سکینڈینیویا کی تاریخ

زیک

مسافر
یہاں پر سکینڈینیویا کے باشندے ماوراء اور قیصرانی ان ممالک کی تاریخ بیان کریں گے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
فن لینڈ سے قیصرانی کے علاوہ اعجاز اور عارف بھی فورم پر آتے ہیں، وہ بھی یہاں اس بارے میں کچھ لکھ سکتے ہیں۔
 

ماوراء

محفلین
سکینڈے نیویا کی تاریخ میں میں سب ملکوں کے بارے میں ایک ساتھ نہیں لکھوں گی۔ کیوں کہ وہ میرے لیے مشکل ہو رہا ہے۔ اس لیے میں نے سوچا ہے کہ ہر ملک کے بارے میں علیحدہ علیحدہ لکھ دیتے ہیں۔ :?
 

ماوراء

محفلین
سکینڈے نیوین ممالک کا مختصرا جائزہ​

سکینڈے نیویا ناروے، سویڈن اور ڈنمارک کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ان تین سکینڈے نیوین ممالک کے علاوہ فن لینڈ اور آئس لینڈ بھی نارڈک ممالک میں آتے ہیں۔ اس لیے ان پانچ ممالک کو دوسرے ممالک میں سکینڈے نیویا کے ممالک سے ہی جانا جاتا ہے۔
ان ممالک کے آپس میں بہت دوستانہ تعلقات ہیں۔ نارڈک ممالک کے شہریوں کو بغیر پاسپورٹ کے ایک دوسرے ممالک کی حدیں پار کرنے اور وہاں رہنے اور کام کرنے کی پوری اجازت ہے۔
1919ء میں ان پانچ نارڈک ممالک کی ایک یونین کا قیام ہوا، جس کا مقصد یہی تھا کہ یہاں کے رہنے والے مل جل کر رہ سکیں۔ ہر سال اس یونین کا اجلاس ہوتا ہے جس میں سکینڈے نیوین ممالک کے مسائل اور دلچسپیوں پر غور کیا جاتا ہے۔
سویڈن، ڈنمارک اور فن لینڈ یورپی یونین کے ممبر ہیں۔ جبکہ ناروے اور آئس لینڈ یورپی یونین میں شامل نہیں ہیں۔
 

ماوراء

محفلین

ناروے کی تاریخ​

پتھر کے زمانے سے لوہے کا زمانہ​

1۔پتھر کا زمانہ:

1: پرانا پتھر کا زمانہ (10000 قبل مسیح)
2: نیا پتھر کا زمانہ: (4000 قبل مسیح)

2۔کانسی کا زمانہ (1800 قبل مسیح)
3۔ لوہے کا زمانہ (500 قبل مسیح سے 800 مسیح)


پرانا پتھر کا زمانہ: (10000 ۔ 4000 قبل مسیح)

آج سے 18000 سال پہلے نارڈک کا پورا حصہ برف سے ڈھکا ہوا تھا جو کہ گلیشئر کی صورت میں تھا۔
10000 قبل مسیح سال پہلے درجہء حرارت میں تبدیلی کی وجہ سے برف پگھلنا شروع ہوئی۔ تو اس طرح ناروے کا ساحل برف سے آزاد ہو گیا۔
اس کے بعد یہاں لوگوں سے بسنا شروع کیا۔ جو کہ جانوروں کا شکار اور ماہی گیری سے گزارہ کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ انہوں نے پتھروں، درختوں، جانوروں کی ہڈیوں اور کھال سے ہتھیار بنانا شروع کیے۔ یہ لوگ غاروں اور کھال کی بنے ہوئے خیموں میں رہتے تھے۔
وقت کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت میں مزید تبدیلی آتی گئی۔ بہت سے لوگ یہاں آ کر آباد ہونے لگے۔ تقریباً 6000 قبل مسیح تک ساحل اور پہاڑوں پر کافی آبادی بڑھ گئی۔
تاریخ میں اس کا پتہ نہیں ملتا کہ یہ لوگ کہاں کہاں سے آئے لیکن اندازہ یہی لگایا جاتا ہے کہ یہ لوگ جنوب کی طرف سے یا مغربی جزیروں سے آئے تھے۔ اور یہ لوگ شمال کے طرف روس کے راستے سے بھی آئے ہوں گے۔

نیا پتھر کا زمانہ: (4000 ۔ 1800 قبل مسیح)​

پرانے پتھر کے زمانے کے بعد کو نیا پتھر کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ اور یہ زمانہ تقریباً 4000 سے 1800 قبل مسیح تک رہا۔
سب سے بڑا فرق جو ان دو پتھر کے زمانے میں تھا وہ یہی تھا کہ نئے پتھر کے زمانے میں کھیتی باڑی کا آغاز ہوا۔ جو کہ مختلف اناج، غلہ کی صورت میں تھا۔ (گندم، جو اور باجرہ وغیرہ)
لوگوں نے اس زمانے میں گھروں میں گائے اور بھیڑوں کو بھی پالنا شروع کیا۔ کھیتی باڑی کا طریقہ جنوب کی طرف سے آئے ہوئے لوگوں نے یہاں پھیلا دیا تھا۔ کھیتی باڑی کی وجہ سے لوگوں نے مستقل رہنا شروع کر دیا۔
2000 قبل مسیح تک شکار اور ماہی گیری سب سے بڑا پیشہ تھا۔ جس کا اندازہ ہمیں پتھروں پر جانوروں کی تصویروں سے ہوتا ہے۔ جو وہ لوگ پتھروں وغیرہ پر بنایا کرتے تھے۔
اس دور کے آخر تک کھیتی باڑی کے پیشے نے بہت اہمیت حاصل کر لی تھی۔
 

ماوراء

محفلین
دھاتوں کا زمانہ (1800قبل مسیح۔ 500 مسیح)​

1800 سے 500 تک کے زمانے کو دھاتوں کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ اس زمانے کے امیر لوگوں نے کانسی اور ٹین سے ہتھیار اور زیورات بنانے شروع کیے۔
لیکن ابھی تک کافی لوگ پتھروں، ہڈیوں اور درختوں سے ہی ہتھیار وغیرہ بنایا کرتے تھے۔ کھڈی پر کپڑا بننا اور اوون کا استعمال اسی زمانے میں شروع ہوا۔ اوون بھیڑوں کی کھال سے حاصل کی جاتی تھی۔


