سیاسی منظر نامہ

جاسم محمد

محفلین
یہ اسلامی صدارتی نظام کا شوشہ کس نے چھوڑا ہے؟
لال ٹوپی خاکیان کے ترجمان نے :)
images
 

حکومت نا اہلی اور ناکردہ کاری کی جس معراج پر پہنچ چکی ہے اس کا بیان الفاظ میں ممکن نظر نہیں آتا۔ المیہ یہ نہیں ہے کہ حکومت کی اس ابتر حالت کا لوگوں کو اندیشہ نہیں تھا۔ المیہ تو یہ ہے کہ وہ سارے زرخیز دماغ جو گزشتہ پانچ سال تک تبدیلی کا سنہرا خواب بیچتے رہے وہی اب اس خواب کی بھیانک تعبیر قوم کو دکھانے پر مامور ہو گئے ہیں۔ ایسے معصوم بن گئے ہیں کہ جیسے شریک جرم ہی نہیں تھے۔ جو اشخاص ٹی وی سکرینوں پر تبدیلی کے خوش رنگ سونامی کی داستان سناتے تھے اب اسی سونامی کی تباہی کی کہانی سنانے میں بھی وہی رطب اللسان ہیں۔

اس ساری صورت حال میں بس ایک غربت میں پسے ہوئے عوام ہیں جو ایک دوجے کا حیرانی اور پشیمانی سے منہ تک رہے ہیں۔ اس لئے کہ خیر کی کوئی خبر، امید کی کوئی کرن اب ان کو نظر نہیں آ رہی۔ حالات ایسی تیزی سے بگڑ رہے ہیں کہ اس تنزلی کے راستے میں اب کوئی شئے حائل نہیں ہو رہی۔ بسا اوقات تو یہ لگتا ہے کہ اس تباہی کی رفتار جان بوجھ کر تیز کی جارہی ہے۔ مہمیز لگائی جا رہی ہے۔ حکومت خود اپنے آپ سے انتقام لے رہی ہے اور عوام کو اس تبدیلی کا مزہ چکھا رہی ہے جس کے نعرے گزشتہ پانچ سال کنٹینروں، ٹی شوز اور جلسوں میں لگائے گئے تھے۔

معیشت کی ابتر حالت کا ذمہ دار اب پرانی حکومتوں کو قرار دینے کی سہولت ختم ہوتی جارہی ہے۔ آٹھ ماہ ہو گئے ہیں لوگ اب سہولت مانگتے ہیں، فلاح کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان ڈھائی کروڑ بچوں کا ذکر کرتے ہیں جو صاف پانی نہ ملنے سے مر جاتے ہیں اور جن کا ماتم تحریک انصاف کے ہر جلسے میں کیا گیا۔ ان کروڑوں بچوں کی تعلیم کے وعدے یاد دلاتے ہیں جو سکول جانے سے رہ گئے تھے اور تحریک انصاف نے ان کی بے بسی کا نعرہ الیکشن میں لگایا تھا۔

ان تین سو پچاس ڈیموں کو ذکر کرتے ہیں جس سے کے پی کے کا سارا علاقہ سیراب ہونا تھا۔ پشاور کی اس میٹرو کا ذکر کرتے ہیں جس نے سب سے کم لاگت والی میٹرو بننا تھا۔ ان تقریروں کا ذکر کرتے ہیں جس میں غریب پر ٹیکس کم لگنا تھا اور امیر سے دولت چھین کر غریبوں میں تقسیم ہونی تھی۔ بجلی کے ان بلوں کا ذکر کرتے ہیں جن کے ذریعے ماضی میں حکومتیں عوام کا خون چوستی تھیں۔ پٹرول کی ان قیمتوں کا ماتم کرتے ہیں جن میں اضافے کو عوام کا معاشی قتل قرار دیا گیا۔

