر کے بحریہ ٹاؤن کرپشن کیس میں 460 ارب روپے وصول کئے جا چکے ہیں۔ یہ لفافے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
عمران خان کا حقیقی دشمن کون ہے؟
12/06/2019 وجاہت مسعود


پاکستان 70 برس سے سیاسی افراتفری کا شکار ہے۔ آزادی کے بعد پہلے آٹھ برس میں 22 صوبائی حکومتیں برطرف کی گئیں یا انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔ کسی ایک صوبائی حکومت کے خاتمے میں عدم اعتماد کا دستوری طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا۔ اس دوران پانچ حکومتیں مشرقی بنگال اور آٹھ حکومتیں سندھ میں توڑی گئیں۔ پنجاب اور صوبہ سرحد کو یہ سعادت چار چار مرتبہ نصیب ہوئی۔ ایوب مارشل لاء تک سات وزیر اعظم تبدیل ہوئے۔ اکتوبر 1951 میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد غیر سیاسی قوتوں یعنی سول اور ملٹری بیوروکریسی نے عملی طور پر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ 1958 میں فوج نے سول بیوروکریسی کو بھی کلیدی فیصلہ سازی سے باہر کر دیا۔ پاکستان پر غیر جمہوری بالادستی کے لئے جونیئر شراکت دار تلاش کئے گئے۔ ان کا بنیادی کام طاقت کے اصل مرکز کو معاونت فراہم کرنا تھا اور اس کے بدلے میں اپنے لئے انفرادی، گروہی اور طبقاتی مفادات کا حصول تھا۔ عوامی تائید سے بے نیاز یہ چار جونیئر پاور پارٹنر درج ذیل تھے:

(1) سول بیوروکریسی، (2) مولوی اور مذہب پسند سیاسی گروہ، (3) بڑے کاروباری گھرانے اور ادارے (4) ایسے سیاستدان جو کسی سیاسی نصب العین کی بجائے درپردہ اشاروں پر سیاسی کردار ادا کرنے پر آمادہ ہوں۔

خارجی سطح پر پاکستان کو امریکا کی سربراہی میں مغربی سرمایہ دار بلاک کے ہاتھوں رہن رکھا گیا البتہ علاقائی ضروریات کے پیش نظر چین سے تعلقات کو استثنائی جگہ دی گئی۔ بعد کے برسوں میں دو نئے حلیف بھی تلاش کئے گئے۔ (اول) زبان، نسل، فرقے وغیرہ کی عصبیت کے بل پر سیاست کرنے والے ایسے گروہ جو حسب ضرورت سیاسی جوڑ توڑ میں مددگار ہو سکیں۔ (دوم) مسلح افواج کے ریٹائرڈ اہل کار جن کی تعداد تیس لاکھ سے متجاوز ہے۔

1956ء کے دستور کے مطابق فروری 1959 میں پہلے عام انتخابات منعقد ہونا تھے لیکن اسکندر مرزا اور ایوب خان دستور کو منسوخ کر کے جمہوری نظام کو لپیٹنے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ اس تناظر میں آئیے، 1958 کے کچھ مناظر ملاحظہ فرمائیں۔ پانچ ماہ میں مشرقی پاکستان میں چار حکومتیں تشکیل پائیں اور ٹوٹیں۔ مشرقی پاکستان اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کو ایوان میں کرسی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ چوہدری غلام عباس اور کے ایچ خورشید کی قیادت میں کشمیر کے سیاسی گروہوں نے لائن آف کنٹرول پار کرنے کی کوشش کی۔ (لائن آف کنٹرول پار کرنے کا یہ تماشا اپریل 1993 میں بے نظیر بھٹو نے بھی آزمایا۔) خان آف قلات نے بغاوت کا اعلان کر دیا۔ قیوم خان نے جہلم سے گجرات تک 32 میل لمبا جلوس نکالا۔ 8 اکتوبر کو مارشل لاء نافذ ہوتے ہی یہ سب تماشے اس طرح رک گئے گویا کسی نے بجلی کا بٹن دبا دیا ہو۔ 1969 کے پہلے دو ماہ میں یحییٰ خان اور اس کے ٹولے نے یہی کھیل دوبارہ کھیلا۔ ایوب خان وردی میں پلنے والے عزائم کا ذاتی تجربہ رکھتے تھے اس لئے یحییٰ خان کو حسب منشا اقتدار سونپ کر موضع ریحانہ (تحصیل ہری پور) چلے گئے۔