لوہے کا زمانہ (500۔ 800 مسیح)​

اس زمانے میں لوہا بنانے کا ہنر اس شمالی علاقے تک پہنچ چکا تھا۔ ناروے کے بہت بڑے حصے میں کوئلے کی مدد سے لوہے کو پگلایا جانے لگا۔ جو کہ دلدل سے حاصل کیا جاتا تھا۔لوہے سے انہوں نے چاقو، کلہاڑی اور دوسرے ہتھیار بنائے۔
ناروے چھوٹی چھوٹی بہت سی ریاستوں میں تقسیم تھا۔ اور ہر ریاست کا حکمران ہوتا تھا۔ ان میں سے کچھ حکمران کافی مذہبی ہوتے تھے۔
 

ماوراء

محفلین
3۔ وائی کنگ کا زمانہ ، ریاستوں کا اکھٹا ہونا اور عیسائیت
تقریباً 1030 سے 800 تک​



1۔وایکنگ کا زمانہ Lindisfarne پر حملہ۔ (793۔ 1030)


پہلے وائی کنگ نے 793 میں انگلینڈ کے جزیرہ Lindisfarne ایک مذہبی جگہ پر حملہ کیا۔ انہوں نے بہت سے لوگوں کو قتل کیا اور بہت سے لوگوں کر قید کر لیا۔ اس حملے کی خبر باقی یورپ ممالک میں بھی پھیل گئی۔ بہت سے مذہبی لوگوں نے ان وحشیوں کے بارے میں سن رکھا تھا۔
ایک سال کے بعد دوبارہ انہوں نے انگلینڈ کی مذہبی جگہوں Monkwearmouth, Jarrow پر حملہ کیا۔ اسی سال 795 میں وائی کنگ نے ناروے سے آئر لینڈ میں لوٹ مار شروع کر دی۔ وہ جہاں جہاں گئے انہوں نے لوٹ مار کے ساتھ ساتھ قتل و غارت بھی کی۔ تقریباً اسی دور میں کچھ نارویجین وائی کنگ سکاٹ لینڈ اور ارد گر دکے جزیروں میں آ کر رہنے لگے۔
دوسرے وائی کنگ جنگ کرتے ہوئے بحری جہازوں کے ذریعے جرمنی، فرانس، سپین اٹلی اور شمالی افریقہ تک گئے۔ وہاں انہوں نے بہت سا خزانہ چوری کیا۔ اور ساتھ ہی کافی لوگوں کو قتل کیا اور بہت سوں کو غلام بنا کر لے گئے۔
سویڈن کے وائی کنگ جنوب کی طرف سے ہوتے روس کی جانب گئے۔ وہاں انہوں نے کئی شہروں کو لوٹا۔ اسی زمانے میں انہوں نے اپنے خدا بنائے۔ جن کے نام تھور، اودن تھے۔ 830 عیسائیت مذہب کے کچھ لوگ آئے انہوں نے وائی کنگ کو اس مذہب کے بارے میں بتایا لیکن وائی کنگ کو یہ مذہب اپناتے ہوئے کچھ عرصہ لگا۔
835 سے 841 تک انہوں نے انگلینڈ، آئر لینڈ میں لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھا۔ 930 میں وائی کنگ کی تعدا آئس لینڈ میں تقریباً 10000 ہو گئی تھی۔
 

ماوراء

محفلین
930 میں ڈنمارک کے وائی کنگ کی تعداد عیسائیت مذہب میں بڑھنے لگی۔ لیکن ان کا بادشاہ دس سال کے بعد اس مذہب میں آیا۔
982 میں نارویجین وائی کنگ Eirik آئس لینڈ کے ایک بندے کو قتل کر کے وہاں سے بھاگ کر ایک جزیرہ پر چلا گیا۔ جس کا نام اس نے گرین لینڈ رکھا۔ بہت سالوں کے بعد اس کے ساتھ آ کر کئی لوگ رہنے لگے۔
1002 میں ایرک کا بیٹا Leif Eriksson نے ایک اور جزیرے پر گیا جس کا نام اس نے Vinland (Wine Land رکھا۔
1000 سال میں انگریزوں نے وائی کنگ کو بہت سا خزانہ دے کر انھیں لوگوں کو آزادانہ رہنے کے لیے کہا۔ لیکن اس کے باوجود 1016 تک وائی کنگز وہیں رہے۔ اسی دوران ناروے کے وائی کنگ عیسائی ہونا شروع ہوئے۔ انہوں نے چرچ بنائے۔
عیسائیت کے پھیل جانے کے بعد انہوں نے جنگ، لوٹ مار اپنے مطالبات کو ختم کر دیا۔ 1066 کے بعد وہ آرام و سکوان سے زندگی گزارنے لگے۔ وائی کنگ اس زمانے میں بہت بڑے تاجر تھے۔ انہوں نے تجارت کا سلسلہ انگلینڈ، آئر لینڈ اور یورپ کے دوسرے ممالک میں جاری رکھا۔ جہاں جہاں وائی کنگز گئے انہوں نے وہیں کی زبان اور کلچر کو اپنا لیا۔ اور جلد ہی فرانسیسی، انگریز، روسی یا آئریش بن گئے۔
 

ماوراء

محفلین
ریاستوں کا اکھٹا ہونا​
وائی کنگ کے آخری زمانے میں ناردن میں تین ریاستیں تھیں۔ ڈنمارک، ناروے اور سویڈن۔ Harald وہ پہلا بادشاہ تھا جس نے ناروے کو ایک ریاست بنایا۔
Harald کو Gyda نامی لڑکی سے پیار ہو گیا تھا۔ اس وقت ملک کے کئی حصوں تھے جس کا الگ حکمران تھا۔ گیدا اس کی بیوی اس وقت تک بننے کے لیے تیار نہیں تھی جب تک Harald پورے ناروے کا بادشاہ نہ بن جاتا۔ تب ہی Harald نے قسم کھائی کہ وہ جب تک پورے ناروے کو فتح نہیں کر لے گا اپنے بال نہیں کٹوائے گا۔ اسی لیے اس کا نام Harald the Fairhair پڑ گیا۔
کئی مقابلوں کے بعد ہارلڈ پورے ناروے کا بادشاہ بن گیا تب اس کی شادی گیدا سے ہوئی۔ اس نے 1319 تک بادشاہت کی۔ اس کے مر جانے کے بعد اس کے بیٹے ناروے کے بادشاہ بنے۔