ان سمندر پار پاکستانیوں کا ذکر کرتے ہیں جنہوں نے تحریک انصاف کی حکومت آتے ہی ڈالروں سے خزانے کو بھر دینا تھا۔ ان خیالی ہسپتالوں کا ذکر رکتے ہیں جو قریہ قریہ گاؤں گاؤں تعمیر ہونے تھے۔ اس سبز پاسپورٹ کا ذکر کرتے ہیں جن کو ساری دنیا میں عزت ملنی تھی۔ ان سمندر پار پاکستانیوں کا انتظار کرتے ہیں جنہوں نے یہاں نوکریاں کرنے آنا تھا۔ بوریاں بھر بھر کر زرمبادلہ لانا تھا لوگ اب ان یونیورسٹیوں کا انتظار کرتے ہیں جو وزیر اعظم ہاؤس اور گورنر ہاؤسز میں کھلنی تھیں۔

تبدیلی کے اس خواب کی حقیقت بہت بھیانک ہے۔ اب ڈالر کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے اور روپیہ تنزلی کے نئے مراحل سے گزر رہا ہے۔ اب دنیا بھر میں ہم ایک بھکاری کے طور پر معروف ہو گئے ہیں۔ کسی ملک کا سربراہ ادھر آتے ہوئے گھبراتا ہے کہ کہیں ہم کشکول اس کے سامنے نہ رکھ دیں۔ سی پیک جو کہ ایک گیم چینجر تھا اب اس کے منصوبے بند ہو رہے ہیں۔ ٹیکسوں کی آمدنی کم ہو رہی ہے۔ بیرون ملک سے آنے والا زر مبادلہ گزشتہ برسوں کی نسبت کم ہو گیا ہے۔

ترقیاتی فنڈز روک دیے گئے ہیں۔ تعلیم اور صحت پر اخراجات روک دیے گئے ہیں۔ سڑکوں اور شاہراوں کی تعمیر روک دی گئی ہے۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمت کم ہونے کے باوجود پٹرول کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گیس کے بل عوام کے لئے سوہان روح بن چکے ہیں۔ بجلی کی قیمت روز بروز بڑھ رہی ہے۔ ادویات نایاب اور مہنگی ہوتی جا رہی ہیں۔ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ اس کے باوجود حکومتی اخراجات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پروٹوکول کی قبیح روایت ختم نہیں ہو رہی۔ وزراء کی تعداد میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ گورننس نامی شے ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ کرپشن کے مجرم وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ حکومت نے اس سارے منظر میں جھوٹ کو ایک فن بنا دیا ہے۔ اب بھی گزشتہ حکومتوں پر لعن طعن کر کے اپنی ابتر کارکردگی پر پردہ پوشی کر رہے ہیں۔

گزشتہ حکومتوں کا ماتم کرنے والی حکومتی جماعت سے صرف یہ پوچھنا ہے کہ چند سال پہلے یہ ملک نہ افغانستان تھا، نہ عراق اور نہ ہی صومالیہ۔ اس ملک میں ترقی کے منصوبے لگ رہے تھے، شاہراہیں بن رہی تھِیں، لوڈ شیڈنگ ختم ہو رہی تھی، طالبعلموں کو لیپ ٹاپ مل رہے تھے۔ ڈالر کی قیمت کنٹرول میں تھی، سٹاک مارکیٹ اچھا پرفارم کر رہی تھی۔ ترقی کی طرف اقدامات ہو رہے تھے۔ لیکن ان آٹھ ماہ میں سب کچھ تباہ ہو گیا ہے۔ حکومت کے پاس اس تباہی کو روکنے کا کوئی حل نظر نہیں آرہا۔ کوئی ایسا فعال منصوبہ جس سے ملک درست سمت پر گامزن ہو ان کے پاس ہے ہی نہیں۔ امید کی کرن کے طور پر مرغیاں، بکریاں اور گائے بھینسیں پیش کی جا رہی ہیں۔ گیس کے ان ذخائر کا ذکر ہو رہا ہے جن کے ملنے کا موہوم سا امکان ہے اور جس کی تلاش کا کام دس سال پہلے شروع کیا گیا تھا۔