1977ء میں خانہ جنگی کے خطرے کی ہوا باندھی گئی۔ 5 جولائی 1977 کے بعد کسی نے پوچھنے کی زحمت نہیں کی کہ وہ لشکر اور ان کا اسلحہ کہاں گئے جنہیں خانہ جنگی میں حصہ لینا تھا۔ بھٹو حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات میں جنرل ضیاالحق مسلسل بلوچستان سے فوج واپس بلانے کی تجویز یہ کہہ کر مسترد کرتے رہے کہ “ٹروپس نہیں مانتے”۔ یہ کبھی معلوم نہیں ہو سکا کہ دسمبر 1977 میں “ٹروپس” کیسے حیدر آباد ٹریبونل ختم کرنے پر آمادہ ہو گئے۔

1988 سے 1999 کے دوران چار حکومتیں برطرف کی گئیں۔ اخبارات اٹھا کر دیکھئے۔ ہر حکومت کی برطرفی سے چند ہفتے قبل ایک مانوس سلسلہ شروع ہوتا تھا۔ کراچی میں مار دھاڑ، دہشت گردی کی وارداتیں، فرقہ وارانہ قتل و غارت، دیکھے بھالے چہروں کی طرف سے استعفوں کی بہار اور پرانے چہروں کا یک لخت اپنی قیادت سے باغی ہونا ( مثلاً مخدوم خلیق الزماں)، احتجاجی جلسے جلوس۔۔۔ بدلتے ہوئے موسموں پر نظر رکھنے والے فوراً بھانپ لیتے تھے کہ 58 (2) بی کی تلوار چلانے کی تیاریاں ہیں۔

اپریل 1997 میں تیرہویں آئینی ترمیم کے ذریعے 58 (2) بی ختم کی گئی تو اس مانوس تماشے میں کارگل کا باب ایزاد ہوا۔ اکتوبر 1999 کے پہلے ہفتے میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (GAD) کے جلوسوں میں شامل چہروں پر ایک نظر ڈالیے۔ عمران خان، طاہر القادری، نوابزادہ نصراللہ خان، قاضی حسین احمد اور شاہ محمود قریشی۔ یہ کیسا ڈیموکریٹک الائنس تھا کہ ایک ہفتے بعد جمہوریت دفن کی گئی تو اس کی آواز سنائی نہیں دی۔

تاریخ کی یہ باز آفرینی گڑے مردے اکھاڑنے کے لئے نہیں کی جاتی۔ تاریخ کا منصب یہی ہے کہ گزشتہ تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آئندہ کی راہیں تراشی جائیں۔ غور فرمائیے کہ گزشتہ چند ہفتوں میں کیا حالات سامنے آئے ہیں۔ قبائلی علاقوں سے منتخب ہو کر ملکی دستور پر حلف اٹھانے والے نمائندوں کو گرفتار کر کے ان پر غداری کے الزامات عائد کئے جا رہے ہیں۔ قومی سیاست احتساب کے دُھرے پر گھوم رہی ہے اور اچانک چیئرمین نیب کا اسکینڈل سامنے آتا ہے اور پھر چند گھنٹوں کے اندر اس پر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔ تین دفعہ وزیر اعظم رہنے والا سیاستدان قید میں ہے۔ سابق صدر مملکت کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پنجاب میں حزب اختلاف کے قائد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ سندھ اسمبلی کا اسپیکر چار ماہ سے قید ہے۔

