محمداحمد

لائبریرین
ظلم کو ضیاء،صر صر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہما کیا لکھنا

حبیب جالب
 
ہوائے نفس کی ہے حکمرانی
لٹیرا کر رہا ہے پاسبانی

نظرؔ لکھنوی

ستر کی دہائی میں لکھی گئی ایک نظم کا شعر۔ حالات شروع سے ہی ایسے ہیں۔ :(
 

یوسف سلطان

محفلین
چھوٹی سی خواہش

ساڈے جو ارادے تھے
کڈے سدھے سادھے تھے
ہم نے سو چ رکھا تھا
بن کے ایک دن ممبر
اکو کام کرنا ہے
ایک دو پلازوں کو
چار چھے پلا ٹوں کو
پنجی تیہہ مربعوں کو
اپنے نام کرنا ہے
شکر اے خداوندا
تو نے اس نمانے کی
نِکی جِنی خواہش کو
سن لیا ہے نیڑے سے
(خالد مسعود )
 

جاسمن

لائبریرین
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا۔
مبارک صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا۔
وطن کو جو ماہتاب کر دے۔
اُداس چہرے گُلاب کر دے۔
جو ظُلمتوں کا نظام بدلے۔
جو روشنی بے حساب کر دے۔
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا۔

وطن جو میرا نہال کر دے ۔
جو ہجر موسم وصال کردے۔
جو خوشبوؤں کی نوید بن کر۔
گُلاب موسم بحال کر دے۔
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا۔

تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا۔
جو دل کا موسم سہانہ کر دے۔
وطن سے غربت روانہ کر دے۔
جو آستینوں کے سانپ مارے۔
جو بم دھماکے فسانہ کر دے۔
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا۔

تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا۔
جو دستِ قاتِل کو کاٹ ڈالے ۔
جو دیں فروشوں کا دَم نکالے۔
جو ماوں بہنوں کا ہو محافظ۔
جو وحشیوں کو لگام ڈالے۔۔
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا۔

قدم قدم پر جو راہبر ہو۔
گلی گلی سے جو باخبر ہو۔
جو دشمنوں سے نہ خوف کھائے
جسے ہمیشہ خدا کا ڈر ہو۔
تم ایسے رہبر کو ووٹ دینا۔

خدا کرے. وہ بہار آئے ۔
جو قرض سارے اُتار آئے۔
مرے وطن کے نصیب میں بھی۔
سکون، راحت قرار آئے۔

خدا کرے کہ مرے وطن پر۔
گھٹائیں رحمت کی روز برسیں۔
مرے وطن کا ملے نہ ویزہ۔
یہ اہلِ یورپ بھی کچھ تو ترسیں۔
 

زیرک

محفلین
یہ شعر قریباً سبھی سیاسی مگرمچھوں پہ صادق آتا ہے

اپنے اپنے دائرے میں دیکھ لو
حسبِ طاقت ہر کوئی فرعون ہے
عابی مکھنوی
 

زیرک

محفلین
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال جس کہ وجہ یقیناً تمام سیاسی جماعتیں ہیں کی عکاسی کرتا ایک شعر
سینچا تھا جسے زہر سے، نفرت سے، لہو سے
اب تم کو مبارک ہو وہی پیڑ جواں ہے
 

جاسمن

لائبریرین
سرخ گجرات میں کیسر کی ہے رنگت یارو
کتنی مکروہ ہے ووٹوں کی سیاست یارو

کام یہ سیکھیے جا کر نریندر مودی سے
کس طرح ہوتی ہے لاشوں پہ حکومت یارو
احمد علوی
 

جاسمن

لائبریرین
وہ ہے دنیا کا نامور غنڈہ
اس پہ تنقید کس کے بوتے کی

اس کو کیسے کہوں سپر پاور
جس کی اوقات ایک جوتے کی
احمد علوی
 

جاسمن

لائبریرین
پی کر لہو عوام کا ہوتے ہیں سرخ رو
بے جان ساری قوم ہے لیڈر میں جان ہے

آساں ہے پتہ رہبرانِ ملک و قوم کا
بستی میں صرف ایک ہی پختہ مکان ہے
احمد علوی
 

جاسمن

لائبریرین
یقیناً یہ رعایا بادشاہ کو قتل کر دے گی
مسلسل جبر سے اسلم دلوں میں ڈر نہیں رہتے
 

زیرک

محفلین
صرف بھاشن ہیں میرے سب وعدے
جیت کر سب میں بھول جاتا ہوں
اتباف ابرک​
 
Top