حکومت کی اپنی صفوں میں شکست و ریخت واضح نطر آ رہی ہے۔ پنجاب کا تخت لرزہ براندام نظر اتا ہے۔ اتحادی جماعتوں کے اپوزیشن سے رابطے بڑھتے جا رہے ہیں۔ اپوزیشن چاہے تو کسی وقت بھی نمبر گیم سے بساط پلٹ سکتی ہے۔ تخت پنجاب کبھی بھی اپوزیشن کا ہو سکتا ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ اس ابتر صورت حال میں سوائے اپوزیشن کے ہر شخص اب تبدیلی کو ریورس گئیر میں دیکھنا چاہتا ہے۔ لیکن اب یہ ارباب و بست و کشاد کے اختیار میں ہے کہ وہ یہ ریورس گئیر کب لگاتے ہیں۔

ایک بات تو ثابت ہو چکی ہے کہ یہ صورت حال اسی طرح زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی۔ ہر روز آنے والی تباہی کے سامنے اب بند باندھنا ہو گا۔ ورنہ اس سے معشیت کے علاوہ ملکی وقار، حمیت، اور سالمیت کو بھی خطرات درپیش ہو سکتے ہیں۔ یہ ابتر صورت حال اب سنجیدگی کا تقاضا کرتی ہے۔ ہم تنزلی کی ڈھلوان پر اب زیادہ دیر پھسلنا افورڈ نہیں کرسکتے۔ کسی نہ کسی کو اب کچھ کرنا ہے۔ اپوزیشن جو کسی بھی طرح اس حکومت کی تباہی میں حصہ دار نہیں بننا چاہتی اب زیادہ دیر تک دم سادھے کھڑی نہیں رہ سکتی۔

اس ملکی صورت حال کا حل بہت ضروری ہے۔ اب یہ اپوزیشن پر منحصر ہے کہ وہ اس صورت حال کا حل کیسے نکالتے ہیں۔ اگر اس معاشی، اخلاقی اور سماجی بحران سے ہم کسی جمہوری طریقے سے نکلتے ہیں تو بات بنے گے۔ لیکن اگر اس حکومت کو گرانے کے لئے کوئی غیر جمہوری طریقہ اختیار کیا گیا تو یہ سیاسی شہید بھیانک خواب کی طرح ہمیں ڈراتے رہیں گے۔ اگلے چند ماہ بہت اہم ہیں۔ حکومت کے اندر سے ہی ایک تبدیلی متوقع ہے۔ انہی شعلہ بیان وزراء میں سے کوئی ایک تبدیلی کی گاڑی کو ریورس گئیر لگائے گا۔ یہ ریورس گئیربحالی جمہوریت کی طرف پہلا قدم کہلائے گا۔ ماضی کی غلطیوں کو مٹائے گا۔
 
یہ اسلامی صدارتی نظام کا شوشہ کس نے چھوڑا ہے؟
کم وبیش پچھلے سات سال سے تبدیلی کے چھنکنے مسلسل بجانے والے اب آہستہ آہستہ دُھن تبدیل کرتے جارہے ہیں۔ ایسے ہی بہت سے سوشل میڈیائی کھاتوں سے یہ آوازیں اٹھنا شروع ہو چکی ہیں۔

ان میں سے ایک یہ موصوف ہیں جن کا ذکر ریحام خان کی کتاب میں ہوا یا ہونا تھا۔ :)

ہیش ٹیگ #نظام_بدلو_پاکستان_بچاؤ
 

فرقان احمد

محفلین
ہماری دانست میں، تحریکِ انصاف کو شاہ محمود قریشی صاحب پر کڑی نگاہ رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کے بیانات اس نوعیت کے ہیں کہ اپوزیشن سے زیادہ حکومتی صفوں میں بے چینی پھیل رہی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے کہ موصوف خاکیان کی نظر میں بھی نہایت پسندیدہ شخصیت ہیں۔ اپوزیشن میں فی الوقت اتنا دم خم نہیں کہ حکومت گرا سکے۔
 