اختلافی رائے کے حامل عدالت عظمیٰ کے ایک جج کے خلاف ریفرنس دائر کیا جاتا ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل پہلے سے زیر التوا معاملات کو نظر انداز کرتے ہوئے فائز عیسیٰ ریفرنس کے لئے سماعت کی تاریخ مقرر کر دیتی ہے۔ حکومت کو اپنا پہلا اور ملکی تاریخ کا سخت ترین بجٹ پیش کرنا ہے اور اس دوران اسمبلی میں یقینی ہنگامہ آرائی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے زیر غور معاملات کی سمت چند روز میں معلوم ہو جائے گی۔ گزشتہ برس فروری میں چیدہ چیدہ صحافیوں کے سامنے غیر سیاسی حلقوں کا ایجنڈا رکھا گیا تھا۔ اور اب عید سے چند روز قبل یہ مشق دہرائی گئی ہے۔ اس سے بے یقینی اور خوف کی فضا پیدا ہوئی ہے۔

ملک کے سیاہ و سفید پر منتخب حکومت کے اختیار کی حدود ہر خاص و عام کو معلوم ہیں۔ یہ سمجھنا بھی مشکل نہیں کہ ایک ہی وقت میں سیاسی مخالفین، احتساب، معیشت، قوم پرست عناصر، عدلیہ اور بین الاقوامی شطرنج کے ساتھ کھلواڑ کا انجام عمران حکومت کے لئے ہرگز خوشگوار نہیں ہو سکتا۔ دیکھنا چاہیے کہ اپنے سیاسی تشخص سے محروم ہو کر غیر منتخب چہروں پر بھروسہ کرنے والی حکومت کیا سوچ کر ان منہ زور پانیوں میں چھلانگ لگا رہی ہے۔ یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ حکومت کے انہدام کی صورت میں حزب اختلاف کے لئے اقتدار میں آنے کے امکانات معدوم ہیں۔ ان حالات میں منتخب حکومت اور عوام میں افتراق سے حتمی فائدہ کس بیانیے کو ہو گا؟ فی الحال عمران خان اور ان کے حواری اونچی ہواؤں میں ہیں۔ تاہم فیصلے کرنے کااختیار کہیں اور ہو تو ایسا اعتماد خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ حالیہ افراتفری سے دستور کی بالادستی اور جمہوریت کے استحکام کی توقع نہیں کی جا سکتی۔

حمزہ شہباز کی گرفتاری کی خبر سن کر وزیر اعظم فرماتے ہیں کہ اللہ کو بالآخر پاکستان پر رحم آ گیا ہے۔ بے شک خدائی ارادے جاننے کے بارے میں عمران خان کے ذرائع زیادہ بااعتماد ہیں لیکن سیاسی ذہن خود عمران خان پر رحم کھا رہا ہے۔ عمران خان پاکستان کی سیاسی روایت سے زیادہ آشنائی نہیں رکھتے چنانچہ وہ اس سیاسی طوفان کو بھانپنے سے قاصر ہیں جہاں آندھیاں مسلسل صدا دے رہی ہیں، رحم کر اپنی تمنا پر کہ کس مشکل میں ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جب علامہ اقبال ومحمد علی جناح اسلام اور مسلمانوں کے نام پر ایک الگ مملکت کا قیام کر رہے تھے۔ جب لیاقت علی خان نے اقلیتوں کے شدید احتجاج کے باوجود عین اسلامی قرارداد مقاصد پاس کی۔ جب بھٹو نے آئین میں مسلمان ہونے کی تعریف کا تعین کر کے قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دیا۔ جب ضیا نے اسلام کے نام پر ریفرنڈم کروایا۔
اس وقت سیاست میں اسلام کا استعمال حلال تھا۔ لیکن عمران خان کیلئے حرام ہے۔
یا منافقت تیرا ہی آسرا ہے!
 
Top