عیسائیت کا آغاز​

وایکنگ پہلے ہی یورپ کے بہت سے ممالک میں جا چکے تھے۔ اور اس کے بعد نارویجین بادشاہوں نے عیسائیت کو آگے بڑھایا۔ بادشاہ Olav 1 جو کہ ہارلڈ کا بیٹا تھا۔ اس نے ہر علاقے میں عیسائیت کو پھیلا دیا۔
بے شک بہت سے علاقوں میں عیسائیت پھیل چکی تھی لیکن اس کے باوجود بہت سے لوگ اس نئے مذہب کے خلاف تھے۔ ان کے لیے اپنے باپ دادا کا مذہب چھوڑنا بہت مشکل تھا۔
بادشاہ Olav 2 بھی عیسائی تھا۔ اس نے اپنے دور میں ملک میں مکمل عیسائیت کے نظام کا آغاز کیا۔ اس کا قول تھا۔ ’ عیسائی بنو یا مر جاؤ۔! اس نے پرانے خداؤں کی تصویریں اور بتوں کو توڑ ڈالا۔ 1030 میں اس پر دوسرے مذہب کے لوگوں نے حملہ کیا۔ اور اسے قتل کر دیا۔ اور اس بادشاہ کو ’مقدس Olav ’ کا نام دیا گیا۔ اور اسی وجہ سے 1030 سال کو عیسائیت کے آغاز کا سال بھی مانا جاتا ہے۔
 

ماوراء

محفلین
دورِ وسطٰی (1537۔ 1030)​

سنہری زمانہ : ء1200۔1030ء
معاشی بدحالی کا زمانہ: 1300ء



1000 سے 1300 تک ناروے کی آبادی 150،000 سے 400،000 تک ہو گئی تھی۔ اس وقت تک بہت سے لوگوں کا پیشہ کھیتی باڑی تھا۔ اور جوں جوں آبادی میں اضافہ ہوتا گیا توں توں ان کھیتوں کی تقسیم ہوتی گئی۔ اس زمانے کا بادشاہ بھی بہت سی زمینوں کا مالک تھا۔
ء1000 میں کئی شہر آبادی کے بڑھ جانے کی وجہ سے بڑے شہر کہلانے لگے۔ برگن اس زمانے کا بہت اہم شہر تھا۔ 1200 سے برگن ناروے کا بڑا شہر تھا۔

سنہری زمانہ: 1100 سے 1200 کے زمانے کو سنہری زمانہ کہا گیا کیونکہ یہ زمانہ ناروے کے لیے معاشی و سیاسی ہر لحاظ سے بہت اچھا ثابت ہوا تھا۔
بادشاہت کے نظام کو منظم کیا گیا۔ لیٹریچر، خطاطی کو فروغ دیا گیا۔ چرچوں میں آرٹ اور کلچر کو فروغ دیا۔ گرین لینڈ، آئس لینڈ اور کئی دوسرے جزیرے ناروے کے پاس تھے۔

معاشی بدحالی کا زمانہ:1349 میں طاعون کی وجہ سے آبادی کا تیسرا حصہ ہلاک ہو گیا۔ اس کے بعد بھی کئی بار اس بیماری کا حملہ ہوا۔1400 سے پہلے لوگ اس وباء کی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکے۔

1319 میں ناروے کا بادشاہ (جس کا کوئی بیٹا نہیں تھا)کے مر جانے کے بعد سویڈن اور ناروے کا ایک ہی بادشاہ بنا دیا گیا تھا۔ 1380 سے ناروے اور ڈنمارک کا بادشاہ ایک ہی تھا۔ جو کہ 1814 تک رہا۔
Margaret نے ان تین ممالک کو ایک یونین میں اکھٹا کیا۔ 1536 میں فیصلہ کیا گیا کہ ناروے ایک الگ ملک نہیں رہے گا بلکہ اسے ڈنمارک کا ایک صوبہ بنا دیا جائے۔
 

ماوراء

محفلین
Reformation 1537​
ناروے بھی یورپ کے باقی ممالک کی طرح ایک عیسائی ملک تھا جو کہ کیتھولک مذہب تھا۔ آخری نارویجین پادری کا نام Olav تھا اس کے دو مقصد تھے ایک کہ ناروے میں سرکاری مشورے کو بادشاہت سے برتری دی جائے۔ اور دوسرا کہ نارویجین Marith Luther کے مذہب کی پیروی کریں۔ جو کہ ایک جرمن پادری تھا۔ Luther نے کہا تھا کہ بائیبل کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا جائے۔ تاکہ ہر زبان بولنے والا اس کو سمجھ سکے۔
بادشاہ فریڈرک 1 کے 1533 میں مر جانے کے بعد 1536 میں Christian 3 نے Luther کے مذہب کو ڈنمارک میں پھیلایا۔ اور ناروے میں بھی اسی مذہب کو سرکاری مذہب بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ 1537 میں بادشاہ کی فوج ناروے میں آئی۔



1380 میں ناروے ڈنمارک ایک ہی ملک بن گیا تھا۔ اور ڈنمارک کی حکومت ہونے کی وجہ سے ہی ناروے بہت پیچھے رہ گیا۔ ناروے میں بھی وہی قانون تھے جو ڈنمارک میں بنائے گئے۔ Christian 4 وہ بادشاہ تھا جس نے اپنے دور میں ناروے کا 25 بار سب سے زیادہ دورے کیے تھے۔
اسی دور میں Peter Wessel اپنی کوششوں سے جنگ کی اور جیت گیا۔ 1700 میں اس کا قبضہ کافی علاقوں میں ہو گیا۔ اس نے سویڈن کے بحری بیڑے کو بھی اپنے قبضے میں کر لیا۔
نپولین کے جنگوں کی اثرات کی وجہ سے 1814 میں ڈنمارک اور ناروے علیحدہ ہو گئے۔ ناروے جیتنے والوں کی طرف تھا اسی وجہ سے اس نے ناروے کو حاصل کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ جو کہ نارویجین لوگ نہیں چاہتے تھے۔ 17 مئی 1814 میں ناروے کو مجبوراً سویڈن کی یونین میں رکنیت کرنی پڑی۔ جو کہ 7 جون 1905 تک رہی۔ اس کے بعد شہزادہ Carl جو کہ ڈنمارک کا تھا بادشاہ بنا۔ جس نے اپنا نام Hakon 7 رکھا۔
9 اپریل 1940 میں ناروے کی تاریخ کا ایک نیا باب کھلا۔ جو کہ بالکل غیر متوقع تھا۔ جرمن لوگوں نے ناروے پر حملہ کر دیا۔ انہوں نے ملک کے کئی حصوں میں جنگ کی۔ تقریباً دو مہینوں کے بعد ناروے کو ہار ماننی پڑی۔ بادشاہ اور اس کی حکومت انگلینڈ چلی گئی۔ اس طرح باقی ملک میں جنگ جاری رہی۔ اور 8 مئی 1945 کو ختم ہوئی۔ اور اس کے بعد ناروے نے سکھ کا سانس لیا۔
 