اپوزیشن میں فی الوقت اتنا دم خم نہیں کہ حکومت گرا سکے۔
اپوزیشن ایسی کسی بھی کوشش (اگر ہورہی) کا حصہ بننے سےفی الحال انکار کیے رکھے۔ تبدیلی کو کم از کم دو سال ضرور ملنے چاہییے تاکہ عوام کو آر، پار یا 'نووے یار'میں میں آسانی رہے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
اپوزیشن ایسی کسی بھی کوشش (اگر ہورہی) کا حصہ بننے سےفی الحال انکار کیے رکھے۔ تبدیلی کو کم از کم دو سال ضرور ملنے چاہییے تاکہ عوام کو آر، پار یا 'نووے یار'میں میں آسانی رہے۔ :)
ملکی معیشت ایک سائنس ہے۔ اسے خراب کرنے میں جو بیسیوں سال آپ کی نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی "جمہوریتوں" نے صرف کئے ہیں۔ کم از کم اتنا وقت تحریک انصاف کو بھی دیں تاکہ ملک کا ناقص اور مفلوج حال معاشی ڈھانچہ کم از کم بہترکر سکیں ۔
اسی لئے عمران خان نے خاکیان کے سامنے بڑ بڑ کی ہے کہ اگر اب کی بار بھی کوئی سیاسی اور عدالتی مداخلت کر کے کرپٹ اشرافیہ کو بچاناہے تو بہتر ہے مارشل لا لگا کر خود ہی حکومت کر لیں :)
d000122.gif

d000123.gif
 

جاسم محمد

محفلین
کم وبیش پچھلے سات سال سے تبدیلی کے چھنکنے مسلسل بجانے والے اب آہستہ آہستہ دُھن تبدیل کرتے جارہے ہیں۔ ایسے ہی بہت سے سوشل میڈیائی کھاتوں سے یہ آوازیں اٹھنا شروع ہو چکی ہیں۔
یہ سب بے سروپا باتیں ہیں۔ عوامی ریفرنڈم اگر صدارتی نظام کے حق میں نکل بھی آئے، تب بھی آئینی طور پر نظام کی تبدیلی کیلئے کم از کم ایوان میں دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
ملک میں عمران خان کی نہیں بلکہ پس پردہ قوتوں کی حکومت ہے، فضل الرحمان
ویب ڈیسک منگل 9 اپريل 2019
1624852-FazlurRehmanWeb-1554793815-838-640x480.jpg

عمران خان جعلی اور خلائی وزیراعظم ہیں، حکومت کی مدت کا اںحصار پس پردہ قوتوں پر ہے، مولانا فضل الرحمان فوٹو:فائل

لاہور: جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ ملک میں عمران خان کی نہیں بلکہ پس پردہ قوتوں کی حکومت ہے۔

لاہور میں نواز شریف سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ملک میں بڑھتی مہنگائی سنگین صورتحال اختیار کر چکی ہے، نواز شریف سے اس بارے میں گفتگو کی گئی اور عوام کامستقبل بہتر کرنے کیلئے کیا کیا جاسکتا اس پرغورکیاگیا، اب زرداری سے بھی آج یا کل ملاقات کرکے ان امور پر بات چیت ہوگی۔

مولانا فضل الرحمان نے حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان جعلی اور خلائی وزیراعظم ہیں، ملک میں عمران خان کی حکومت نہیں ہے بلکہ ان کے پیچھے موجود قوتیں اپنے ادارے کی طاقت کے بل بوتے پر کب تک عمران خان کو کھینچتی ہیں، اس پر ان کا انحصار ہے۔

سربراہ جے یو آئی کا کہنا تھا کہ حکومت کے خاتمے کیلئے اپوزیشن متحد ہے اور سوچ میں کوئی اختلاف نہیں تاہم حکمت عملی مرتب کرنے کی ضرورت ہے، اپوزیشن جماعتوں میں مکمل ہم آہنگی ہونے تک کمی اور خلا موجود رہے گا، میڈیا اگر جے یو آئی (ف) کے ملین مارچ کی کوریج نہیں کرے گا تو اس پر اعتماد ختم ہوجائے گا۔

مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ نیب انتقامی ادارہ ہے جسے بری طرح استعمال کیا، اس سے احتساب اور انصاف کی توقع نہیں کی جاسکتی، اس کے خلاف ہمیں سخت فیصلے لینے چاہئیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
سوچے سمجھے بغیر بیان دینے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سچ زبان پر آ ہی جاتا ہے۔ اس بیان پر ہم خان صاحب کو ایک اضافی نمبر دے رہے ہیں۔بس یو ٹرن نہ لے لیں اب اس بیان سے ۔۔۔!
 

جاسم محمد

محفلین
سوچے سمجھے بغیر بیان دینے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ سچ زبان پر آ ہی جاتا ہے۔ اس بیان پر ہم خان صاحب کو ایک اضافی نمبر دے رہے ہیں۔بس یو ٹرن نہ لے لیں اب اس بیان سے ۔۔۔!
میڈیا اور انصافی حضرات اس پر ’نیویارک لیکس‘ کا ٹھپہ اور دھبہ کب تک لگائیں گے ؟
متفق۔ عمران خان اور نواز شریف، زرداری وغیرہ میں بنیادی فرق یہی ہے کہ وہ ان جیسا چالاک اور شاطر حکمران نہیں ہے۔ جو اس کے اندر ہے وہی باہر ہے۔ فوج سے متعلق اس قسم کے بیانات عمران حکومت میں آنے سے قبل بھی دے چکا ہے۔ اس کے باوجود خاکیان کا اسے برداشت کرنا ثابت کرتا ہے کہ ان میں معصومانہ تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ ہے۔ البتہ ایک خاص سازشی پلاننگ کے تحت ڈان لیکس یا میموگیٹ کروانے پر یہ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
متفق۔ عمران خان اور نواز شریف، زرداری وغیرہ میں بنیادی فرق یہی ہے کہ وہ ان جیسا چالاک اور شاطر حکمران نہیں ہے۔ جو اس کے اندر ہے وہی باہر ہے۔ فوج سے متعلق اس قسم کے بیانات عمران حکومت میں آنے سے قبل بھی دے چکا ہے۔ اس کے باوجود خاکیان کا اسے برداشت کرنا ثابت کرتا ہے کہ ان میں معصومانہ تنقید برداشت کرنے کا حوصلہ ہے۔ البتہ ایک خاص سازشی پلاننگ کے تحت ڈان لیکس یا میموگیٹ کروانے پر یہ آپے سے باہر ہو جاتے ہیں۔
آپ کا تجزیہ قبل از وقت اور 'معصومانہ' ہے؛ ہم اسے بچگانہ نہیں کہیں گے ۔۔۔!
 

جاسم محمد

محفلین
آپ کا تجزیہ قبل از وقت اور 'معصومانہ' ہے؛ ہم اسے بچگانہ نہیں کہیں گے ۔۔۔!
اس بیان کی موقع کی مناسبت سے اہمیت اس لئے بھی ہے کیونکہ آج کل پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تیز دھاری تلوار لٹک رہی ہے۔ عین ممکن ہے یہ بیان خاکیان نے ملک کو بلیک لسٹ ہونے سے بچانے کیلئے خود ہی معروف ترین عالمی اخبار میں “پلانٹ” کروایا ہو۔ ملک کے معاشی و اقتصادی حالات بہتر ہونے تک خاکیان کو یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔ حالات بہتر ہوتے ہی نئے چیری بلاسمز کی تلاش شروع کر دی جائے گی :)
 