ماوراء

محفلین
ڈنمارک​


ڈنمارک کی تاریخ کے اہم حصوں کا پتہ ہمیں ان پتھروں سے ملتا ہے۔ جن پر پرانے زمانے کے لوگوں نے کئی تصویریں بنائی ہیں۔ اور یہ پتھر ڈنمارک کے شہر Jelling میں موجود ہیں۔ اور یہ اس ملک کی سب سے پرانی لکھی ہوئی تاریخ ہے۔ ڈنمارک کا نام یہیں پہلی بار لیا گیا تھا۔ سب سے پرانا پتھر تقریباً 900 صدی کا ہے۔ اس پتھر کو اس وقت کے بادشاہ Gorm بے اپنی بیوی Thyra کی یادگار کا نام دیا۔ ان پتھروں سے اس زمانے کی بے دینی کا اندازہ بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔ Gorm کی وجہ سے بھی تاریخ لکھنے میں کافی مدد ملی ہے۔ کیونکہ وہ خود عیسائیت کے خلاف تھا۔ Gorm کے بیٹا Harald نے دوسرے سب سے بڑے پتھر تک کا سفر کیا اور اس کا نام Blåtand رکھا۔ اور اس کو اپنے والدین کی یادگار کی علامت بنایا۔
اس زمانے کی پتھروں پر بنی ہوئی تصویریں ہمیں یہ بتاتی ہیں۔ کہ بادشاہ Harald نے پورے ڈنمارک اور ناروے پر حکومت کی۔
Saxo Grammaticus ایک ڈینش تاریخ دان تھا جو 1200 تک زندہ رہا۔ اس نے پہلی ڈنمارک کی تاریخ کی کتاب لاطینی زبان میں لکھی۔ اس کی کچھ باتیں سمجھ میں نہ آنے والی ہیں لیکن اس کے باوجود اس نے ڈنمارک کے کلچرل لائف کے بارے میں بہت عمدگی سے لکھا ہے۔
Valdemar 1200 میں ڈنمارک کا بادشاہ تھا۔ اس نے Estland کو فتح کیا۔ Estland کا دارلحکومت Tallinn کی بنیاد ڈینش لوگوں نے ہی رکھی تھی۔
1300 کے آخر میں ملکہ مارگریٹ نے ڈنمارک، سویڈن اور ناروے پر حکومت کی۔ اس کے تینوں ملکوں کا اپنے دور میں کئی بار دورہ کیا۔ 1397 میں اس کی تاج پوشی کی گئی۔
سویڈن کے شہر Kalmar میں ایک یونین کی بنیاد رکھی گئی۔ جس کا نام کالمار یونین تھا۔ جس کے یہ تین ممالک ممبر تھے۔ 1520 میں سویڈن اس یونین سے نکل گیا۔ لیکن ناروے 1814 تک ڈنمارک کے ساتھ اس یونین میں رہا۔ اس کے بعد جب یہ دونوں ملک علیحدہ ہوئے تو ڈنمارک نے آئس لینڈ اور جزائر فارو پر قبضہ کر لیا۔
 

ماوراء

محفلین
سویڈن​


شروع کے دور میں سویڈن کے بہت سے لوگ Odin اور Thor کو اپنا خدا مانتے تھے۔ ان خداؤں کی شکلیں ہمیں پتھروں پر بنی ہوئی ملتی ہیں۔ جس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ خدا کس طرح کے ہوں گے۔
1000ء میں سویڈن Sveland, Norrland اور Götaland کے علاقوں پر مشتمل تھا۔جنوبی Götaland ڈنمارک کا حصہ تھا۔ جبکہ Härjedalen، Jämtland اورBohuslän ناروے کے حصے تھے۔ 1600ء میں کئی جنگیں ہونے کے بعد یہ علاقے سویڈن کے بادشاہ نے فتح کر لیے۔
1398ء سے تقریباً 130 سال تک ڈنمارک، سویڈن اور ناروے کی ایک حکومت تھی۔ مارگریٹ پہلی ملکہ تھی جس نے ان تین ناردن ممالک پر حکومت کی۔
1523ء میں سویڈن کا بادشاہ Gustav Vasa نے ڈنمارک سے اپنا ملک علیحدہ کر لیا۔ اس بادشاہ کو ملک کا سب سے بڑا بادشاہ مانا جاتا ہے۔ اس نے اپنے دور میں معاشی و فوجی نظام کو بہت بہتر کیا۔
اس بادشاہ کے نام پر کئی چیزوں کے نام رکھے گئے۔ Dalarna میں Vasaloppet بادشاہ کی یادگار مانی جاتی ہے۔ سٹاک ہالم کے ایک بھری جہاز کا نام Vasa رکھا گیا۔ اس کے علاوہ کئی گلیوں، عمارات کا نام یہی رکھا گیا۔ 1600
ء کے بعد کے زمانے کو سویڈن کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں سویڈن کے بادشاہوں نے فن لینڈ پر حکومت کی، جرمنی کے کچھ حصے اور Baltikum کے چند علاقے۔ ڈنمارک اور ناروے کے کئی علاقوں کو فتح کیا۔
کارل سویڈن کے بادشاہوں کا ایک عام نام تھا۔ کارل 12 جو کہ 1700ء تک زندہ رہا۔ ان سب بادشاہوں میں سب سے مشہور تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں زیادہ تر جنگیں لڑیں۔ جب وہ Fredriksten قلعے کو قبضے میں کرنے کی کوشش میں تھا تو اسی جنگ میں وہ مارا گیا۔
1818ء سے 1844ء تک کارل یوہان ناروے اور سویڈن کا بادشاہ تھا۔بادشاہ کارل 16, Gustaf جو ابھی سویڈن کا بادشاہ ہے۔ اس کا تعلق اسی بادشاہ سے ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
فن لینڈ
فن لینڈ کی تاریخ کو شروع کرنے سے پہلے یہ جان لیں کہ فن لینڈ کی تاریخ دنیا کے ان چند ممالک کی تاریخ ہے جو کہ ہر حال میں اپنی بقا جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ 1990 کی دہائی میں فن لینڈ کی غلط حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں فاقوں‌تک نوبت آگئی تھی۔ مگر اگلے چند سالوں میں پھر وہ اسی طرح سے اپنی اقتصادی پوزیشن پر واپس آ گیا۔
انگریزی کا جےJ فننش میں ی کے آواز دیتا ہے۔ اس لئے میں نے جہاں اسے انگریزی میں لکھا ہے اور اردو میں بھی، تو کوئی الجھن نہ رہے۔ دوسرا فننش میں a, ä, å, اورö, o کے الفاظ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ اگر ایک کی جگہ دوسرا لفظ استعمال کیا جائے تو یہ ایسا ہو گا کہ ہم ا کی جگہ مثال کے طور پر ض استعمال کریں۔اس کے علاوہ میں نے انگریزی الفاظ کو اردو خود ساختہ ترجمے کے ساتھ لکھا ہے۔ بہتر متبادل ملنے پر مجھے بتا دیں۔ میں شکریہ کے ساتھ اسے قبول کروں گا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
فن لینڈ
فن لینڈ کی تاریخ
ابتدائی دور