فرقان احمد

محفلین
اس بیان کی موقع کی مناسبت سے اہمیت اس لئے بھی ہے کیونکہ آج کل پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تیز دھاری تلوار لٹک رہی ہے۔ عین ممکن ہے یہ بیان خاکیان نے ملک کو بلیک لسٹ ہونے سے بچانے کیلئے خود ہی معروف ترین عالمی اخبار میں “پلانٹ” کروایا ہو۔ ملک کے معاشی و اقتصادی حالات بہتر ہونے تک خاکیان کو یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا۔ حالات بہتر ہوتے ہی نئے چیری بلاسمز کی تلاش شروع کر دی جائے گی :)
بات میں وزن ہے، بلکہ کافی وزن ہے۔ چیری بلاسم فیکٹر انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بھی کلیدی اہمیت کاحامل ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
یہ اسلامی صدارتی نظام کا شوشہ کس نے چھوڑا ہے؟
اسلامی صدارتی نظام کا ماڈل
10/04/2019 یاسر پیرزادہ


جنوبی کوریا ایک چھوٹا سا ملک ہے، کل رقبہ ایک لاکھ مربع کلومیٹر اور آبادی تقریباً پانچ کروڑ۔ پاکستان ایک بڑا ملک ہے، کل رقبہ پونے نو لاکھ مربع کلومیٹر اور آبادی الحمدللہ بائیس کروڑ۔ آئیں جنوبی کوریا سے اپنا مقابلہ کر کے دیکھتے ہیں۔ جنوبی کوریا کی 53 %آبادی افرادی قوت کا حصہ ہے جبکہ پاکستان میں آبادی کا فقط % 30 لوگ کام کرتے ہیں، گویا جس شرح سے جنوبی کوریا میں لوگ کام کرتے ہیں اگر وہی شرح ہم حاصل کرلیں تو ہماری افرادی قوت میں 49 ملین لوگوں کا اضافہ ہو جائے۔

پاکستان کی افرادی قوت کا % 42 زراعت سے وابستہ ہے اور ہماری زراعت کا جی ڈی پی میں حصہ % 20 بنتا ہے جبکہ جنوبی کوریا کی افرادی قوت کا % 5 زراعت کے شعبے سے منسلک ہے اور جی ڈی پی میں ان کا حصہ % 2 ہے مگر دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ اگر پاکستان کے کل جی ڈی پی اور افرادی قوت کا موازنہ کر کے نتیجہ نکالا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہمارا ایک ورکر سالانہ صرف 4,750 امریکی ڈالر کا جی ڈی پی کماتا ہے جبکہ جنوبی کوریا کا ایک فرد سالانہ اپنے ملک کے لیے 54,269 ڈالر کا جی ڈی پی کماتا ہے لیکن یاد رہے کہ ہم ایک عظیم قوم ہیں اور اپنے وطن سے بہت محبت کرتے ہیں، ثبوت کے طور پر پیش ہیں بھارت کے اعداد وشمار جہاں یہ شرح 4,413 ڈالر سالانہ فی ورکر ہے جو ہم سے بھی بری ہے۔

پاکستان کا جی ڈی پی 304 ارب ڈالر اور جنوبی کوریا کا 1.655 کھرب ڈالر ہے، ہماری برامدات بمشکل 25 ارب ڈالر جبکہ جنوبی کوریا کی 596 ارب ڈالر ہیں۔ 2016 میں جنوبی کوریا کی پانچ کروڑ آبادی نے اپنی تخلیقات و مصنوعات کے حقوق استعمال کو محفوظ بنانے کے لیے 108,875 (patent) درخواستیں جمع کروائیں، اس وقت وہاں قریباً ساڑھے نو لاکھ تخلیقات کے حقوق محفوظ کیے جا چکے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ جنوبی کوریا میں فی کروڑ 21,775 حقوق دانش محفوظ ہو چکے ہیں جبکہ اپنے پیارے وطن میں 2016 میں ایسی جمع کروائی گئی درخواستوں کی کل تعداد فقط 214 تھی اور اب تک کل 1,848 تخلیقات کے حقوق ہم نے محفوظ کیے ہیں جو فی کروڑ تعداد 10 بنتی ہے، بھارت کی یہ فی کروڑ تعداد 60 ہے۔

(ماخذ: عالمی حقوق دانش اشاریہ 2017، جنیوا) مگر یاد رہے کہ ہم میں بے پناہ ٹیلنٹ ہے اور اس بات کے ثبوت کے لئے اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ ”آیا جے غوری“۔ 1990 میں پاکستان کی پرائمری اسکول شرح اندراج % 40.46 تھی جو 2015 تک % 54 ہوگئی جبکہ بھارت میں یہ % 95 اور جنوبی کوریا میں % 100 ہے، تاہم مقرر عرض ہے کہ ان اعداد وشمار سے ہماری عظمت پر کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم زندہ قوم ہیں، کیا ہوا اگر وینٹی لیٹر پر ہیں!

پاکستان میں زچگی کے دوران فی لاکھ میں سے 178 عورتیں مر جاتی ہیں جبکہ بھارت میں یہ تعداد 174 اور جنوبی کوریا میں 11 ہے، اسی طرح پیدائش کے وقت فی لاکھ میں سے پاکستان میں 64 بچے مر جاتے ہیں، بھارت میں 35 اور جنوبی کوریا میں یہ تعداد 3 ہے لیکن کوئی بات نہیں، ان بچوں کو ہم بدقسمتی کے کھاتے میں ڈال کر مطمئن ہو سکتے ہیں۔ جنوبی کوریا کی % 57 آبادی غیر مذہبی ہے گویا وہ کسی دین کے پیروکار نہیں، پاکستان کی % 96 آبادی مسلمان ہے جس کا نصف ایمان صفائی سے مشروط ہے، مہمانداری جن کی روایت ہے مگر حیرت ہے کہ 2016 میں جنوبی کوریا میں تقریباً پونے دو کروڑ لوگ سیروسیاحت کی غرض سے گئے جبکہ پاکستان میں یہ تعداد پانچ لاکھ سے نہیں بڑھی۔

ان تمام اعداد وشمار کے بارے میں ہم یہ کہہ کر دل کو تسلی دے سکتے ہیں کہ جھوٹ دو قسم کا ہوتا ہے، ایک سفید جھوٹ اور دوسرا اعداد وشمار، مگر مصیبت یہ ہے کہ کالم فقرے بازی کی مدد سے لکھا جا سکتا ہے، مگر ملک جملے بازی سے نہیں چلتے۔ ہم اپنے منہ میاں مٹھو بن کر یہ کہتے رہیں کہ ہم بہت قابل اور ہنرمند قوم ہیں، ہم میں ہر کام کرنے کی صلاحیت ہے، ہم دنیا کی امامت کرنے کے اہل ہیں اور ان دعوؤؤں کے ثبوت کے طور پر کبھی ہم کسی ان پڑھ نوجوان کی گڈی چڑھاتے ہیں، جس نے کہیں سے انجن خرید کر دو پروں والا چھوٹا جہاز بنانے کی کوشش کی ہو، کبھی کسی چھوٹی سی بچی کو دیو مالائی کردار بنا دیتے ہیں، جس نے مائیکرو سافٹ کے کسی امتحان کا ریکارڈ توڑا ہو اور کبھی کسی نوجوان کو رول ماڈل بنا کر پیش کرتے ہیں جس نے اے لیول میں جھنڈے گاڑے ہوں، مگر دنیا بڑی ظالم ہے، وہ ان باتوں کو نہیں مانتی، دنیا تخلیق کاروں اور سائنس دانوں کو سر پر بٹھاتی ہے، خالص دانشوروں اور فلسفیوں کو عزت دیتی ہے اور جن لوگوں نے اپنے شعبے میں کمال حاصل کیا ہو، انہیں اپنے ملک کی شہریت مفت میں دینے کو تیار ہو جاتی ہے۔