فن لینڈ میں سب سے پہلے انسانوں‌نے 7000 سال ق م میں آخری برفانی دور(Ice Age)کے بعد سے رہائش رکھنا شروع کیا۔ اس دور کے فننز(فن لینڈ کے باشندے) شکاری اور مل جل کر رہنے والے تھے۔ مزے کی بات یہ کہ اس دور کے شکاری برف پر چلنے کے لئے درختوں کی چھال کا استعمال کرتے تھے جو کہ ماڈرن سکیینگ کی ایک شکل تھی۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ برف میں رینڈیئر، موذ اور ایلک دھنس جاتے ہیں۔ ان کا شکار کرنے کے لئے اس نے یہ استعمال کیا۔ اگلے ہزار سال میں انسانوں کی آمد میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ 2500 سال ق م میں‌انہوں‌نے کھیتی باڑی کو اپنایا۔ 1500 سال ق م میں انہوں نے تانبے سے واقفیت پیدا کی اور اس سے ہتھیار اور آلات بنانا شروع کیے۔تانبے کی دریافت کے ہزار سال کے بعد لوہے کا استعمال شروع ہوا۔مگر حیران کن بات یہ ہے کہ اس دور کے فننز کا اپنی ہم عصر تہذیبوں(روم اور یونان) سے کوئی خاص تعلق نہ تھا۔
قرونٍ وسطٰی
فن لینڈ کی سب سے پرانی تاریخ جو کہ ریکارڈ شدہ ہے، 12 ویں صدی سے شروع ہوئی۔1120 میں عیسائی مشنریوں‌نے کام شروع کیا۔ اس واسطے انہوں نے طاقت کا استعمال بھی کیا۔سوئیڈن کے بادشاہ نے 1157 میں صلیبی جنگ میں‌کلیدی کردار ادا کیا۔ ایک انگریز بشپ ہنری آف اُپاسالا نے بھی اس کا ساتھ دیا اور جنگ کے بعد وہ یہیں‌رکا۔ بعد ازاں مارا گیا اورفن لینڈ کا پیٹرن سینٹ بنا۔1172 میں‌فننز کو پوپ سے اجازت مل گئی کہ بیرونی جارحیت کی صورت میں وہ اپنا مذہب عارضی طور پر تبدیل کر سکتے ہیں مگر جارح افواج کی واپسی پر انہیں فوراً اپنے مذہب کی طرف واپس آنا ہوگا۔ پوپ نے سوئیڈن پر زور دیا کہ وہ فن لینڈ کو اپنا حصہ بنا لیں۔
لیکن فن لینڈ سوئیڈن کے لئے اتنا آسان نہ تھا۔یہاں‌کئی اور ریاستی افواج بھی حملہ آور ہوتی تھیں۔ ڈینش لوگوں کے 1191 اور 1202 میں دو بار یہاں حملہ کیا۔اس کے علاوہ نووگُرد(اب یہ علاقہ روس میں شامل ہے)نے بھی فن لینڈ پر حملہ کیا تاکہ اس پر قبضہ کر کے لوگوں کو ایسٹرن آرتھوڈکس چرچ کی طرف موڑا جاسکے۔اس سلسلے میں سوئیڈش اور نووگُرد کی افواج کے درمیان دریائے نیوا کے کنارے 1240 میں لڑائی ہوئی اور نووگُرد والوں نے فتح‌حاصل کی۔1240 میں ارل بٍرگٍر کی سربراہی میں سوئیڈش نے دوبارہ حملہ کیا اور اس دوسری “صلیبی جنگ“ میں کامیابی حاصل کی۔اس جنگ کے بعد سوئیڈش فوج نے ہیم(Hame) نامی شہر بھی قبضہ کر کے وہاں قلعہ بنایا اور یہ ہیمے لینا (Hameelinna) کہلایا۔
1291 میں پہلی بار ایک فنن کو بشپ آف تُرکُو (Bishop of Turku)کا درجہ دیا گیا۔
اسی دوران سوئیڈش لوگوں نے کثیر تعداد میں فن لینڈ میں رہائش اختیار کرنا شروع کی اور یہاں‌ایک لحاظ سے سوئیڈش کالونی بننا شروع ہو گئی۔ 1323 میں فن لینڈ کو سوئیڈن کا صوبہ قرار دے دیا گیا۔ سوئیڈن کا قانون یہاں‌لاگو ہوا اگرچہ اس کو بھی کسی حد تک مقامی رنگ میں ڈھال دیا گیا تھا۔ 1362 تک فننز کو سوئیڈن کے بادشاہی انتخابات میں حصہ لینے کا حق مل چکا تھا۔ 1397 میں فن لینڈ یونین آف کالیمار (Union of Kalmar) کا حصہ بن گیا جس میں ڈنمارک، ناروے اور سوئیڈن پہلے سے شامل تھے۔
1500 سے 1800 تک کا فن لینڈ
ہیلسنکی 1550 میں‌تعمیر ہوا جو کہ فن لینڈ کا نیا دارلحکومت بنا۔ یہ شہر خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس کو یورپ کا سب سے کم عمر دارلحکومت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
میکائیل ایگریکولا(Mikael Agricola) نے ملک میں‌مذہبی اصلاحات شروع کیں اور بعد ازاں 1557یہ بشپ آف تُرکُو بنا۔اس کےمرنے کے وقت تک فن لینڈ مکمل طور سے لوتھیرین فرقے کا پیرو کار بن چکا تھا۔میکائیل نے اپنی تعلیم جرمنی سے حاصل کی جہاں وہ لوتھیرین فرقے کے بانی سے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتا رہا۔
1581 میں‌فن لینڈ کو گرینڈ ڈچی (Grand Duchy) بنایا گیا۔
97-1596میں‌فننش کسانوں نے علمٍ بغاوت بلند کیا۔ اس جنگ کو لٹھوں‌کی جنگ(Club War) کا نام دی گیا کیونکہ کسانوں کے پاس ہتھیار نام کی صرف لٹھیں تھیں۔ اگرچہ طبقہ اشرافیہ (سوئیڈش) نے اس کو سختی سے کُچل دیا مگر اس سے فننش کسانوں کو کوئی فائدہ نہ ہوا اور فن لینڈ سوئیڈن کا “اٹوٹ انگ“ بن گیا۔
17ویں صدی کے اختتام اور 18ویں صدی کے شروع کے سال فننش لوگوں کے لئے بہت کٹھن اور سخت گزرے۔ 97-1696 میں‌بہت سخت قحط پڑا۔ خوراک کی کمی اور بیماریوں سے فننز کی ایک تہائی تعداد بچ سکی۔ یعنی 100 میں سے 33 انسان باقی بچے۔
21-1709 تک گریٹ نارتھرن وار(Great Northern War) ہوئی۔ 1713 میں‌روسیوں نے فن لینڈ پر حملہ کیا اور اسے روند ڈالا۔سوئیڈش اور فننش لوگوں‌کی مشترکہ فوج نے سٹورکیورو(Storkyro) نامی شہر میں روسیوں‌سے آخری مقابلہ کیا جس میں انہیں شکست ہوئی۔ روسیوں‌نے 1713 سے 1721 تک قبضہ رکھا۔ اس قبضے کے دوران ان لوگوں پر بہت ٹیکس لگائے گئے۔ سارے امیر فننش لوگ سوئیڈن منتقل ہو گئے لیکن بیچارے کسان کہیں‌کے نہ رہے۔ چارلس ہفتم نے حکم دیا کہ فننش لوگ روسی جنگ کے خلاف گوریلا جنگ شروع کریں، جس کو ہم انتقام لینے کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ 1721 میں‌امن معاہدے کے تحت چارلس ہفتم نے کو ہتھیار ڈالنے پڑے اور فن لینڈ کا مشرقی حصہ جو کہ کاریا(Karja) کہلاتا ہے، روس کے حوالے کرنا پڑا۔‌‌اس علاقے کے لوگ فن لینڈ میں کاریا لائنن(Karjalainen) کہلاتے ہیں، یعنی کاریا کے علاقے کے رہنے والے۔ (میری استانی صاحبہ کے آباؤ اجداد کاریا میں رہنے والے تھے۔) اسی دوران 1710 کا طاعون ہیلسنکی تک پہنچ گیا اور اس نے شہر کو ویران کر دیا۔
1741 میں پھر سے سوئیڈن-فن لینڈ کی روس سے جنگ چھٍڑ گئی۔ اس بار بھی شکست سوئیڈش-فننش فوج کا مقدر بنی۔اس بار مقامٍ شکست وٍلمانسٹرانڈ (Villmanstrand) بنا۔اس بار روس نے مکمل طور پر فن لینڈ پر قبضہ کر لیا لیکن البو(Albo) معاہدے کے تحت 1743 میں‌جنگ بندی ہوئی اور سٹیٹس کو یعنی جو جس حال میں ہے ہر چیز کو ویسے ہی چھوڑ دیا گیا جیسے وہ جنگ سے پہلے تھی، روس نے صرف فن لینڈ کے کچھ حصے پر قبضہ جمائے رکھا۔ اس کے بعد 1788 میں میگنوس سپرینگپورٹن (Magnus Sprengporten) نے علیحدگی پسندوں کی تحریک چلائی مگر اس کے پیروکاروں کی تعداد محدود تھی اور یہ 1790 میں ختم ہو گئی۔
انیسیوں صدی کا فن لینڈ
فن لینڈ 1809 میں‌سوئیڈن کے تسلط سے نجات پا گیا۔ مگر اس بار بھی وہ آزاد نہیں بلکہ روس کی غلامی میں‌چلا گیا۔ 21 فروری 1808 میں روسیوں نے حملہ کیا۔ جنگ میں‌کبھی سوئیڈن کا پلہ بھاری ہوتا کبھی روس کا۔ آخر کار اوراواینن(Oravainen) نامی مقام پر روسیوں کو فیصلہ کن برتری حاصل ہوئی اور سوئیڈش فوج فن لینڈ سے باہر نکل گئی۔ اس کے بعد فن لینڈ نے روسی زار سے امن کا معاہدہ کیا۔ اٹھارویں صدی کے دوران سوئیڈن کی لگاتار کمزوری اور روس کی بڑھتی طاقت کی وجہ سے فن لینڈ کی پارلیمنٹ ڈائیٹ (Diet) نے زار ایلگزینڈر کو اپنا حکمران تسلیم کر لیا۔ زار نے یہ تسلیم کیا کہ فن لینڈ کو روس کا حصہ نہیں بلکہ خودمختار ریاست کے برابر درجہ دیا جائے گا اور فن لینڈ کے اپنے قوانین ویسے چلتے رہیں گے۔1812 میں فن لینڈ زار کے حکم کے تحت فن لینڈ کا دارالحکومت تُرکُو سے ہیلسنکی میں منتقل کر دیا گیا۔
انیسویں صدی کے اوائل میں صائمہ (Saimaa) نامی نہر بننے کی وجہ سے فن لینڈ کو مغربی یورپ تک اپنے لکڑی پہنچانا آسان ہو گیا۔ انیسیوں صدی کے آخر تک فن لینڈ‌ میں‌قومیت پرستی یعنی نیشنل ازم کافی پروان چڑھ گیا۔ اسی دوران انہوں نے اپنے ادب کی طرف توجہ دی۔ 1835 میں ایلیاس رون روت (Elias Lönnrot) نامی بندے نے فننش لوک نظموں کو اکٹھا کر کے کتابی شکل میں‌چھاپا۔ اس کے لئے اسے 15 سال تک فن لینڈ کے مختلف حصوں میں سفر کرنا پڑا۔ پیشے کے لحاظ سے وہ خود ڈاکٹر تھا۔ اس کے بعد زبان اور کلچر کی ترقی کی طرف توجہ دی گئی۔ 1858 میں‌پہلا فننش زبان کی بول چال کی گرائمر سکھانے کا سکول قائم ہوا۔1889 تک آدھے سکولوں‌کی زبان فننش بن چکی تھی۔ اس سے پہلے یہ سارا کام سوئیڈش سے سرانجام دیا جاتا تھا۔