ایک ہم ہیں جو خود فریبی میں ہی زندہ ہیں، ہم نے یہ فرض کر لیا ہے کہ دنیا غلط ہے، جو ہمارا ہنر نہیں پہچانتی ورنہ ہم میں تو ایسا ایسا جوہر پوشیدہ ہے جو تن تنہا انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ غلط فہمی اب ہمیں دور کر لینا چاہیے، جس طرح کوئی انسان خود فریبی میں زندہ رہ کر کامیاب نہیں ہو سکتا اسی طرح کوئی قوم بھی خود فریبی کی راہ پر چل کر ترقی نہیں کر سکتی، ثبوت اس کا وہ تمام اعداد وشمار ہیں جو آئے روز ہمارا منہ چڑھاتے ہیں، مگر ہم ان تمام اشاریوں سے نظریں چرا کر سارا ملبہ غیر متعلقہ باتوں، نظام کی خرابی اور کھرے لیڈر کی عدم دستیابی پر ڈال کر دعا کرتے ہیں کہ ملک میں صلاح الدین ایوبی ٹائپ کا کوئی لیڈر آئے جو ڈنڈے کے زور پر ”اسلامی صدارتی نظام“ نافذ کرکے چشم زدن میں ہمارے تمام مسائل حل کر دے۔ یہ کوئی نہیں بتاتا کہ کیا ایسا لیڈر آسمان سے براہ راست ٹپکے گا، بالفرض محال اگر وہ آگیا تو جائے گا کیسے اور اگر وہ بھی بدنیت نکلا تو کیا پھر ”اسلامی صدارتی نظام“ کی ناکامی مان لی جائے گی؟ ویسے تین مرتبہ یہ تجربہ کر کے ہم دیکھ چکے، پٹ چکا، مگر ہم باز نہیں آنے والے۔

جنوبی کوریا ہماری ہی طرح کا ملک ہے، آبادی اور رقبے کی شرح ہم سے بھی زیادہ ہے، مگر ترقی کے ہر زینے پر وہ ہم سے کہیں اوپر ہے، % 57 لوگ غیر مذہبی ہیں اور ریاست کا بھی مذہب سے تعلق نہیں، اس کے باوجود عیسائیت یا بدھ مذہب کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں، ہر کوئی اپنے مذہب کی پیروی میں آزاد ہے، ادارے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہیں اور عوام کسی دائمی زندگی کی آس لگائے بغیر موجودہ زندگی کو ہی کامیاب بنانے کے لیے کوشاں ہیں، جنوبی کوریا یہ طے کر چکا ہے کہ اسے اپنے عوام کی خوشحالی کا ماڈل اپنانا ہے اور وہ اسی ماڈل پر کاربند ہے۔

بغل میں شمالی کوریا ہے، ہمارے پسندیدہ ماڈل کے تحت ایک مرد آہن وہاں کا تن تنہا سربراہ ہے، ایٹمی ہتھیار اس کے پاس ہیں، نت نئے میزائلوں کا تجربہ وہاں ہوتا رہتا ہے، اسلحے کی خریداری اس کا شوق ہے، عوام کا حال مگر یہ ہے کہ ہر کوئی ملک سے بھاگ جانا چاہتا ہے، حتی کہ اکثر سفارتکار بھی یورپی ممالک میں غائب ہو جاتے ہیں، ریاست جبر کے ماڈل پر چل رہی ہے، چاروں طرف غربت اور پسماندگی کا ڈیرا ہے، مہنگائی عروج پر ہے اور کسی بھی عالمی انڈیکس میں شمالی کوریا کی حالت قابل رشک نہیں سوائے فوجی طاقت کے۔ دونوں ماڈل ہمارے سامنے ہیں، اب یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ کون سا ماڈل ہمیں سوٹ کرتا ہے۔
بشکریہ جنگ۔
 
Top