19ویں صدی کے اختتام تک زار نکولس 2 نے نیشنلزم کی حوصلہ شکنی کرنے کے لئے کئی اقدامات کئے جن میں‌یہ بھی شامل تھا کہ زار ان فننش قوانین کو جب چاہے بدل سکتا ہے جو روسی مفاد کے خلاف ہوں، اور اس کام کے لئے اسے فننش پارلیمنٹ کی اجازت بھی درکار نہیں ہوگی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
20 صدی کا فن لینڈ
بیسویں صدی میں وقت کا دھارا اپنا رخ بدل گیا۔ 1902 میں فننش کو سوئیڈش کے ساتھ ساتھ سرکاری زبان کا درجہ دے دیا گیا اور اسی دوران روسی بادشاہ زار نے اپنا سابقہ اعلامیہ واپس لے لیا۔1907 میں نئی اسمبلی کا انتخاب ہوا تو پرانی اسمبلی ختم کر دی گئی۔ اس بار تمام مردوں کو ووٹ کا حق دیا گیا تھا۔ اس بار خواتین کو بھی ووٹ کا حق دیا گیا۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے بعد فن لینڈ دنیا کا تیسرا اور یورپ کا پہلا ملک تھا جہاں‌خواتین کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ اسی طرح 1907 کے انتخابات میں‌ دنیا میں پہلی بار خواتین نے انتخابات جیت کر پارلیمنٹ کی نشستیں حاصل کرلیں۔
1910 میں زار نے سختی سے فننش قانون سازی کے اختیارات کو محدود کر دیا۔ اس نے یہ واضح کیا کہ فن لینڈ کو ایسے کسی بھی قانون بنانے کا کوئ حق نہیں ہے جس کے اثرات اس ملک سے باہر پڑیں۔ لیکن زار کا وقت ختم ہو چکا تھا۔مارچ 1917 میں اس کا تختہ الٹ دیا گیا۔ جولائی 1917 میں فننش پارلیمنٹ نے اعلان کیا کہ تمام اختیارات ماسوائے خارجہ پالیسی کے، فن لینڈ کے پاس ہیں۔ 6 دسمبر 1917 کو پارلیمنٹ نے فن لینڈ کو آزاد مملکت قرار دیا۔ اسی دوران اکتوبر 1917 میں کنزرویٹو حکومت چنی گئی۔ اسی دوران بائیں بازو کے انتہا پسندوں نے فیصلہ کیا کہ وہ طاقت کے زور پر اپنی حکومت بنائیں۔ سُرخوں(Red Finns) نے ہیلسنکی اور دیگر کئی شہروں پر قبضہ کر لیا۔ تاہم جنرل مینر ہیم نے سفیدوں (White Finns) کی قیادت سنبھالی۔ اس دوران اپریل 1918 میں تمپرے شہر پر بھی قبضہ ہو گیا تھا۔ دریں اثناء جرمنی نے فن لینڈ پر حملہ کر دیا اور ہیلسنکی پر قبضہ کر لیا۔ مئی کے دوران بغاوت پر قابو پا لیا گیا۔ 8000 باغیوں کو موت کی سزا دی گئی اور باقی 12000 قید و بند میں ہلاک ہو گئے۔ اکتوبر 1918 میں جرمن شہزادہ چارلس فریڈرک آف ہیسی کو فن لینڈ کا بادشاہ بنا دیا گیا۔ لیکن اس کا دورٍ حکومت بہت مختصر ثابت ہوا۔ جرمنی نے 11 نومبر 1918 کو عارضی جنگ بندی کا معاہدہ کرتے ہوئے جنرل مینر ہیم کو عارضی طور پر حکومت سونپ دی۔ 1919 میں فن لینڈ نے نیا آئین منظور کیا۔جولائی 1919 میں فن لینڈ کےپہلے صدر ک۔ج۔سٹاہل برگ(J.K.Stahlberg) نے جنرل مینر ہیم کی جگہ سنبھالی۔فن لینڈ اب عوامی جمہوریہ بن گیا۔
آزادی کے بعد فن لینڈ کی زراعت میں اصلاحات کی گئیں۔1929-1918 کے دوران بہت سے مزارعوں کو مالکانہ حقوق دئے گئے۔
1929 میں کمیونسٹوں‌نے لاپُوا(Lapua) نامی شہر میں مظاہرہ کیا۔ ردٍ عمل کے طور پر دائیں بازو کے کمیونسٹ مخالفوں نے تحریک شروع کی جسے بعد ازاں لوپُوا تحریک کا نام ملا۔1932 میں‌لوپُوا تحریک نے مانٹسالا(Mantsala) پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ صدر سٹاہل برگ نے اس پر قابو پالیا لیکن اس نے باغیوں سے نرمی سے سلوک کیا۔
دوسری جنگٍ عظیم میں فن لینڈ نے حصہ لیا۔ 1939 میں سٹالن کو اپنے شمالی محاذ پر حملے کا اندیشہ ہوا۔ اسے بچانے کے لئے اس نے فن لینڈ سے علاقے مانگے اور بدلے میں‌دوسرے علاقے دینے کی پیش کش کی جسے فن لینڈ نے ٹھکرا دیا۔ اس پر سٹالن نے طاقت استعمال کرنے کا سوچا۔
جنگٍ سرما یا ونٹر وار (Winter War) یا فننش میں اسے تالوی سوتا(Talvi Sota) کی ابتدا 30 نومبر 1939 میں‌ہوئی۔ اس میں فن لینڈ کا بھاری جانی نقصان ہوا لیکن وہ نہایت بے جگری سے لڑے۔روسیوں نے شمال میں‌جھیل لاگوڈا (Lake Lagoda) پر حملہ کیا لیکن انہوں نے تول وا یاری (Tolvajari)اور سوومُوسالمی (Suosusalmi) کے مقامات پر شکست کھائی۔اسی دوران کاریلیان ایستھمس (Karelian Isthmus) کو مینر ہیم نے دفاعی لائن بنا کر محفوظ کئے رکھا، یہ لائن قلعوں، کنکریٹ کے مورچوں اور خندقوں‌پر مشتمل تھی۔ روسیوں‌نے اسے عبور کرنے کی بار بار کوشش کی لیکن فننز نے انہیں کامیابی سے روکے رکھا۔ لیکن 14 فروری 1940 کو روسیوں نے مینر ہیم لائن عبور کر لی اور فننز کو امن معاہدے پر مجبور ہونا پڑا۔ جنگ کا اختتام ماسکو معاہدے کی صورت میں‌ہوا۔ بعد ازاں فن لینڈ کو جنوب مشرقی علاقے بشمول وییپوری (Viipuri) جو کہ اب وؤ برگ (Vyborg) کہلاتا ہے اور جھیل لاگوڈا کے شمالی علاقے بھی دینے پڑے۔ اس جنگ میں 22000 فننز مارے گئے۔
جون 1941 میں فن لینڈ نے جرمنی سے معاہدہ کر کے روس پر حملہ کر دیا۔ فننز نے اسے جاری جنگ، کانٹینیوایشن وار(Continuation War) یا فننش میں‌یاتکُو سوتا (Jatku Sota) کا نام دیا۔ فننز نے تیزی سے اپنے علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ تاہم دسمبر 1941 میں‌انگلینڈ نے فن لینڈ سے جنگ کا اعلان کر دیا۔ جرمنوں کو جب سٹالن گراڈ کے مقام پر 1943 میں‌شکست کا سامنا ہوا تو فن لینڈ نے محسوس کر لیا کہ اب اسے جنگ سے پیچھے ہٹ جانا چاہئے۔ مذاکرات مارچ 1944 میں‌شروع ہوئے لیکن فننز نے روسی مطالبات قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن شکست نوشتہء دیوار کی مانند تھی، اس لئے فننز نے 5 ستمبر 1944 کو روس سے جنگ بندی کا معاہدہ کیا۔
معاہدے کے بعد فننز کو کافی بڑا علاقہ روس کے حوالے کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ جنگ کا تاوان بھی انہیں‌روس کو دینا پڑا۔اس جاری جنگ کےدوران 85000 فننز لقمہ اجل بنے۔
1947 کو فن لینڈ نے روس سے آخری امن معاہدہ کیا۔
موجودہ فن لینڈ
1991 میں روس کے زوال کے بعد 1947 کا معاہدہ بے اثر ہو گیا اور اسے 1992 کے نئے معاہدے سے بدل دیا گیا۔ اس معاہدے میں دونوں ملکوں‌نے اس بات پر اتفاق کیا کہ انہیں اپنے تنازعات دوستانہ طریقے سے حل کرنے چاہیں۔
روس کے لئے ہوئے علاقوں سے ساڑھے چار لاکھ پناہ گزینوں‌ کی صورت میں فن لینڈ کی معیشیت پر اضافی بوجھ پڑا۔تاہم فن لینڈ نے آہستگی کے ساتھ اس مسئلے کو سنبھال لیا۔1970 کی دہائی میں فن لینڈ کی معیشیت نے اڑان بھرنی شروع کی۔ 1980 کی دہائی میں فن لینڈ کی معیشیت نے بہت تیزی سے ترقی کی لیکن جلد ہی 1990 کی دہائی کے بحران سے یہ ترقی رک گئی۔اس دوران بہت بڑی تعداد میں‌بے روزگاری پھیل گئی۔ لیکن صدی کے اختتام تک فن لینڈ نے اپنے آپ کو سنبھالا اور اب یہ ایک خوش حال ملک ہے۔
دوسری جنگٍ عظیم سے پہلے فن لینڈ کا اہم پیشہ زراعت کا تھا۔ 1945 کے بعد میٹل ورک، انجینئرنگ اور الیکٹرانکس کی صنعتوں نے کافی ترقی کی۔ ابھی بھی فن لینڈ اپنے دوسرے ہمسائیہ سکینڈے نیوین ممالک کی نسبت کم صنعتی ملک ہے۔ فن لینڈ‌کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ٹمبر یعنی لکڑی ہے۔
1995 میں‌فن لینڈ نے یوروپی یونین میں شمولیت اختیار کی۔ 2002 میں فننش مارک کا استعمال ترک کر کے یورو کو استعمال کرنا شروع کیا۔
اسی دوران 2000 میں تاریا ہالونین(Tarja Halonen) کو چھ سال کی مدت کے لئے ملک کی پہلی خاتون صدر منتخب کیا گیا۔اسی سال ہیلسنکی کی 450 ویں سالگرہ منائی گئی۔ 2006 میں‌ہونے والے دوسرے صدارتی انتخابات میں بھی انہوں‌نے کامیابی حاصل کی اور دوسرے اور آخری دورٍ صدارت کے لئے عہدہ سنبھالا۔
آج فن لینڈ کی آبادی 5۔2 ملین ہے۔

بے بی ہاتھی
 
Top